مکمل کلام ن م راشد (دوم)

فرخ منظور

لائبریرین
دستِ ستمگر

یہاں اس سرائے سرِپُل میں یوں تو،
رہی ہر ملاقات تنہائیِ سخت تر کا ہیولا،
مگر آج کی یہ جدائی
سپاہی کے دل کی کچھ ایسی جراحت ہے
جو اس کو بستر میں آسودہ رکھے گی، لیکن
کبھی اس کے ہونٹوں پہ
ہلکی سی موجِ تبسم بھی اٹھنے نہ دے گی!

خدا حافظ، اے گل عذارِ لہستان،
مبارک کہ تو آج دنیائے نو کو چلی ہے!
جہاں تیرا ہمسر تجھے آج لے جا رہا ہے،
لہستاں تو بےشک وہاں بھی نہ ہو گا،
مگر اس ولایت میں
"جو حرّیت کیش جمہور کی آنکھ کا ہے درخشندہ تارا"
تجھے بے حقیقت سہاروں سے،
غیروں کی خاطر شب و روز کی اس مشقّت سے،
کچھ تو ملے گی رہائی!
وہاں تجھ کو آہنگِ رنگ و زباں
کچھ تو تسکین دے گا،
اور اِس غم سے پامال ہجرت گزینوں کے
سہمے ہوئے قافلے سے
الگ ہو کے منزل کا دھوکا تو ہو گا!
یہ مانا کہ تو شاخسارِ شکستہ ہے
اور شاخسارِ شکستہ رہے گی؛
مگر اس نئی سرزمیں میں
تجھے سبز پتوں کی، شاداب پھولوں کی، امید پیدا تو ہو گی!
تجھے کیسے روندا گیا ہے،
تجھے دربدر کیسے راندا گیا ہے،
میں سب جانتا ہوں کہ شاکی ہے تو جس الم کی
وہ تنہا کسی کا نہیں ہے،
وہ بڑھتا ہوا
آج ذرّے سے عفریت بنتا چلا جا رہا ہے!

تو نازی نہ تھی،
تجھ کو فاشی تخیّل سے کوئی لگاؤ نہ تھا
بس ترا جرم یہ تھا، تجھے عافیت کی طلب تھی،
وطن کی محبت بھری سرزمیں کی
شبِ ماہ، بزمِ طرب، جام و مینا کی
منزل کی آسودگی کی طلب تھی،
طلب تھی سحرگاہ، محبوب کے گرم، راحت سے لبریز
بالش پہ خوابِ گراں کی!

اور اس جرم کی یہ سزا، (اے خدا)
سامنے تیری بے بس نگاہوں کے محبوب کی لاش،
پھر اجنبی قید میں
روس کے برف زاروں میں بیگار
روٹی کے شب ماندہ ٹکڑوں کی خاطر؟
اور اب سال بھر سے
یہ فوجی سراؤں میں خدمت گزاری
یہ دریوزہ کوشی،
یہ دو نیم، بے مدعا زندگی
جس کا ماضی تو ویران تھا،
آئندہ و حال بھی بے نشاں ہو چکے ہیں!

حقیقت کی دنیا تو ہے ہی،
مگر اک خیالوں کی، خوابوں کی دنیا بھی ہوتی ہے
جو آخرِ کار بنتی ہے تقدیر کا خطِ جادہ!
مگر یہ ستم کی نہایت،
کہ تیرے خیالوں پہ خوابوں پہ بھی
توبہ تو یاس کائی کے مانند جمنے لگی تھی!

کہاں بھول سکتا ہوں، اے عندلیبِ لہستاں
وہ نغمے، لہستاں کے دہقانی نغمے
جو فوجی سرائے کی بے کار شاموں میں
تیری زباں سے سنے ہیں ۔۔
وہ جن میں سیہ چشم ہندی کی خاطر
لہستاں کی عورت کا دل یوں دھڑکتا ہے
جیسے وہ ہندی کی مشکینہ رعنائیوں تک پہن کر رہے گا!
جنھیں سن کے محسوس ہوتا رہا ہے
کہ مغرب کی وہ روحِ شب گرد
جو پے بہ پے وسوستوں میں گھری ہے،
تعاقب کیا جا رہا ہے دبے پاؤں جس کا
اب آخر شبستانِ مشرق کے اجڑے ہوئے آشیانوں کے اوپر
لگاتار منڈلا رہی ہے!

اسی روحِ شب گرد کا
اک کنایہ ہے شاید
یہ ہجرت گزینوں کا بکھرا ہوا قافلہ بھی
جو دستِ ستمگر سے مغرب کی، مشرق کی پہنائیوں میں
بھٹکتا ہوا پھر رہا ہے!
خدا حافظ، اے ماہتابِ لہستاں!
یہ اِک سہارا ہے باقی ہمارے لیے بھی
کہ اس اجنبی سرزمیں میں
ہے یہ ساز و ساماں بھی گویا
ہوا کی گزرگاہ میں اک پرِکاہ!
بکھر جائے گا جلد
افسردہ حالوں کا، خانہ بدوشوں کا یہ قافلہ بھی
اور اِک بار پھر عافیت کی سحر
اس کا نقشِ کفِ پا بنے گی!
 

فرخ منظور

لائبریرین
در ویش
زمستاں کی اس شام
نیچے خیاباں میں،
میرے دریچے کے پائیں،
جہاں تِیرگی منجمند ہو گئی ہے
یہ بھاری یخ آلود قدموں کی آواز
کیا کہہ رہی ہے:
"خداوند!
کیا آج کی رات بھی
تیری پلکوں کی سنگیں چٹانیں
نہیں ہٹ سکیں گی؟"
خیاباں تو ہے دور تک گہری ظلمت کا پاتال،
اور میں اس میں غوطہ زنی کر رہا ہوں
صداؤں کے معنی کی سینہ کشائی کی خاطر چلا ہوں!

یہ درویش،
جس کے اب وجد،
وہ صحرائے دیروز کی ریت پر
تھک کے مر جانے والے،
اسی کی طرح تھے
تہی دست اور خاکِ تِیرہ میں غلطاں،
جو تسلیم کو بے نیازی بنا کر
ہمیشہ کی محرومیوں ہی کو اپنے لیے
بال و پَر جانتے تھے،
جنھیں تھی فروغِ گدائی کی خاطر
جلالِ شہی کی بقا بھی گوارا
جو لاشوں میں چلتے تھے
کہتے تھے لاشوں سے:
"سوتے رہو!
صبح فردا کہیں بھی نہیں ہے!"
وہ جن کے لئے حُریت کی نہایت یہی تھی
کہ شاہوں کا اظہارِ شاہنشہی
حد سے بڑھنے نہ پائے!
بھلا حد کی کس کو خبر ہے؟
مگر آج کا یہ گدا،
یہ ہمیشہ کا محروم بھی
اُن اب و جد کے مانند
گو وقت کے شاطروں کی سیاست کا مارا ہوا ہے،
ستم یہ کہ اس کے لئے آج،
مُلّائے رومی کے،
مجذوبِ شیراز کے
زنگ آلودہ اوہام بھی
دستگیری کو حاضر نہیں ہیں!

"خداوند!
کیا آج کی رات بھی
تیری پلکوں کی سنگیں چٹانیں
نہیں ہٹ سکیں گی؟"
"تجھے، اے زمانے کے روندے ہوئے،
آج یہ بات کہنے کی حاجت ہی کیوں ہو؟
تو خوش ہو
کہ تیرے لئے کھل گئی ہیں ہزاروں زبانیں
جو تیری زباں بن کے
شاہوں کے خوابیدہ محلوں کے چاورں طرف
شعلے بن کر لپٹتی چلی جا رہی ہیں!
سیاست نے سوچا ہے
تیری زباں بند کر دے،
سیاست کو یہ کیوں خبر ہو
کہ لب بند ہوں گے
تو کُھل جائیں گے دست و بازو؟

وہ بھاری یخ آلود قدموں کی آواز
یک لخت خاموش کیوں ہو گئی ہے؟
نو آموز مشرق کے
نو خیز آئین کے تازیانو،
سکوتِ گدا سے
گدائی تو ساکت نہ ہو گی!"
 

فرخ منظور

لائبریرین
خلوت میں جلوت

حَسن، اپنا ساتھی
جو اُس رات، نوروز کے ہاں
جمالِ عجم کے طِلسمات میں بہہ گیا تھا
پھر اِک بار مستی میں جلوت کو خلوت سمجھ کر
بڑی دیر تک رُوبرُو آئنے کے
کھڑا جُھولتا مُنہ چڑاتا رہا تھا،
وہ بّلور کی بے کراں جھیل کے دیو کو گالیاں دے کے ہنستا رہا تھا،
حَسن اپنی آنکھوں میں رقت کا سیلاب لا کر
زمستاں کی اس شام کی تازہ مہماں سے
اُس شہرِ آشوبِ طہراں سے
کہتا چلا جا رہا تھا :
"تُو میری بہن ہے،
تُو میری بہن ہے،
اُٹھ اے میری پیاری بہن میری زہرا!
ابھی رات کے دَر پہ دستک پڑے گی،
تجھے اپنے کاشانۂ ناز میں چھوڑ آؤں!"
اور اِس پر برافروختہ تھے،
پریشاں تھے سب ہم!
جونہی اُس کو جعفر نے دیکھا نگاہیں بدل کر
وہ چِلّا کے بولا:
"درندو
اسے چھوڑ دو،
اِس کے ہاتھوں میں
انگشتری کا نشاں تک نہیں ہے!"
حَسن مردِ میداں تو تھا ہی
مگر نارسائی کا احساس
مستی کے شاداب لمحوں میں اُس سے
کراتا تھا اکثر
یہ عہدِ سلاطیں کے گزرے ہُوئے
شہسواروں کے عالم کی باتیں!

مگر جب سحر گاہ اُردو میں قرنا ہوئی
اور البرز کی چوٹیوں پر بکھرنے لگیں پھر شعاعیں
تو آنکھیں کھُلی رہ گئیں ساتھیوں کی،
حَسن کے رُخ و دست و بازو
خراشوں سے یوں نیلگوں ہو رہے تھے
کہ جیسے وہ جِنّوں کے نرغے میں شب بھر رہا ہو

ہمیں سب کو جعفر پہ شک تھا
کہ شاید اُسی نے نکالا ہو یہ اپنے بدلے کا پہلُو!
مگر جب حسن اور جعفر نے
دونوں نے
کھائیں کئی بار قسمیں
تو ناچار لب دوختہ ہو گئے ہم
وہاں اب وہ جانِ عجم بھی نہ تھی
جس سے ہم پوچھ سکتے؛
ذرا اور کاوش سے پوچھا حَسن سے
تو بے ساختہ ہنس کے کہنے لگا : "بس، مجھے کیا خبر ہو؟
اگر پوچھنا ہو تو زہرا سے پُوچھو
مری رات بھر کی بہن سے!"
 

فرخ منظور

لائبریرین
تیل کے سوداگر

بخارا سمرقند اِک خالِ ہندو کے بدلے!
بجا ہے، بخارا سمرقند باقی کہاں ہیں؟
بخارا سمرقند، نیندوں میں مدہوش
اِک نیلگوں خامشی کے حجابوں میں مستور
اور رہرووں کے لیے ان کے در بند
سوئی ہوئی مہ جبینوں کی پلکوں کے مانند
روسی "ہمہ اوست" کے تازیانوں سے معذور
دو مہ جبینیں!
بخارا سمرقند کو بھول جاؤ
اب اپنے درخشندہ شہروں کی
طہران و مشہد کے سقف و در و بام کی فکر کر لو،
تم اپنے نئے دورِ ہوش و عمل کے دلآویز چشموں کو
اپنی نئی آرزؤں کے اِن خوبصورت کنایوں کو
محفوظ کر لو!
ان اونچے درخشندہ شہروں کی
کوتہ فصیلوں کو مضبوط کر لو
ہر اک برج و بارد پر اپنے نگہباں چڑھا دو،
گھروں میں ہوا کے سوا،
سب صداؤں کی شمعیں بجھا دو!
کہ باہر فصیلوں کے نیچے
کئی دن سے رہزن ہیں خیمہ فگن،
تیل کے بوڑھے سوداگروں کے لبادے پہن کر
وہ کل رات یا آج کی رات کی تیرگی میں
چلے آئیں گے بن کے مہماں
تمہارے گھروں میں،
وہ دعوت کی شب جام و مینا لنڈھائیں گے
ناچیں گے، گائیں گے،
بے ساختہ قہقہوں، ہمہموں سے
وہ گرمائیں گے خونِ محفل!

مگر پو پھٹے گی
تو پلکوں سے کھودو گے خود اپنے مُردوں کی قبریں
بساطِ ضیافت کی خاکسترِ سوختہ کے کنارے
بہاؤ گے آنسو!
بہائیں ہیں ہم نے بھی آنسو!
۔۔۔ گو اب خالِ ہندو کی ارزش نہیں ہے
عذارِ جہاں پر وہ رستا ہوا گہرا ناسور
افرنگ کی آزِ خونخوار سے بن چکا ہے ۔۔۔
بہائے ہیں ہم نے بھی آنسو،
ہماری نگاہوں نے دیکھے ہیں
سیّال سایوں کے مانند گھلتے ہوئے شہر
گرتے ہوئے بام و در
اور مینار و گنبد
مگر وقت محراب ہے
اور دشمن اب اس کی خمیدہ کمر سے گزرتا ہوا
اُس کے نچلے افق پر لڑھکتا چلا جا رہا ہے۔۔
ہمارے برہنہ و کاہیدو جسموں نے
وہ قید و بند اور وہ تازیانے سہے ہیں
کہ ان سے ہمارا ستمگر
خود اپنے الاؤ میں جلنے لگا ہے

مرے ہاتھ میں ہاتھ دے دو!
مرے ہاتھ میں ہاتھ دے دو!
کہ دیکھی ہیں میں نے
ہمالہ و الوند کی چوٹیوں پر شعاعیں
انہیں سے وہ خورشید پھوٹے گا آخر
بخارا سمرقند بھی سالہا سال سے
جس کی حسرت کے دریوزہ گر ہیں!
 

فرخ منظور

لائبریرین
وزیرے چنیں

۔۔۔ تو جب سات سو آٹھویں رات آئی
تو کہنے لگی شہرزاد:
"اے جواں بخت
شیراز میں ایک رہتا تھا نائی؛
وہ نائی تو تھا ہی،
مگر اس کو بخشا تھا قدرت نے،
اک اور نادر، گراں تر ہنر بھی،
کہ جب بھی،
کسی مردِ دانا کا ذہنِ رسا،
زنگ آلود ہونے کو آتا
تو نائی کو جا کر دکھاتا،
کہ نائی دماغوں کا مشہور ماہر تھا
وہ کاسۂ سر سے اُن کو الگ کر کے،
ان کی سب آلائشیں پاک کر کے
پھر اپنی جگہ پر لگانے کے فن میں تھا کامل!

خدا کا یہ کرنا ہوا
ایک دن اس کی دکاّں سے
ایران کا ایک وزیرِ کہن سال گزرا
اور اس نے بھی چاہا
کہ وہ بھی ذرا
اپنے الجھے ہوئے ذہن کی
از سر نو صفائی کرا لے!
کیا کاسۂ سر کو نائی نے خالی،
ابھی وہ اسے صاف کرنے لگا تھا،
کہ ناگاہ آ کر کہا ایک خوجہ سرا نے:
"میں بھیجا گیا ہوں جنابِ وزارت پنہ کو بلانے"!
اور اس پر
سراسیمہ ہو کر جو اٹھا وزیر ایک دم،
رہ گیا پاس دلّاک کے مغز اس کا
وہ بے مغز سر لے کے دربار سلطاں میں پہنچا!
۔۔۔ مگر دوسرے روز اس نے
جو نائی سے آ کر تقاضا کیا
تو وہ کہنے لگا:
"حیف،
کل شب پڑوسی کی بلی
کسی روزنِ در سے گھس کر
جناب وزارت پنہ کے
دماغِ فلک تاز کو کھا گئی ہے!
اور اب حکمِ سرکار ہو تو،
کسی اور حیوان کا مغز لے کر لگا دوں؟"
تو دلّاک نے رکھ دیا،
دانیالِ زمانہ کے سر میں،
کسی بیل کا مغز لے کر!
تو لوگوں نے دیکھا
جناب وزارت پنہ اب،
فراست میں
دانش میں
اور کاروبارِ وزارت میں
پہلے سے بھی چاک و چوبند تر ہو گئے ہیں!
 

فرخ منظور

لائبریرین
شاخِ آہُو

وزیرِ معارف علی کیانی نے
"شمشیرِ ایراں" کا تازہ مقالہ پڑھا،
اور محسن فرح زاد کی تازہ "تصنیف" دیکھی،
جو طہران کے سب تماشا گھروں میں
کئی روز سے قہقہوں کے سمندر بہانے لگی تھی
تو وہ سر کھجانے لگا،
اور کہنے لگا:
"لو اسے کہہ رہے ہیں،
علی کیانی کی تازہ جنایت!
بھلا کون سا ظلم ڈھایا ہے میں نے
جو بانو رضا بہبانی سے
اسی ہزار اور نو سو ریال
اپنا حق جان کر
راہداری کے بدلے لیے ہیں؟
خدائے توانا و برتر
وزارت ہے وہ دردِ سر
جس کا کوئی مداوا نہیں ہے!
رضا بہبانی ولایت سے
ڈگری طبابت کی لے کر،
جو لوٹے گی
کچھ تو کمائے گی،
پہلے سے بڑھ کر کمائے گی آخر
اور اِس پر یہ ایراں فروشی کے طعنے
یہ کہرام، اے مسخرے روزنامہ نگارو!
یہاں سات بچوں کے تنّور
ہر لحظہ فریاد کرتے ہوئے،
اور خانم کے
گلگونہ و غازہ و کفش و موزہ کے
یہ روز افزوں تقاضے،
ادھر یہ گرانی،
اِدھریہ وزارت کی کرسی
فقط شاخِ آہو!"

تو اس پر علی کیانی نے سوچا،
اٹھایا قلم اور لِکھا:
"جنابِ مدیرِ شہیر
آپ کی خدمتِ فائقہ کے عوض
دس ہزار اور چھ سو ریال
آپ کو صد ہزار احترامات کے ساتھ
تقدیم کرتا ہے بندہ!
یہ پر کالۂ آتشیں چھوڑ کر
اور مقالہ و "تصنیف" کی یاد دل سے بھلا کر
لگا جھولنے اپنی کرسی میں آسودہ ہو کر
وزیرِ معارف علی کیانی!
 

فرخ منظور

لائبریرین
تماشا گہہِ لالہ زار

تماشا گہہِ لالہ زار،
"تیاتر" پہ میری نگاہیں جمی تھیں
مرے کان "موزیک" کے زیر و بم پر لگے تھے،
مگر میرا دل پھر بھی کرتا رہا تھا
عرب اور عجم کے غموں کا شمار
تماشا گہہِ لالہ زار!

تماشا گہہِ لالہ زار،
اب ایراں کہاں ہے؟
یہ عشقی کا شہکار۔۔ "ایران کی رستخیز!"
اب ایراں ہے اک نوحہ گر پیرِ زال
ہے مدت سے افسردہ جس کا جمال،
مدائن کی ویرانیوں پر عجم اشک ریز،
وہ نوشیرواں اور زردشت اور دار یوش،
وہ فرہاد شیریں، وہ کیخسرو و کیقباد
ہم اک داستاں ہیں وہ کردار تھے داستاں کے!
ہم اک کارواں ہیں وہ سالار تھے کارواں کے!
تہہِ خاک جن کے مزار
تماشا گہہِ لالہ زار!

تماشا گہہِ لالہ زار،
مگر نوحہ خوانی کی یہ سر گرانی کہاں تک؟
کہ منزل ہے دشوار غم سے غمِ جاوداں تک!
وہ سب تھے کشادہ دل و ہوش مند و پرستارِ ربِّ کریم
وہ سب خیر کے راہ داں، رہ شناس
ہمیں آج محسن کُش و نا سپاس!
وہ شاہنشہانِ عظیم
وہ پندارِ رفتہ کا جاہ و جلالِ قدیم
ہماری ہزیمت کے سب بے بہا تار و پو تھے،
فنا ان کی تقدیر، ہم اُن کی تقدیر کے نوحہ گر ہیں،
اسی کی تمنّا میں پھر سوگوار
تماشا گہہِ لالہ زار!

تماشا گہہِ لالہ زار،
عروسِ جواں سالِ فردا، حجابوں میں مستور
گرسنہ نگہ، زود کاروں سے رنجور
مگر اب ہمارے نئے خواب کابوسِ ماضی نہیں ہیں،
ہمارے نئے خواب ہیں، آدمِ نو کے خواب
جہانِ تگ و دو کے خواب!
جہانِ تگ و دو، مدائن نہیں،
کاخِ فغفور و کسریٰ نہیں
یہ اُس آدم ِ نو کا ماویٰ نہیں
نئی بستیاں اور نئے شہر یار
تماشا گہہِ لالہ زار!
 

فرخ منظور

لائبریرین
حَسن کُوزہ گر

جہاں زاد، نیچے گلی میں ترے در کے آگے
یہ میں سوختہ سر حسن کوزہ گر ہوں
تجھے صبح بازار میں بوڑھے عطّار یوسف
کی دکّان پر میں نے دیکھا
تو تیری نگاہوں میں وہ تابناکی
تھی میں جس کی حسرت میں نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہوں
جہاں زاد، نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہوں!
یہ وہ دور تھا جس میں میں نے
کبھی اپنے رنجور کوزوں کی جانب
پلٹ کر نہ دیکھا
وہ کوزے مرے دست چابک کے پتلے
گل و رنگ و روغن کی مخلوق بے جاں
وہ سر گوشیوں میں یہ کہتے
"حسن کوزہ گر اب کہاں ہے
وہ ہم سے خود اپنے عمل سے
خداوند بن کر خداؤں کے مانند ہے روئے گرداں!"
جہاں زاد نو سال کا دور یوں مجھ پہ گزرا
کہ جیسے کسی شہر مدفون پر وقت گزرے
تغاروں میں مٹی
کبھی جس کی خوشبو سے وارفتہ ہوتا تھا میں
سنگ بستہ پڑی تھی
صراحی و مینا و جام و سبو اور فانوس و گلداں
مری ہیچ مایہ معیشت کے، اظہار فن کے سہارے
شکستہ پڑے تھے
میں خود، میں حسن کوزہ گر پا بہ گل خاک بر سر برہنہ
سرِ چاک ژولیدہ مو، سر بہ زانو
کسی غمزدہ دیوتا کی طرح واہمہ کے
گِل و لاسے خوابوں کے سیّال کوزے بناتا رہا تھا
جہاں زاد، نو سال پہلے
تو ناداں تھی لیکن تجھے یہ خبر تھی
کہ میں نے، حسن کوزہ گر نے
تری قاف کی سی افق تاب آنکھوں
میں دیکھی ہے وہ تابناکی
کہ جس سے مرے جسم و جاں، ابرو مہتاب کا
رہگزر بن گئے تھے
جہاں زاد بغداد کی خواب گوں رات
وہ رود دجلہ کا ساحل
وہ کشتی وہ ملّاح کی بند آنکھیں
کسی خستہ جاں رنج بر کوزہ گر کے لیے
ایک ہی رات وہ کہربا تھی
کہ جس سے ابھی تک ہے پیوست اسکا وجود۔۔
اس کی جاں اس کا پیکر
مگر ایک ہی رات کا ذوق دریا کی وہ لہر نکلا
حسن کوزہ گر جس میں ڈوبا تو ابھرا نہیں ہے!

جہاں زاد اس دور میں روز، ہر روز
وہ سوختہ بخت آ کر
مجھے دیکھتی چاک پر پا بہ گِل سر بزانو
تو شانوں سے مجھ کو ہلاتی
(وہی چاک جو سالہا سال جینے کا تنہا سہارا رہا تھا!)
وہ شانوں سے مجھ کو ہلاتی
"حسن کوزہ گر ہوش میں آ
حسن اپنے ویران گھر پر نظر کر
یہ بچّوں کے تنّور کیونکر بھریں گے
حسن، اے محبّت کے مارے
محبّت امیروں کی بازی،
حسن، اپنے دیوار و در پر نظر کر"

مرے کان میں یہ نوائے حزیں یوں تھی جیسے
کسی ڈوبتے شخص کو زیرِگرداب کوئی پکارے!
وہ اشکوں کے انبار پھولوں کے انبار تھے ہاں
مگر میں حسن کوزہ گر شہرِ اوہام کے اُن
خرابوں کا مجذوب تھا جن
میں کوئی صدا کوئی جنبش
کسی مرغ پرّاں کا سایہ
کسی زندگی کا نشاں تک نہیں تھا!

جہاں زاد، میں آج تیری گلی میں
یہاں رات کی سرد گوں تیرگی میں
ترے در کے آگے کھڑا ہوں
سر و مو پریشاں
دریچے سے وہ قاف کی سی طلسمی نگاہیں
مجھے آج پھر جھانکتی ہیں
زمانہ، جہاں زاد وہ چاک ہےجس پہ مینا و جام و سبو
اور فانوس و گلداں
کے مانند بنتے بگڑتے ہیں انساں
میں انساں ہوں لیکن
یہ نو سال جو غم کے قالب میں گزرے!
حسن کوزہ گر آج اک تودہ خاک ہےجس
میں نم کا اثر تک نہیں ہے
جہاں زاد بازار میں صبح عطّار یوسف
کی دکّان پر تیری آنکھیں
پھر اک بار کچھ کہہ گئی ہیں
ان آنکھوں کی تابندہ شوخی
سے اٹھی ہے پھر تودۂ خاک میں نم کی ہلکی سی لرزش
یہی شاید اس خاک کو گِل بنا دے!

تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ہے جہاں زاد لیکن
تو چاہے تو بن جاؤں میں پھر
وہی کوزہ گر جس کے کوزے
تھے ہر کاخ و کو اور ہرشہر و قریہ کی نازش
تھے جن سے امیر و گدا کے مساکن درخشاں
تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ہے جہاں زاد لیکن
تو چاہے تو میں پھر پلٹ جاؤں ان اپنے مہجور کوزوں کی جانب
گِل و لا کے سوکھے تغاروں کی جانب
معیشت کے اظہارِ فن کے سہاروں کی جانب
کہ میں اس گل و لا سے ، اس رنگ و روغن
سے پھر وہ شرارے نکالوں کہ جن سے
دلوں کے خرابے ہوں روشن!
 

فرخ منظور

لائبریرین
مہمان

میں اس شہر مہمان اترا
تو سینے میں غم اور آنکھوں میں آنسو کے طوفاں
جدائی سے ہر چیز، حسنِ ازل تک وہ پردہ
کہ جس کے ورا حیرتِ خیرگی تھی!
جدائی سے تو بھی حزیں
اور ترا زخم مجھ سے بھی گہرا تھا خوں دادہ تر تھا!

میں مبہم سی امید تو ساتھ لایا تھا لیکن
تو اک شاخسارِ شکستہ کے مانند بے آرزو!
۔۔۔ وہ بے آرزوئی کا گہرا خلا جس کو میں نے
کبھی ذہنِ بے مایہ جانا
کبھی خوف و نفرت کے عفریت کا سایہ جانا!

تجھے یاد محبوب کا نرم راحت سے لبریز بالش
تجھے یاد کمرے کے شام و پگا، جن میں تو نے
ستاروں کے خوشوں کی آواز دیکھی
بنفشے کے رنگوں کو تُو نے چکھا
اور بہشتی پرندوں کے نغموں کو چھوتی رہی

تجھے اس کی پرواز کی آخری رات بھی یاد تھی۔۔
لذت و غم سے بے خواب لمحے
جو صدیوں سے بھرپور، صدیوں کی
پہنائی بنتے چلے جا رہے تھے!
ادھر میں مہجور، افسردہ، تنہا
وہ شبنم کا قطرہ
جو صحرا میں نازل ہو لیکن
سمندر سے ملنے کا رویا لیے ہو!

میں افسردہ، مہجور، تنہا
کہ محبوب سے بُعد کو نور کے سالہا سال سے
ناپتا آ رہا تھا،
مگر نور کے سال اِک خطِّ پیمانہ بھی تو
نہیں بن سکے تھے!

نئی سر زمیں کی نئی اجنبی،
تجھے میں نے اک خواب پیما کی آنکھوں سے دیکھا
کہ اس روز تجھ کو عیاں دیکھنا
ایسا الحاد ہوتا
کہ جس کی سزا جسم و جہاں سہہ نہ سکتے!

مگر میرے دل نے کہا
اجنبی شہر کی خلوتِ بے نہایت میں تُو بھی
کسی روز بن کر رہے گی
ستم ہائے تازہ کی خواہش کا پرتو!

زخود رفتگی سے، اشاروں سے، ترغیب وا سے
تجھے میں بلاتا رہا تھا
تُو آہستہ، خاموش بڑھنے لگی تھی
کہ یادیں ابھی تک ترے دل میں یوں گونجتی تھیں
کہ ہم گوش بر لب سہی،
سُن نہ سکتے تھے اک دوسرے کی صدائیں

مگر جب ملے ہم تو ایسے ملے
وہ تری خود نگہداریاں کام آئیں
نہ میرا تذبذب مجھے راس آیا
ہم ایسے ملے جیسے صدیوں کے مہجور
آدم کے جشنِ ولادت کے مہجور
باہم ابد میں ملیں گے!
 

فرخ منظور

لائبریرین
ریگِ دیروز

ہم محبت کے خرابوں کے مکیں
وقت کے طولِ المناک کے پروردہ ہیں
ایک تاریک ازل، نورِ ابد سے خالی!
ہم جو صدیوں سے چلے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ ساحل پایا
اپنی تہذیب کی پاکوبی کا حاصل پایا!

ہم محبّت کے نہاں خانوں میں بسنے والے
اپنی پامالی کے افسانوں پہ ہنسنے والے
ہم سمجھتے ہیں نشانِ سرِ منزل پایا!

ہم محبت کے خرابوں کے مکیں
کنجِ ماضی میں ہیں باراں زدہ طائر کی طرح آسودہ
اور کبھی فتنۂ ناگاہ سے ڈر کر چونکیں
تو رہیں سدِّ نگاہ نیند کے بھاری پردے

ہم محبت کے خرابوں کے مکیں!
ایسے تاریک خرابے کہ جہاں
دور سے تیز پلٹ جائیں ضیا کے آہو
ایک، بس ایک، صدا گونجتی ہے
شبِ آلام کی "یا ہو! یا ہو!"

ہم محبت کے خرابوں کے مکیں
ریگِ دیروز میں خوابوں کے شجر بوتے رہے
سایہ ناپید تھا، سائے کی تمنّا کے تلے سوتے رہے!ٍ
 

فرخ منظور

لائبریرین
ایک اور شہر

خود فہمی کا ارماں ہے تاریکی میں روپوش،
تاریکی خود بے چشم و گوش!
اک بے پایاں عجلت راہوں کی الوند!

سینوں میں دل یوں جیسے چشمِ آزِ صیّاد
تازہ خوں کے پیاسے افرنگی مردانِ راد
خود دیو ِآہن کے مانند!

دریا کے دو ساحل ہیں اور دونوں ہی ناپید
شر ہے دستِ سیہ اور خیر کا حامل روئے سفید!
اک بارِ مژگاں، اک لبِ خند!

سب پیمانے بے صرفہ جب سیم و زر میزان
جب ذوقِ عمل کا سرچشمہ بے معنی ہذیان
جب دہشت ہر لمحہ جاں کند!

یہ سب افقی انسان ہیں، یہ ان کے سماوی شہر
کیا پھر ان کی کمیں میں وقت کے طوفاں کی اِک لہر؟
کیا سب ویرانی کے دلبند؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
ابوُلہب کی شادی

شبِ زفافِ ابولہب تھی، مگر خدایا وہ کیسی شب تھی،
ابو لہب کی دلہن جب آئی تو سر پہ ایندھن، گلے میں
سانپوں کے ہار لائی، نہ اس کو مشّاطگی سے مطلب
نہ مانگ غازہ، نہ رنگ روغن، گلے میں سانپوں
کے ہار اس کے، تو سر پہ ایندھن!
خدایا کیسی شبِ زفافِ ابولہب تھی!

یہ دیکھتے ہی ہجوم بپھرا، بھڑک اٹھے یوں غضب
کے شعلے، کہ جیسے ننگے بدن پہ جابر کے تازیانے!
جوان لڑکوں کی تالیاں تھیں، نہ صحن میں شوخ
لڑکیوں کے تھرکتے پاؤں تھرک رہے تھے،
نہ نغمہ باقی نہ شادیانے !

ابولہب نے یہ رنگ دیکھا، لگام تھامی، لگائی
مہمیز، ابولہب کی خبر نہ آئی!

ابولہب کی خبر جو آئی، تو سالہا سال کا زمانہ
غبار بن کر بکھر چکا تھا!

ابولہب اجنبی زمینوں کے لعل و گوہر سمیٹ کر
پھر وطن کو لوٹا، ہزار طرّار و تیز آنکھیں، پرانے
غرفوں سے جھانک اٹھیں، ہجوم، پیر و جواں کا
گہرا ہجوم، اپنے گھروں سے نکلا، ابو لہب کے جلوس
کو دیکھنے کو لپکا!

ابولہب! اک شبِ زفاف ابولہب کا جلا
پھپھولا، خیال کی ریت کا بگولا، وہ عشقِ برباد
کا ہیولا، ہجوم میں سے پکار اٹھی: "ابو لہب!
تو وہی ہے جس کی دلہن جب آئی، تو سر پہ ایندھن
گلے میں سانپوں کے ہار لائی؟"

ابولہب ایک لمحہ ٹھٹکا، لگام تھامی، لگائی
مہمیز، ابو لہب کی خبر نہ آئی!
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
دل، مرے صحرا نوردِ پیر دل

نغمہ در جاِں رقص برپا، خندہ بر لب
دل، تمنّاؤں کے بے پایاں الاؤ کے قریب!

دل، مرے صحرا نوردِ پیر دل،
ریگ کے دل شاد شہری، ریگ تُو
اور ریگ ہی تیری طلب
ریگ کی نکہت ترے پیکر میں، تیری جاں میں ہے!

ریگ صبحِ عید کے مانند زرتاب و جلیل،
ریگ صدیوں کا جمال،
جشنِ آدم پر بچھڑ کر ملنے والوں کا وصال،
شوق کے لمحات کے مانند آزاد و عظیم!

ریگ نغمہ زن
کہ ذرے ریگ زاروں کو وہ پازیبِ قدیم
جن پہ پڑ سکتا نہیں دستِ لئیم،
ریگِ صحرا زرگری کی ریگ کی لہروں سے دُور
چشمۂ مکر و ریا شہروں سے دُور!

ریگ شب بیدار ہے، سنتی ہے ہر جابر کی چاپ
ریگ شب بیدار ہے، نگراں ہے مانندِ نقیب
دیکھتی ہے سایۂ آمر کی چاپ
ریگ ہر عیّار، غارت گر کی موت
ریگ استبداد کے طغیاں کے شور و شر کی موت
ریگ جب اٹھتی ہے، اڑ جاتی ہے ہر فاتح کی نیند
ریگ کے نیزوں سے زخمی، سب شہنشاہوں کے خواب!
(ریگ، اے صحرا کی ریگ
مجھ کو اپنے جاگتے ذروں کے خوابوں کی
نئی تعبیر دے!)

ریگ کے ذرّو ، ابھرتی صبح تم،
آؤ صحرا کی حدوں تک آ گیا روزِ طرب
دل، مرے صحرا نوردِ پیرِ دل،
آ چوم ریگ!
ہے خیالوں کے پری زادوں سے بھی معصوم ریگ!

ریگ رقصاں، ماہ و سالِ نور تک رقصاں رہے
اس کا ابریشم ملائم، نرم خُو، خنداں رہے!

دل، مرے صحرا نوردِ پیر دل
یہ تمنّاؤں کا بے پایاں الاؤ
راہ گم کردوں کی مشعل، اس کے لب پر’ آؤ، آؤ!‘
تیرے ماضی کے خزف ریزوں سے جاگی ہے یہ آگ
آگ کی قرمز زباں پر انبساطِ نو کے راگ
دل، مرے صحرا نوردِ پیر دل،
سرگرانی کی شبِ رفتہ سے جاگ!
کچھ شرر آغوشِ صرصر میں ہیں گُم،
اور کچھ زینہ بہ زینہ شعلوں کے مینار پر چڑھتے ہوئے
اور کچھ تہہ میں الاؤ کی ابھی
مضطرب، لیکن مذبذبِ طفل کمسن کی طرح!
آگ زینہ، آگ رنگوں کا خزینہ
آگ اُن لذّات کا سرچشمہ ہے
جس سے لیتا ہے غذا عشاق کے دل کا تپاک!
چوبِ خشک انگور، اس کی مے ہے آگ
سرسراتی ہے رگوں میں عید کے دن کی طرح!

آگ کا ہن، یاد سے اُتری ہوئی صدیوں کی یہ افسانہ خواں
آنے والے قرنہا کی داستانیں لب پہ ہیں
دل، مرا صحرا نوردِ پیر دل سن کر جواں!

آگ آزادی کا، دلشادی کا نام
آگ پیدائش کا، افزائش کا نام
آگ کے پھولوں میں نسریں، یاسمن، سنبل، شفیق و نسترن
آگ آرائش کا، زیبائش کا نام
آگ وہ تقدیس، دھُل جاتے ہیں جس سے سب گناہ
آگ انسانوں کی پہلی سانس کے مانند اِک ایسا کرم
عمر کا اِک طول بھی جس کا نہیں کافی جواب!
یہ تمنّاؤں کا بے پایاں الاؤ گر نہ ہو
اس لق و دق میں نکل آئیں کہیں سے بھیڑیے
اس الاؤ کو سدا روشن رکھو!
(ریگِ صحرا کو بشارت ہو کہ زندہ ہے الاؤ،
بھیڑیوں کی چاپ تک آتی نہیں!)

آگ سے صحرا کا رشتہ ہے قدیم
آگ سے صحرا کے ٹیڑھے، رینگنے والے
گرہ آلود، ژولیدہ درخت
جاگتے ہیں نغمہ درجاں، رقص برپا، خندہ برلب
اور منا لیتے ہیں تنہائی میں جشنِ ماہتاب
ان کی شاخیں غیر مرئی طبل کی آواز پر دیتی ہیں تال
بیخ و بُن سے آنے لگتی ہے خداوندی جلاجل کی صدا!

آگ سے صحرا کا رشتہ ہے قدیم
رہروؤں، صحرانوردوں کے لیے ہے رہنما
کاروانوں کا سہارا بھی ہے آگ
اور صحراؤں کی تنہائی کو کم کرتی ہے آگ!

آگ کے چاروں طرف پشمینہ و دستار میں لپٹے ہوئے
افسانہ گو
جیسے گرد چشمِ مژگاں کا ہجوم
ان کے حیرتناک، دلکش تجربوں سے
جب دمک اُٹھتی ہے ریت
ذرّہ ذرّہ بجنے لگتا ہے مثالِ سازِجاں
گوش برآواز رہتے ہیں درخت
اور ہنس دیتے ہیں اپنی عارفانہ بے نیازی سے کبھی!

یہ تمنّاؤں کا بے پایاں الاؤ گر نہ ہو
ریگ اپنی خلوتِ بے نور و خودبیں میں رہے
اپنی یکتائی کی تحسیں میں رہے
اس الاؤ کو سدا روشن رکھو!

یہ تمنّاؤں کا بے پایاں الاؤ گر نہ ہو
ایشیا، افریقہ پہنائی کا نام
(بے کار پہنائی کا نام)
یوروپ اور امریکہ دارائی کا نام،
(تکرارِ دارائی کا نام!)

میرا دلِ صحرا نورد پیر دل
جاگ اٹھا ہے، مشرق و مغرب کی ایسی یک دلی
کے کاروانوں کا نیا رویا لیے،
یک دلی ایسی کہ ہو گی فہمِ انساں سے ورا
یک دلی ایسی کہ ہم سب کہہ اٹھیں:
"اس قدر عجلت نہ کر
اژدہامِ گل نہ بن!"

کہہ اٹھیں ہم :
"تُو غمِ کُل تو نہ تھی
اب لذّتِ کل بھی نہ بن
روزِ آسائش کی بے دردی نہ بن
یک دلی بن، ایسا سنّاٹا نہ بن،
جس میں تابستاں کی دوپہروں کی
بے حاصل کسالت کے سوا کچھ بھی نہ ہو!"

اس "جفاگر" یک دلی کے کارواں یوں آئیں گے
دستِ جادو گر سے جیسے پھوٹ نکلے ہوں طلسم،
عشقِ حاصل خیز سے، یا زورِ پیدائی سے جیسے ناگہاں
کھُل گئے ہوں مشرق و مغرب کے جسم،
۔۔ جسم، صدیوں کے عقیم!

کارواں فرخندہ پَے، اور اُن کا بار
کیسہ کیسہ تختِ جم اور تاجِ کَے
کوزہ کوزہ فرد کی سطوت کی مے
جامہ جامہ روز و شب محنت کا خَے
نغمہ نغمہ حریّت کی گرم لَے!

سالکو، فیروز بختو، آنے والے قافلو
شہر سے لوٹوگے تم تو پاؤ گے
ریت کی سرحد پہ جو روحِ ابد خوابیدہ تھی
جاگ اٹھی ہے، "شکوہ ہائے نَے" سے وہ
ریت کی تہہ میں جو شرمیلی سحر روئیدہ تھی
جاگ اٹھی ہے حریّت کی لَے سے وہ!

اتنی دوشیزہ تھی، اتنی مردِ نادیدہ تھی صبح
پوچھ سکتے تھے نہ اس کی عمر ہم!
درد سے ہنستی نہ تھی،
ذرّوں کی رعنائی پہ بھی ہنستی نہ تھی،
ایک محجوبانہ بے خبری میں ہنس دیتی تھی صبح!
اب مناتی ہے وہ صحرا کا جلال
جیسے عزّ و جل کے پاؤں کی یہی محراب ہو!
زیرِ محراب آ گئی ہو اس کو بیداری کی رات
خود جنابِ عزّ و جل سے جیسے امیدِ زفاف
(سارے ناکردہ گناہ اس کے معاف!)
صبحِ صحرا، شاد باد!
اے عروسِ عزّ و جل، فرخندہ رُو، تابندہ خُو
تُو اک ایسے حجرۂ شب سے نکل کر آئی ہے
دستِ قاتل نے بہایا تھا جہاں ہر سیج پر
سینکڑوں تاروں کا رخشندہ لہو، پھولوں کے پاس!
صبحِ صحرا، سر مرے زانو پہ رکھ کر داستاں
اُن تمنا کے شہیدوں کی نہ کہہ
ان کی نیمہ رس امنگوں، آرزوؤں کی نہ کہہ
جن سے ملنے کا کوئی امکاں نہیں
شہد تیرا جن کو نوشِ جاں نہیں!
آج بھی کچھ دُور، اس صحرا کے پار
دیو کی دیوار کے نیچے نسیم
روز و شب چلتی ہے مبہم خوف سے سہمی ہوئی
جس طرح شہروں کی راہوں پر یتیم
نغمہ بر لب تاکہ ان کی جاں کا سناٹا ہو دُور!

آج بھی اس ریگ کے ذروں میں ہیں
ایسے ذرّے، آپ ہی اپنے غنیم
آج بھی اس آگ کے شعلوں میں ہیں
وہ شرر جو اس کی تہہ میں پر بریدہ رہ گئے
مثلِ حرفِ ناشنیدہ رہ گئے!
صبحِ صحرا، اے عروسِ عزّ و جل
آ کہ ان کی داستاں دہرائیں ہم
ان کی عزّت، ان کی عظمت گائیں ہم

صبح، ریت اور آگ، ہم سب کا جلال!
یک دلی کے کارواں اُن کا جمال
آؤ!
اس تہلیل کے حلقے میں ہم مل جائیں
آؤ!
شاد باغ اپنی تمناؤں کا بے پایاں الاؤ!
 

فرخ منظور

لائبریرین
اسرافیل کی موت

مرگِ اسرافیل پر آنسو بہاؤ
وہ خداؤں کا مقرّب، وہ خداوندِکلام
صوت انسانی کی روح ِجاوداں
آسمانوں کی ندائے بے کراں
آج ساکت مثل ِ حرفِ ناتمام
مرگِ اسرافیل پر آنسو بہاؤ!

آؤ، اسرافیل کے اس خوابِ بے ہنگام پر آنسو بہائیں
آرمیدہ ہے وہ یوں قرنا کے پاس
جیسے طوفاں نے کنارے پر اگل ڈالا اسے
ریگِ ساحل پر، چمکتی دھوپ میں، چپ چاپ
اپنے صُور کے پہلو میں وہ خوابیدہ ہے!
اس کی دستار، اس کے گیسو، اس کی ریش
کیسے خاک آلودہ ہیں!
تھے کبھی جن کی تہیں بود و نبود!
کیسے اس کا صُور، اس کے لب سے دور،
اپنی چیخوں، اپنی فریادوں میں گم
جھلملا اٹھتے تھے جس سے دیر و زود!

مرگِ اسرافیل پر آنسو بہاؤ
وہ مجسّم ہمہمہ تھا، وہ مجسّم زمزمہ
وہ ازل سے تا ابد پھیلی ہوئی غیبی صداؤں کا نشاں!

مرگِ اسرافیل سے
حلقہ در حلقہ فرشتے نوحہ گر،
ابنِ آدم زلف در خاک و نزار
حضرتِ یزداں کی آنکھیں غم سے تار
آسمانوں کی صفیر آتی نہیں
عالمِ لاہوت سے کوئی نفیر آتی نہیں!

مرگِ اسرافیل سے
اس جہاں پر بند آوازوں کا رزق
مطربوں کا رزق، اور سازوں کا رزق
اب مغنّی کس طرح گائے گا اور گائے کا کیا
سننے والوں کے دلوں کے تار چُپ!
اب کوئی رقاص کیا تھرکے گا، لہرائے گا کیا
بزم کے فرش و در و دیوار چُپ!
اب خطیبِ شہر فرمائے گا کیا
مسجدوں کے آستان و گنبد و مینار چُپ!
فِکر کا صیّاد اپنا دام پھیلائے گا کیا
طائرانِ منزل و کہسار چُپ!

مرگِ اسرافیل ہے
گوشِ شنوا کی، لبِ گویا کی موت
چشم ِبینا کی، دلِ دانا کی موت
تھی اسی کے دم سے درویشوں کی ساری ہاؤ ہو
اہلِ دل کی اہلِ دل سے گفتگو ۔۔۔۔
اہل دل ۔۔۔ جو آج گوشہ گیر و سرمہ در گلو!
اب تنانا ہو بھی غائب اور یارب ہا بھی گم
اب گلی کوچوں کی ہر آوا بھی گمُ!
یہ ہمارا آخری ملجا بھی گمُ!

مرگِ اسرافیل سے،
اس جہاں کا وقت جیسے سو گیا، پتھرا گیا
جیسے کوئی ساری آوازوں کو یکسر کھا گیا،
ایسی تنہائی کہ حسنِ تام یاد آتا نہیں
ایسا سنّاٹا کہ اپنا نام یاد آتا نہیں!

مرگِ اسرافیل سے
دیکھتے رہ جائیں گے دنیا کے آمر بھی
زباں بندی کے خواب!
جس میں مجبوروں کی سرگوشی تو ہو
اُس خداوندی کے خواب!
 

فرخ منظور

لائبریرین
میرے بھی ہیں کچھ خواب

اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب، میرے بھی ہیں کچھ خواب
میرے بھی ہیں کچھ خواب!
اس دور سے، اس دور کے سوکھے ہوئے دریاؤں سے،
پھیلے ہوئے صحراؤں سے، اور شہروں کے ویرانوں سے
ویرانہ گروں سے میں حزیں اور اداس!
اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب
میرے بھی ہیں کچھ خواب!

اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب، میرے بھی ہیں کچھ خواب
میرے بھی ہیں کچھ خواب
وہ خواب کہ اسرار نہیں جن کے ہمیں آج بھی معلوم
وہ خواب جو آسودگیِ مرتبہ و جاہ سے،
آلودگیِ گردِ سرِ راہ سے معصوم!
جو زیست کی بے ہودہ کشاکش سے بھی ہوتے نہیں معدوم
خود زیست کا مفہوم!

اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب،
اے کاہنِ دانشور و عالی گہر و پیر
تو نے ہی بتائی ہمیں ہر خواب کی تعبیر
تو نے ہی سجھائی غمِ دل گیر کی تسخیر
ٹوٹی ترے ہاتھوں ہی سے ہر خوف کی زنجیر
اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب، میرے بھی ہیں کچھ خواب
میرے بھی ہیں کچھ خواب!

اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب،
کچھ خواب کہ مدفون ہیں اجداد کے خود ساختہ اسمار کے نیچے
اجڑے ہوئے مذہب کے بِنا ریختہ اوہام کی دیوار کے نیچے
شیراز کے مجذوبِ تنک جام کے افکار کے نیچے
تہذیبِ نگوں سار کے آلام کے انبار کے نیچے!

کچھ خواب ہیں آزاد مگر بڑھتے ہوئے نور سے مرعوب
نے حوصلۂ خوب ہے، نے ہمتِ ناخوب
گر ذات سے بڑھ کر نہیں کچھ بھی انہیں محبوب
ہیں آپ ہی اس ذات کے جاروب
۔۔۔ ذات سے محجوب!

کچھ خواب ہیں جو گردشِ آلات سے جویندۂ تمکین
ہے جن کے لیے بندگیِ قاضیِ حاجات سے اس دہر کی تزئین
کچھ جن کے لیے غم کی مساوات سے انسان کی تامین
کچھ خواب کہ جن کا ہوسِ جور ہے آئین
دنیا ہے نہ دین!

کچھ خواب ہیں پروردۂ انوار، مگر ان کی سحر گم
جس آگ سے اٹھتا ہے محبّت کا خمیر، اس کے شرر گم
ہے کل کی خبر ان کو مگر جز کی خبر گم
یہ خواب ہیں وہ جن کے لیے مرتبۂ دیدۂ تر ہیچ
دل ہیچ ہے، سر اتنے برابر ہیں کہ سر ہیچ
۔۔۔ عرضِ ہنر ہیچ!

اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب
یہ خواب مرے خواب نہیں ہیں کہ مرے خواب ہیں کچھ اور
کچھ اور مرے خواب ہیں، کچھ اور مرا دَور
خوابوں کے نئے دور میں، نےَ مور و ملخ، نےَ اسد و ثور
نے لذّتِ تسلیم کسی میں نہ کسی کو ہوسِ جور
۔۔۔ سب کے نئے طور!

اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب،
میرے بھی ہیں کچھ خواب!
ہر خواب کی سوگند!
ہر چند کہ وہ خواب ہیں سر بستہ و روبند
سینے میں‌چھپائے ہوئے گویائی، دوشیزۂ لب خند
ہر خواب میں اجسام سے افکار کا، مفہوم سے گفتار کا پیوند
عشّاق کے لب ہائے ازل تشنہ کی پیوستگیِ شوق کے مانند
(اے لمحۂ خورسند!)

اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب، میرے بھی ہیں کچھ خواب
وہ خواب ہیں آزادیِ کامل کے نئے خواب
ہر سعیِ جگر دوز کے حاصل کے نئے خواب
آدم کی ولادت کے نئے جشن پہ لہراتے جلاجل کے نئے خواب
اس خاک کی سطوت کی منازل کے نئے خواب
یا سینۂ گیتی میں نئے دل کے نئے خواب

اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب
میرے بھی ہیں کچھ خواب
میرے بھی ہیں کچھ خواب!
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
آئنہ حسّ و خبر سے عاری

آئنہ حسّ و خبر سے عاری،
اس کے نابود کو ہم ہست بنائیں کیسے؟
منحصر ہستِ تگا پوئے شب و روز پہ ہے
دلِ آئینہ کو آئینہ دکھائیں کیسے؟
دلِ آئینہ کی پہنائیِ بے کار پہ ہم روتے ہیں،
ایسی پہنائی کہ سبزہ ہے نمو سے محروم
گل ِنو رستہ ہے بُو سے محروم!

آدمی چشم و لب و گوش سے آراستہ ہیں
لطفِ ہنگامہ سے نور ِمن و تو سے محروم!
مے چھلک سکتی نہیں، اشک کے مانند یہاں
اور نشّے کی تجلّی بھی جھلک سکتی نہیں
نہ صفائے دلِ آئینہ میں شورش کا جمال
نہ خلائے دلِ آئینہ گزرگاہِ خیال!

آئنہ حسّ و خبر سے عاری
اس کے نابود کو ہم ہست بنائیں کیسے؟
آئنہ ایسا سمندر ہے جسے
کر دیا دستِ فسوں گر نے ازل میں ساکن!
عکس پر عکس در آتا ہے یہ امّید لیے
اس کے دم ہی سے فسونِ دلِ تنہا ٹوٹے
یہ سکوتِ اجل آسا ٹوٹے!

آئینہ ایک پر اسرار جہاں میں اپنے
وقت کی اوس کے قطروں کی صدا سنتا ہے،
عکس کو دیکھتا ہے، اور زباں بند ہے وہ
شہرِ مدفون کے مانند ہے وہ!
اس کے نابود کو ہم ہست بنائیں کیسے؟
آئینہ حسّ و خبر سے عاری!
 

فرخ منظور

لائبریرین
تعارف

اجل، ان سے مل،
کہ یہ سادہ دل
نہ اہلِ صلوٰۃ اور نہ اہلِ شراب،
نہ اہلِ ادب اور نہ اہلِ حساب،
نہ اہلِ کتاب ۔۔۔۔
نہ اہلِ کتاب اور نہ اہلِ مشین
نہ اہلِ خلا اور نہ اہلِ زمین
فقط بے یقین
اجل، ان سے مت کر حجاب
اجل، ان سے مل!

بڑھو، تُم بھی آگے بڑھو،
اجل سے ملو،
بڑھو، نو تونگر گداؤ
نہ کشکولِ دریوزہ گردی چھپاؤ
تمہیں زندگی سے کوئی ربط باقی نہیں
اجل سے ہنسو اور اجل کو ہنساؤ!
بڑھو، بندگانِ زمانہ بڑھو بندگانِ درم
اجل، یہ سب انسان منفی ہیں،
منفی زیادہ ہیں، انسان کم
ہو اِن پر نگاہِ کرم!​
 

فرخ منظور

لائبریرین
اندھا جنگل

۔۔۔ جس جنگل میں سورج درّانہ در آیا ہے
پتھر ہے وہ جنگل، پتھر اس کے باسی بھی
دیو نے لے لی ان سے چُھونے تک کی شکتی بھی
آفت دیکھی ایسی بھی؟
جن پیڑوں پر سُورج نے ڈالیں اپنی کرنیں
وہ صدیوں کے اندھے پیڑ ہیں اندھے جنگل میں
آخر آنکھیں کیسے ان کو مِل جائیں پل میں
یارا ہے کِس کاجل میں؟

کرنیں پھر بھی کتنی دَھنی ہیں، کتنی دریا دِل
چھاپ رہی ہیں مُردہ پتوں ہی پر تصویریں!
پوچھو، کب تصویروں سے بدلی ہیں تقدیریں؟
ہو تو ان کا دِل چیریں!

اس کے سوا کیونکر ٹوُٹے گا گہرا سناٹا؟
قائم جس کے دَم سے پیڑوں کی یہ دُوری ہے
باہم تاروں کے سے فاصلے ہیں، مہجوری ہے
خواب کی سی معذوری ہے!

کیونکر ان پر چلنے لگے گی وقت کی پُروا پھر
بیداری ان کی رگوں میں صُبحیں دوڑائے گی؟
ان کے آب و خاک سے ان کا سونا لائے گی
ان کو ہنستا پائے گی؟
 
Top