کاشفی

محفلین
کوئٹہ: کوئی فِکر نہیں
محمد حنیفمصنف اور تجزیہ نگار
جِس وقت آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے ہمارے محافظ حرکت میں آ چکے ہوں گے۔ کئی مشتبہ لوگوں کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر اُنھیں اُٹھایا جا چکا ہو گا، ہمارے محفوظ ہوائی اڈوں کے رن ویز پر ایف 16 طیارے غُرّا رہے ہوں گے اور مشتبہ دُشمنوں کے مشتبہ ٹھکانوں پر بمباری کے لیے پر تول رہے ہوں گے۔ کئی پھانسی گھاٹوں پر جلاّد اگلے احکامات کا بےتابی سے انتظار کر رہے ہوں گے۔
ضربِ عضب کو کوئٹہ کے قتل عام کے بعد تازہ خون مِلا ہے اور ہر خود ساختہ دفاعی تجزیہ نگار کی طرح میں بھی یہ بتا سکتا ہوں کہ یہ جنگ اب اور غضب ناک ہو جائے گی ، آخری مرحلے میں داخل ہو گی، ایک نادیدہ دُشمن کے خلاف جنگ طویل ہو سکتی ہے وغیرہ وغیرہ۔

ایک چھوٹا سا مسئلہ یہ ہے کہ جنھوں نے اپنے پیاروں کو کالے کوٹ اِستری کروا کے وکالت کرنے بھیجا تھا، وہ گھر سے آپ تک بریکنگ نیوز پہنچانے نکلے تھے اور وہ جو ہسپتال میں کسی کی تیمارداری کرنے آئے تھے اگر وہ آپ کا گلا پکڑ کر کہیں کہ اگر مشتبہ افراد کے ایڈریس آپ کے پاس تھے، اگر مشتبہ گروہوں کے ٹھکانے آپ کے نشانے پر تھے تو کِس مصلحت نے آپ کا ہاتھ روکا تھا؟
آپ لواحقین کی دماغی حالت اِس وقت سمجھ سکتے ہیں۔ اُنھوں نے پڑھا لکھا کر اپنے بچوں کو وکیل بنوایا تھا نہ کہ بلوچ رجمنٹ میں بھرتی کروایا تھا، نہ بلوچ باغیوں سے مِل جانے کی ترغیب دی تھی۔
اُن کا خیال تھا شام کو اُن کے پیارے گھر آئیں گے، کالے کوٹ اُتاریں گے، ٹائی ڈھیلی کریں گے اور کورٹ کچہری میں ہونے والی روداد بتائیں گے۔

لیکن ہم چونکہ دُور کے لواحقین ہیں یا محض ٹی وی اور لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھے ہوئے ماتمی ہیں اِس لیے کیا ہم بغیر جذباتی ہوئے اِس سانحے سے اُٹھنے والے چند سوالات کے جوابات بغیر جذباتی ہوئے دے سکتے ہیں۔آئیے کوشش کرتے ہیں۔
آخر وکیل نشانے پر کیوں؟
اِس سے پہلے ہم پوچھ چکے ہیں سکول کے بچے کیوں، ہزارہ کیوں، پارک میں کھیلنے والے بچے کیوں۔ چونکہ ہمیں کوئی تسلّی بخش جواب نہیں ملا اِس لیے ہم آج پوچھ رہے ہیں کہ وکیل کیوں؟
وکیل عوام اور ریاست کے درمیان بات چیت کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ سزا اور جزا کے نظام کے مرکزی کردار ہوتے ہیں۔
کوئٹہ کے وکیل اپنے کام کو دوسروں کی نسبت ذرا زیادہ سنجیدگی سے لیتے تھے۔ میں نے پاکستان کے اکثر پریس کلبوں اور بار رومز میں اپنے جیسے نیم پڑھے لکھے کردار پائے لیکن کوئٹہ کے بار میں ہمیشہ سیاست پر بات کرتے ہوئے دلیل سُنی، کتابوں کے حوالے سُنے۔ عالمی تاریخ پر تو کوئٹہ کی ضِلع کچہری میں بھی دھواں دار بحثیں سُنیں۔
ایک دفعہ میں اپنے ایک مقدمے کی سماعت کے لیے وکیل کے دفتر پہنچا تو پوچھا وکیل صاحب کہاں ہیں؟ منشی نے جواب دیا جیل میں۔ اُنھوں نے ایک کرپٹ جج کی بھری عدالت میں اُن کی کرپشن کی کہانی سُنا دی تھی۔
شاید وکیل اِس لیے نشانہ بنے کہ وہ ہم سے قدرے زیادہ باشعور تھے۔

ور کتِنے وکیل گئے؟
کوئٹہ دوسرے صوبائی دارالحکومتوں کے مقابلے سب سے چھوٹا ہے۔ جانے والوں کی تعداد بھی دِل دہلا دیتی ہے لیکن ایک شہر کا، ایک معاشرے کو ہونے والا نقصان سمجھنا ہو تو یوں اندازہ لگائیں کہ اللہ نہ کرے ، اللہ نہ کرے شریف خاندان پر اِتنا بڑا حملہ ہو کہ پوتے پوتیاں بھی نہ بچیں اور مسلم لیگ کی کمان کسی خاندان کے منشی کو سنبھالنی پڑے۔
یا میرے منہ میں خاک پاک فوج کی ہائی کمان پر اِتنا بڑا حملہ ہو کہ کور کمانڈروں کے اجلاس میں جونیئر بریگیڈیئرز کو شامل ہونا پڑے۔
سافٹ ٹارگٹ، ہارڈ ٹارگٹ

جب بھی اِس پیمانے پر خون بہتا ہے ہمارے دفاعی تجزیہ نگار ہمیں تسلی دیتے ہیں کہ دشمن کمزور ہو چکا ہے اِس لیے بزدلانہ حملے کر کے ہمیں ڈرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہمارے قومی اثاثے محفوظ ہیں، ہمارے فوجی اڈوں پر پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا ہے لیکن یہ تسلی دینے کا کون سا طریقہ ہے کہ آپ کے گھر میں گھس کر کوئی آپ کے بچے کو مار دے اور آپ والدین کو بتائیں کہ دیکھیں دیوار پر لگی خاردار سلامت ہے، آپ کے گھر کہ باہر حفاظتی مورچہ سلامت ہے۔
دفاعی تجزیہ نگاری میں اِس کا مطلب کچھ بھی ہو جب آپ اپنے شہریوں کو سافٹ ٹارگٹ قرار دیتے ہیں تو آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ دیکھو ہماری کامیابی کا ثبوت یہ ہے کہ تم مر رہے ہو اور ہم زندہ سلامت ہیں۔

’را‘ نے کیا ہے


ابھی ہلاک ہونے والوں کی ٹھیک طرح سے گِنتی بھی شروع نہیں ہوئی تھی کہ جواں سال ٹی وی صحافیوں اور گھاگ سیاستدانوں نے کہنا شروع کیا کہ بلوچستان میں را کی موجودگی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ قِصہ ختم۔ ہمارا کیا قصور۔ دُشمن ہے ہی اتنا کمینہ کہ چھپ کر وار کرتا ہے۔
یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ را کو روکنا کسی کی ذمے داری ہے۔ اگر یہ جنگ اِس دلیل سے لڑنی ہے تو اِس کی کمان حافظ سعید اور اُن کے بھائی بندوں کو کیوں نہ دی جائے کیونکہ اُن کا دعوی ہے کہ وہ اِس دشمن کو سبق سکھا بھی چکے ہیں اور آئندہ بھی سکھاتے رہیں گے۔
سی پیک پر حملہ

جِس خوشحالی کا خواب چین نے پاکستان کو دکھایا ہے یقینا ہمارے دُشمن اُس کی تعبیر میں رکاوٹیں ڈالیں گے لیکن ایک پورے شہر کے بہترین سپوتوں کی تازہ لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمانا کہ یہ سی پیک کے دشمنوں کا کام ہے شہیدوں کے ساتھ زیادتی نہیں ہے ؟
پہلے ہم وطن کے لیے مرتے تھے ، پھر مذہب کے نام پر مرے ، کیا اب ہم چند سڑکوں کے لیے مریں گے۔
اِس کٹی پھٹی قوم کو قوم ہی رہنے دیں۔ یہ تاثر نہ دیں کہ ہم سب کسی عظیم شاہراہ کے ٹھیکیدار ہیں اور ہم سے کچھ محصول چنگی وصول کریں گے اور باقی اِس شاہراہ کی چوکیداری کر کے گزارہ چلائیں گے۔

فِکر نہ کریں ، آزادی مبارک

چند ہفتے پہلے ہی وزارت داخلہ نے اعتراف کیا ہے کہ گذشتہ چھ سالوں میں بلوچستان سے تقریباً ایک ہزار مسخ شدہ لاشیں مل چکی ہیں۔ ’
کِسی نے پلٹ کر یہ بھی نہیں پوچھا کہ کیا یہ سی پیک کے راستے کی صفائی کے کسی منصوبے کا حصّہ ہے۔
کیا اِن ہزار لوگوں کو بھی را نے چن چن کر مارا ہے۔ کیا ہم آپ کو شاباش دیں۔ شکریہ ادا کریں یا افسوس کریں کہ ہمارا دشمن ہمارے دیس میں دندناتا پھر رہا ہے۔
جِس ملک میں ایک صوبے سے ملنے والی ایک ہزار لاشوں پر آپ سے ایک سوال بھی نہ پوچھا گیا تو کوئٹہ میں اُٹھنے والے 90 سے زیادہ جنازوں ہر کتنے دن تک ماتم ہو گا۔
آئیے جھنڈے اُٹھائیں ، آزادی کے ترانے گائیں اور اِس ملک کو مقتل بنانے والوں کا جشن منائیں لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ اگر کوئٹہ کے شہید ہونے والے ایک شہری کہ گھر تک آپ سی پیک پہنچا بھی دیں وہ پھر بھی آپ کے جشن میں شریک نہیں ہوں گے۔
 

جاسمن

لائبریرین
آہ!
اللہ ہم سب کوہدائت عطا فرمائے۔زندگی کے ہر معاملہ میں راست راہ پہ لے جائے۔دہشت گردی کے عذاب سے پناہ دے۔ جو لوگ ا،س کا شکار ہوئے،اُنہیں جنت کے اعلیٰ درجات میں جگہ دے۔لواحقین کو صبرِ جمیل دے۔زخمیوں کو صحتِ کامل عطا فرمائے۔ آمین!ثم آمین!
یقیناََ یہ بہت فکر انگیز تحریر ہے جو ہر حساس انسان کو جھنجھوڑ دیتی ہے۔ہمارے دل اِن غموں سے بوجھل ہیں۔آہ!
 
Top