چھٹواں سین
(کربلا کا میدان ۔ ایک طرف فرات ندی لہریں مار رہی ہے ۔ حضرت حسین میدان میں کھڑے ہیں ، عباس اور علی اکبر بھی ان کے ساتھ ہیں۔ )
علی اکبر : دریا کے کنارے خیمے لگائے جائیں ٹھنڈی ہوا آئے گی ۔
عباس : بڑی فراغت کی جگہ ہے
حسین (آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے) بھائی لہراتے ہوئے دریا کو دیکھ کر خودبخود دل بھر آتا ہے ۔ مجھے خوب یاد ہے کہ اسی جگہ ایک بار والد مرحوم کی فوج ٹھہری تھی ۔ بابا بہت غمگین تھے ، ان کی آنکھوں سے آنسو نہ تھمتے تھے ، نہ کھانا کھاتے تھے نہ سوتے تھے ۔ میں نے پوچھا ، "یا حضرت آپ کیوں اس قدر بے تاب ہیں؟" مجھے چھاتی سے لپٹا کر بولے، "بیٹا ، تو میرے بعد ایک دن یہاں آئے گا۔ اُس دن تجھے میرے رونے کا سبب معلوم ہوگا۔" آج مجھے ان کی وہ بات یاد آتی ہے۔ ان کا رونا بے سبب نہیں تھا ، اسی جگہ ہمارے خو بہائے جائیں گے ، اسی جگہ ازواج مطہرات قید کی جائیں گی ۔ اسی جگہ ہمارے ساتھی شہید کیے جائیں گے اور اسی جگہ میں بھی شہید کیا جاؤں گا ۔ اسی جگہ کا وعدہ میرے نانا سے اللہ تعالی نے کیا ہے اور اس کا وعدہ تقدیر کی تحریر ہے ۔
(جناب زینب خیمہ سے باہر نکل آتی ہیں)
زینب : بھیا یہ کون سا صحرا ہے کہ دیکھ کر خوف سے کلیجہ منہ کو آ رہا ہے ۔