مکمل کلام ن م راشد (دوم)

فرخ منظور

لائبریرین
گزرگاہ

وقت کے پابند ہاتھ
راہوں کا غمگیں جواب
سنتے رہے،
سبزے کے تشنہ سراب
رات کادیوانہ خواب
تکتے رہے،
جیسے وہ جاسوس ہوں
جن کاہدف
آنکھ سے اوجھل کوئی
آفتاب!

وعدے کی سردی کی رات
(وعدے کی بے مہررات)
کیسی ہوائیں چلیں
دیدہ ودل نے مرے
کیسے طمانچے سہے!
کیسے ہر اک چاپ سے
خون پہ ضربیں پڑیں
کیسے رگیں دردکے
راگ سے بوجھل رہیں!

آہ وہ زیبا کلام
کھل اٹھیں
جس کے لیے بارہا
روح کی شب ہائے تار
اورپگھلتے رہے
جس کے لیے
ہجر کی برفوں کے خواب
آہ دہ زیباکلام
دورکاسایہ رہا

اورمیں سوچاکیا
جینے کی خاطر مگر
رینگتے سایوں سے وابستہ رہوں؟
بات کے پل پرکھڑا
پیاس سے خستہ رہوں؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
اے سمندر

اے سمندر،
پیکر شب، جسم، آوازیں

رگوں میں دوڑتا پھرتا لہو
پتھروں پرسے گزرتے
رقص کی خاطر اذاں دیتے گئے
اورمیں، مرتے درختوں میں نہاں
سنتارہا۔۔۔۔
ان درختوں میں مرا اک ہاتھ
عہدِ رفتہ کے سینے پہ ہے
دوسرا، اک شہرِآیندہ میں ہے

جویائے راہ۔۔۔۔
شہر،جس میں آرزو کی مے انڈیلی جائے گی
زندگی سے رنگ کھیلا جائے گا!

اے سمندر،
آنے والے دن کویہ تشویش ہے
رات کا کابوس جو دن کے نکلتے ہی
ہوا ہو جائے گا
کون دے گا اس کے ژولیدہ سوالوں کا جواب؟
کس کرن کی نوک؟
کن پھولوں کا خواب؟

اے سمندر،
میں گنوں گا
دانہ دانہ تیرے آنسو
جن میں اک زخّارِ بے ہستی کا شور!
اے سمندر،
میں گنوں گا دانہ دانہ تیرے آنسو
جن میں آنے والاجشنِ وصل ناآسودہ ہے
جن میں فردائے عروسی کے لیے
کرنوں کے ہار

شہرآیندہ کی روحِ بے زماں
چنتی رہی۔۔۔۔
میں ہی دوں گا جشن میں دعوت تجھے
استراحت تیری لہروں کے سوا
کس شے میں ہے؟

رات اس ساحل پہ غرّاتے رہے
غم زدہ لمحات کے ترسے ہوئے کتوں کی نظریں
چاند پر پڑتی رہیں
ان کی عوعو دورتک لپکی رہی!

اے سمندر،
آج کیونکر،ابر کے اوراقِ کہنہ
بازوئے دیرینۂ امید پراڑتے ہوئے
دورسے لائے نرالی داستاں!
چاند کی ٹوٹی ہوئی کشتی کی بانہوں پر رواں!
شہرآیندہ کے دست و پا کے رنگ
۔۔۔ جیسے جاں دینے پہ سب آمادہ ہوں ۔۔۔
دست و پا میں جاگ اٹھے
راگ کے مانند،
میں بھی دست وپا میں جاگ اٹھا!

اے سمندر،
کل کے جشنِ نو کی موج
شہرآیندہ کی بینائی کی حد تک آگئی ۔۔۔
اب گھروں سے،
جن میں راندہ روز و شب کی
چاردیواری نہیں،
مرد و زن نکلیں گے
ہاتھوں میں اٹھائے برگ و بار
جن کوچھولینے سے لوٹ آئے گی رُوگرداں بہار!
اے سمندر۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
حسن کوزہ گر
(2)
اے جہاں زاد،
نشاط اس شبِ بے راہ روی کی
میں کہاں تک بھولوں؟
زور ِ مَے تھا، کہ مرے ہاتھ کی لرزشتھی
کہ اُس رات کوئی جام گرا ٹوٹ گیا ۔۔
تجھے حیرت نہ ہوئی!
کہ ترے گھر کے دریچوں کے کئی شیشوں پر
اس سے پہلے کی بھی درزیں تھیں بہت ۔۔۔
تجھے حیرت نہ ہوئی!
اے جہاں زاد، میں کوزوں کی طرف، اپنے تغاروں کی طرف
اب جو بغداد سے لوٹا ہوں،
تو مَیں سوچتا ہوں۔۔۔
سوچتا ہوں: تُو مرے سامنے آئینہ رہی
سرِ بازار، دریچے میں، سرِ بسترِ سنجاب کبھی
تو مرے سامنے آئینہ رہی،
جس میں کچھ بھی نظر آیا نہ مجھے
اپنی ہی صورت کے سوا
اپنی تنہائیِ جانکاہ کی دہشت کے سوا!
لکھ رہا ہوں تجھے خط
اور وہ آئینہ مرے ہاتھ میں ہے
اِس میں کچھ بھی نظر آتا نہیں
اب ایک ہی صورت کے سوا!
لکھ رہا ہوں تجھے خط
اور مجھے لکھنا بھی کہاں آتا ہے؟
لوحِ آئینہ پہ اشکوں کی پھواروں ہی سے
خط کیوں نہ لکھوں؟

اے جہاں زاد،
نشاط اس شبِ بے راہ روی کی
مجھے پھر لائے گی؟
وقت کیا چیز ہے تو جانتی ہے؟
وقت اِک ایسا پتنگا ہے
جو دیواروں پہ آئینوں پہ،
پیمانوں پہ شیشوں پہ،
مرے جام و سبو، میرے تغاروں پہ
سدا رینگتا ہے
رینگتے وقت کے مانند کبھی
لوٹ کے آئے گا حَسَن کوزہ گرِ سوختہ جاں بھی شاید!

اب جو لوٹا ہوں جہاں زاد،
تو میں سوچتا ہوں:
شاید اس جھونپڑے کی چھت پہ یہ مکڑی مری محرومی کی
جسے تنتی چلی جاتی ہے، وہ جالا تو نہیں ہوں مَیں بھی
یہ سیہ جھونپڑا مَیں جس میں پڑا سوچتا ہوں
میرے افلاس کے روندے ہوئے اجداد کی
بس ایک نشانی ہے یہی
ان کے فن، ان کی معیشت کی کہانی ہے یہی
مَیں جو لوٹا ہوں تو وہ سوختہ بخت
آکے مجھے دیکھتی ہے
دیر تک دیکھتی رہ جاتی ہے
میرے اس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں۔۔
کھیل اِک سادہ محبّت کا
شب و روز کے اِس بڑھتے ہوئے کھوکھلے پن میں جو کبھی
کھیلتے ہیں
کبھی رو لیتے ہیں مل کر، کبھی گا لیتے ہیں،
اور مل کر کبھی ہنس لیتے ہیں
دل کے جینے کے بہانے کے سوا اور نہیں ۔۔
حرف سرحد ہیں، جہاں زاد، معانی سرحد
عشق سرحد ہے، جوانی سرحد
اشک سرحد ہیں، تبسّم کی روانی سرحد
دل کے جینے کے بہانے کے سوا اور نہیں۔۔۔
(دردِ محرومی کی،
تنہائی کی سرحد بھی کہیں ہے کہ نہیں؟)

میرے اِس جھونپڑے میں
کتنی ہی خوشبوئیں ہیں
جو مرے گرد سدا رینگتی ہیں
اسی اِک رات کی خوشبو کی طرح رینگتی ہیں۔۔
در و دیوار سے لپٹی ہوئی اِس گرد کی خوشبو بھی ہے
میرے افلاس کی، تنہائی کی،
یادوں کی، تمنّاؤں کی خوشبو ئیں بھی،
پھر بھی اِس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں۔۔۔
یہ مرا جھونپڑا تاریک ہے، گندہ ہے، پراگندہ ہے
ہاں، کبھی دور درختوں سے پرندوں کی صدا آتی ہے
کبھی انجیروں کے، زیتونوں کے باغوں کی مہک آتی ہے
تو مَیں جی اٹھتا ہوں
تو مَیں کہتا ہوں کہ لو آج نہا کر نکلا!
ورنہ اِس گھر میں کوئی سیج نہیں، عطر نہیں ہے،
کوئی پنکھا بھی نہیں،
تجھے جس عشق کی خو ہے
مجھے اس عشق کا یارا بھی نہیں!

تو ہنسے گی، اے جہاں زاد، عجب بات
کہ جذبات کا حاتم بھی مَیں
اور اشیا کا پرستار بھی مَیں
اور ثروت جو نہیں اس کا طلب گار بھی مَیں!
تو جو ہنستی رہی اس رات تذبذب پہ مرے
میری دو رنگی پہ پھر سے ہنس دے!
عشق سے کس نے مگر پایا ہے کچھ اپنے سوا؟
اے جہاں زاد،
ہے ہر عشق سوال ایسا کہ عاشق کے سوا
اس کا نہیں کوئی جواب
یہی کافی ہے کہ باطن کی صدا گونج اٹھے!

اے جہاں زاد
مرے گوشۂ باطن کی صدا ہی تھی
مرے فن کی ٹھٹھرتی ہوئی صدیوں
کے کنارے گونجی
تیری آنکھوں کے سمندر کا کنارا ہی تھا
صدیوں کا کنارا نکلا
یہ سمندر جو مری ذات کا آئینہ ہے
یہ سمندر جو مرے کوزوں کے بگڑے ہوئے،
بنتے ہوئے سیماؤں کا آئینہ ہے
یہ سمندر جو ہر اِک فن کا
ہر اِک فن کے پرستار کا
آئینہ ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
سمندر کی تہہ میں

سمندر کی تہہ میں
سمندر کی سنگین تہہ میں
ہے صندوق ۔۔۔
صندوق میں ایک ڈبیا میں ڈبیا
میں ڈبیا۔۔۔
میں کتنے معانی کی صُبحیں ۔۔۔
وہ صُبحیں کہ جن پر رسالت کے دَر بند
اپنی شعاعوں میں جکڑی ہوئی
کتنی سہمی ہوئی !
(یہ صندوق کیوں کر گِرا؟
نہ جانے کِسی نے چُرایا؟
ہمارے ہی ہاتھوں سے پِھسلا؟
پِھسل کر گِرا؟
سمندر کی تہہ میں مگر کب؟
ہمیشہ سے پہلے
ہمیشہ سے بھی سالہا سال پہلے؟)
اور اب تک ہے صندوق کے گِرد
لفظوں کی راتوں کا پہرا
جو دیووں کی مانند ۔۔۔۔
پانی کے لسدار دیووں کے مانند !
یہ لفظوں کی راتیں
سمندر کی تہہ میں تو بستی نہیں ہیں
مگر اپنے لاریب پہرے کی خاطر
وہیں رینگتی ہیں
شب و روز
صندوق کے چار سوُ رینگتی ہیں
سمندر کی تہہ میں !
بہت سوچتا ہوُں
کبھی یہ معانی کی پاکیزہ صبحوں کی پریاں
رہائی کی اُمید میں
اپنے غوّاص جادوُگروں کی
صدائیں سُنیں گی؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
سفرنامہ

اُسے ضد کہ نُور کے ناشتے میں
شریک ہوں!
ہمیں خوف تھا سحرِ ازل
کہ وہ خود پرست نہ روک لے
ہمیں اپنی راہِ دراز سے
کہیں کامرانیِ نَو کے عیش و سُرور میں
ہمیں روک لے
نہ خلا کے پہلے جہاز سے
جو زمیں کی سمت رحیل تھا!

ہمیں یہ خبر تھی بیان و حرف کی خُو اُسے
ہمیں یہ خبر تھی کہ اپنی صوتِ گلو اُسے
ہے ہر ایک شے سے عزیز تر
ہمیں اور کتنے ہی کام تھے (تمہیں یاد ہے؟)
ابھی پاسپورٹ لیے نہ تھے
ابھی ریزگاری کا انتظار تھا
سوٹ کیس بھی ہم نے بند کیے نہ تھے
اُسے ضد کہ نُور کے ناشتے میں شریک ہوں!
وہ تمام ناشتہ
اپنے آپ کی گفتگو میں لگا رہا
"ہے مجھے زمیں کے لیے خلیفہ کی جستجو
کوئی نیک خُو
جو مرا ہی عکس ہو ہُو بہُو!"
تو امیدواروں کے نام ہم نے لکھا دیے
اور اپنا نام بھی ساتھ اُن کے بڑھا دیا!
"مری آرزو ہے شجر ہجر
مری راہ میں شب و روز
سجدہ گزار ہوں۔۔۔
مری آرزو ہے کہ خشک و تر
مری آرزو میں نزاز ہوں ۔۔۔
مری آرزو ہے کہ خیر و شر
مرے آستاں پہ نثار ہوں
مری آرزو۔۔۔ مری آرزو ۔۔۔"
شجر و حجر تھے نہ خشک و تر
نہ ہمیں مستیِ خیر و شر
ہمیں کیا خبر؟
تو تمام ناشتہ چپ رہے
وہ جو گفتگو کا دھنی تھا
آپ ہی گفتگو میں لگا رہا!
بڑی بھاگ دوڑ میں
ہم جہاز پکڑ سکے
اسی انتشار میں کتنی چیزیں
ہماری عرش پہ رہ گئیں
وہ تمام عشق۔۔۔ وہ حوصلے
وہ مسرّتیں۔۔ وہ تمام خواب
جو سوٹ کیسوں میں بند تھے!
 

فرخ منظور

لائبریرین
"آپ" کے چہرے

"آپ" ہم جس کے قصیدہ خواں ہیں
وصل البتّہ و لیکن کے سوا
اور نہیں
"آپ" ہم مرثیہ خواں ہیں جس کے
ہجر البتّہ و لیکن کے سوا
اور نہیں
"آپ" دو چہروں کی ناگن کے سوا اور نہیں!

روز "البتّہ" مرے ساتھ
پرندوں کی سحر جاگتے ارمانوں
کے بستر سے اٹھا
سیر کی، غسل کیا
اور مرے ساتھ ہی صبحانہ کیا،
بے سرے گیت بھی گائے ۔۔۔

یونہی "لیکن" بھی مرے ساتھ
کسی بوڑھے جہاں گرد کے مانند
لڑھکتا رہا، لنگڑاتا رہا ۔۔۔
شام ہوتے ہی وہ ان خوف کے پتلوں کی طرح
جو زمانے سے، کسی شہر میں مدفون چلے آتے ہوں
ناگہاں نیندوں کی الماری میں پھر ڈھیر ہوئے
ان کے خرّانٹوں نے شب بھی مجھے سونے نہ دیا ۔۔۔
"آپ" البتّہ و لیکن کے سوا اور نہیں!

بارہا ایک ہی وہ چہرہ ۔۔۔۔ وہ "البتّہ"
جسے جانتے ہو
دن کی بیہودہ تگ و تاز میں،
یا شور کے ہنگام من و توئی میں
نوحہ گر ہوتا ہے "لیکن" پہ کہ موجود نہیں

بارہا ایک ہی وہ چہرہ ۔۔۔۔۔ وہ "لیکن"
جسے پہچانتے ہو
اپنے سنّاٹے کے بالینوں پر
اپنی تنہائی کے آئینوں میں
آپ ہی جھولتا ہے
قہقہے چیختا ہے
اپنے البتہ کی حالت پہ کہ موجود نہیں ۔۔۔۔

آؤ، البتّہ و لیکن کو
کہیں ڈھونڈ نکالیں پھر سے
ان کے بستر پہ نئے پھول بچھائیں
جب وہ وصل پہ آمادہ نظر آئیں
تو (ہم آپ) کسی گوشے میں چپ چاپ سرک جائیں!
 

فرخ منظور

لائبریرین
مریل گدھے

تلاش۔۔۔ کہنہ، گرسنہ پیکر
برہنہ، آوارہ، رہگزاروں میں پھرنے والی
تلاش۔۔۔ ۔ مریل گدھے کے مانند
کس دریچے سے آ لگی ہے؟
غموں کے برفان میں بھٹک کر
تلاش زخمی ہے
رات کے دل پر اُس کی دستک
بہت ہی بے جان پڑ رہی ہے
(گدھے بہت ہیں کہ جن کی آنکھوں
میں برف کے گالے لرز رہے ہیں)
ہوا کے ہاتھوں میں تازیانہ
تمام عشقوں کو راستے سے
(تلاش کو بھی)
بھگا رہی ہے
(تلاش کو عشق کہہ رہی ہے!)

یہ رات ایسی ہے
حرف جس میں لبوں سے نکلیں
تو برف بن کر،
وہ برف پارے کہ جن کے اندر
ہزار پتھرائی، ہجر راتیں،
ہزار پتھرائی ہجر راتوں کے بکھرے پنجر
دبے ہوئے ہوں۔۔۔ ۔۔۔
تلاش کیا کہہ رہی ہے؟
(دیکھو، مری کہانی میں رات کے تین بج چکے ہیں
اگر میں بے وزن ہو چکی ہوں۔۔۔ ۔
اگر میں مریل گدھا ہوں
مجھ کو معاف کر دو۔۔۔ ۔)
تلاش ہی وہ ازل سے بوڑھا گدھا نہیں ہے
دھکیل کر جس کو برف گالے
گھروں کے دیوار و در کے نیچے
لِٹا رہے ہیں۔۔۔ ۔۔

گدھے بہت ہیں جہاں میں: (ماضی سے آنے والے
جہاز کا انتظار مثلاً ۔۔۔۔)
(اور ایسے مثلاً میں ثائے ساکن!)
یہ اجتماعی حکایتیں، ایّتیں، کشاکش،
یہ داڑھیوں کا، یہ گیسوؤں کا ہجوم مثلاً۔۔۔ ۔
یہ الوؤں کی، گدھوں کی عفت پہ نکتہ چینی۔۔۔ ۔۔
یہ بے سرے راگ ناقدوں کے۔۔۔ ۔۔۔
یہ بے یقینی۔۔۔ ۔۔
یہ ننگی رانیں، یہ عشق بازی کی دھوم مثلاً۔۔۔ ۔۔
تمام مریل گدھے ہیں۔۔۔ ۔
(مریل گدھے نہیں کیا؟)

دریچہ کھولو
کہ برف کی لے
نئے توانا گدھوں کی آواز
ساتھ لائے
تمہاری روحوں کے چیتھڑوں کو سفید کر دے!
 

فرخ منظور

لائبریرین
میں کیا کہہ رہا تھا؟

میں تنہائی میں کر رہا تھا
پرندوں سے باتیں ۔۔۔
میں یہ کہہ رہا تھا:
"پرندو، نئی حمد گاؤ
کہ وہ بول جو اک زمانے میں
بھونروں کی بانہوں پہ اڑتے ہوئے
باغ کے آخری موسموں تک پہنچتے تھے
اب راستوں میں جھلسنے لگے ہیں
نئی حمد گاؤ!"
پرندے، لگاتار، لیکن ۔۔۔
پرندے ہمیشہ سے اپنے ہی عاشق ۔۔۔
سراسر وہی آسماں چیختے تھے!

میں یہ کہہ رہا تھا
"گنہ گار دل!
کون جانے کہ کس ہاتھ نے
ہمیں اپنی یادوں کی لمبی قطاروں
کی زنجیر میں
کب سے بے دست و پا کر دیا ہے؟
وہ ماضی، کبھی ہانپتے تھے
جو گھوڑوں کے مانند
اب نافراموش گاڑی کے صحنوں میں
لنگڑا رہے ہیں!"

میں یہ کہہ رہا تھا:
"مرے عشق کے سامنے
جنتری کے ورق
اب زیادہ نہ پلٹو
کہ یہ آئنوں کے طلسموں کی مانند
تاریخ کو بارہا رٹ چکی ہے،
مگر دل کا تنہا پیمبر
کبھی اپنی تکرار کا ہمہمہ گائے
ممکن نہیں ۔۔۔۔
کبھی اپنی ہی گونج بن جائے
ممکن نہیں ۔۔۔
وہی میرے دل کا پیمبر
کہ جس نے دیا ایسا روشن کیا
کہ راتوں کی نیندیں اچٹنے لگیں
وہ خود کو الٹ کر پلٹ کر پرکھنے لگیں ۔۔۔"

میں یہ کہہ رہا تھا:
"سناتی ہیں جب شہر میں بلّیاں
اپنی جفتی کی معصوم باتیں
تو جنگل کے ہاتھی (مقدس درختوں
کے ریشوں میں الجھے ہوئے)
کیوں اگلتے ہیں دن رات
آیات کی فربہی
کہ ان بلیوں کے گنہ گار، معصوم دل
سہم جائیں؟"

میں یہ کہہ رہا تھا:
"درختو، ہواؤں کو تم کھیل جانو۔۔۔
تو جانو ۔۔۔
مگر ہم ۔۔ نہیں جانتے بوڑھے سبزے
کی دعوت کو جاتے ہوئے
ذہن کی رہگزاروں میں کیسے
نئے دن کی دزدیدہ آہٹ کبھی سن سکیں گے؟
نہیں صرف پتھر ہی بے غم ہے پتھر کی ناتشنگی پر!
درختو، ہوا کتنی تیزی سے گزری
تمہارے برہنہ بدن سے
کہ اس میں روایات
سرگوشیاں کر رہی تھیں
درختو، بھلا کس لیے نام اپنا
کئی بار دہرا رہے ہو؟
یہ شیشم، یہ شم شی، یہ شی شی ی ی ی ۔۔۔
مگر تم کبھی شی ی ی ر ۔۔۔ بھی کہہ سکو گے؟"
میں یہ کہہ رہا تھا ۔۔۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
نیا ناچ

میں کھڑا ہوں کئی صدیوں سے
کسی سوکھے ہوئے خوشۂ گندم کے تلے
(صبح جس کی سرِّ آدم سے ہوئی)
اے خدا، اپنی سیہ آنکھوں کے سیلاب
سے پھر دھو ڈال مجھے
کہ میں پھر آگے بڑھوں ۔۔

اِس سے پہلے کہ ترے گیسوؤں کی تاب
پہ جم جائے اساطیر کی گرد
اِس سے پہلے کہ نگل جائے
تجھے اپنا ہی درد
اے خدا، پھر سے انڈیل
میرے اِس خالی پیالے میں
گناہوں کی شراب
تاکہ ایمان کے آنکھوں سے نہاں باغوں میں
انہی لونگوں کے شگوفوں کا وہ غوغا ابھرے
انہی ریحانوں کی خوشبوؤں کا بلوا پھوٹے
ابتدا جس کی کبھی
بسترِ آدم سے ہوئی

میں کھڑا ہوں کئی صدیوں سے خُدا،
اور مرے ہاتھوں کی گہرائی سے
پھر مہ و سال کی فریاد سنائی دی ہے
یہی فریاد سنی تھی
کہ انھی ہاتھوں کی دارائی سے
میں نے الفاظ کی ۔۔ احباب کی ۔۔
اِک بزم سجا ڈالی تھی
جو بہت بڑھتی گئی۔۔ بڑھتی گئی۔۔
بڑھتی چلی جائے گی ۔۔
کیسی اِک بزم سجا ڈالی تھی!
اے خدا، تُو بھی ذرا
اپنے گِل و لا سے اٹے جوتے اتار
اور اِس بزم میں آ
تاکہ الفاظ ۔۔ یہ احباب ۔۔
جو چوہوں کی طرح ہاتھ نہیں آتے ہیں
پھر ترے پاؤں کی ہر تاپ کے ساتھ
۔۔ اپنے مہجور معانی سے بغل گیر
نیا ناچ رچائیں ۔۔
نیا ناچ رچائیں!
 

فرخ منظور

لائبریرین
یارانِ سرِ پُل

انہونیوں کے خواب سے
انہونیوں کے مرحلۂ ناب سے،
جاگے ہوئے کچھ لوگ
اب ہونیوں کے پل پہ کھڑے کانپتے ہیں،
کندھوں پہ اٹھائے ہوئے نعروں کے بیاباں۔۔۔۔
اک گونج ابھی ان کے تعاقب میں ہے
یہ جس سے ہیں ہردم لرزاں۔۔۔۔
(کیایہ ہے سزاان کی
جوزیبائی کو،
یانورکو
یاہست کی دارائی کو
(برباد کریں؟)

ہم کیسے سزایافتہ ہیں!
ان لوگوں میں اک میں بھی ہوں
میں ان کے سواکچھ بھی نہیں ہوں
ٹوٹے ہوئے اِس پُل سے لگے دوستو
ہم کیسے سزایافتہ ہیں!

ہاں، آؤکہ پھر
حافظے کے بجھتے الاؤ میں تلاشیں
وہ زخم کہ جو رِس نہ سکے تھے
پھر پل کے کٹہرے سے لگے
اپنے گناہوں کی صدائیں ناپیں

دریاکی سیہ جھاگ میں
دیکھی تھیں کبھی تیرتی لاشیں
اب اپنے وجودوں کے حبابوں کوبکھرتاپائیں۔۔۔۔
ہم کیسے سزا یافتہ ہیں!

اے پُل سے لگے دوستو
تم ہرزہ سرائی کی بلندی سے چھلانگے تھے
مگرحیف،
کھل پائے نہ صرصرمیں تمہارے چھاتے
(بے چارگیِ برگ جوآغوشِ ہوامیں رہ جائے!)
اتنا نہ ہوا اپنی خبر ہی لاتے!
ہم چپ ہیں، مگر
لفظ ہمیں بول رہے ہیں۔۔۔۔
الفاظ یہ کہتے ہیں:
"سرابوں کی تپش پیتے رہے ہو
شبنم کی ہوس جیتے رہے ہو
صحراہی کواب شبنموں کے خواب دکھاؤ!

مانا کہ کسی نے وہ تنا پھینکاہے پل پر
گم جس سے ہے آیندہ کا پرتو ہم سے
پھیلے ہوئے لمحوں میں الجھ جانے کاڈر ہے ۔۔۔۔۔
(اک وقت ہے لیکن
جوابھی زندہ ہے
سایوں کی طرح مردہ نہیں ہے)
ہاں لفظ ہمیں بول رہے ہیں
گزری ہوئی تاریخیں کبھی یاد دلاتے ہیں
کبھی راہ میں ٹھہرے ہوئے
سب نقطے لکیریں

یہ لفظ ہیں اس وقت کے بارے میں یہی جانتے ہیں
جوایک ہے اورجس کاکوئی نام نہیں ہے!

خورشید کہ نومید تھا
گھرلوٹ گیاتھا
اب اپنے طلوعوں کی ذکاوت کو
(کہ جس سے ہیں سیہ بات
ہمارے چہرے)
پھر ہم سے چھپا لے، نہیں
یہ ہونہیں سکتا!

اے دوستو!
اب آؤ کہ اس پل پہ کھڑے
پاؤں میں بے مہری کی زنجیریں
کہیں سخت نہ ہوجائیں!
بس آؤ
کہ پھرشہرکولوٹیں
کہتے ہیں کہ ہرشعر وہیں نغمہ وہیں ہے
انہونیاں پھرراستہ کاٹیں، نہیں
یہ ہونہیں سکتا!

اے شہر!ہم آئے
فانوس کے، میلوں کے
جواں میوہ فروشوں کے
جواں شہر
اے ہست کے صحنوں میں
نئے سجدہ گزاروں کے
جہاں شہر
اے میری اذاں شہر!
 

فرخ منظور

لائبریرین
مجھے وداع کر

مجھے وداع کر
اے میری ذات، پھر مجھے وداع کر
وہ لوگ کیا کہیں گے، میری ذات،
لوگ جو ہزار سال سے
مرے کلام کو ترس گئے؟

مجھے وداع کر،
میں تیرے ساتھ
اپنے آپ کے سیاہ غار میں
بہت پناہ لے چُکا
میں اپنے ہاتھ پاؤں
دل کی آگ میں تپا چکا!

مجھے وداع کر
کہ آب و گِل کے آنسوؤں
کی بے صدائی سُن سکوں
حیات و مرگ کا سلامِ روستائی سن سکوں!
میں روز و شب کے دست و پا کی نارسائی سُن سکوں!

مجھے وداع کر
بہت ہی دیر _____ دیر جیسی دیر ہوگئی ہے
کہ اب گھڑی میں بیسویں صدی کی رات بج چُکی ہے
شجر حجر وہ جانور وہ طائرانِ خستہ پر
ہزار سال سے جو نیچے ہال میں زمین پر
مکالمے میں جمع ہیں
وہ کیا کہیں گے؟ میں خداؤں کی طرح _____
ازل کے بے وفاؤں کی طرح
پھر اپنے عہدِ ہمدمی سے پھر گیا؟
مجھے وداع کر، اے میری ذات

تو اپنے روزنوں کے پاس آکے دیکھ لے
کہ ذہنِ ناتمام کی مساحتوں میں پھر
ہر اس کی خزاں کے برگِ خشک یوں بکھر گئے
کہ جیسے شہرِ ہست میں
یہ نیستی کی گرد کی پکار ہوں ____
لہو کی دلدلوں میں
حادثوں کے زمہریر اُتر گئے!
تو اپنے روزنوں کے پاس آکے دیکھ لے
کہ مشرقی افق پہ عارفوں کے خواب ____
خوابِ قہوہ رنگ میں _____
امید کا گزر نہیں
کہ مغربی افق پہ مرگِ رنگ و نور پر
کِسی کی آنکھ تر نہیں!

مجھے وداع کر
مگر نہ اپنے زینوں سے اُتر
کہ زینے جل رہے ہیں بے ہشی کی آگ میں ____
مجھے وداع کر، مگر نہ سانس لے
کہ رہبرانِ نو
تری صدا کے سہم سے دبک نہ جائیں
کہ تُو سدا رسالتوں کا بار اُن پہ ڈالتی رہی
یہ بار اُن کا ہول ہے!
وہ دیکھ، روشنی کے دوسری طرف
خیال ____ کاغذوں کی بالیاں بنے ہوئے
حروف۔۔۔ بھاگتے ہوئے
تمام اپنے آپ ہی کو چاٹتے ہوئے!
جہاں زمانہ تیز تیز گامزن
وہیں یہ سب زمانہ باز
اپنے کھیل میں مگن
جہاں یہ بام و دَر لپک رہے ہیں
بارشوں کے سمت
آرزو کی تشنگی لیے
وہیں گماں کے فاصلے ہیں راہزن!

مجھے وداع کر
کہ شہر کی فصیل کے تمام در ہیں وا ابھی
کہیں وہ لوگ سو نہ جائیں
بوریوں میں ریت کی طرح _____
مجھے اے میرے ذات،
اپنے آپ سے نکل کے جانے دے
کہ اس زباں بریدہ کی پکار ____ اِس کی ہاو ہُو ___
گلی گلی سنائی دے
کہ شہرِ نو کے لوگ جانتے ہیں
(کاسۂ گرسنگی لیے)
کہ اُن کے آب و نان کی جھلک ہے کون؟
مَیں اُن کے تشنہ باغچوں میں
اپنے وقت کے دُھلائے ہاتھ سے
نئے درخت اگاؤں گا
میَں اُن کے سیم و زر سے ____ اُن کے جسم و جاں سے ____
کولتار کی تہیں ہٹاؤں گا
تمام سنگ پارہ ہائے برف
اُن کے آستاں سے مَیں اٹھاؤں گا
انہی سے شہرِ نو کے راستے تمام بند ہیں ____

مجھے وداع کر،
کہ اپنے آپ میں
مَیں اتنے خواب جی چکا
کہ حوصلہ نہیں
مَیں اتنی بار اپنے زخم آپ سی چُکا
کہ حوصلہ نہیں _____
 

فرخ منظور

لائبریرین
آ لگی ہے ریت

آ لگی ہے ریت دیواروں کے ساتھ
سارے دروازوں کے ساتھ
سرخ اینٹوں کی چھتوں پر رینگتی ہے
نیلی نیلی کھڑکیوں سے جھانکتی ہے
ریت ۔۔ رُک جا
کھیل تہ کر لیں
سنہرے تاش کے پتّوں سے
درزوں، روزنوں کو بند کر لیں

ریت
رُک جا
سست برساتیں کہ جن پر دوڑپڑنا،
جن کو دانتوں میں چبا لینا
کوئی مشکل نہ تھا
تُو نے وہ ساری نگل ڈالی ہیں رات ۔۔
رات ہم ہنستے رہے، اے ریت
تو دیوانی بلّی تھی جو اپنی دم کے پیچھے
گھومتی جاتی تھی
اس کو چاٹتی جاتی تھی رات!

ریت کی اِک عمر ہے اِک وقت ہے
لیکن ہمیں
خود سے جدا کرتی چلی جاتی ہےریت
ناگہاں ہم سب پہ چھا جانے کی خاطر
یہ ہماری موت بن کر تازہ کر دیتی ہے
یادیں دُور کی (یا دیر کی)
ریت کو مٹھی میں لے کر دیکھتے ہیں
اپنے پوروں سے اِسے چھنتے ہوئے
ہم دیکھتے ہیں
اپنے پاؤں میں پھسلتے دیکھتے ہیں
ریت پر چلتے ہوئے
اپنے گیسو اِس سے اٹ جاتے ہیں
بھر جاتے ہیں پیراہن
ہمارے باطنوں کو چیرتی جاتی ہے ریت
پھیلتی جاتی ہے جسم و جاں کے ہر سُو
ہم پہ گھیرا ڈالتی جاتی ہے
ریت!

ریت اِک مثبت نفی تھی
ریت سرحد تھی کبھی
ریت عارف کی اذیّت کا بدل تھی
آنسوؤں کی غم کی پہنائی تھی ریت
اپنی جویائی تھی ریت
ریت میں "ہر کس" تھے ہم
دوسرا کوئی نہ تھا

ریت وہ دنیا تھی جس پر
دشمنوں کی مہر لگ سکتی نہ تھی
اِس کو اپنا تک کوئی سکتا نہ تھا ۔۔۔
ریت پر ہم سن رہے ہیں آج
پیرانہ سری کی، اپنی تنہائی
کی چاپ

دن کے ساحل پر اتر کر
آنے ولی رات کے تودے لگاتی جارہی ہے
ناگہاں کے بے نہایت کو اڑا لائی ہے
ریت
دِل کے سونے پن میں در آئی ہے
ریت!
 

فرخ منظور

لائبریرین
حَسَن کوزہ گر (٣)

جہاں زاد،
وہ حلب کی کارواں سرا کا حوض، رات وہ سکوت
جس میں ایک دوسرے سے ہم کنار تیرتے رہے
محیط جس طرح ہو دائرے کے گرد حلقہ زن
تمام رات تیرتے رہے تھے ہم
ہم ایک دوسرے کے جسم و جاں سے لگ کے
تیرتے رہے تھے ایک شاد کام خوف سے
کہ جیسے پانی آنسوؤں میں تیرتا رہے

ہم ایک دوسرے سے مطمئن زوالِ عمر کے خلاف
تیَرتے رہے
تو کہہ اٹھی؛ “حَسَن یہاں بھی کھینچ لائی
جاں کی تشنگی تجھے!“
(لو اپنی جاں کی تشنگی کو یاد کر رہا تھا مَیں
کہ میرا حلق آنسوؤں کی بے بہا سخاوتوں
سے شاد کام ہو گیا!)
مگر یہ وہم دل میں تَیرنے لگا کہ ہو نہ ہو
مرا بدن کہیں حلب کے حوض ہی میں رہ گیا ۔۔۔
نہیں، مجھے دوئی کا واہمہ نہیں
کہ اب بھی ربطِ جسم و جاں کا اعتبار ہے مجھے
یہی وہ اعتبار تھا
کہ جس نے مجھ کو آپ میں سمو دیا ___
مَیں سب سے پہلے “آپ“ ہُوں
اگر ہمیں ہوں ___ تُو ہو اور مَیں ہوں ___ پھر بھی مَیں
ہر ایک شے سے پہلے آپ ہوں!
اگر مَیں زندہ ہوں تو کیسے “آپ“ سے دغا کروں؟
کہ تیری جیسی عورتیں، جہاں زاد،
ایسی الجھنیں ہیں
جن کو آج تک کوئی نہیں “سلجھ“ سکا
جو مَیں کہوں کہ مَیں “سلجھ“ سکا تو سر بسر
فریب اپنے آپ سے!
کہ عورتوں کی ساخت ہے وہ طنز اپنے آپ پر
جواب جس کا ہم نہیں ____

(لبیب کون ہے؟ تمام رات جس کا ذکر
تیرے لب پہ تھا ____
وہ کون تیرے گیسوؤں کو کھینچتا رہا
لبوں کو نوچتا رہا
جو مَیں کبھی نہ کر سکا
نہیں یہ سچ ہے ____میں ہوں یا لبیب ہو
رقیب ہو تو کس لیے تری خود آگہی کی بے ریا نشاطِ ناب کا
جو صدا نوا و یک نوا خرام ِ صبح کی طرح
لبیب ہر نوائے سازگار کی نفی سہی!)
مگر ہمارا رابطہ وصالِ آب و گِل نہیں، نہ تھا کبھی
وجودِ آدمی سے آب و گِل سدا بروں رہے
نہ ہر وصالِ آب و گِل سے کوئی جام یا سبو ہی بن سکا
جو اِن کا ایک واہمہ ہی بن سکے تو بن سکے!

جہاں زاد،
ایک تو اور ایک وہ اور ایک مَیں
یہ تین زاویے کسی مثلثِ قدیم کے
ہمیشہ گھومتے رہے
کہ جیسے میرا چاک گھومتا رہا
مگر نہ اپنے آپ کا کوئی سراغ پا سکے ____
مثلثِ قدیم کو مَیں توڑ دوں، جو تو کہے، مگر نہیں
جو سحر مجھ پہ چاک کا وہی ہے اِس مثلثِ قدیم کا
نگاہیں میرے چاک کی جو مجھ کو دیکھتی ہیں
گھومتے ہوئے
سبو و جام پر ترا بدن، ترا ہی رنگ، تیری نازکی
برس پڑی
وہ کیمیا گری ترے جمال کی برس پڑی
مَیں سَیل ِ نُور ِ اندروں سے دھُل گیا!
مرے دروں کی خلق یوں گلی گلی نکل پڑی
کہ جیسے صبح کی اذاں سنائی دی!
تمام کوزے بنتے بنتے “تُو“ ہی بن کے رہ گئے
نشاط اِس وصالِ رہ گزر کی ناگہاں مجھے نگل گئی ___
یہی پیالہ و صراحی و سبو کا مرحلہ ہے وہ
کہ جب خمیر ِ آب و گِل سے وہ جدا ہوئے
تو اُن کو سمتِ راہِ نَو کی کامرانیاں ملیں ____
(مَیں اک غریب کوزہ گر
یہ انتہائے معرفت
یہ ہر پیالہ و صراحی و سبو کی انتہائے معرفت
مجھے ہو اس کی کیا خبرِ؟)

جہاں زاد،
انتظار آج بھی مجھے ہی کیوں وہی مگر
جو نو برس کے دور ِ نا سزا میں تھا؟

اب انتظار آنسوؤں کے دجلہ کا
نہ گمرہی کی رات کا
(شبِ گُنہ کی لذّتوں کا اتنا ذکر کر چکا
وہ خود گناہ بن گئیں!)
حلب کی کارواں سرا کے حوض کا، نہ موت کا
نہ اپنی اس شکست خوردہ ذات کا
اِک انتظار ِ بے زماں کا تار ہے بندھا ہوا!
کبھی جو چند ثانیے زمانِ بے زماں میں آکے رک گئے
تو وقت کا یہ بار میرے سر سے بھی اُتر گیا
تمام رفتہ و گزشتہ صورتوں، تمام حادثوں
کے سست قافلے

مِرے دروں میں جاگ اُٹھے
مرے دروں میں اِک جہانِ بازیافتہ کی ریل پیل جاگ اُٹھی
بہشت جیسے جاگ اٹھے خدا کے لا شعور میں!
مَیں جاگ اٹھا غنودگی کی ریت پر پڑا ہُوا
غنودگی کی ریت پر پڑے ہوئے وہ کوزے جو
___مرے وجود سے بروں____
تمام ریزہ ریزہ ہو کے رہ گئے تھے
میرے اپنے آپ سے فراق میں،
وہ پھر سے ایک کُل بنے (کسی نوائے ساز گار کی طرح)
وہ پھر سے ایک رقص ِ بے زماں بنے
وہ رویتِ ازل بنے!
 

فرخ منظور

لائبریرین
اندھا کباڑی

شہر کے گوشوں میں ہیں بکھرے ہوئے
پا شکستہ سر بُریدہ خواب
جن سے شہر والے بے خبر!

گھومتا ہوں شہر کے گوشوں میں روز و شب
کہ ان کو جمع کر لوں
دل کی بھٹی میں تپاؤں
جس سے چُھٹ جائے پرانا میل
ان کے دست و پا پھر سے ابھر آئیں
چمک اٹھیں لب و رخسار و گردن
جیسے نو آراستہ دولھوں کے دل کی حسرتیں
پھر سے ان خوابوں کو سمتِ رہ ملے!

"خواب لے لو خواب ۔۔۔۔"
صبح ہوتے ہی چوک میں جا کر لگاتا ہوں صدا ۔۔۔
"خواب اصلی ہیں کہ نقلی؟"
یوں پرکھتے ہیں کہ جیسے ان سے بڑھ کر
خواب داں کوئی نہ ہو!

خواب گر میں بھی نہیں
صورت گرِ ثانی ہوں بس ۔۔۔۔
ہاں مگر میری معیشت کا سہارا خواب ہیں!

شام ہو جاتی ہے
میں پھر سے لگاتا ہوں صدا ۔۔۔
"مفت لے لو مفت، یہ سونے کے خواب ۔۔۔۔"
"مفت" سن کر اور ڈر جاتے ہیں لوگ
اور چپکے سے سرک جاتے ہیں لوگ ۔۔۔
"دیکھنا یہ "مفت" کہتا ہے
کوئی دھوکا نہ ہو!
ایسا کوئی شعبدہ پنہاں نہ ہو
گھر پہنچ کر ٹوٹ جائیں
یا پگھل جائیں یہ خواب
بھک سے اڑ جائیں کہیں
یا ہم پہ کوئی سحر کر ڈالیں یہ خواب ۔۔۔۔
جی نہیں، کس کام کے؟
ایسے کباڑی کے یہ خواب
ایسے نابینا کباڑی کے یہ خواب!"

رات ہو جاتی ہے
خوابوں کے پلندے سر پہ رکھ کر
منہ بسورے لوٹتا ہوں
رات بھر پھر بڑبڑاتا ہوں
"یہ لے لو خواب ۔۔۔"
اور لے لو مجھ سے ان کے دام بھی
خواب لے لو، خواب ۔۔۔
میرے خواب ۔۔۔
خواب ۔۔۔ میرے خواب ۔۔۔۔
خو ا ا ا ا ب ۔۔۔
ان کے د ا ا ا ا م بھی ی ی ی ۔۔۔"
 

فرخ منظور

لائبریرین
بات کر

بات کر مجھ سے
مجھے چہرہ دکھا میرا کہ ہے
تیری آنکھوں کی تمازت ہی سے وہ جھلسا ہوا
بات کر مجھ سے
مرے رخ سے ہٹا پردہ
کہ جس پر ہے ریا کاری کے رنگوں کی دھنک
پھیلی ہوئی
وہ دھنک جو آرزو مندی کا آئینہ نہیں
بامدادِ شوق کا زینہ نہیں!

تو نے دیکھا تھا کہ کل میں (اک گداگر)
صبح کی دیوار کے سائے تلے
ٹھٹھرا ہوا پایا گیا ۔۔
تیری آنکھیں، تیرے لب تکتے رہے
ان کی گرمی پر یقیں کیسے مجھے آتا کہ میں
اپنے دل کے حادثوں کی تہہ میں تھا
یادوں سے غزلایا ہوا!

بات کر مجھ سے
کہ اب شب کے سحر بننے میں
کوئی فاصلہ باقی نہیں

بات کر مجھ سے کہ تیری بات
خطّ نسخ ہو بر روئے مرگ
اب اتر جا چشم و گوش و لب کے پار
اجڑے شہروں کی گزرگاہوں پہ
آوازوں کی قندیلیں اتار
راز کی لہریں
ابھر آئیں قطار اندر قطار!
 

فرخ منظور

لائبریرین
رات شیطانی گئی

رات شیطانی گئی ۔۔۔
ہاں مگر تم مجھ کو الجھاؤنہیں
میں نے کچل ڈالے ہیں کتنے خوف
اِن پاکیزہ رانوں کے تلے
(کر رہا ہوں عشق سے دھوئی ہوئی
رانوں کی بات!)

رات شیطانی گئی تو کیا ہوا؟
لاؤ، جو کچھ بھی ہے لاؤ
یہ نہ پوچھو
راستہ کے گھونٹ باقی ہے ابھی
آج اپنے مختصر لمحے میں اپنے اُس خدا کو
رُوبرو لائیں گے ہم
اپنے ان ہاتھوں سے جو ڈھالا گیا۔۔۔
آج آمادہ ہیں پی ڈالیں لہو۔۔۔۔
اپنا لہو۔۔۔۔
تابکے اپنے لہو کی کم روائی تابکے؟
سادگی کو ہم کہیں گے پارسائی تابکے؟
دست ولب کی نارسائی تابکے؟
لاؤ، جو کچھ بھی ہے لاؤ
رات شیطانی گئی تو کیا ہوا؟
صَوت و رنگ و نور کا وہ رجز گاؤ
جو کبھی گاتے تھے تم
رات کے حجرے سے نکلو
اور اذانوں کی صدا سننے کی فرصت دو ہمیں۔۔۔
رات کے اس آخری قطرے سے جو اُبھری ہیں
اُن بکھری اذانوں کی صدا۔۔۔
رات۔۔۔شیطانی گئی تو کیا ہوا؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
نئے گناہوں کے خوشے

ندی کنارے درخت
بلّور بن چکے ہیں
درخت، جن کی طنّاب شاخوں
پہ مرگِ ناگاہ کی صدا
رینگتی رہی تھی
درخت بلّور کی صلیبیں
لہو میں لتھڑے ہوئے زمانوں
میں گڑ گئی ہیں!
ہَوا جو فرماں کی پیروی میں
کبھی انھیں گدگدانے آئے
یہ اپنی افسوں زدہ نگاہوں سے دیکھتے ہیں
مگر ہوا کے لیے کبھی سر نہیں جھکاتے!

کہو، یہ سچ ہے
کہ اب بھی بارش میں اِن کے آنسو
سکوت بن کر پکارتے ہیں؟
نکلتے سورج کو دیکھتے ہی
یہ ستر اپنا، عیوب اپنے سنوارتے ہیں؟
نہیں ۔۔
روایت کی لوریوں نے
کلام کی روشنی کو اِن پر
سلا دیا ہے!

کہو یہ سچ ہے
کہ ان کی آنکھوں
کی بجلیاں اب بھی گھومتی ہیں؟
غروب ہوتے افق کے شہروں کے بام و در کو
سراب ہونٹوں سے چومتی ہیں

نہیں ۔۔
کہ الہام کی سخاوت کے ہاتھ
اِن تک رسا نہیں ہیں!

کہو، یہ سچ ہے
ابھی پرندے رسول بن کر
دلوں پر اِن کے
اِک آنے والے وصال کے خواب اتارتے ہیں؟
خیال جو دور دور سے وہ سمیٹ لائے
تمام اِن پر نثارتے ہیں؟

نہیں ۔۔
پرندوں کے ۔۔ اِن رسولوں کے ۔۔۔
خواب اپنے،
خیال اپنے،
غضب کے ٹھنڈے الاؤ میں جان
دے چکے ہیں!

تو شاید ایسا بھی ہو کِسی دن۔۔۔
کہ ہر نئے راہرو سے پہلے
نئی طلب کے فشار اِن کے
سمور جسموں کو چاک کر دیں!
تو شاید ایسا بھی ہو کسی دن ۔۔
نئے گناہوں کے تازہ خوشوں
سے کھیتیوں کے مشام بھر دیں
وہ خوشے جن سے تمام چہرے
طلوع ہوتے ہیں ہر تہجد کی لو سے پہلے
وہ خوشے جن سے تمام بوسے
نسیم کی دل نوازیِ نو بنو سے پہلے!
 

فرخ منظور

لائبریرین
کلام ہنس نہیں رہا

کلام ہنس نہیں رہا
کلام کس طرح ہنسے؟
ہمارے ان پٹے ہوئے لطیفوں پر جو ہم اسے
سنا چکے ہیں بارہا
کلام کس طرح ہنسے
کلام اب پگھل رہا ہے رفتہ رفتہ
ان دلوں کی شمع کی طرح
جو جل چکے، جلا چکے۔۔۔۔
کلام جس کا ذکر کررہے ہیں ہم
عجیب بات ہے کلام بھی نہیں!
مگر اسے کلام کے سوا کہیں تو کیا کہیں؟
کہ اس کا اورکوئی نام بھی نہیں !
ہم اس پہ کچھ فدانہیں مگر اسے
جو رد کریں تو کیا کریں؟
کہ یہ ہمارے جسم وجاں کو پالتا رہا
ہمارے ذہن و دل کوسالہا سے ڈھالتا رہا۔۔۔۔
یہ اب بھی ڈھالتاہے اور ڈھالتا رہے گا
اورہم یہ چاہتے بھی ہیں!

کلام ایک قرب ہے
ہمیشہ بُعدکوپکارتا رہا۔۔۔۔
سمندروں کودیکھتے ہو تم
وہ کس طرح سمندروں کے بُعدکوپکارتے ہیں رات دن؟
اسی لیے صدائے مرگ
سن کے اپنے باطنِ نحیف میں
ہم آپ کر اٹھے ہیں پھر سے ہستِ نو کی آرزو۔۔۔
وہ رات جوکبھی سیاہ جنگلوں کو۔۔۔۔
جنگلوں کی آنکھ سے چھپی ہوئی
مہورتوں کوچاٹتی رہی
وہ اب دلوں کوچاٹتی ہے ان دلوں
کو جن میں پھر سے جاگ اٹھی
حیاتِ نو کی آرزو۔۔۔۔
وہ رات جس کے چاوشوں نے دیکھ پائے
وحشیِ قدیم کے نشان پا
جوشرق وغرب میں نکل پڑا ہے
چورکی دلاوری لیے۔۔۔
ہم اپنے ماضیِ قریب کومٹا تو دیں
۔۔۔۔مٹانا چاہتے بھی ہیں مگر۔۔۔۔

یہ دیکھتے ہوتم
خفیف سی صدا اٹھی، وہ ہانپنے لگا
وہ خوف ہانکنے لگا
وہ اپنے ناخنوں کے جنگلوں سے
ہم کو جھانکنے لگا؟

وہ رات جو سیاہ جنگلوں کوچاٹتی رہی
وہ آج ہم پہ ایسے آئی ہے کہ جیسے آئے رات
کمسنوں پہ جوکسی بڑے فِرج میں ناگہاں
اسیر ہو کے رہ گئے!
ہم آدمی کوپھر سے زندہ کرسکیں گے کیا؟
۔۔۔مگروہ مرحلے
فسانہ و فسوں کے صد ہزار مرحلے
جو راہ میں پھر آئیں گے؟


تباہی! یہ بتا کہ اور مرحلہ بھی ہے
کہ جس کو پارکر سکے گا آدمی؟
وہ دیکھ وحشیِ قدیم جو لہو سے
سوچتا رہا سدا
پھرآج رنگ و نور سے الجھ پڑا۔۔۔۔
اسی کانغمہ ہے
جوسن رہے ہیں ریڈیو سے ہم
دھرم دھما دھما دھرم دھما دھرم۔۔۔۔
بتا وہ راستہ کہاں ہے جس سے پھر
جنوں کے خواب،
یا خرد کے خواب،
یا سکوں کے خواب
لوٹ آئیں گے
بتا وہ راستہ کہاں؟
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
نیا آدمی

نوا اور سازِ طرب۔۔۔۔
یہ سازِ طرب میں نوائے تمنا

نوائے تمنا پہ کوچے کے لڑکوں کے پتھر
یہ پتھرکی بارش پہ سازِ طرب کا سرور

نئی آگ، دل
دلِ ناتواں کی نئی آگ سب کا سرور
نئی آگ سب سے مقدس ہمیں
ہم اس آگ کوکس کی آنکھوں کے معبد
پہ جا کر چڑھائیں؟
نئی آگ کے کس کومعنی سجھائیں؟
نئی آگ ہرچشم و لب کاسرور
نئی آگ سب کا سرور

روایت، جنازہ
خدااپنے سورج کی چھتری کے نیچے کھڑا
نالہ کرتا ہوا
جنازے کے ہمراہ چلتے ہوئے
گھر کے بے کار لوگوں کا شور و شغب
ریا کارلوگوں کو شور و شغب کا سرور
نئے آدمی کا نزول
اوراس پر غضب کا سرور
نئے آدمی کی اس آمد سے پہلے
مہینوں کے بھوکے کئی بھیڑیوں کی فغاں
(زمانے کی بارش میں بھیگے ہوئے بھیڑیے!)
نئے لفظ ومعنی کی بڑھتی ہوئی یک دلی
اور اس پر پرانے نئے بھیڑیوں کی فغاں
فغاں کا غضب اورغضب کا سرور
نئے آدمی کا ادب
ادب اورنیا آدمی
نئے آدمی کو طلب کا سرور
نئے آدمی کے گماں بھی یقیں
گماں جن کاپایاں نہیں۔۔۔۔
گمانوں میں دانش
برہنہ درختوں میں بادِنسیم
برہنہ درختوں کے دل چیرتی۔۔۔۔
نئے آدمی کا ادب
اورنئے آدمی کو ادب کا سرور
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
پانی کی آواز

صدائے پائے آب سن کے آج میں
ادب سے اٹھ کھڑا ہوا
سلام، اے حضور، آپ آ گئے کرم کیا ۔۔۔
کہ آپ حُسن سے لدی ہوئی
شریر عورتوں سے بھی زیادہ
قابلِ وصال ہیں!
ہم آپ ہی کے انتظار میں
سَحر کے گرد
دوپہر کے آس پاس
مردہ رات کے نواح میں
ہمیشہ گھومتے رہے ۔۔۔
ہم اپنے اونٹ رنگ باغچوں کی
جھاڑیوں کو چھانتے رہے
کہ آپ اُن میں چھپ گئے نہ ہوں کہیں ۔۔۔
ہمیں یہی گمان تھا ۔۔۔
مگر کوئی بھی اپنے خواب آپ انتخاب کر نہیں سکا
اسی طرح یہ آپ کا ورودِ ناگہاں بھی ہے ۔۔
سمندروں میں بھی آپ ہیں
بھاپ میں بھی آپ ہیں
کنوؤں میں بھی ہیں، مسجدوں
کی موئے زیرِ ناف سے اٹی ہوئی
شریف نالیوں میں بھی
تو آپ ہی کا راج ہے،
لہو میں بھی، شراب میں بھی آپ ہیں،
ہزار بار آنسوؤں کی دل نوازیوں میں بھی
دکھائی دی ہے
آپ کی جھلک ہمیں!
مگر یہ سچ ہے اس طرح مصاحبہ نہیں ہوا
نہ آپ آئے اس فسوں گری کے جاں ربا شکوہ سے،
نہ اس ادائے لحن سے، نہ اِس حشم سے
آپ نے کبھی کرم کیا!

نہ جب تک آپ آئے تھے
درخت، جن کی سرنوشت
سرکشی سوا نہیں
یہ سرنوشت بھول کر
جڑوں سے بھی کنارہ گیر ہو گئے ۔۔
گھروں کے صحن صحن میں
سلگتے ایندھنوں پر اولیا کے استخواں
کا درد رنگ ناچنے لگے
قدم قدم پہ مرگھٹوں کی رات کا ضمیر
کانپنے لگا ۔۔۔

اب آپ کے نزول سے
بس اتنا ہو
یہ تُرش رُو و تُندخُو، یہ خشک سائے
اپنا آپ طنز بن کے راہ لیں ۔۔
مگر نہ ہو،
ہمارے بام و در پلوں کو پھاند جائیں،
گھروں کی میز کرسیاں
چھتوں پہ تیرنے لگیں،
ہمارے کمسنوں کے پیرہن
افق کی چوٹیوں سے جا لگیں،
کریم عورتوں کے دست و رُو
کرم کے سیلِ بے حساب میں غروب ہوں
ہماری سادہ الفتوں کے روز و شب
خدا کے لاشعور میں دبے رہیں
یہ مرگ آزما درخت، جانور، یہ رہگزر
پیمبروں کے واہمے کی کیمیا گری بنیں،
یہ کم نمود آدمی
وجودِ بے ثبات کی نفی بنیں!
 
Top