ناز خیالوی ""کرتے تو ہو اس کو نظر انداز عزیزو "" نازؔ خیالوی

کرتے تو ہو اس کو نظر انداز عزیزو
یاد آئے گا اِک روز تمہیں نازؔ عزیزو

دبتی ہے کہاں عشق کی آواز عزیزو
سولی پہ بھی ہے نغمہ سرا نازؔ عزیزو

کیا چیز تھی وہ چشمِ فسوں ساز عزیزو
آیا کبھی اپنے میں نہ پھر نازؔ عزیزو

دیوارِ خموشی میں کوئی در تو کُھلا ہے
جیسی بھی ہے گونجی تو ہے آواز عزیزو

آجائے گی خود طاقتِ پرواز پروں میں
پیدا تو کرو جراتِ پرواز عزیزو

موت اس لیے ہے میرے تعاقب میں ازل سے
جینے کے سکھاتا ہوں میں انداز عزیزو


نازؔ خیالوی
 
آخری تدوین:
Top