ٹائپنگ مکمل کربلا : صفحہ 89

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
KarBala%20-%2000091.gif
 

نایاب

لائبریرین
(180)
کرو ۔ اگر تمہیں خدا کا خوف اور ایمان کا لحاظ ہے کہ میں یہاں تمہارے ہی سرداروں کے بلانے سے آیا ہوں ۔ میں نے عہد کر لیا تھا کہ میں دنیا سے الگ رہ کر خدا کی عبادت میں اپنی زندگی کے بچے ہوئے دن گزاروں گا ۔ مگر تمہاری ہی فریاد نے مجھے اپنے گوشہ سے نکالکا ۔ رسول کی امت کی فریاد سن کر کانوں میں انگلی نہ ڈال سکا اگر اس حمایت کی سزا قتل ہے ۔ تو یہ سر حاضر ہے ۔ شوق سے قتل کرو ۔ میں حجاج سے پوچھتا ہوں ۔ کیا تم نے مجھے خط نہیں لکھے تھے ۔
حجاج۔ میں نے آپ کو کوئی خط نہیں لکھا ۔
حسین۔ قیس ۔ تمہیں بھی خط لکھنے سے انکار ہے ۔
قیس۔ میں نے کب آپ سے فریاد کی تھی ؟
حسین۔ اور شمر تم نے تو دستخط کئے تھے ۔
شمر۔ سراسر غلط ہے ۔ جھوٹ ہے ۔
حسین۔ خدا گواہ ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی جھوٹ نہں بولا ۔ لیکن آج یہ داغ بھی لگا ۔
شیث۔ آپ یزید کی بیعت کیوں نہیں کر لیتے کہ اسلام ہمیشہ کے لئے فتنہ اور فساد سے پاک ہو جائے ۔
حسین۔ کیا اس کے سوا اور مصالحت کی کوئی صورت نہیں ہے ۔
شمر۔ نہیں اور کوئی دوسری صورت نہیں ہے ۔
حسین۔ تو اس شرط پر صلح کرنا میرے لئے غیر ممکن ہے ۔ خدا کی قسم میں ذلیل ہو کر تمہارے سامنے سر نہ جھکاؤں گا ۔ اور نہ خوف مجھے یزید کی بیعت قبول کرنے پر مجبور کر سکتا ہے ۔ اب تمہیں اختیار ہے ۔ ہم بھی جنگ کے لئے تیار ہیں ۔
شمر۔ پہلا تیر چلانے کا ثواب میرا ہے ۔
( حضرت امام حسین پر تیر چلاتا ہے )
کسی طرف سے آواز آتی ہے ۔ " جہنم میں جانے کا فخر بھی پہلے تجھی کو ہو گا ۔"
( امام حسین اونٹنی کو اپنی فرددگاہ کی طرف پھیر دیتے ہیں ۔ حر اپنی فوج سے نکل کر آہستہ آہستہ حضرت امام حسین کے پیچھے چلتے ہیں )
شمر۔ واللہ ۔ حر تمہارا اس طرح آہستہ آہستہ اپنے تئیں تول تول کر چلنا میرے دل میں شبہ پیدا کر رہا ہے ۔ میں نے تم کوکبھی لڑائی میں اس طرح کانپتے ہوئے چلتے نہیں دیکھا ۔
حر۔ اپنے کو جنت اور جہنم کے لئے تول رہا ہوں اور حق بات یہ ہے کہ جنت کے مقابلے میں کسی چیز کو نہیں سمجھتا ۔ چاہے کوئی مار ہی کیوں نہ ڈالے ۔ ؟
( گھوڑے کو ایڑ لگا کر حر حضرت امام حسین کے پاس پہنچ جاتے ہیں )
اے فرزند رسول میں بھی آپ کے ہمراہ ہوں ۔ خداوند مجھے آپ پر فدا کرے میں وہی ہوں جس نے آپ کو راستے سے واپس کرنے کی کوشش کی تھی ۔ خدا کی قسم مجھے امید نہ تھی کہ یہ لوگ آپ کے ساتھ یہ برتاؤ کریں گے ۔ اور صلح کی کوئی شرط نہ قبول کریں گے ۔ ورنہ میں آپ کو ادھر آنے ہی نہ دیتا ۔ جب تک آپ میرے سر پر سے نہ آتے ۔ اب ادھر سے مایوس ہو کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ کی مدد کرتے ہوئے اپنے تئیں آپ کے قدموں پر نثار کر دوں ۔ کیا آپ کے نزدیک میری توبہ قبول ہو گی ۔
 
Top