ٹائپنگ مکمل کربلا : صفحہ 75

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
KarBala%20-%2000077.gif
 

نایاب

لائبریرین
(152)

(زیاد کا آنا)
سعد ۔ السلام علیکم امیر میں خود ہی حاضر ہونے والا تھا ۔ آپ نے ناحق تکلیف کی ۔
زیاد ۔ شہر کا دورہ کرنے نکلا تھا ۔ باغیوں پر اس وقت بہت سخت نگاہ
رکھنے کی ضرورت ہے ۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ حبیب ظہیر ، عبداللہ چھپ کر حسین
کے لشکر میں داخل ہو گئے ہیں ۔ اس کی روک تھام نہ کی گئی تو باغی شیر ہو جائیں گے ۔
حضرت حسین کے ساتھ آدمی تھوڑے ہیں پر مجھے تعجب ہوگا ۔ اگر یہاں آتے
آتے ان کے ساتھ آدھا شہر نہ ہو جائے ۔ شیر پنجرے میں بھی ہو تو اس سے
ڈرنا چاہئیے ۔ رسول کا نواسا فوج کا محتاج نہیں رہ سکتا ۔ تم نے کیا فیصلہ کیا ۔ میں اب
زیادہ انتظار نہیں کر سکتا ۔
سعد ۔ یا امیر حضرت حسین کے مقابلے کے لئے نہ تو اپنا دل ہی گواہی
دیتا ہے اور نہ گھر والوں کی صلاح ہوتی ہے ۔ آپ نے مجھے رے کی نظامت عطا
کی ہے ۔ اس کے لئے آپ کو اپنا مربی سمجھتا ہوں ۔ مگر قتل حسین کے واسطے
مجھے نہ بھیجئے ۔
زیاد ۔ سعد دنیا میں کوئی خوشی بغیر تکلیف کے حاصل نہیں ہوتی ۔ شہد
کے ساتھ مکھی کے ڈنگ کا زہر بھی ہے ۔ تم شہد کا مزہ اٹھانا چاہتے ہو مگر ڈنگ
کی تکلیف اٹھانا نہیں چاہتے ۔ بلا موت کی تکلیف اٹھائے جنت میں جانا چاہتے ہو ۔
میں تمہیں مجبور نہیں کرتا ۔ اس انعام پر حسین سے جنگ کرنے کے لئے آدمیوں کی کمی
نہیں ہے ۔ مجھے فرمان واپس دے دو اور آرام سے گھر میں بیٹھ کر رسول اور خدا
کی عبادت کرو ۔

(153)

سعد ۔ یا امیر سوچئے اس حالت میں میری کتنی بدنامی ہو گی ۔ سارے شہر میں
خبر پھیلے گی کہ میں رے کا ناظم بنایا گیا ہوں ۔ میرے دوست احباب مجھے مبارک باد دے
چکے ۔ اب جو مجھ سے فرمان لے لیا جائے گا تو لوگ دل میں کیا کہیں گے ۔
زیاد ۔ یہ سوال تو تمہیں اپنے دل سے کرنا چاہئیے ۔
سعد ۔ یا امیر مجھے کچھ اور مہلت دیجئے ۔
زیاد ۔ تم اس طرح ٹال مٹول کر کے دیر کرنی چاہتے ہو ۔ کلام پاک کی قسم اب
میں تمہارے ساتھ زیادہ سختی سے پیش آؤں گا ۔ اگر شام کو حسین سے جنگ کرنے کے
لئے تیار ہو کر نہ آئے تو تمام جائیداد ضبط کرلوں گا ۔ تیرا گھر لٹوا دوں گا ۔ مکان پامال ہو
جائے گا اور تیری جان کی بھی خیریت نہیں ۔
( زیاد کا جانا )
سعد ۔ (دل میں ) معلوم ہوتا ہے کہ میری تقدیر میں روسیاہ ہونا ہی لکھا ہے ۔
اب محض رے کی نظامت کا سوال نہیں ۔ بلکہ اپنی جان اور جائیداد کا سوال بھی ہے ۔ اس ظالم
نے ہانی کو کتنی بیدردی سے قتل کیا ۔ کثیر کو بھی اپنی آئین پروری کی گراں قیمت دینی پڑی ۔
شہر والوں نے زباں تک نہ ہلائی ۔ وہ تو محض حسین کے عزیز تھے ۔ یہ معاملہ اس
سے کہیں نازک ہے ۔ زیاد برہم ہو جائے گا تو جو کچھ نہ کر گزرے وہ تھوڑا ہے ۔
میں رے کو ایمان پر قربان کر سکتا ہوں ۔ لیکن جان اور جائیداد کو نہیں قربان کر سکتا
کاش مجھ میں ہانی اور کثیر کی سی ہمت ہوتی :
(شمر کا آنا )
شمر ۔ السلام علیکم سعد : کس فکر میں بیٹھے ہو ۔ زیاد کو تم نے کیا جواب دیا ۔
 
Top