اپریل کا مسافر
خلیل جبار
رات کے اندھیرے میں بس تیزی سے سڑک پر دوڑ رہی تھی۔ اس کی ہیڈ لائیٹوں سے سڑک روشن تھی بس میں بیٹھے انیس احمد بڑی بےچینی سے پہلو بدل رہے تھے۔ آج وہ جتنی جلدی گاؤں پہنچنا چاہ رہے تھے، اتنی ہی ان کو دیر ہو گئی تھی۔ یہ بس گاؤں جانے والی آخری بس تھی، لیکن مسافروں کی کمی کی وجہ سے دیر تک اسٹاپ پر کھڑی رہی۔ بس چلی تو بہت دیر ہو چکی تھی، لیکن مسافروں نے اس پر بھی سکون کا سانس لیا۔
کچھ فاصلہ طے کر کے بس چلتے چلتے رک گئی۔ بس کے اچانک جنگل میں رک جانے پر سب مسافر ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھنے لگے۔ جب کوئی مسافر بس سے نہیں اترا اور نہ کوئی نیا مسافر بس میں چڑھا تو سب مسافروں کو غصہ آنے لگا۔
ایک بڑے میاں نے اپنی سیٹ پر سے کھڑے ہو کر کہا: "کیا ہوا؟ یہ بس کیوں روک دی؟"
ڈرائیور نے کہا: "بڑے صاحب! گاڑی کا انجن گرم ہو گیا ہے، اس لیے بس کو روکنا پڑا ہے۔
ایک نوجوان بولا: "ارے! کہیں یہ ڈاکوؤں سے ملے ہوئے نہ ہوں اور جان بوجھ کر بس کے خراب ہونے کا بہانا بنا کر اپنے ساتھیوں کا انتظار کر رہے ہوں۔"
"آپ خواہ مخواہ قیاس آرائیاں شروع کر دیتے ہیں۔ ہماری کوشش یہی ہوتی ہے کہ شہر سے آئے ہوئے تمام مسافر اپنے گھروں کو پہنچ جائیں۔"
بس ڈرائیور نے مسافروں کو سمجھانے کی کوشش کی: "یہ ہمارا فرض ہے کہ مسافروں کی خدمت کریں۔ ڈاکوؤں سے مل کر ہمیں کیا ملے گا۔ فرض کیجیے ہم ان سے مل جاتے ہیں۔ جب روز روز بس لٹنے لگے گی تو پھر کوئی بھی مسافر اس آخری بس میں سفر نہیں کرے گا اور ہمارا دھندا چوپٹ ہو جائے گا۔ آپ