مکمل کلام ن م راشد (اوّل)

فرخ منظور

لائبریرین
زندگی میری سہ نیم

میں سہ نیم اور زندگی میری سہ نیم
دوست داری، عشق بازی، روزگار
زندگی میری سہ نیم!
دوستوں میں دوست کچھ ایسے بھی ہیں
جن سے وابستہ ہے جاں،
اور کچھ ایسے بھی ہیں، جو رات دن کے ہم پیالہ، ہم نوالہ
پھر بھی جیسے دشمنِ جانِ عزیز!
دوستی کچھ دشمنی اور دشمنی کچھ دوستی
دوستی میری سہ نیم!

عشق محبوبہ سے بھی ہے اور کتنی اور محبوباؤں سے،
ان میں کچھ ایسی بھی ہیں
جن سے وابستہ ہے جاں
اور کچھ ایسی بھی ہیں جو عطرِ بالیں، نورِ‌بستر
پھر بھی جیسے دشمنِ جانِ عزیز!
اِن میں کچھ نگرانِ دانہ اور کچھ نگرانِ دام
عشق میں‌کچھ سوز ہے، کچھ دل لگی، کچھ "انتقام"
عاشقی میری سہ نیم!

روزگار اِک پارۂ نانِ جویں کا حیلہ ہے
گاہ یہ حیلہ ہی بن جاتا ہے دستورِ حیات
اور گاہے رشتہ ہائے جان و دل کو بھول کر
بن کے رہ جاتا ہے منظورِ حیات
پارۂ ناں کی تمنّا بھی سہ نیم
میں سہ نیم اور زندگی میری سہ نیم!‌
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
حرفِ ناگفتہ

حرفِ ناگفتہ کے آزار سے ہشیار رہو
کوئے و برزن کو،
دروبام کو،
شعلوں کی زباں چاٹتی ہو،
وہ دہن بستہ و لب دوختہ ہو ۔۔۔
ایسے گنہ گار سے ہشیار رہو!

شحنۂ شہر ہو، یا بندۂ سلطاں ہو
اگر تم سے کہے: "لب نہ ہلاؤ"
لب ہلاؤ، نہیں، لب ہی نہ ہلاؤ
دست و بازو بھی ہلاؤ،
دست و بازو کو زبان و لبِ گفتار بناؤ
ایسا کہرام مچاؤ کہ سدا یاد رہے،
اہلِ دربار کے اطوار سے ہشیار رہو!
اِن کے لمحات کے آفاق نہیں -
حرفِ ناگفتہ سے جو لحظہ گزر جائے
شبِ وقت کا پایاں ہے وہی!
ہائے وہ زہر جو صدیوں کے رگ و پے میں سما جائے
کہ جس کا کوئی تریاق نہیں!
آج اِس زہر کے بڑھتے ہوئے
آثار سے ہشیار رہو
حرفِ ناگفتہ کے آزار سے ہشیار رہو!
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
یہ دروازہ کیسے کھُلا؟

یہ دروازہ کیسے کھُلا، کس نے کھولا؟
وہ کتبہ جو پتھر کی دیوار پر بے زباں سوچتا تھا
ابھی جاگ اٹھا ہے،
وہ دیوار بھولے ہوئے نقش گر کی کہانی
سنانے لگی ہے؛
نکیلے ستوں پر وہ صندوق، جس پر
سیہ رنگ ریشم میں لپٹا ہوا ایک کتے کا بت،
جس کی آنکھیں سنہری،
ابھی بھونک اُٹھا ہے؛
وہ لکڑی کی گائے کا سر
جس کے پیتل کے سینگوں میں بربط،
جو صدیوں سے بے جان تھا
جھنجھنانے لگا ہے
وہ ننھے سے جوتے جو عجلت میں اک دوسرے سے
الگ ہو گئے تھے؛
یکایک بہم مل کے، اترا کے چلنے لگے ہیں۔
وہ پایوں پہ رکھے ہوئے تین گلدان
جن پر بزرگوں کے پاکیزہ یا کم گنہ گار
جسموں کی وہ راکھ جو (اپنی تقدیرِ مبرم سے بچ کر)
فقط تِیرہ تر ہو گئی تھی،
اُسی میں چھپے کتنے دل
تلملانے لگے ہیں؟
یہ دروازہ کیسے کھلا؟ کس نے کھولا؟
ہمیں نے____
ابھی ہم نے دہلیز پر پاؤں رکھا نہ تھا
کواڑوں کو ہم نے چھوا تک نہ تھا
کیسے یکدم ہزاروں ہی بے تاب چہروں پہ
تارے چمکنے لگے
جیسے اُن کی مقدس کتابوں میں
جس آنے والی گھڑی کا حوالہ تھا
گویا یہی وہ گھڑی ہو!
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
من وسلویٰ

"خدائے برتر،
یہ دار یوشِ بزرگ کی سر زمیں،
یہ نوشیروانِ عادل کی داد گاہیں،
تصوف و حکمت و ادب کے نگار خانے،
یہ کیوں سیہ پوست دشمنوں کے وجود سے
آج پھر اُبلتے ہوئے سے ناسور بن رہے ہیں؟"

ہم اِس کے مجرم نہیں ہیں، جانِ عجم نہیں ہیں،
وہ پہلا انگریز
جس نے ہندوستان کے ساحل پہ
لا کے رکھی تھی جنسِ سوداگری
یہ اس کا گناہ ہے
جو ترے وطن کی
زمین گل پوش کو
ہم اپنے سیاہ قدموں سے روندتے ہیں!

یہ شہر اپنا وطن نہیں ہے،
مگر فرنگی کی رہزنی نے
اسی سے ناچار ہم کو وابستہ کر دیا ہے،
ہم اِس کی تہذیب کی بلندی کی چھپکلی بن کے رہ گئے ہیں،

وہ راہزن جو یہ سوچتا ہے:
"کہ ایشیا ہے کوئی عقیم و امیر بیوہ
جو اپنی دولت کی بے پناہی سے مبتلا اک فشار میں ہے،
اور اُس کا آغوشِ آرزو مند وا مرے انتظار میں ہے،
اور ایشیائی،
قدیم خواجہ سراؤں کی اک نژادِ کاہل،
اجل کی راہوں پہ تیز گامی سے جارہے ہیں"____
مگر یہ ہندی
گرسنہ و پا برہنہ ہندی
جو سالکِ راہ ہیں
مگر راہ و رسمِ منزل سے بے خبر ہیں،
گھروں کو ویران کر کے،
لاکھوں صعوبتیں سہہ کے
اور اپنا لہو بہا کر
اگر کبھی سوچتے ہیں کچھ تو یہی،
کہ شاید انہی کے بازو
نجات دلوا سکیں گے مشرق کو
غیر کے بے پناہ بپھرے ہوئے ستم سے___
یہ سوچتے ہیں:
یہ حادثہ ہی کہ جس نے پھینکا ہے
لا کے ان کو ترے وطن میں
وہ آنچ بن جائے،
جس سے پھُنک جائے،
وہ جراثیم کا اکھاڑہ،
جہاں سے ہر بار جنگ کی بوئے تند اُٹھتی ہے
اور دنیا میں پھیلتی ہے!___

میں جانتا ہوں
مرے بہت سے رفیق
اپنی اداس، بیکار زندگی کے
دراز و تاریک فاصلوں میں
کبھی کبھی بھیڑیوں کے مانند
آ نکلتے ہیں، را ہگزاروں پہ
جستجو میں کسی کے دو "ساقِ صندلیں" کی!
کبھی دریچوں کی اوٹ میں
ناتواں پتنگوں کی پھڑپھڑاہٹ پہ
ہوش سے بے نیاز ہو کر وہ ٹوٹتے ہیں؛
وہ دستِ سائل
جو سامنے اُن کے پھیلتا ہے
اس آرزو میں
کہ اُن کی بخشش سے
پارۂ نان، من و سلویٰ کا روپ بھر لے،
وہی کبھی اپنی نازکی سے
وہ رہ سجھاتا ہے
جس کی منزل پہ شوق کی تشنگی نہیں ہے!
تو اِن مناظر کو دیکھتی ہے!
تو سوچتی ہے:
__یہ سنگدل، اپنی بزدلی سے
فرنگیوں کی محبتِ ناروا کی زنجیر میں بندھے ہیں
اِنہی کے دم سے یہ شہر ابلتا ہوا سا ناسور بن رہا ہے____!
محبتِ ناروا نہیں ہے،
بس ایک زنجیر،
ایک ہی آہنی کمندِ عظیم
پھیلی ہوئی ہے،
مشرق کے اک کنارے سے دوسرے کنارے تک،
مرے وطن سے ترے وطن تک،
بس ایک ہی عنکبوت کا جال ہے کہ جس میں
ہم ایشیائی اسیر ہو کر تڑپ رہے ہیں!
مغول کی صبحِ خوں فشاں سے
فرنگ کی شامِ جاں ستاں تک!
تڑپ رہے ہیں
بس ایک ہی دردِ لا دوا میں،
اور اپنے آلامِ جاں گزا کے
اس اشتراکِ گراں بہا نے بھی
ہم کو اک دوسرے سے اب تک
قریب ہونے نہیں دیا ہے!
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
میزبان

ملاقاتِ اوّل میں نوروز بولا
"میں اک کارگر، رنج بر ہوں،
سوادِ کتابی کی لذّات سے بے خبر ہوں
مرا سِن ہے پچپن سے اوپر
مگر میرے بالوں میں اک تارِ خاکستری تک
ہویدا نہیں ہے۔
وہ خوش بخت ہوں
جس کی دو بیویاں ہیں،
جواں سال و رعنا
اور اُن میں خیابانِ شاپور کی رہنے والی
مری ہژدہ سالہ زلیخا
جمیل و جواں تر ہے
اسفند کی شمعِ رخشندہ گوہر ملک سے؛
مگر، تم یہ باور کرو گے
کہ اِن دو حریفوں کو اک دوسرے کی
خبر تک نہیں ہے؟"

وہ کہنے لگا:
"تم اگر آج کی شب
زلیخا کے گھر میں
پنیر اور روٹی مرے ساتھ کھاؤ،
تو ہم دونوں ممنون و دل شاد ہوں گے!"

یہی وہ محبت کی پہلی کرن تھی
کہ جس نے ہمارے دلوں سے بھلا دی تھی یادِ وطن بھی!
تو نوروز بولا:
"مگر ہاں یہ سُن لو،
کہ تم نے تمھارے کسی آشنا نے
جو، قربان، میری زلیخا کو فاسد نگاہوں سے دیکھا،
تو یہ نیمچہ اُس کے ناپاک سینے میں بے شک اتر کر رہے گا۔"

تو جب صبحِ فروا
ابھی ہم خمارِ شبِ رفتہ سے سرگراں تھے
ابھی تک دماغوں پہ چھایا ہوا تھا دھواں سا
ابھی تک نگاہوں میں
حسن و مئے و رقص و نغمہ کے بکھرے ہوئے تار
قالین سے بُن رہے تھے،
اور اک خواب گوں تیرگی میں،
کبھی ایک دو، اور کبھی سینکڑوں آتشیں جام
ہنستے تھے، گاتے تھے، اور دَور میں گھوم کر ناچتے تھے؛
وہ ہر بار جب سامنے سے گزرتے تھے
اُن میں سے تیر و سناں سر نکالے ہوئے جھانکتے تھے،
کہ جیسے ہماری ہی جانب بڑھیں گے،
ہمارے ہی دہشت سے بے انتہا سرد جسموں کو
بس چیر جائیں گے اک عالمِ بے بسی میں!
کبھی اپنی دیرینہ محرومیاں،
اور کبھی قید و بندِ عمل سے وہ تازہ رہائی
سجھاتی تھی سرگوشیوں میں:
"یہ دیوانہ گر رات ہو
اور پھر بھی نہ ہو دشنۂ جاں ستاں تک گوارا؟"

تصور دکھاتا تھا لیکن،
مرے ساتھیوں میں سے اک مردِ میداں
کہ جس نے کسی ساعدِ نور کو چھو لیا ہے
دھڑم سے گرا ہے
اور اُس کا لباسِ کبودی
ہے سب خوں میں لتھڑا ہوا پارہ پارہ!

تو نوروز آیا، ہنسا اور کہنے لگا:
"تم بڑے سنگدل ہو،
تمھارا وہ ساتھی تو کل شب وہیں سو گیا تھا،
بہت اُس کی دل جوئی کرتی رہی میری گل رُو غزالہ،
کہ وہ اپنی مہجور بیوی کی تصویر کو
سامنے رکھ کے آنسو بہاتا رہا ہے!
تمھیں کیا مصیبت پڑی تھی
جو تم نیم شب لوٹ آئے تھے
منزل کی آسودگی چھوڑ کر
ہُو کے عالم میں،
جب کوئے و برزن میں
آوازِ سگ تھی نہ آوائے درباں؟"

وہ مہجور بیوی کی تصویر ۔۔۔۔
وہ ایک گل رُو غزالہ کی دلجوئیاں ۔۔۔۔
وہ مرے نیم شب لوٹ آنے کا ارماں ۔۔۔۔
تو، اِس پر رہی سب کے دل میں یہ الجھن
کہ ساتھی کے "شہکار" کا راز جانیں!
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
نارسائی

درختوں کی شاخوں کو اتنی خبر ہے
کہ اُن کی جڑیں کھوکھلی ہو چلی ہیں،
مگر اُن میں ہر شاخ بزدل ہے
یا مبتلا خود فریبی میں شاید
کہ اِن کِرم خوردہ جڑوں سے
وہ اپنے لیے تازہ نم ڈھونڈتی ہے!
میں مہمان خانے کے سالون میں
ایک صوفے میں چپ چاپ دبکا ہوا تھا،
گرانی کے باعث وہاں دخترانِ عجم تو نہ تھیں
ہاں کوئی بیس گز پر
فقط ایک چہرہ تھا جس کے
خد و خال کی چاشنی ارمنی تھی!

زمستاں کے دن تھے،
لگاتار ہوتی رہی تھی سرِ شام سے برف باری
دریچے کے باہر سفیدے کے انبار سے لگ گئے تھے
مگر برف کا رقصِ سیمیں تھا جاری،
وہ اپنے لباسِ حریری میں
پاؤں میں گل ہائے نسریں کے زنگولے باندھے،
بدستور اک بے صدا، سہل انگار سی تال پر ناچتی جا رہی تھی!
مگر رات ہوتے ہی چاروں طرف بے کراں خامشی چھا گئی تھی
خیاباں کے دو رویہ سرو و صنوبر کی شاخوں پہ
یخ کے گلولے، پرندے سے بن کر لٹکنے لگے تھے،
زمیں اُن کے بکھرے ہوئے بال و پر سے
کف آلود ساحل سا بنتی چلی جا رہی تھی!
میں اک گرم خانے کے پہلو میں صوفے پہ تنہا پڑا سوچتا تھا،
بخاری میں افسردہ ہوتے ہوئے رقص کو گھورتا تھا،
"اجازت ہے میں بھی
ذرا سینک لوں ہاتھ اپنے؟"
(زبان فارسی تھی تکلم کی شیرینیاں اصفہانی!)
"تمھیں شوق شطرنج سے ہے؟"
(اٹھا لایا میں اپنے کمرے سے شطرنج جا کر!)
"بچو فِیل___
اسپِ سیہ کا تو خانہ نہیں یہ____
بچاؤ وزیر___
اور لو یہ پیادے کی شہ لو____
اور اِک اور شہ!
اور یہ آخری مات!
بس ناز تھا کیا اسی شاطری پر؟"
میں اچھا کھلاڑی نہیں ہوں
مگر آن بھر کی خجالت سے میں ہنس دیا تھا!
"ابھی اور کھیلو گے؟"
"لو اور بازی___
یہ اک اور بازی۔۔۔"
یونہی کھیلتے کھیلتے صبح ہونے لگی تھی!
مؤذن کی آواز اس شہر میں زیرِ لب ہو چکی ہے
سحر پھر بھی ہونے لگی تھی!
وہ دروازے جو سال ہا سال سے بند تھے
آج وا ہو گئے تھے!
میں کرتا رہا ہند و ایراں کی باتیں:
’’۔۔۔اور اب عہدِ حاضر کے ضحّاک سے
رستگاری کا رستہ یہی ہے
کہ ہم ایک ہو جائیں، ہم ایشیائی!
وہ زنجیر، جس کے سرے سے بندھے تھے کبھی ہم
وہ اب سست پڑنے لگی ہے،
تو آؤ کہ ہے وقت کا یہ تقاضا
کہ ہم ایک ہو جائیں__ ہم ایشیائی!‘‘
میں روسی حکایات کے ہرزہ گو نوجوانوں کے مانند یہ بے محل وعظ کرتا رہا تھا!

اُسے صبحدم اُس کی منزل پہ جب چھوڑ کر آ رہا تھا،
وہ کہنے لگی:
’’اب سفینے پہ کوئی بھروسہ کرے کیا
سفینہ ہی جب ہو پر و بالِ طوفاں؟
یہاں بھی وہاں بھی وہی آسماں ہے،
مگر اس زمیں سے خدایا رہائی
خدایا دُہائی!
ٹھکانہ ہے لوطی گری، رہزنی کا!
یہاں زندگی کی جڑیں کھوکھلی ہو چکی ہیں،
فقط شاخساریں
ابھی اپنی افتاد کے حشر سے ہیں گریزاں!
یہ بچپن میں، مَیں نے پڑھی تھی کہانی
کہا ساحرہ نے:
"کہ اے شاہزادے
رہِ جستجو میں
اگر اس لق و دق بیاباں میں
دیکھا پلٹ کر،
تو پتھر کا بت بن کے رہ جائے گا تو!"
جہاں سب نگاہیں ہوں ماضی کی جانب
وہاں راہرو ہیں فقط عازمِ نارسائی!"

تو دن بھر یہی سوچ تھی
کیا ہمارے نصیبے میں افتاد ہے،
کوئی رفعت نہیں؟
کوئی منزل نہیں ہے؟
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
کیمیا گر

رضا شاہ!
تجھ پر سلام اجنبی کا!
سلام ایک ہندی سپاہی کا تجھ پر!
مجھے تو کہاں دیکھ سکتا ہے؟
تیری نگاہیں تو البرز کے پار اُفق پر لگی ہیں!
یہاں __ میں ترے بت کے نیچے
چمکتی ہوئی سیڑھیوں پر کھڑا ہوں!
سنا ہے کہ اُس انتہائی عقیدت کی خاطر
جو بخشی گئی تھی تجھے اپنی ذاتِ گرامی سے،
تو نے یہ بت
اپنی فرماں روائی میں
یورپ کے مشہور ہیکل تراشوں سے بنوا کے
اس چوک میں نصب کروا دیا تھا!
اسی سے ہویدا ہے یہ بھی
کہ ملت کی احساں شناسی پہ کتنا بھروسہ تھا تجھ کو!

رضا شاہ!
اے داریوش اور سیروس کے جانشیں
یہ قلم رو،
تجھے جس کی تزئین کی لو لگی تھی
جسے تو خدا کی اماں میں بھی دینا گوارا نہ کرتا،
یہی شہر یور کے الم زا حوادث کے بعد
آج قدموں میں تیرے پڑی ہے،
یہ بے جان لاشہ
جسے تین خونخوار کرگس
نئی اور بڑھتی ہوئی آز سے نوچتے جا رہے ہیں!
وطن اور ولی عہد کی والہانہ محبت،
ترے ہوش و فکر و عمل کے لیے،
کون سی چیز مہمیز کا کام دیتی تھی،
سب جانتے ہیں!
مگر تو وہ معمار تھا جس کو
بنیاد سے کوئی مطلب نہ تھا
وہ تو زخموں کو آنکھوں سے روپوش کرنے میں،
چھت اور دیوار و در کی منبّت پہ گلگو نہ ملنے میں
دن رات بے انتہا تندہی سے لگا تھا!

یہ مشہور ہے
تو نے اک روز نادر کی تربت پہ جا کر
کہا تھا:
"کہ نادر میں سب خوبیاں تھیں
مگر پیٹ کا اتنا ہلکا
کہ لوگ اس کے مقصود کو بھانپ لیتے!"

یہ سچ ہے کہ نادر اگر نیم شب
صبح کے وحشت افزا ارادے کو ا فشا نہ کرتا
تو یوں قتل ہونے کی نوبت نہ آتی!
مگر وہ تری حد سے گزری ہوئی رازداری
کہ جس نے تجھے
اپنے افکار کے قید خانے میں
محصور سا کر دیا تھا،
____وہ زنداں جہاں گھوم پھر کر نگاہیں
فقط اپنا چہرہ دکھاتی تھیں تجھ کو
جہاں ہر عقیدے کو تو
اپنے الہام کے شیشۂ کور میں دیکھتا تھا،
جہاں ایک چھوٹا سا روزن بھی ایسا نہ تھا،
جس میں ملت کے افکار کی ایک کرن کا گزر ہو!
اسی کا نتیجہ، کہ اک روز
کہنے کو باتیں بہت تھیں
مگر سننے والے کہیں بھی نہ تھے،
اور تجھے بھی تو کر ہو گئے تھے!
تجھے اس زمیں سے گئے دو برس ہو چکے ہیں
تری یاد تک مٹ چکی ہے دلوں سے
کبھی یاد کرتا ہے کوئی تو کہتا ہے،
"وہ کیمیا گر
جو کرتا رہا سب سے وعدے
کہ لاؤں گا سونا بنا کر
مگر شہریوں کے مس و سیم تک
لے کے چلتا بنا؟"

یہ طہران جو تیرے خوابوں میں
پاریس کا نقشِ ثانی تھا،
یوں تو یہاں رہگزاروں میں
بہتا ہے ہر شام سیما فروشوں کا سیلاب جاری،
یہاں رقص گاہوں میں اب بھی
بہت جھلملاتی ہیں محفل کی شمعیں،
یہاں رقص سے چور یا جام و بادہ سے مخمور ہو کر
وطن کے پجاری
بآہنگِ سنتور و تار و دف و نَے
لگاتے ہیں مل کر
"وطن! اے وطن!" کی صدائیں!
مگر کون جانے یہ کس کا وطن ہے؟

کہ پاریس بھی آج اُس کا ہیولا ہے بے چارگی میں
کہ اُس پر فقط برقِ خرمن گری تھی
اسے شعلہ ہائے نیستاں نگلتے چلے جا رہے ہیں!
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
ہمہ اوست

خیابانِ سعدی میں
رُوسی کتابوں کی دکّان پر ہم کھڑے تھے
مجھے رُوس کے چیدہ صنعت گروں کے
نئے کار ناموں کی اک عمر سے تشنگی تھی!
مجھے رُوسیوں کے "سیاسی ہمہ اوست" سے کوئی رغبت نہیں ہے
مگر ذرّے ذرّے میں
انساں کے جوہر کی تابندگی دیکھنے کی تمنّا ہمیشہ رہی ہے!
اور اُس شام تو مرسدہ کی عروسی تھی،
اُس شوخ، دیوانی لڑکی کی خاطر
مجھے ایک نازک سی سوغات کی جستجو تھی۔

وہ میرا نیا دوست خالد
ذرا دُور، تختے کے پیچھے کھڑی
اک تنو مند لیکن فسوں کار،
قفقاز کی رہنے والی حسینہ سے شیر و شکر تھا!
یہ بھوکا مسافر،
جو دستے کے ساتھ
ایک خیمے میں، اک دُور افتادہ صحرا میں
مدّت سے عزلت گزیں تھا،
بڑی التجاؤں سے
اِس حورِ قفقاز سے کہہ رہا تھا:
"نجانے کہاں سے ملا ہے
تمہاری زباں کو یہ شہد
اور لہجے کو مستی!
میں کیسے بتاؤں
میں کس درجہ دلدادہ ہوں رُوسیوں کا
مجھے اشتراکی تمدّن سے کتنی محبّت ہے،
کیسے بتاؤں!
یہ ممکن ہے تم مجھ کو رُوسی سکھا دو؟
کہ رُوسی ادیبوں کی سر چشمہ گاہوں کو میں دیکھنا چاہتا ہوں!"

وہ پروردہِ عشوہ بازی
کنکھیوں سے یوں دیکھتی تھی
کہ جیسے وہ اُن سرنگوں آرزوؤں کو پہچانتی ہو،
جو کرتی ہیں اکثر یوں ہی رو شناسی
کبھی دوستی کی تمنّا،
کبھی علم کی پیاس بن کر!
وہ کولھے ہلاتی تھی، ہنستی تھی
اک سوچی سمجھی حسابی لگاوٹ سے،
جیسے وہ اُن خفیہ سر چشمہ گاہوں کے ہر راز کو جانتی ہو،
وہ تختے کے پیچھے کھڑی، قہقہے مارتی، لوٹتی تھی!

کہا میں نے خالد سے:
"بہروپیے!
اِس ولایت میں ضربِ مثل ہے
"کہ اونٹوں کی سودا گری کی لگن ہو
تو گھر اُن کے قابل بناؤ۔۔،
اور اِس شہر میں یوں تو استانیاں ان گنت ہیں
مگر اِس کی اُجرت بھلا تم کہاں دے سکوگے!"
وہ پھر مضطرب ہو کے، بے اختیاری سے ہنسنے لگی تھی!
وہ بولی:
"یہ سچ ہے
کہ اُجرت تو اک شاہی بھر کم نہ ہوگی،
مگر فوجیوں کا بھروسہ ہی کیا ہے،
بھلا تم کہاں باز آؤگے
آخر زباں سیکھنے کے بہانے
خیانت کروگے!"
وہ ہنستی ہوئی
اک نئے مشتری کی طرف ملتفت ہو گئی تھی!

تو خالد نے دیکھا
کہ رومان تو خاک میں مل چکا ہے۔۔
اُسے کھینچ کر جب میں بازار میں لا رہا تھا،
لگاتار کرنے لگا وہ مقولوں میں باتیں:
"زباں سیکھنی ہو تو عورت سے سیکھو!
جہاں بھر میں رُوسی ادب کا نہیں کوئی ثانی!
وہ قفقاز کی حور، مزدور عورت!
جو دنیا کے مزدور سب ایک ہو جائیں
آغاز ہو اک نیا دورہِ شادمانی!"

مرے دوستوں میں بہت اشتراکی ہیں،
جو ہر محبّت میں مایوس ہو کر،
یوں ہی اک نئے دورہِ شادمانی کی حسرت میں
کرتے ہیں دلجوئی اک دوسرے کی،
اور اب ایسی باتوں پہ میں
زیرِ لب بھی کبھی مسکراتا نہیں ہوں!

اور اُس شام جشنِ عروسی میں
حسن و مئے و رقص و نغمہ کے طوفان بہتے رہے تھے،
فرنگی شرابیں تو عنقا تھیں
لیکن مئےِ نابِ قزوین و خُلّارِ شیراز کے دورِ پیہم سے،
رنگیں لباسوں سے،
خوشبو کی بے باک لہروں سے،
بے ساختہ قہقہوں، ہمہموں سے،
مزامیر کے زیر و بم سے،
وہ ہنگامہ برپا تھا،
محسوس ہوتا تھا
طہران کی آخری شب یہی ہے!
اچانک کہا مرسدہ نے:
"تمہارا وہ ساتھی کہاں ہے؟
ابھی ایک صوفے پہ دیکھا تھا میں نے
اُسے سر بزانو!"

تو ہم کچھ پریشان سے ہو گئے
اور کمرہ بہ کمرہ اُسے ڈھونڈنے مل کے نکلے!
لو اک گوشہِ نیم روشن میں
وہ اشتراکی زمیں پر پڑا تھا
اُسے ہم ہلایا کیے اور جھنجھوڑا کیے
وہ تو ساکت تھا، جامد تھا!
رُوسی ادیبوں کی سر چشمہ گاہوں کی اُس کو خبر ہو گئی تھی؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
مارِ سیاہ

سرِشام ہم یاسمن سے ملے تھے
وہ بُت کی طرح بے زباں اور افسردہ،
اِک کہنہ و خستہ گھر میں،
ہمیں لے کے داخل ہوئی تھی!
کسی پیرہ زن نے ہمارا وہاں
شمعِ لرزاں لیے خیر مقدم کیا تھا،
مَے کم بہا اور خیّام سے
میر ی اور دوستوں کی مدارات کی تھی!
مگر یاسمن کی نگاہیں جھکی تھیں
وہ بالیں پہ زلفِ سیہ میں
سپیدے کے داغوں کو مجھ سے چھپاتی رہی تھی؛
وہ پھر ہم سے مہمان خانے میں ملتی رہی تھی،
شکر اور قہوے کے ملفوفِ ارزاں
جو بازار میں انتہائی گراں تھے
وہ ہر بار ہم سے بصد معذرت لے کے جاتی رہی تھی!
خیاباں میں وہ مسکرا کر گزرتی،
تماشا گھروں اور تفریح گاہوں کی خلوت کو جلوت بناتی رہی تھی
ہم اس لطفِ آساں ربودہ پہ نازاں رہے تھے!
مگر کل سحر وہ دریچے کے نیچے
جہاں سیب کے اک شجر کے گلابی شگوفے
ابھی کھل رہے تھے
رکی اور کہنے لگی:
"آج کے بعد تم یاسمن کو نہیں پا سکو گے
کہ مارِ سیہ بن کے اک اجنبی نے اُسے ڈس لیا ہے!"
میں خود اجنبی ہوں
مگر سن کے یوں دم بخود ہو گیا تھا،
کہ جیسے مجھی کو وہ مارِ سیہ ڈس گیا ہو!
میں اُٹھّا، خیاباں میں نکلا
اور اک کہنہ مسجد کی دیوار سے لگ کے
آنسو بہاتا رہا!
 
آخری تدوین:
Top