کفارہ ۔ایک جائزہ

کفارہ ، ایک جائزہ
محمد خلیل الر حمٰن
پروین شاکر اپنی خوشبو کے دریچہءگل سے لکھتی ہیں ۔​
‘‘برس بیتے، گئی رات کے کسی ٹھہرے ہوئے سناٹے میں اس نے اپنے رب سے دعا کی تھی کہ اس پر اس کے اندر کی لڑکی کو منکشف کردے۔ مجھے یقین ہے، یہ سن کر اس کا خدا اس کی سادگی پر ضرور مسکرایا ہوگا! ( کچی عمروں کی لڑکیاں نہیں جانتیں ، کہ آشوبِ آگہی سے بڑا عذاب زمین والوں پر آج تک نہیں اترا)۔ پر وہ اس کی بات مان گیا۔۔۔۔۔ اور اسے چاند کی تمنا کرنے کی عمر میں ذات کے شہر ِ ہزار در کا اسم عطا کردیا گیا۔​
شہرِ ذات ۔۔۔۔ کہ جس کے سب دروازے اندر کی طرف کھلتے ہیں اور جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔’’​
ممتاز شیریں پر بھی جب ان کے اندر کی لڑکی منکشف ہوئی تو انھوں نے ایک ذاتی حادثے کی کرب کو اس شدت سے محسوس کیا کہ لکھاری ہونے کے ناطے انھوں نے اپنی شہرِ ذات کے خوابوں، گلابوں اور عذابوں کو ایک نہایت خوبصورت بیانیے کا روپ دیدیا۔​
جون اسٹین بیک کے شہرہِ آفاق ناول The Pearl کے خوبصورت ترجمے درشہوار کے مقدمے میں ممتاز شیریں نتھنیئل ھاتھورن کے ناول The Scarlet Letterپر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں ۔​
‘‘میل ول کے خیال میں ھاتھورن میں سیاہی و تاریکی کی قوت شر کے گہرے احساس اور انسان کے بنیادی گناہ کے اس تصور سے پیدا ہوئی ہے جو انھیں کیالوینی Calvinisticعقیدے اور Puritan آباء و اجداد سے ورثہ میں ملا ہے۔ لیکن حاتھورن نے شر کے تصور کو اور خیر و شر پر انسان کے اختیار اور ذمہ داری کے احساس کو پیوری ٹن عقیدے سے کہیں زیادہ آگے بڑھایا ہے۔اور ان کا اخلاقی نظریہ کہیں زیادہ بلند ہے۔’’​
آگے اسی موضوع پر وہ مزید لکھتی ہیں ۔​
‘‘حیسٹر چونکہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہوچکی تھی، اور اس نے بقیہ زندگی خدمتِ خلق کے لئے وقف کردی تھی، وہ ایک طرح سے اپنی نجات پالیتی ہے اور اسے سکونِ قلب ہوجاتا ہے۔ یوں پرل کو اپنی کوکھ سے جنم دیکر اس نے اپنے گناہ کا کفارہ پہلے ہی ادا کردیا تھا۔’’​
ممتاز شیریں کے افسانے کفارہ کا مرکزی خیال انسان کے بنیادی گناہ کا یہی تصور اور اس کے گناہ کے ازالے یا کفارے کا یہی صدیوں پرانا تصور ہے۔ مصنفہ یہ محسوس کرتی ہیں کہ انجیلی حکایات کے مطابق حوا کے ازلی گناہ یعنی شجر ممنوعہ کو کھانا اور آدم کو بھی اس کی ترغیب دینا ، کو معاشرے نے عورت کا اتنا بڑا اور سنگین گناہ گردانا ہے کہ اس نے ہر عورت کے گلے میں ایک Scarlet Letter لٹکا دیا ہے۔ اور وہ جب بھی ایک نئی زندگی کی تخلیق کے عمل سےگزرتی ہے اسے اسی ازلی دکھ، کرب اور عذاب سے گزرنا ہوتا ہے۔​
کیا یہ گناہ اتنا بڑا تھا کہ حضرتِ عیسیٰؑ مصلوب ہوکر بھی اس کا کفارہ نہ ادا کرسکے اور ہر عورت ذاتی طور پر اس کا کفارہ ادا کرتی ہے؟ یہی سوال افسانے کے آخر میں ممتاز شیریں نے کیا ہے۔​
‘‘اس کفارہ کے لئے مجھے کیوں منتخب کیا گیا۔’’​
جیسا کہ خود انھوں نے دُرشہوار کے مقدمے میں لکھا ۔​
‘‘کیونکہ مذہبی عقیدے کے مطابق تو گناہ کے بعد توبہ و استغفار اور ریاضت کرنے پر دوسری دنیا میں کم از کم بخشش اور جزا مل جاتی ہے۔’’​
ہیئت کے اعتبار سے اس کہانی کے تین حصے ہیں۔ ابتدائی حصے میں آپریشن کی تیاری اور اس کا خوف، مہربان ہستیوں کی تسلی اور محبت جو اس نازک وقت میں ایک بہت بڑا سہارہ ہے اور دوسری طرف نا مہربان ہستیوں کا موت کے فرشتے کی شکل میں ظاہر ہونا۔​
دوسرا حصہ ، آپریشن کی کہانی ، اس طویل اور صبر آزما امتحان کی داستان ہے جس میں جسم ایک نئی زندگی کی تخلیق میں مصروف ہے اور نفس آزاد ہوکر عالمگیر ویرانی اور تنہائی کا انتہائی قریب سے احساس کر رہا ہے جو در اصل اپنے اندر ہی کے شدید احساس کا اظہار ہے۔ جیسے جیسے آہستہ آہستہ میرے حواس مجتمع ہوتے گئے، ویرانی اور اجاڑ پن کا کائیناتی احساس سمٹ کر ایک شدید ذاتی المیے میں ڈھل گیا۔​
یہی ذاتی المیہ ، کہانی میں تیسرے حصے یعنی نقطہ عروج Climax کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔جس میں عورت کو اس صورت حال کا شعور حاصل ہوتا ہے۔ آگہی کے ابتدائی لمحوں میں قدرت کے خوبصورت ترین عطیے یعنی نو تخلیق شدہ جیتی جاگتی، ہمکتی اور کلکاریاں مارتی زندگی سے اس کی پہلی اور آخری ملاقات اور پھر اس کے بعد اتھاہ سناٹا، کرب و غم اور اس کی شدید ترین اذیت، اور یہی وہ لمحہء ادراک ہے جس میں عورت یہ جان لیتی ہے کہ اس نے کفارہ ادا کردیا۔​
‘‘اس کفارہ کے لئے مجھے ہی کیوں منتخب کیا گیا۔’’​
ممتاز شیریں بنگلور سے اپنے شوہر ڈاکٹر صمد شاہین کی معیت میں ادبی ماہنامہ نیا دور نکالا کرتی تھیں جو اس وقت کے اردو کے صف اول کے ماہناموں میں سے ایک تھا۔ یہی وہ ماہنامہ تھا جسے تقسیم کے بعد پاکستان میں ثناءاﷲ، جمیلہ ہاشمی اور ڈاکٹر جمیل جالبی نے جاری رکھا۔​
اپنے پہلے افسانوی مجموعے اپنی نگریا میں ممتاز شیریں اس دور کے دیگر افسانہ نگاروں کی طرح ایک روایتی افسانہ نگار نظر آتی ہیں جو معاشرے اور روایت کی قیود کے اندر رہ کر اپنے احساسات کو صفحہءقرطاس پر بکھیرتی ہے۔مجموعے میں شامل افسانہ انگڑائی اسی انداز کا نمائندہ افسانہ ہے۔​
ان کی دیگر تصانیف میں معیار کے نام سے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ، ظلمتِ نیم روز کے نام سے فسادات پر افسانوں کے مجموعے کی تالیف، جون اسٹین بیک کے ناول The Pearl کا دُرشہوار کے نام سے ترجمہ، اور منٹو نہ نوری نہ ناری کے نام سے منٹو پر تنقیدی مضامین کا مجموعہ، جو ڈاکٹر آصف فرخی نے ایڈٹ کر کے شایع کیا، شامل ہیں۔​
بیسویں صدی کے قریباً نصف میں اردو ادب میں ایک انقلاب رونما ہوا، اور سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی اور دیگر افسانہ نگاروں کی روایت سے بغاوت کے نتیجے میں جدید اردو افسانہ وجود میں آیا۔ مصنوعی روایت نگاری کے مقابلے میں جدید افسانے کا یہ نیا حقیقت سے قریب تر رخ کچھ اتنا جاذبِ نظر تھا کہ ممتاز شیریں جو عالمی ادب پر ایک گہری نظر رکھتی تھیں اور ادب میں افسانہ نگار سے زیادہ ایک ایسی نقاد کی حیثیت سے اپنا لوہا منوا چکی تھیں جن کا وسیع مطالعہ اور عالمی افسانہ و ناول کے تقابلی جائزے میں اپنی مثال آپ تھیں ( اور آج تک ہیں) اردو افسانے کی اس نئی ہیئت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں اور انھوں نے بھی اپنے آپ کو ایک جدید افسانہ نگار کی حیثیت میں ڈھال لیا۔ چنانچہ ان کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ میگھ ملہار جدید افسانے کی بہترین مثال ہے۔ ( جسے لارک پبلشر نے چھاپا)۔ افسانہ کفارہ اس مجموعے کا نمائیندہ افسانہ ہے۔جدید افسانہ نگاروں نے روایتی انداز کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے افسانے کو ایک نئی جہت عطا کی، انھوں نے معاشرے کے دباؤ کے تحت گھٹے ہوئے انداز میں لکھنے کے بجائے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوےءمعاشرے کے رستے ہوئے ناسوروں پر کاری ضربیں لگائیں ۔ ہر چند کہ اس کوشش میں سعادت حسن منٹو اور دیگر افسانہ نگاروں پر اس الزام میں مقدمے بھی چلائے گئے لیکن انھوں نے ہمت نہ ہاری۔​
ممتاز شیریں نے کفارہ میں تخلیق ِ انسانی کے نازک اور حساس موضوع پر قلم اٹھایا اور اسے معاشرے کی زیادتیوں کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ اپنی ذات کی کتھارسس کا ذریعہ بھی بنایا۔​
افسانے کا درمیانی یا دوسرا حصہ تکنیکی اعتبار سے کہانی کا سب سے دلچسپ حصہ ہے جو ایک Kaleidoscope یا منظر نامہ کی شکل میں ہمارے سامنے پھیلا ہوا ہے جس میں کہانی کار اپنے ذہنِ رسا کی تمام تر قوتوں کو کام میں لاتے ہوئے انتہائی مہارت اور چابکدستی سے دنیا کی مختلف تہذیبوں کا تقابلی جائزہ لیتی ہے اور ہندو، بدھ عیسائی مذاہب سے گزر کر اسلام تک پہنچتی ہے۔ ایک بے چین روح ہے جو تخلیق کا جواز و مقصد تلاش کرتی ہوئی انجانی ، اجنبی راہوں پر بھٹک کر گھر لوٹ آتی ہے تو خالقِ کائینات کا پسندیدہ دین اسے اپنی آغوش میں لے لیتا ہے۔​
مجھے شہادت کی آرزو نہیں​
مجھے آخری دید کی تمنا نہیں​
مجھے صرف نفسِ مطمئنہ بخش دے۔​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
Top