ٹائپنگ مکمل کربلا : صفحہ 81

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
KarBala%20-%2000083.gif
 

نایاب

لائبریرین
(164)
حسین ۔ سعد کوئی انسان آج تک یہ کام کرنے پر مجبور نہیں ہوا جو اسے پسند نہ آیا ۔ تم کو یقین ہے کہ میرے قتل کے صلے میں تمہاری جاگیر بڑھے گی ۔ رے کی حکومت ہاتھ آئے گی ۔ دولت حاصل ہو گی ۔ لیکن سعد حرام کی دولت نے بہت دنوں تک کسی کے ساتھ دوستی نہیں کی ۔ اور نہ تمہارے لئے اپنی پرانی عادت کو چھوڑے گی ۔ ہوس کو چھوڑ دو اور مجھے اپنے گھر جانے دو ۔
سعد ۔ پھر تو میرے دن انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں ۔
حسین ۔ اگر یہ خوف ہے تو میں تمہیں اپنے ساتھ لے جا سکتا ہوں ۔
سعد۔ یا حضرت ظالم میرے مکان برباد کر دیں گے ۔ جو شہر میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔
حسین۔ سبحان اللہ تم نے وہ بات منہ سے نکالی جو تمہاری شان سے بعید ہے ۔ اگر حق پر قائم رہنے کی سزا میں تمہارا مکان برباد کر دیا جائے ۔ تو ایسا بڑا نقصان نہیں ۔ حق کے لئے لوگوں نے اس سے کہیں بڑے نقصان اٹھائے ہیں ۔ یہاں تک کہ جان سے بھی دریغ نہیں کیا ۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں تمہیں اس سے اچھا مکان بنوا دوں گا ۔
سعد۔ یا حضرت میرے پاس بڑی زرخیز اور آباد جاگیریں ہیں جو ضبط کر لی جائیں گی اور میری اولاد ان سے محروم رہ جائے گی ۔
حسین۔ میں حجاز میں تمہیں ان سے زیادہ زرخیز اور آباد جاگیریں دوں گا ۔ اطمینان رکھو کہ میری ذات سے تمہیں کوئی نقصان نہ پہونچے گا ۔
سعد۔ یا حضرت آپ پر میری جان نثار ہو ۔ میرے ساتھ 22 ہزار سوار اور
(165)
پیدل ہیں زیاد نے ان کے سرداروں سے بڑے بڑے وعدے کر رکھے ہیں میں اگر آپ کی طرف آ بھی جاؤں تو یہ آپ سے ضرور جنگ کریں گے ۔ اس لئے ٹھیک یہی ہے کہ جو شرطیں پسند فرمائیں میں زیاد کو لکھ دوں ۔ میں اپنے خط میں صلح پر زور دوں گا اور مجھے یقین ہے کہ زیاد میری تجویز کو منظور کر لے گا ۔
حسین۔ خدا تمہیں اس کا ثواب عاقبت میں دے گا ۔ میری پہلی شرط یہ ہے کہ مجھے مکہ کو لوٹنے دیا جائے ۔ اگر یہ منظور نہ ہو تو میں سرحدوں کی طرف جا کر امن سے زندگی بسر کرنے پر راضی ہوں ۔ اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو مجھے یزیز کے پاس جانے دیا جائے ۔ اور سب سے بڑی شرط یہ ہے کہ جب تک میں یہاں ہوں ۔ مجھے دریا سے پانی لینے کی پوری آزادی حاصل ہو ۔ میں یزید کی بیعت کسی حالت سے نہ قبول کروں گا ۔ اور اگر تم نے میری واپسی کی یہ شرط قائم نہ کی تو ہم یہاں شہید ہو جانا ہی پسند کریں گے ۔ لیکن اگر یہ ارادہ ہے کہ مجھے قتل ہی کر دیا جائے تو میں اپنی جان کو گراں سے گراں قیمت پر بیچوں گا ۔
سعد۔ حضرت آپ کی شرط بہت معقول ہے ۔
حسین۔ میں تمہارے جواب کا کب تک ینتظار کروں ۔
سعد۔صبح آفتاب کی روشنی کے ساتھ ہی میرا قاصد آپ کی خدمت میں حاضر ہو گا ۔
( دونوں آدمی اپنی اپنی فوج کی طرف لوٹتے ہیں ۔)
 
Top