کوئی ٹیگور کی کویتا ہے - اکرام بسرا

صائمہ شاہ

محفلین
کوئی ٹیگور کی کویتا ہے
لوگ جب شاعری میں جیتے تھے
تُو اُسی دور کی کویتا ہے

دُودھیا راستے کے کونے میں
اپنے ہونے میں اور نا ہونے میں
جانے کتنے برس سکوں کرکے
اپنی آواز میں جنوں بھرکے
پھیلتی رات کے کنارے پر
بھیڑیا ماہتاب سے الجھے
اک حقیقت بڑی سماجت سے
اپنی مرضی کے خواب سے الجھے
درد کے دلفریب رشتے میں
جیسے گنگا چناب سے الجھے
عشق نے حوصلہ دیا ورنہ
کس میں ہمت جناب سے الجھے

دل کے بنگال کی خلیجوں میں
گونجتے شور کی کویتا ہے
تُجھ کو سلہٹ میں سوچ کر لکھا
تُو کہ لاہور کی کویتا ہے
مانتا ہی نہیں ہے دل میرا
تُو کسی اور کی کویتا ہے

اکرام بسراء
 
Top