کوئی بتلائے کہ "اوریا" صاحب کیا بتلا رہے ہیں

کالم کا لنک!
یوں تو رویہ اور طرز عمل پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے اور بھارت سے خوشگوار تعلقات استوار کرنے کی کوششوں سے شروع ہوا کہ ہمارے اہل اقتدار سے لے کر دانشور، ادیب، صحافی اور تجزیہ نگار پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی سرحدی کشیدگی، دونوں جانب تناؤ اور ایک دوسرے کو معاشی، معاشرتی اور سیاسی طور پر برباد کرنے کی کوششوں کو دو ملکوں کا ایک معمول کا تنازعہ سمجھتے اور بیان کرتے ہیں۔
بالکل ویسے ہی جیسے کبھی انگلستان اور فرانس آپس میں جنگ کرتے رہے اور صدیاں بیت گئیں یا پھر جرمنی کی فرانس اور دیگر پڑوسیوں کے ساتھ علاقائی بالادستی کے لیے جنگ شروع ہوئی اور پھر دو عالمی جنگوں میں تبدیل ہوگئی۔1971ء کی پاکستان بھارت جنگ کے دوران شایع ہونے والے اخبارات، رہنماؤں کی تقریریں اور تجزیہ نگاروں کی تحریریں اٹھا کر دیکھ لیں، وہاں پر بھی آپ کو یہ علاقائی جنگ نظر آئے گی جو مشرقی پاکستان کے خطے میں پیدا ہونے والی بدامنی اور علیحدگی کی تحریک کی مدد کے لیے بھارت نے ہم پر مسلط کی۔ اس جنگ کو ویسے ہی لڑا گیا جیسے علاقے فتح کرنے کے لیے حکمران مدتوں لڑتے چلے آئے ہیں۔ یونان کے سکندر، ہندوستان کے اشوک، منگولیا کے چنگیز خان سے لے کر جدید عالمی طاقتیں برطانیہ اور فرانس سب اسی کشور کشائی یعنی اپنی سلطنت اور اقتدار کے بچاؤ یا بڑھاؤ کے لیے ملکوں پر قبضہ کرکے نو آبادیاتی ریاستیں قائم کرتے رہے۔ اسی جذبہ، علاقائی بالادستی و کشور کشائی کے متعلق ہی تو اقبال نے کہا تھا
شہادت ہے مقصود و مطلوب مومن
نہ مال غنیمت، نہ کشور کشائی
پاکستان اور بھارت کشیدگی کو زیادہ سے زیادہ کشمیر کی آزادی اور حریت کی تحریک کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ اس کے محرکات بیان کرتے ہوئے اسے بالکل ایک ایسا علاقائی تنازعہ بناکر پیش کیاجاتا ہے جیسے دنیا بھر میں کوئی سے بھی دو ملکوں کا آپس میں کسی علاقے پر تنازعہ چلا آرہا ہو۔ بالکل ویسے ہی جیسے روس اور جاپان کا کورل جزیرے پر، جرمنی، آسٹریا اور سوئٹزرلینڈ کا جھیل کونٹین پر، برطانیہ اور آئرلینڈ کا لوغ فائل پر، اسپین اور پرتگال کا اولوسبزا پر، اسپین اور مراکش کا سیوٹا پر، برطانیہ اور مورشیش کا چاگوز پر، غرض دنیاکے ہرخطے میں پائے جانے والے تنازعات سے پاکستان اور کشمیر کا تنازعہ ہم پلہ بناکر پیش کیاجاتا ہے۔ دنیا میں بہت سے ایسے علاقائی تنازعے ہیں ۔
جن پر خون آشام جنگیں ہوچکی ہیں جیسے جنوبی اور شمالی کوریا وغیرہ۔ ان تمام تنازعات کا محرک، وجہ اور جواز زمین کا ٹکڑا ہوتا ہے۔ قومیتوں کی جنگ میں آبادی کے مذہب کا لڑائی سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے تنازعے کو بھی کبھی پانی سے منسلک کیا جاتا ہے اور بھارت کی آبی جارحیت کو کشیدگی کی وجہ گردانا جاتا ہے تو کبھی اس خطے کو پاکستان کا ایک فطری جغرافیائی حصہ قرار دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ صدیوں سے کشمیر اپنی تجارتی، معاشرتی اور معاشی ضرورتوں کی وجہ سے پاکستان کے خطے سے وابستہ رہا ہے اور اس کا بھارت کے ساتھ الحاق ایک غیر فطری عمل ہے اور وہ بھی انگریز نے ایک سازش کے تحت ایسا کیا کہ گورداسپور ضلع بھارت کو دے دیا تاکہ کشمیر کو بھارت سے ملانے والا واحد پٹھانکوٹ والا راستہ بھارت کے پاس چلا جائے۔
جب کہ پاکستان سے کشمیر تک جانے کے لیے تو بے شمار راستے ہیں۔ یہ ساری توجیہات اس لیے پیش کی جاتی ہیں تاکہ اسے دو قومی ریاستوں کی ایک قطعہ اراضی پر جنگ تصور کرلی جائے۔ جیسے دنیا بھر کی باقی قوموں، ریاستوں کے درمیان ہورہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اندر موجود اس جذبے پر سوال اٹھائے جانے لگے ہیں جو کشمیریوں کے بارے میں عام پاکستانیوںکے ذہنوں میں قیام پاکستان سے لے کر آج تک پایا جاتا ہے۔ یہاں صرف ایک سوال اس ساری الجھن کو ختم کرسکتا ہے۔ کیا وادیٔ جموں و کشمیر میں اگر ایک واضح اکثریت ہندوؤں کی ہوتی تو یہ مسئلہ اسی طرح ہوتا۔کیا پاکستان پھر بھی یہ نعرہ لگاتا کہ اگرچہ وہاں نوے فیصد ہندو بستے ہیں مگر وہ ہماری شہ رگ ہے۔
بوڑھا حریت رہنما سید علی گیلانی اسی لیے لاکھوں کشمیریوں کے ہجوم کے ساتھ صرف اور صرف ایک ہی نعرہ لگاتا ہے۔ پاکستان سے رشتہ کیا۔ لاالہ الاللہ۔ پاکستان کا بھارت کے ساتھ اختلاف کشمیر کے مسئلہ پر نہیں، کلمہ طیبہ پر ہے۔کس قدر بھونڈی منطق دی جاتی ہے کہ بھارت میں بھی تو ہم سے زیادہ مسلمان بستے ہیں۔ ان کی اسلام سے محبت کے باوجود عرض ہے کہ اللہ کا قرآن اور سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ان کے بھارت میں رہ جانے اور ان میں گھل مل جانے کے فیصلے کی تصدیق نہیں کرتا۔ اللہ فرماتا ہے ’’جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، جب فرشتے ان کی روح قبض کرنے پہنچے تو پوچھا تم کس حال میں تھے؟ یہ جواب دیتے ہم کمزور و مغلوب تھے۔ فرشتوں نے کہا ، کیا اللہ تعالیٰ کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم وہاں ہجرت کرجاتے؟ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بری جائے قرار ہے (النساء 97)‘‘
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم مشرکین کے ساتھ سکونت اختیار نہ کرو اور نہ ان کے ساتھ گھل مل کر رہو، پس جو شخص ان کے ساتھ سکونت اختیار کرتا ہے یا ان کے ساتھ مل کر رہتا ہے تو وہ انھی کی مثل ہے اور ایک روایت میں ہے کہ وہ ہم میں سے نہیں‘‘ (سنن جامع ترمذی رقم باب 42)۔
جب پاکستان اللہ کے نام پر تخلیق ہوا تو مغربی پاکستان کی آبادی تین کروڑ تھی اور بھارت میں رہنے کا فیصلہ کرنے والے ڈیڑھ کروڑ سے بھی کم تھے۔ آج یہ پاکستان بیس کروڑ انسانوں کو عزت کے ساتھ آباد کیے ہوئے ہے۔ اگر بھارت میں رہ جانے والے مسلمان اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتے یہاں ہجرت کرجاتے تو یہاں کی آبادی صرف چار کروڑ ہی ہوتی۔ لیکن انھوں نے زمین سے محبت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہجرت پر مقدم رکھا اور آج بھارت میں گھل مل کر بھی رہتے لیکن ذلیل و رسوا ہیں اور غربت و افلاس میں ڈوبے ہوئے ہیں۔کشمیری پہلے دن سے اسی بنیاد پر بھارت سے علیحدگی چاہتے اور جدوجہد کرتے رہے جس بنیاد پر پاکستان نے ہندوستان سے علیحدہ وطن حاصل کیا تھا۔
اور یہ بنیاد تھی لاالہ الاللہ۔ اس بنیاد کا تصور ان لوگوں کے ذہنوں میں واضح تھا جنہوں نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا تھا۔ قائداعظم اور لیاقت علی کے اقوال تو کشمیر پر بہت واضح ہیں لیکن قائداعظم کے بعد بننے والے گورنر جنرل کیمرج سے پڑھے ہوئے ڈھاکا کے نواب خواجہ ناظم الدین نے 1950ء میں کہا تھا ’’میں نہیں تصور کرسکتا کہ مذہب کسی فرد کا ذاتی مسئلہ ہے اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک مکمل کشمیر اس کا حصہ نہیں بن جاتا۔ بھارت سے جنگ ایک علاقائی نہیں بلکہ نظریہ پاکستان کے تحفظ اور بقا کی جنگ ہے اور نظریہ پاکستان کلمۂ طیبہ کی بنیاد پر قومیت کی تشکیل کا نام ہے۔ اس کے علاوہ اس کی ایک اور بالاتر حیثیت بھی ہے اور جس کا خواب یہ امت چودہ سو سال سے دیکھ رہی ہے۔ یہ جہاد ہند کا خواب ہے ۔ اس سے متعلق پانچ بنیادی احادیث حضرت کعبؓ، حضرت صفوان بن عمروؓ، حضرت ثوبانؓ اور حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے اور انھیں جرح و تعدیل کے ماہرین نے حسن قرار دیا ہے۔
یہاں تک کہ جدید دور کے ماہر علامہ ناصر الدین البانی نے بھی صحیح قراردیا ہے۔ گویا یہ معرکہ ابھی برپا ہونا ہے۔ صاحبان نظر اس کی راہ تک رہے ہیں اورشوق جہاد سے سرشار وہی الفاظ دہراتے ہیں جو حضرت ابوہریرہؓ نے رسول اکرمؐ کے سامنے کہے کہ ’’اگر میں زندہ رہا تو میں اپنا تن من دھن اس میں لگادوں گا، مرگیا تو افضل الشہدا اور زندہ رہا تو دوزخ مجھ پر حرام ہوگی۔‘‘
نسیم انور بیگ کا اسلام آباد کا ٹھکانہ اہل بصیرت کا آشیانہ تھا۔ آج سے چند سال پہلے ‘ایک صاحب نظر وہاں آئے‘ فرمانے لگے‘ بھارت سیالکوٹ اور گجرات کے درمیان جلالپور جٹاں سے حملہ کرے گا اور جہاد ہند شروع ہوجائے گا۔ اسلام آباد سیکریٹریٹ کے آس پاس لنگر تقسیم کرنے والا درویش بابا اورنگ زیب کہا کرتا تھا ’’سرحدوں پر رم جھم لگی رہے گی اور ایک دن پاکستان بھارت پر چھاجائے گا‘‘ سرحدی خلاف ورزیوں کی رجم جھم جاری ہے لیکن لوگ آج بھی اسے علاقائی تنازعہ یا پھر دو ملکوں کی جنگ سمجھتے ہیں۔ یاد رکھیں! اگر یہ شروع ہوئی تو پھر یہ دنیا کا بہت بڑا معرکہ بن جائے گی۔ اس امت کا ہر وہ شخص جو رسول اکرمؐ کی بشارتوں پر یقین رکھتا ہے اس جنگ میں حصہ لینے کی سعادت حاصل کرنے کو چل پڑے گا۔ یہ جنگ صرف فتح ہی نہیں، شام میں عیسیٰ ابن مریم کی آمد اور وہاں بھی مسلمانوں کی نصرت کی نوید ہوگی۔
 

زیک

مسافر
پچھلے کچھ عرصے کچھ انڈینز کے ساتھ ایٹمی جنگ اور تباہی پر گفتگو رہی۔ اس سے احساس ہوا کہ اکثر انڈین اس معاملے میں شدید جاہل ہیں اور انہیں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے خطرے کا رتی بھر خیال نہیں۔ عام پڑھے لکھے پاکستانیوں کو اس موضوع پر بہتر پایا ہے مگر یہ غزوۂ ہند والے جاہل بالکل ہی پاگل ہیں۔ خود تو یہ مریں گے ہی کروڑوں کو بلاوجہ ہی مروائیں گے
 
دراصل بات یہ ہے کہ لڑائی مارکٹائی ہی غزوہ ہند نہیں
اصل میں اسلام کو پھیلانا ہی مقصود غزوہ ہے۔ پاکستانی اپنی موجودہ حالت میں اس قابل نہیں ہیں کہ کچھ کرسکیں
البتہ توبہ کرکے دین اپنی زندگیوں میں داخل کرلیں تو تبلیغ کے ذریعہ اسلام کو ہندوستان میں پھیلائیں گے۔ یہی غزوہ کا مقصد ہے۔ لڑائی کی ضرورت نہیں ہے۔ دل جیتنے کی ہے
 

ظفری

لائبریرین
مقبول اوریا جان اور حسن نثار اک ہی سکے کے دو رخ ہیں ۔ مگر دونوں کا طریقہ ِ واردات ذرا مختلف ہے ۔ :noxxx:
 

یاز

محفلین
اوریا جی نے آج کے کالم میں پھر کمال شمال کیا ہے۔ کمال کا ذہن پایا ہے آنجناب نے

1103884384-1.jpg

1103884384-2.gif
 
Top