ٹائپنگ مکمل کربلا : صفحہ 90

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
KarBala%20-%2000092.gif
 

نایاب

لائبریرین
(182)
حسین۔ میری خدا سے دعا ہے کہ وہ تمہاری توبہ قبول کرے
حر۔ اب مجھے معلوم ہو گیا کہ میں یزید سے اپنی بیعت واپس لینے میں کوئی گناہ نہیں کر رہا ہوں ۔
( دونوں چلے جاتے ہیں تیروں کی بارش ہونے لگتی ہے )
دسواں سین
( شام کا وقت کوفہ کے ایک گاؤں نسیمہ باغ میں زمین پر بیٹھی ہوئی گاتی ہے )
دبے ہوؤں کو دباتی ہے اے زمین لحد
یہ جانتی ہے کہ دم جسم ناتواں میں نہیں
قفس میں جی نہیں لگتا ہے آہ پھر مرا
یہ جانتا ہوں کہ تنکا بھی آشیاں میں نہیں
اجاڑ دے کوئی یا پھونک دے اسے بجلی
یہ جانتا ہوں کہ رہنا اب آشیاں میں نہیں
خود اپنے دل سے مرا حال پوچھ لو سارا
مری زبان سے مزہ میری داستاں کا نہیں
کریں گے آج سے ہم ضبط چاہے جو کچھ ہو
یہ کیا کہ لب پہ فغاں اور اثر فغاں میں نہیں
خیال کر کے خود اپنے کئے کو روتا ہوں
تباہیوں کے سوا کچھ میرے مکان میں نہیں
( وہب کا آنا )
نسیمہ۔ بڑی دیر کی اکیلے بیٹھے بیٹھے جی اکتا گیا ۔ کچھ ان لوگوں کی خبر ملی ۔
وہب۔ ہاں نسیمہ ملی ۔ جبھی تو دیر ہوئی ۔ تمہارا خیال درست نکلا ۔ حضرت امام حسین کے ساتھ ہیں ۔
نسیمہ۔ کیا حضرت حسین کی فوج آ گئی ۔
وہب۔ کیسی فوج کل بوڑھے جوان بچے ملا کر بہتر آدمی ہیں ۔ دس پانچ آدمی کوفہ سے

(183)
سے بھی آ گئے ہیں ۔ کربلا کے بے پناہ میدان میں ان کے خیمے پڑے ہوئے ہیں ۔ ظالم زیاد نے بیس پچیس ہزار آدمیوں سے انہیں گھیر رکھا ہے ۔ نہ کہیں جانے دیتا ہے ۔ نہ کوئی بات مانتا ہے ۔ یہاں تک کہ دریا سے پانی بھی نہیں لانے دیتا ۔ پانچ ہزار جوان دریا کی حفاظت کے لئے تعینات کر دیئے ہیں ۔ شاید کل تک جنگ شروع ہو جائے ۔
نسیمہ۔ مٹھی بھر آدمیوں کے لئے بیس پچیس ہزار سپاہی ۔ کتنا غضب ہے ۔ ایسا غصہ آتا ہے کہ زیاد کو پاؤں تو سر کچل ڈالوں ۔
وہب۔ بس اس کی یہی ضد ہے کہ یزید کی بیعت قبول کر و ۔ حضرت امام حسین کہتے ہیں کہ یہ مجھ سے نہ ہو گا ۔
نسیمہ۔ حضرت حسین نبی کے نواسے ہیں ۔ قول پر جان دیتے ہیں ۔ میں ہوتی تو زیاد کو ایسا جل دیتی کہ وہ بھی یاد کرتا ۔ کہتی ہاں مجھے بیعت قبول ہے ۔ وہاں سے جا کر بڑی فوج جمع کرتی اور یزید کے دانت کھٹے کر دیتی ۔ رسول پاک کو شرع میں ایسے نازک موقع کے لئے کچھ رعایت رکھنی چاہیئے تھی ۔ تو کیا حضرت کی فوج میں بڑی گھبراہٹ ہے ۔
وہب۔ مطلق نہیں نسیمہ ۔ سب لوگ شہادت کے شوق سے متوالے ہو رہے ہیں ۔ سب سے بڑی تکلیف پانی کی ہے ۔ ذرا ذرا سے بچے پیاسے تڑپ رہے ہیں ۔
نسیمہ۔ آہ ظالمو ۔ تم سے خدا سمجھے
وہب۔ نسیمہ ۔ مجھے رخصت کر و ۔ اب دل نہیں مانتا ۔ میں بھی حضرت حسین کے قدموں پر نثار ہونے جاتا ہوں ۔ آؤ گلے مل لیں ۔ شاید پھر ملاقات نہ ہو ۔
نسیمہ۔ ہائے وہب ۔ کیا مجھے چھوڑ جاؤ گے ؟ میں بھی چلوں گی ۔
 
Top