پروف ریڈ اول کودک کہانی : بیری والی امّاں

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم

کہانی "بیری والی امّاں" کودک کہانی کے سلسلے سے متعلق ہے ۔ یہ کہانی کل چار اسکین صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس کہانی کو مقدس ٹائپ کر رہی ہیں۔

جو اراکین اس کہانی کی مناسبت سے کوئی ڈرائنگ یا گرافکس شامل کرنا چاہیں تو اسی دھاگے میں ارسال کر سکتے ہیں ۔

کسی تجویز یا سوال کی صورت میں کودک کہانی تبصرہ کے دھاگے میں لکھیے۔

-------------------------------------------------------
اپڈیٹ :

ٹائپنگ : مکمل



bwb1.gif
 

مقدس

لائبریرین
جو شخصیات بچپن سے میری یادوں میں روشن ہیں، ان میں سے ایک "بیری والی اماں" کی شخصیت بھی ہے۔ انھوں نے مجھے چار پانچ سال کی عمر میں کلام پاک پڑھایا۔ میں جب بھی ان کے بارے میں سوچتا ہوں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ بڑا انسان ہونے کے لیے مشہور ہونا ضروری نہیں ہر کسی کی زندگی
 

مقدس

لائبریرین
میں بے شمار ایسے لوگ آتے ہیں جو یوں گمنام زندگی گزارتے ہیں، لیکن ان کے اعمال اور اصول کسی بھی عظیم انسان سے کم نہیں ہوتے۔ بیری والی اماں بھی ان ہی لوگوں میں سے ایک تھیں۔

پھاٹک نواب دولہ کبھی پھاٹک رہا ہو گا۔ اب تو صرف چھوٹی سرخ اینٹوں کے دو ستونوں کے
 

مقدس

لائبریرین
نشان رہ گئے تھے، جہاں بے شمار پرندوں نے گھونسلے بنا رکھے تھے۔ چوک پر پانچ مکان تھے۔ سیدھے ہاتھ پر کونے والا مکان بیری والی اماں کا تھا۔ وہ بیس سال کی عمر میں بیوہ ہو گئی تھیں۔ ان کی نہ کوئی اولاد تھی نہ قریبی رشتےدار۔ صرف ایک چھوٹی بہن تھی، جو اکثر ان سے ملنے آتی رہتی تھیں۔ انھیں ہم "چنیا خالہ" کہتے تھے۔

بیری والی اماں کے گھر دروازے میں کواڑ نہ تھے۔ صرف چوکھٹ تھی، جس پر ایک پرانا ٹاٹ کا پردو جھولتا رہتا۔ ایک کمرے کے آگے کھپریل کا دلان تھا، جہاں اماں فجر کی نماز سے رات گئے یا تو گھر کے کاموں میں مشغول رہتیں
یا عبادت کرتی ہوئی نظر آتیں۔ ایک کونے میں تخت پر رنگ برنگے دھاگوں کی نلکیاں اور کپڑوں کے ڈھیر بکھرے ہوتے۔ اماں ریشم کی کڑھائی کا بہت خوش نما کام کرتیں۔ اس کام کی اجرت سے ان کی گزر بسر ہوتی تھی۔

محلےکی لڑکیوں کی شادی کے موقعوں پر خواتین کڑھائی کا کام اماں کے سپرد کر دیتیں۔ اماں یہ کام بہے خوشی خوی بغیر کسی اجرت کے کرتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ محلے کی بیٹیاں میری بیٹیاں ہیں۔

فجر کی نماز پڑھ کر وہ تخت پر کلام پاک پڑھنے بیٹھ جاتیں تو ان کی شہد بھری آواز پھاٹک تک آتی۔ اماں کو ہم نے ہمیشہ سفید لباس میں دیکھا۔ کلف لگے دودھ جیسے سفید دوپٹے کے نیچے ان کے چاندی جیسے بال بہت خوب صورت لگتے تھے۔

محلے میں کوئی بھی تقریب ہوتی تو اماں انتظامات میں پیش پیش ہوتیں۔ مجھے ہلکا ہلکا یاد ہے کہ ہمارے محلے میں رہنے والے ماسٹر صابر صاحب کی ساس کسی خطرناک مرض میں مبتلا تھیں۔ ان کی اولاد اور قریبی رشتے دار تک تیماداری سے اکتا گئے تھے، لیکن اماں ہر صبح جا کر ان کا منھ ہاتھ دھلاتیں اور اپنے ہاتھوں سے ناشتہ کراتیں۔ جب بھی کوئی خاتون ان کے پاس اپنا کوئی مسئلہ لے کر آتی تو اماں اپنا ایک مخصوص جملہ ضرور کہتیں: "بی بی!پریشان مت ہو۔ کوئی ایسی رین (رات) نہیں جس کی صبح نہ ہو۔"

اور واقعی ان کے ان الفاظ سے پریشان لوگوں کو بڑا سکون ملتا۔
 

مقدس

لائبریرین
صبح ہوتے ہی محلے کے بچے ہاتھوں میں قاعدے اور سپارے لیے آنا شروع ہو جاتے۔ کچھ خواتین بچوں کو اس لیے بھیج دیتیں کہ شوہروں کے کام پر جانے کے بعد وہ آرام سے سو سکیں۔ کھپریل کے نیچے دائیں طرف ایک نیلے رنگ کی دری بچھی ہوئی ہوتی تھی، جس پر بیٹھ کر بچے اپنا سبق یاد کرتے تھے۔ اماں تسبیح کے دانے گھماتے ہوئے ایک ایک بچے پر نظر رکھتیں۔ کبھی کسی سے کہتیں: "اے چندا میاں! آج پھر تم منھ دھوئے بغیر آ گئے۔ چلو! ادھر آؤ۔!

وہ چندا میاں کا ہاتھ پکڑ کر نل کے پاس لے جاتیں اور منھ دھلا کر دوپٹے سے صاف کر کے کہتیں: "دیکھو تو، اب میرا بیٹا سچ مچ کا چاند لگ رہا ہے۔"

پھر دوسری طرف مخاطب ہوتیں: "اری سکینہ! کب سے کنگھی نہیں ہوئی تیرے بالوں کی۔ چل ادھر بیٹھ۔" پھر وہ سکینہ کو تخت کے نزدیک بٹھا کر اپنی ہاتھی کے دانت کی کنگھی سے اس کے بال سنوارتیں اور کہتیں: "دیکھو! اب کیسی شہزادی لگ رہی ہے میری گڑیا۔"

اماں پانچ سالہ گڈو کو چپلے سے اشارے سے بلاتیں اور اپنے کمرے میں لے جا کر الماری
 

مقدس

لائبریرین
سے تل کا لڈو نکال کر اسے دیتیں اور آہستہ سے کہتیں: "رات نیاز کے لڈو آئے تھے۔ یہیں کھڑے ہو کر کھا لے۔ باہر سب چھینا جھپٹی کریں گے۔"


کھپریل کے آگے کشادہ آنگن میں بیر کا گھنا درخت شامیانے کی طرح سایہ کیے رہتا۔ ہم لوگ بیری کے پھولوں کو ہرے ہرے موتیوں میں بدلتے دیکھتے۔ ہمیں بہت بےتابی سے بروں کے سنہرا ہونے کا انتظار رہتا۔ بیر توڑنے کے لیے اس بانس کی تلاش رہتی جو اماں چھت پر چھپا دیتیں۔ جب ہم زیادہ ضد کرتے تو مسکر کر کہتیں: "شیطانو! ابھی یہ کچے ہیں۔ گلے آجائیں گے تو تمھارے اماں باوا میرے سر ہو جائیں گے۔" پھر بانس لا کر خود چھانٹ چھانٹ کر سنہرے بیر گراتیں اور ہم سب ٹپ ٹپ گرتے بیروں پر ٹوٹ پڑتے۔

ایک دو بار محلے میں کسیبچے کے والدین نے مختصر سی رقم اپنے بچے کی فیس کے طور پر بھیجی تو اماں وہ رقم دوپٹے کے پلو میں باندھ کر فوراً ان کے گھر پہنچ گئیں اور کہا: "بہن! تم ہو گی رانی اپنے گھر کی۔ یہ رکھو اپنی دولت۔ ان بچوں سے میرے گھر میں روشنی ہوتی ہے۔ ان کو پڑھانا میری عبادت کا حصہ ہے۔"

بچپن کی چند بری عادتوں میں سے میری ایک بری عادت گریبان کے بٹن دانتوں میں لینے کی تھی۔ اکثر بٹن ٹوٹ جاتے تھے۔ جب بھی سیپارہ پڑھاتے اماں کی نظر منیرے گریبان پر پڑتی تو ڈانٹ کر مجھے اپنے قریب تخت پر بٹھا کر کہتیں: " پھر توڑ دیا بٹن، ارے تیری اماں کیا کھانے کو روٹی نہیں دیتیں، جو بٹن کھاتا ہے۔" اور پھر اپنا سوئی دھاگے کا بٹن کا ڈبا نکال کر میری قمیض کا بٹن لگانے بیٹھ جاتیں۔ اکثر دوسرے رنگ کا بٹن لگانا پڑتا۔ جب دھاگہ دانتوں سے توڑنے کے لیے اماں میری طرف جھکتیں تو ان کے بالوں سے گلاب کی خوشبو آتی۔

آج بھی مجھے گریبان کا کوئی بٹن ٹوٹا ہوا نظر آتا یے تو دل چاہتا ہے کہ کوئی بدرنگ بٹن لگا کر کہے: "بڈھا ہو گیا پر بٹن کھانے کی عادت نہیں گئی۔ آبیٹھ میرے پاس۔"

×××××××
 
Top