کلیات خلیل جبران

درویش بادشاہ

لوگوں نے مجھے بتایا کہ پہاڑوں کے درمیان ایک
کنج میں ایک نو جوان تنہا رہتا تھاجو کبھی ان دریاؤں کے پار
وسیع ملک کا تاجدار تھا۔انھوں نے یہ بھی کہا کے کہ وہ اپنی
مرضی سے تاج و تخت اور اپنے پر عظمت ملک کو خیر آباد
کہہ کر اس جنگل میں آبسا تھا۔
اور میں نے کہا کہ میں اس شخص کو تلاش کروں گا؟
اور اس کے دل کے راز معلوم کروں گا۔کیونکہ وہ شخص جس
نے تخت وتاج کو چھوڑا ہو وہ یقینا ایک سلطنت سے زیادہ
حیثیت کا مالک ہوگا۔
اسی دن میں نے ایک جنگل کی راہ لی جہاں وہ رہتا
تھا اور میں نے کھوج پا لیا (وہ سرو کے ایک درخت کی
چھاؤں میں بیٹھا تھا-اس کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی-عصائے شاہی
کی طرح -- میں یوں آداب بجا لایا-جیسے میں کسی بادشاہ کا
آداب بجا لاتا- اس نے میری طرف رخ پھیرا اور نرم لہجے میں کہا
“تم اس پر سکون جنگل میں کیوں آئے ہو؟ کیا تم ان
ہرے بھرے درختوں کی چھاؤں میں اپنے آپ کو ڈھونڈ رہے ہو یا دھندلکے میں گھر واپس جا رہے ہو؟؟؟“
میں نے جواب دیا :“میں صرف تمہں دیکھنے آیا
کیونکہ میں یہ معلوم کرنےکا تمنائی ہوں کہ تم نے جنگل کے لئےحکومت کیوں چھوڑد ی؟؟؟؟؟
اس نے کہا “ میری کہانی بہت مختصر ہے کیونکہ یہ بلبلا بہت جلد ٹوٹ گیا- یہ واقعہ یوں ہوا- “
ایک دن میں اپنے محل کے دریچے میں بیٹھا تھا میرا وزیر اور ایک غیر ملک کا سفیر میرے باغ میں ٹہل رہے تھے -
جب وہ میرے دریچے کے نزدیک پہنچے تو وزیر اپنے متعلق کہہ رہا تھا
“میں بادشاہ کی طرح ہوں۔۔۔۔۔۔۔مجھے وقت اور تقدیر کے کھیلوں کا شوق یے ۔۔۔۔۔۔میں بھی اپنے آقا کی طرح
پرجوش مزاج ہوں رکھتا ہوں-“
یہ کہہ کر وزیر اور سفیر درختوں میں غائب ہو گئےلیکن
چند لمحوں میں وہ واپس آگئے -اب کی بار وزیر میرے متعلق
باتیں کر رہا تھا “میرا آقا ۔۔۔۔۔۔۔۔بادشاہ سلامت میری طرح
اچھا نشانچی ہے۔وہ میری طرح موسیقی کا رسیا ہے۔۔۔۔۔۔۔
اور دن میں تین بار غسل کرتا ہے-“
تھوڑی دیر بعد اس نے سلسلہ کلام جاری رکھا -
“اسی دن شام کو میں ایک لبادہ پہن کر محل سے نکل آیا
کیونکہ ان لوگوں کا حکمران بننا مجھے گوارہ نہ تھا جو میرے عیوب اختیار کریں اور میری نیکیوں کو اپنی طرف منسوب کریں“
اور میں نے کہا واقعی یہ ایک انوکھی اور حیران کن بات ہے“
اور اس نے کہا
“نہیں تم نے میری خاموشیوں کے دروازے کو کھٹکھٹایا اور تمہیں کیا ملا بہت کم ؛؛؛؛آخر کون ہے جو حکومت کو اس جنگل کے لئے نہ چھوڑ دے -جہاں کے موسم ایک
نا ختم ہونے والے رقص و نغمے میں سر مست رہتے ہیں-
بہت سے لوگ ہو گزرے ہیں جنہوں نے تنہائی اور اکیلے میں
اپنی صحبت کا لطف اٹھانے سے کم تر چیز کے لئے اپنی حکومت چھوڑدی- بے شمار عقاب ہیں جو عالم بالا کو چھوڑ کر چھچھوندوں
کے ساتھ آکر رہتے ہیں کہ وہ زمین کی تہہ کا راز پا سکیں---
ایسے لوگ بھی ہیں جو سپنوں کی بادشاہت کو
خیرآباد کہہ دیتے ہیں تاکہ وہ بے خواب کی دنیا سے دور
نظر نہ آئیں - اور ان سب سے بلند تر وہ ہے جس نے غم و الم
کی دنیا کو خیر آباد کہا کہ وہ مغرور اور خود پسند نظر نہ آئے“

پھر وہ اپنی جھونپڑی کا سہارا لیتے ہوئے اٹھا اور کہا
“اب تم شہر جاؤ ؛ اور اس کے دروازے پر بیٹھو اور
ان لوگوں پر نگاہ رکھو جو وہاں آتے ہیں اور وہاں سے مڑ جا تے ہیں اور اس شخص کی تلاش کرو جو پیدائشی بادشاہ ہے-لیکن
مملکت کے بغیر ہے اور اسے دیکھو جو جسمانی طور پر دوسروں کا محکوم ہے لیکن رعایا پر حکومت کرتا ہے مگر نہ تو خود اسے
اس بات کا احساس ہے اور نہ اس کی رعایا یہ جانتی ہے اور اس پر نگاہ رکھو ، جو بظا ہر حکومت کرتا ہے لیکن دراصل وہ اپنے ہی
غلاموں کا غلام ہے“
یہ باتیں کہہ چکنے کے بعد وہ مجھ پر مسکرادیا اور اس کے ہونٹوں پر ہزار صبحیں تھیں- پھر اس نے رخ
پھیرا اور جنگل کی گہرائیوں میں چلا گیا---
میں شہر کو لوٹا اور اس کے حسب منشا شہر کے دروازے پر بیٹھ کر آنے جانے والوں کو دیکھتا رہا- اس دن سے
لے کر آج تک بے شمار ہوئے ہیں-جن کے سائے مجھ پر سے
گزرے ہیں اور بہت کم ایسے لوگ ہیں جن پر میرا سایہ گزرا ہے-
 
یہ ہوئی نہ بات۔۔شاباش

صد شکر کہ کلیاتِ جبران کی لاج رہ گئی۔
میں جانتا ہوں بہت موٹی کتاب ہے مگر عزم زندہ رہے تو پہاڑ بھی سر ہوجاتے ہیں یہ تو پھر کتاب ہے۔ :lol:
 
کلیات خلیل جبران “حکایت جبران“

حکایات جبران

“ دو سادھو“

ایک پہاڑ پر دو سادھو رہتے تھے-ان کا کام خدا کی عبادت اورآپس میں پیار و محبت کے ساتھ رہنے کے سوا اور کچھ نہ تھا- ان کے پاس ایک مٹی کا پیالہ تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہی ان دونوں کی کائنات تھی-

ایک دن بڑے سادھو کے دل میں بدی کی روح داخل ہوئی وہ چھوٹے سادھو کے پاس آیا اور اس نے کہا -“ ہم دونوں کو اکٹھے رہتے ہوئے ایک عرصہ گزر چکا ہے اور اب جدا ہونے کا وقت آپہنچا ہے اس لئے آوء ہم اپنی جائیداد تقسیم کرلیں-

چھوٹے سادھو نے مغموم ہوکر کہا-

“بھائی تمھاری جدائی کا خیال میرے دل پر شاق گزر رہا ہے لیکن اگر تم جانا ہی چاہتے ہو ،تو خیر یونہی سہی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔“

یہ کہہ کر اس نے وہ پیالہ بڑے سادھو کے سامنے لا کر رکھ دیا، اور کہا -

“ہم اسے آپس میں بانٹ نہیں سکتے اس لئے اسے آپ ہی لے لیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “

بڑے سادھو نے کہا “ نہیں میں خیرات نہیں مانگنا چاہتا-میں اپنے حصے کے سوا اور کچھ نہ لوں گا ۔ ۔ ۔ ۔ہمیں یہ پیالہ آپس میں تقسیم کرنا پڑے گا -“

چھوٹے سادھو نے کہا ۔ ۔ ۔ ۔ “اگر یہ پیالہ ٹوٹ گیا، تو یہ ہمارے کس کام آئے گا؟ اگر تم پسند کرو تو ہم قرعہ ڈال کر اس کا فیصلہ کر لیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔“

لیکن بڑے سادھو نےدوبارہ کہا- “میں صرف وہی چیز لوں گا جسے انصاف میری ملکیت قرار دے اور میں یہ پسند نہیں کرتا کہ انصاف کو قسمت پر چھوڑ دیا جائے-ہمیں یہ پیالہ ضرور تقسیم کرنا پڑے گا ۔ ۔ ۔ ۔“

اس پر چھوٹے سادھو سے کوئی جواب نہ بن پڑا- اور اس نے کہا

“اگر تمھارے یہی مرضی ہے تولاوء اسے توڑڈالیں“

یہ سن کر بڑے سادھو کا چہرہ غصے سے لال ہوگیا اور وہ چلا کر بولا-
“اے بزدل انسان، کیا تواس پیالے کے لئے میرے ساتھ لڑے گا بھی نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔“
 
“کلیات جبران“

“حکایات جبران“

“ دانشمند بادشاہ“

ایک دفعہ کا ذکرہے کہ ایک شہر پر جس کا نام ویرانی تھا- ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا -جو بہت بہادر اوردانشمند تھا اس کی بہادری کی وجہ سے لوگ اس سے ڈرتے تھے اور اس کی دانشمندی کی وجہ سے اسے پیار کرتے تھے -
اس شہر کے وسط میں ایک کنواں تھا جس کا پانی بہت تھنڈا اور موتی کی طرح شفاف تھا- شہر کے تمام لوگ بلکہ خود بادشاہ اور اس کے درباری اسی کنوئیں میں سے پانی پیتےتھے-کیونکہ ان کے شہر میں کوئی اور کنواں نہ تھا-ایک رات جب تمام لوگ محوخواب تھے ایک ساحرہ شہر میں داخل ہوئی اور ایک عجیب دوائی کے سات قطرے کنوئیں میں ڈال دیئے اور کہا - “اسکے بعد جو شخص یہ پانی پیئے گا وہ دیوانہ ہو جائیگا-“

دوسرے دن بادشاہ اور اس کے وزیروں کے سوا شہر کے تمام لوگوں نےکنوئیں کا پانی پیا اور ساحرہ کی پیشن گوئی کے مطابق دیوانے ہوگئے-

اس دن شہر کے تنگ گلی کوچوں اور بازاروں میں لوگ ایک دوسرے کے کان میں یہی کہتے رہے کہ ہمارے بادشاہ اور وزیراعظم کی عقل ماری گئی ہے اور ہم اس اپاہج بادشاہ کی حکومت برداشت نہیں کر سکتے اور اسے تخت سے علیحدہ کر دیں گے-

جب شام ہوئی توبادشاہ نے سونے کے ایک برتن میں اس کنویئں کا پانی منگوایا جب پانی آیا تو اس نے خود پیا اور اپنے وزیراعظم کو بھی پلایا پھر کیا تھا- شہر ویرانی میں خوشی کے شادیانے بجنے شروع ہوگئے کیونکہ لوگوں نہ دیکھا کہ
ان کے بادشاہ اور وزیراعظم کا دما غ درست ہوگیا ہے-
 
متبرک شہر

میں اپنی جوانی کے زمانے میں سنا کرتا تھا-کہ ایسا شہر ہےجس کے باشندے آسمانی صحیفوں کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں-
میں نے کہا

“ میں اس شہرکوضرور تلاش کروں گا اور اس کی برکت حاصل کروں گا-“

یہ شہر بہت دور تھا۔میں نے سفر کے دوران کے لئے خوب سامان جمع کیا-چالیس دن کے بعد میں نے اس شہر کو دیکھا اور اکتالیسویں دن اس کے اندر داخل ہوا-
مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اس شہر کے تمام باشندوں کاصرف ایک ہاتھ اور ایک آنکھ ہے- میں نےحیران ہوکر اپنے دل سے کہا-

“کہ اتنے متبرک شہر کے باشندوں کا صرف ایک ہاتھ اور ایک آنکھ!“

میں نے دیکھا وہ خود بھی اس بات پر حیران ہیں ، میرے دو ہاتھوں اور دو آنکھوں نے انہیں محو حیرت میں ڈال دیا ہے

اس لئے جب وہ میرے متعلق آپس میں گفتگو کر رہے تھے تو میں نے ان سے پوچھا -
“کیا یہی وہ متبرک شہر ہے جس کا ہر باشندہ مقدس صحیفوں کے مطابق زندگی بسر کر تا ہے؟؟“
انہوں نے جواب دیا -
“ہاں یہ وہی شہر ہے“

میں نے کہا
“تمہاری یہ حالت کیونکر ہوئی؟تمہاری داہنی آنکھیں اور داہنے ہاتھ کیا ہوئے؟
وہ سب میری بات سے بہت متاثر ہوئے اور مجھ سے کہا

آ اور دیکھ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ مجھے شہر کے ایک معبد میں لے گئے - جو اس کے وسط میں واقع تھا-میںنے اس معبد کے صحن میں ہاتھوں اور آنکھوں کا انبار لگا ہوا دیکھا وہ سب گل سڑ رہے تھے پھر میں نے کہا-

“افسوس کس سنگ دل فاتح نے تمھارے ساتھ یہ بدسلوکی کی ہے؟“

اس پر انہوں نے زیرلب گفتگو شروع کی اور ایک بوڑھے آدمی نے آگے بڑھ کر مجھ سے کہا ۔ ۔ ۔ “یہ ہمارا اپنا کام ہے خدا نے ہمیں اپنی برائیوں پر فتح دی ہے ۔ ۔ ۔۔ ۔“یہ کہہ کروہ مجھے ایک اونچے منبر پر لے گیا- باقی تمام ہمارے پیچھے تھے پھر اس نے منبر کے اوپر ایک تحریر دکھائی جس کے الفاظ یہ تھے-


اگر تمھاری داہنی آنکھ تمہیں ٹھوکر کھلائے تو اسے باہر نکال پھینکو ، کیونکہ سارے جسم کے دوزخ میں پڑنے سے ایک عضوکاضائع ہونا بہتر ہے -اور اگر تمہارا داہنا ہاتھ تمہیں برائی پر مجبور کرے تو اسے کاٹ کر پھینک دو تاکہ تمہارا صرف ایک عضو ضائع ہوجائے اور سارا جسم دوزخ میں نہ پڑے-“
(انجیل)

یہ عبارت پڑھ کر مجھے ساری حقیقت معلوم ہوگئی ۔میں نے منہ موڑ کر تمام لوگوں کو مخاطب کیا اور کہا-

“کیا تم میں کوئی آدمی یا عورت نہیں جس کے دو ہاتھ اور دو آنکھیں ہوں“

ان سب نے جواب دیا “ نہیں کوئی نہیں یہاں۔ ان بچوں کے سوا جو کمسن ہونے کی وجہ سے ان احکام پر عمل کرنے سے قاصر ہیں-۔کوئی شخص صحیح سالم نہیں۔“

جب ہم معبد سے باہر آئے تومیں فورا اس متبرک شہر سے بھاگ نکلا کیونکہ میں کمسن نہ تھا اور اس کتبے کو باآسانی پڑھ سکتا تھا-
 
“کلیات خلیل جبران“

انصاف

ایک رات قصر شاہی میں ایک دعوت ہوئی - اس موقع پر ایک آدمی آیا اور اپنے آپ کو شہزادے کے حضور پیش کیا- تمام مہمان اس کی طرف دیکھنے لگے - انہوں نے دیکھا کہ اس کی ایک آنکھ باہر نکل آئی ہے اور خالی جگہ سے خون بہہ رہا ہے -

شہزادے نے اس سے پوچھا کہ “ تم پر کیا واردات گزری ہے؟؟؟“

اس نے جواب دیا

“عالی جاہ میں ایک پیشہ ور چور ہوں اور آج شب جب کہ چاند طلوع نہیں ہوا تھا - میں ساہوکار کی دکان لوٹنے کے لئے گیا لیکن غلطی سے جلاہے کے گھر میں داخل ہوگیا- جوں ہی میں کھڑکی سے کودا میرا سرجلاہے کے کرکھے کے ساتھ ٹکرایا- اور میری آنکھ پھوٹ گئی-“

اے شہزادے اب میں اس جلا ہے کے معاملے میں انصاف چاہتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔

یہ سن کر شہزادے نے جلاہے کو طلب کیا -اور یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ اس کی ایک آنکھ نکال دی جائے -

جلاہا بولا-

“ظل سبحانی آپ کا فیصلہ درست ہے کہ میری آنکھ نکالی جانی چاہیے- لیکن میرے کام میں دونوں آنکھوں کی ضرورت ہے تاکہ میں اس کپڑے کے دونوں اطراف میں دیکھ سکوں جسے میں بنتا ہوں ۔ ۔ ۔
میرے پڑوس میں موچی ہے جس کی دونوں آنکھیں سلامت ہیں اس کے پیشے میں دونوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ ۔ ۔ ۔

یہ سن کر شہزادے نے موچی کو طلب کیا وہ آیا اوراس کی دو آنکھوں میں سے ایک آنکھ نکال دی گئی-

اس طرح انصاف کا تقاضا پورا ہوا-
 
“دو عالم “

ایک شہر میں دو عالم رہتے تھے- جو آپس میں بہت اختلاف رکھتے تھے اور ایک دوسرے کی قابلیت کا مضحکہ اڑاتے تھے، ان میں ایک دہریہ تھا اور دوسرا خدا پرست-

ایک دن دونوں بازار میں ملے اور اپنے اپنے معتقدوں کی موجودگی میں خدا کے وجود اور عدم وجود پر بحث کرنے لگے گھنٹوں مناظرہ کرنے کے بعد وہ ایک دوسرے سے جدا ہوئے-

اسی شام دہریہ مسجد میں گیا اور اپنے سابقہ گنا ہوں کی معافی کے لئے خدا سے التجا کی-

دوسرے عالم نےفورا ًً اپنی کتابیں جلا دیں -کیونکہ وہ اب دہریہ بن چکا تھا-
 
“ضمیر کی بیداری“

ایک اندھیری رات میں ایک شخص اپنے ہمسائے کے باغ میں داخل ہوا اور اپنی سمجھ میں سب سے بڑا تربوز چرایا اور اسے لے آیا-

جب اس نے اسے چیرا تو دیکھا کہ وہ ابھی کچا تھا-

تب ایک معجزہ رونما ہوا-

اس شخص کا ضمیر بیدار ہوااور اسے ندامت سے جلانے لگا اور وہ تربوز چرانے پر پچھتانے لگا-
 
“نا قد“

ایک رات کا ذکر ہے کہ ایک آدمی گھوڑے پر سوار سمندر کی طرف سفر کرتا ہوا سڑک کے کنا رے ایک سرائے میں پہنچا - وہ اترا اور سمندر کی جانب سفر کرنے والے سواروں کی طرح رات اور انسانیت پر اعتماد رکھتے ہوئے اپنے گھوڑے کو سرائے کے دروازے کے قریب درخت سے باندھا اور سرائے میں چلا گیا-

رات کے وقت جب تمام لوگ سو رہے تھے ایک چور آیا اور مسافر کا گھوڑا چرا لے گیا-

صبح وہ آدمی اٹھا تو دیکھا اس کا گھوڑا چوری ہو گیا ہے-وہ گھوڑا چرائے جانے پر بیحد غمگین ہوا اور نیز اس بات پر اسے بے حد افسوس ہواکہ ایک انسان نے اپنے دل کو گھوڑا چرانے کے خیال سے ملوث کیا-

تب سرائے کے دوسرے مسافر آئے اور اس کے گرد کھڑے ہوکر باتیں کرنے لگے -

پہلے آدمی نے کہا کہ

“کیا یہ تمہاری حما قت نہیں کہ تم نے گھوڑے کو اصطبل سے باہر باندھا “

دوسرے نے کہا

“اور یہ اس سے بڑھ کر حماقت ہے کہ گھوڑے کو چھنال نہیں لگائی-“

تیسرے نے کہا

“اور یہ حماقت کی انتہا ہے کہ سمندر کی طرف گھوڑے پر سفر کیا جائے“

چوتھے نے کہا

“صرف سست اور کاہل لوگ ہی گھوڑے رکھتے ہیں“

تب مسافر بے حد حیران ہوا آخر کار چلایا

“میرے دوستوں ! کیا تم اس لئے میری غلطیوں اور کوتاہیوں کو گنوارہے ہو کہ میرا گھوڑا چوری ہوگیا ہے لیکن عجوبہ یہ ہے کہ تم نے ایک لفظ بھی اس شخص کہ متعلق نہیں کہا جس نے میرا گھوڑا چرایا-!
 
"فلسفہ جبران("کلیات خلیل جبران“)

“فلسفہ محبت“محبت کیا ہے؟؟؟؟ جب محبت تمہیں اشارہ کرے اس کے پچھے جاؤ“
‘ باوجود اس کے کہ اس کے راستے مشکل اور دشوارگزار ہیں“
‘اور جب وہ تمہیں اپنے پروں میں لپیٹ لے تو برضا لپٹ جاؤ“

“ اور جب وہ تم سے بات کرے تو اس کا یقین کرو“

“خواہ اس کی آواز تمہارے تمام مرغوب خوابوں کو منتشر کردے ۔ ۔ ۔ جس طرح نسیم شمالی باغیچہ کو ویران کر ڈالتی ہے“

یاد رکھو کہ محبت تمہارے سر پر تاج رکھتی ہےتو ساتھ ہی تمہیں سولی پر بھی چڑھا دیتی ہے-

جس طرح وہ تمہاری روح کے سبزہ زار کو شاداب رکھتی ہے اس طرح وقتا ً فوقتا ً اس سبزہ زار کی بہت سی بے کار اور خودرو گھاسکو تراشتی اور چھانٹتی بھی رہتی ہے-

محبت تم کو کچھ نہیں دیتی سوائے اپنے !“

“ اور محبت تم سے کچھ نہیں لیتی سوائے اپنے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سوائے اس جوہر لطیف کے جو اسی کا ہے“


“ محبت قبضہ نہیں کرتی ، نہ اس پر قبضہ کیا جا سکتا ہے“
اورجب تم محبت کرو تو اس سے یہ نہ کہنا کہ

“وہ میرے دل میں ہے“

بلکہ کہو تو یہ کہ کہ

“میں اس کے دل میں ہوں“

“اور کبھی یہ نہ سمجھو کہ تم محبت کو راستہ بتا سکتے ہو“

وہ تم کو راستہ بتاتی ہے، بشرطیکہ تم کو اس قابل پائے“
پھر اگر تم محبت کرو، اور خوائشیں اور تمنائیں بھی رکھو تو گھل کر پانی ہوجاؤ۔ ۔ ۔ ۔ بہتے چشمے کی طرح “جو شب کی ظلمت کو اپنا نغمہ سنا تا ہے“

پھر اس درد کو پہچانو جو اس چشمے کے اندر سے ذوق پیدا کرتا ہے“

“اور محبت کے متعلق جو کچھ علم تم کو حاصل ہوجائے اسی سے مجروح ہوجاؤ“

طلوع آفتاب کے وقت اس طرح بیدار ہوجاؤ کہ گویا “دل ایک پرند ہے “

“جو اپنے پر کھولے ہوئے آمادہ پرواز ہے“

اورشکر کرو کہ محبت کرنے کا ایک اور دن نصیب ہوا ہے“
دوپیر کو جب تم آرام کرو تو اس آسائش کی ساعت میں بھی محبت کے کیف بے نہایت سے لطف اندوز ہو“

دن بھر کی محبت کے بعد شام کو گھر آؤ ۔ ۔ ۔ محبت کے احسان مند اور شکر گزار ہوکر-“

“پھر شب کو اس طرح اپنی آنکھیں بند کرو کہ دل محبوب کے لئے دعاؤں سے معمور ہو“

اور تہارے لبوں پر مدح توصیف کی ایک راگنی رقص کر رہی ہو“
 
“ فلسفہ ء دعا“

“تم اپنی مصیبت اور احتیاج کی حالت میں دعا کرتے ہو“

“کاش تم کمال مسرت اور انتہائی خوشحالی میں بھی دعا کے لئے ہاتھ اٹھا تے‘

“اس وقت جب تمہارے دل میں مسرتوں کا ہجوم ہوتا تم اس چھوٹے سے مہمان کے لئے بھی کوئی جگہ نکال لیتے“

“دعا ہے کیا ؟؟؟؟
-----------
“سوائے اس کے کہ وہ ایک کیفیت ہے جب انسان اپنے آپ کو فضائے بسیط میں پھیلا دیتا ہے

اور تمہارے پاس اس کے سوائے کوئی چارہ نہیں کہ اس وقت جب تمہاری روح تم

کو دعا کی طرف بلائے تو تم اپنے بہتے ہوئے آنسو لے کر اس کی طرف جاؤ“

تو پھر کیا ہی اچھا ہو تمہاری روح تمہیں بار بار اکسائے اور بڑھائے“

اور تم بار بار اس منزل کی طرف جاؤ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اپنے آنسو اور اپنی آہیں لے کر-“

“اور بار بار اس سفر سے ہستے اور مسکراتے واپس آؤ“

“جب تم دعا میں مشغول ہوتے ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔گم ہوجاتے ہو۔ ۔ ۔ ۔ تو یاد رکھو کہ تم فضا میں بلند ہو کر ان لوگوں کی روحوں سے متصل ہوجاتے ہو جو عین اس لمحے میں دست بدعا ہوں اور جن سے سوائے اس عالم کے تم پہلے کبھی نہ مل سکے ہو“

“پس دعا کے مندر میں تم اقدام ہائے اس کیف وصال اور اتحاد شیریں کے کسی اورغرض سے نہ رکھا جائے“

“اس لئے کہ تم اگر اس مندر میں صرف مانگنےاور لینے کے لئے جاتے ہوتو اغلب ہے کہ تمہیں کچھ نہ ملے گا“

“اور اگر اس مندر میں محض عجز کا ،مظاہرہ کرنے کے لئے جاتے ہو تو تمہیں شرما کر واپس آنا ہوگا -“

“اور اگر اس مندر میں تم دوسروں کی سفارش کرنے کے لئے جاتے ہو تو تمہاری حیثیت ہی کیا ہے کہ تمہاری سنی جائے“

“پس تمہارے لئے کافی ہے یہ کہ تم اس نامعلوم مندر میں نامعلوم طریقہ پر جاؤ-“

“ میں تمہیں زبان کے لفظوں سے مانگنے کا کوئی طریقہ نہیں بتا سکتا مجھے نہیں معلوم-“

“اوراگر تم رات کی تاریکی میں سننے کی کوشش کرو تو تم سمندر کی موجوں اور صحرا کو یہ کہتے سنو گے -“

اے معبود ہمارے! ہم تیرا ہی عکس حقیقت ہیں- -

تیری ہی رضا ہمارے اندر ہے ہے جو حکم دیتی ہے۔ ۔ ۔ ۔

تیرا ہی جذبہ طلب ہمارے اندرہے جو ہمیں “طلب سکھاتا ہے“

تیرا ہی تقاضہ وہ ہے جو ہماری راتوں کو۔ ۔ ۔ ۔جو تیری راتیں ہیں ۔ ۔ ۔ دن بناتا ہے۔ ۔ ۔ وہ دن جو تیرے ہی دن ہیں۔ ۔ ۔ ۔“


ہم تجھ سے کچھ نہیں مانگ سکتے - اسلئے تو ہماری ضرورتوں سے ان کے پیدا ہونے سے پہلے واقف ہوتا ہے!

“تو ہماری ضرورت ہے- تجھ ہی سے ہماری احتیاج ہے“-
-------------------------------------------------------

اور جب تو ہم کو اپنے وجود سے ایک حصہ دے ڈالتا ہے تو سب کچھ دے ڈالتا ہے جوہم کو ملنا چاہیے۔ ۔ ۔ ۔ پھر ہم کیا مانگیں !
 
“فلسفہء دوستی“

“تمہارا دوست وہ ہے جو تمہاری احتیاج پوری کرے“

“وہ تمہارا وہ کھیت ہے جس میں تم محبت کی تخم پوشی کرتے ہو“

“اسی کھیتی کو تم تشکر اوراطمینان کے ساتھ کاٹتے ہو“

“اور جب تمہارا دوست اپنے دل کی کوئی بات تم سے کہتا ہے - تو تم کو نہ اپنے دل کی “نہیں“ متردو کرتی ہے - نہ تم اس کو اپنی “ہاں“ سے محروم رکھتے ہو“

“اور جب وہ خاموش ہوتا ہے تب بھی تمہارا دل اس کے دل کی گفتگو سننے سے عاری نہیں ہوتا“


“اس لئے کہ بغیر الفاظ کی مدد کے ، دوستی کے افکار ، تمام خیالات ، “تمام خواہشات، تمام توقعات، تمام ارادے پیدا ہوتے ہیں“

“ان سے دوستوں کے لئے ایک مسرت حاصل ہوتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ بے طلب“

“اور دوستی کا کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے ، سوائے اس کے کہ تم دوست کے ساتھ ایک مشترک روحانی گہرائی میں شریک ہوجاؤ“

“ اس لئے کہ محبت نہیں چاہتی کہ اس کا بھید واضح ہو جاوے“

“اور جو کچھ تمہارے اندر بہتر اور اعلی تر ہے وہی دوست کو دو“

اگر وہ چاہتا ہے تمہارے “مد“ کے “ جزو“ بھی دیکھے

“ تو اس کو اپنے دریا کی طغیانی بھی دیکھا دو -“

“اس لئے کہ وہ تمہارا دوست ہی کیا ہے جسے تم صرف اس لئے ڈھونڈتے رہو کہ اس کی صحبت میں تم اپنا خالی وقت گزار سکو - وہ ساعتیں جو تم پر گراں ہیں-“

“بلکہ دوست کو تو اس وقت ڈھونڈو جب تم بیداری عمل کا وقت گزارنا چاہو“

“اس لئے کہ دوست کا کام یہ ہے کہ وہ تمہارے تقاضوں اور تمہاری ضرورتوں کو پورا کرے“
“نہ یہ کہ تمہارے اوقات کے خالی کاسہ کو بھرا کرے !“

“اور دوستی کی حلاوت میں اپنے تبسم کو ملادو ، اور اپنی مسرتوں کو مشترک کرلو“

“اس لئے کہ جب زندگی کی معطر شبنم دل پر گرتی ہے- تب ہی اس کے دروازے کھلتے ہیں اور وہ تروتازہ ہوجاتا ہے“
 
“فلسفہ ء حُسن“

“تم حُُسن کو کہاں پاؤ گے اور کس طرح پاؤ گے؟“

“علاوہ اس کے یہ خود ہی تمہیں راستے میں مل جائے یا تمہاری رہنمائی کے لئے کوئی اشارہ کرے“

“ اور تم کس طرح اس کا ذکر زبان پر لا سکو گے؟ -“

“علاوہ یہ کہ وہ تمہاری ہی زبان سے گفتار کا چشمہ جاری کرے“

کچھ لوگ کہتے ہیں

“حُُسن مہربا ن ہے اور اس کی گرفت بہت نرم ہے“


“وہ آنکھیں نیچے کئے ہما رے درمیان سے گزرتا ہے“

اور بعض کہتے ہیں

“نہیں ، یہ طاقت کا ایک خوفناک دیوتا ہے“

“ایک طوفان کی طرح وہ ہمارے قدموں کے نیچے زمین کو اور ہمارے سروں کے اوپر آسمان کو ہلا دیتا ہے“

اور جو تھکے ہیں وہ کہتے ہیں

“حُُسن ایک مدھم آواز ہے ایک ہلکا راگ ہے جو ہما ری روح کے اندر آہستہ آہستہ ترنم پیدا کرتا ہے“

مگر جو لوگ بے چین ہیں اور اضرابِ ذوق میں مبتلا ،وہ کہتے ہیں

“ہم نے حسن کو پہاڑ کی وادیوں میں گرجتے سنا ہے-“

شب کے وقت بستی کے چوکیدار کہتے ہیں

“حُسن صبح کو مشرق سے بیدار ہوکر آئے گا“

اور دوپہر کے وقت کھیتوں کے مزدور اور راستوں پر مسافر کہتے ہیں

“ہم نے غروب آفتاب کے وقت، حسن کو آسمان کے دریچے سے زمین کی طرف جھانکتے دیکھا ہے“

تم لوگ کس کس عنوان کے تحت حسن کا ذکر کرتے ہو “

“ لیکن درحقیقت تم حسن کا ذکر ہی کب کرتے ہو ۔ ۔ ۔ ۔“

“تم تو محض اپنی ضرورتوں اور خوائشوں کا ذکر کرتے ہو جو پوری نہیں ہوئیں-“

مگر حسن ضرورت اور خوائش نہیں ہے“


“وہ صرف ایک کیف ہے۔ ۔ ۔ ۔ کیف اعلی-“


“وہ پیاسے کے خشک ہونٹ اور سائل کا پھیلا ہوا ہاتھ نہیں ہے-“

“بلکہ وہ دل ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔جوش طلب سے پُر- - - -“

“وہ ایک روح ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسحور!“


“نہ وہ کوئی مندر کی مورتی ہے جسے تم دیکھ سکو“

“نہ کوئی گیت جس کو تم سن سکو‘

“ بلکہ ایک نقش تصور ہے جس کو تم آنکھ بند کرکے دیکھ سکتے ہو“

“ایک راگ ہے جسے تم کان بند کرکے سن سکتے ہو‘

“ایک باغیچہ ہے-۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سدا بہار -“

“فرشتوں کی ایک سنگت ہے جو ہمیشہ فضا میں منڈلاتی رہتی ہے!

اے اہلِِ عرفہ! حُسن حیات ہے۔ ۔ ۔ یعنی جب وہ اپنا مقدس چہرہ بے نقاب کردے!“

مگر تم مظر حیات ہو۔ ۔ ۔ ۔اور تم ہی وہ نقاب ہو ، جو اس کے چہرے کو چھپائے ہوئے ہے“

“حُسن ابدالاباد ہے ،جو ہمیشہ اپنا عکس آئینہ حیات میں دیکھتا ہے-“

اور تم ہی حسن بد ہو اور تم ہی آئینہ حیات ہو“ُُ
 

"فلسفہ اسرار خودی"


"خاموشی اور سکون کی حالت میں تمہارا دل دن اور رات کے تمام رازوں سے واقف ہوسکتا ہے"
مگر تمہارے کان منتظر رہتے ہیں کہ تمھارے دل کا علم ان تک پہنچے-

"تم چاہتے ہو کہ وہ راز جو تمھارے دل میں واضح رہتا ہے-الفاظ کے پیکر میں تمھارے کانوں تک پہنچے-"




"تم چاہتے ہوکہ اپنے تصور کے عریاں جسم سے اپنی انگلیوں کو مس کرسکو"

"اور بہتر ہے ایسا ہی ہو"

"تمھاری روح کی گہرائی کا سرچشمہ ضرور ہے کہ لبریز ہو کر چھلکے"


"اور شور مچاتا ہوا سمندر کی طرف دوڑے-"


"تب سمندر کی بے پایاں گہرائی کے خزانے تمھاری آنکھوں کے سمانے روشن ہوجائیں گے"



"مگر نامعلوم خزانوں کو کسی ترازو میں تولنے کی کوشش نہ کرو"


"اور نہ علم کی گہرائی کو لکڑی اور ڈوری کے پیمانے سے ناپنے کی کوشش کرو"

"اس لئے کہ تمھارے وجود معنوی ایک مندر ہے-جوبےپایاں اور ناپید کنار ہے"

"یہ نہ کہو کہ تم نے حق کو پالیا ہے"

بلکہ صرف یہ کہو کہ میں راستہ چلتے چلتے ایک جگہ اپنی روح سے دوچار ہوا"


"اس لئے کہ روح کے راستے بہت ہیں"



اور وہ نہ ایک مقرر ہ راستے پر چلنے کے لئے مجبور ہے"



"نہ جنگل کے ایک پودے کی طرح پابند ہے"




"روح جب پھلتی اور پھولتی ہے تو اس طرح پھولتی ہے جس طرح ہزار پتیوں والا کنول"
 
" فلسفہ ء درد"

"تمھارا درد گویا اس صدت کے ٹوٹنے کی تکلیف ہے-جس کے اندر تمھارا فہم بند ہے"

وہ ایک حیات اعلی ولادت کا دروازہ ہے-

جس طرح ضرور ہے کہ ایک پھل کا سخت چھلکا ٹوٹے تاکہ اس کا مخز باہر آسکے-

"جس طرح ضروری ہے کہ شگوفے کا سینہ چاک ہوتاکہ پھول کی پتیاں باہر آسکیں-

"اسی طرح ضروری ہے کہ تم بھی اپنے صدف کے ٹوٹنے کا دکھ برداشت کرو-"

"اور اگر تمھارا دل اس قابل ہو کر زندگی کے روزانہ پیش آنے والے معجزوں کو دیکھ سکے-"

تو تمھارے لئے تمھارا دکھ تمھاری مسرتوں سے کچھ کم دل نواز نہ ہوگا-


"اور دل کی فضا کے ان موسموں کو تم اس طرح قبول کرلوگے-جس طرح تم اپنے کھیتوں کے لئے موسموں کا تغیر پسند کرتے ہو"-


"پس جب غم کا سخت اور تکلیف دہ موسم تم پر گزرے گا تو تم سنجیدگی اور استقامت کے ساتھ اپنی اس حالت کا مطالعہ کرو گے"۔

"اور تمھارا بہت سا دکھ تمھارا اپنا انتخاب ہے"

"اور در حقیقت ایک کڑوی دوا ہے جو تمھارے نفس خفی کے امراض کا علاج کرنے لئے تمھارا طبیب تمہیں پلاتا ہے"


" پس طبیب پر بھروسہ کرو ،اور اس کی دوا خاموشی اور سکون قلب کے ساتھ پی جاؤ"

(کلیات خلیل جبران)

(ص630-631)
 
فلسفہ ءایام حیات "خلیل جبران"

"فلسفہ بمتعلق "ایام حیات"

"تم چاہتے ہو اپنی زندگی کے وقت کو ناپ لو"


"حالانکہ وہ ناپا نہیں جاسکتا "

"تم چاہتے ہو وقت اور موسم کے متعلق اپنے عمل اور روح کا راستہ تجویز کرو-"

"تم سمجھتے ہو وقت ایک دریا ہے -جس کے کنا رے پر بیٹھ کر تم بہتے پانی کی سیر کر سکتے ہو"

"مگر تمھارے اندر ایک چیز ہے ۔ ۔ ۔ جس پر وقت کی پابندیاں عائد نہیں ہوتیں ۔ ۔ ۔ اس کو معلوم ہے کہ زندگی میں وقت اور ساعت کا کوئی حساب نہیں-"

"اور اس کو معلوم ہے کہ گزشتہ "کل" اور آج" کے اندر محض ایک نقش ماضی ہے ۔ ۔ ۔ بے اصل ۔ ۔ ۔ اور آئندہ "کل" "آج" کا ایک خواب ہے ۔ ۔ ۔ ۔ تصور فریب!

اور اسے معلوم ہے کہ تمھارے اندر جو شے نغمہ پیرا اور متفکر ہے، وہ ابھی اسی ساعت اول کی حدود میں مقیم ہے جس ساعت اول میں آسمان پر ستارے بکھیرے گئے تھے"
 
Top