ٹائپنگ مکمل کربلا : صفحہ 68

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
KarBala%20-%2000070.gif
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تصویروں کی طرح ہوتے ہیں ۔ خواب کی آوازیں زمین کے نیچے سے نکلنے والی آوازوں کی طرح معلوم ہوتی ہیں۔ ان میں یہ بات کہاں دیکھوں کہیں باہر تو کوئی کھڑا نہیں ہے (خیمہ سے باہر نکل کر) اُف کتنی گہری تاریکی ہے گویا میری آنکھوں نے کبھی روشنی دیکھی ہی نہیں ۔ ایک گہرا سناٹا ہے ۔ گویا سننے کی طاقت سے مجبور ہوں گویا یہ دنیا ابھی ابھی عدم کے غار سے نکلی ہے (زور سے کوئی ہے ؟

(علی اکبر کا داخل ہونا)​

علی اکبر : حاضر ہوں ابا جان کیا ارشاد ہے؟

حسین : یہاں سے ابھی کوئی سوار تو نہیں گذرا ہے ؟

علی اکبر : اگر میرے ہوش و حواس بجا ہیں تو ادھر کوئی جاندار نہیں گذرا ۔

حسین : تعجب ہے ابھی لیٹا ہوا تھا اور جہاں تک مجھے یاد ہے میری پلک تک نہیں جھپکی پر میں نے دیکھا کہ ایک مسلح آدمی گھوڑے پر سوار سامنے کھڑے ہو کر کہہ رہا ہے کہ اے حسین عراق جانے کی تیاری کر رہے ہو اور موت تمہارے پیچھے پیچھے دوڑی جا رہی ہے۔ "

بیٹا معلوم ہوتا ہے کہ میری موت قریب ہے ۔

علی اکبر : بابا کیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟

حسین : بیشک ہم حق پر ہیں اور حق ہمارے سامنے ہے ۔

علی اکبر : اگر ہم حق پر ہیں تو موت کا کیا ڈر ہے . اگر ہم موت کی طرف جائیں یا موت ہاری طرف آئے ۔

حسین : بیٹا تم نے دل خوش کر دیا ۔ خدا تم کو وہ سب سے بڑا انعام دے جو باپ بیٹے کو دے سکتا ہے ۔

(حبیب ققلبی اور اس کی عورت کا داخل ہونا)

علی اکبر کون ادھر سے جا رہا ہے ؟

زبیر : ہم مسافر ہیں ۔ یہ خیمے کیا حضرت کے ہیں ؟

علی اکبر : ہاں ۔

زبیر : خدا کا شکر ہے کہ ہم منل مقصود پر پہنچ گئے ۔ ہم انہی کی زیارت کے لیے کوفہ سے آ رہے ہیں ۔

حسین : جس کے لیے آپ کوفہ سے آ رہے ہیں وہ خود آپ سے ملنے کے لیے کوفہ جا رہا ہے ، میں ہی حسین ابن علی ہوں ۔

زبیر : ہمارے زہے نصیب کہ آپ کی زیارت ہوئی ، ہم سب کے سب آپ کے غلام ہیں ۔ کوفہ میں آجکل در و دیوار آپ کے دشمن ہیں ۔ آپ ادھر قصد نہ فرمائیں ۔ ہم اسی لیے چلے آئے ہیں کہ وہاں رہ کر آپ کی کچھ خدمت نہیں کرسکتے ۔ ہم نے حضرت مسلم کے قتل کا خونی نظارہ دیکھا ہے ہانی کو قتل ہوتے دیکھا ہے اور غریب طوعہ کی چوٹیاں کٹتے دیکھا ہے جو لوگ آپ کی دوستی کا دم بھرتے تھے آج زیاد کے داہنے بازو بنے ہوئے ہیں ۔

حسین : خدا انہیں نیک راستہ پر لائے مجھے تقدیر کوفہ لیے جاتی ہے اور اب کوئی طاقت وہاں جانے سے نہیں روک سکتی ۔ آُ لوگ چل کر آرام فرمائیں ۔ کل کا دن مبارک ہو گا کیونکہ میں اُس مقام پر پہنچ جاؤں گا جہاں شہادت میرے انتظار میں کھڑی ہے
 

امر شہزاد

محفلین
تصویروں کی طرح ہوتے ہیں ۔ خواب کی آوازیں زمین کے نیچے سے نکلنے والی آوازوں کی طرح معلوم ہوتی ہیں۔ ان میں یہ بات کہاں دیکھوں کہیں باہر تو کوئی کھڑا نہیں ہے (خیمہ سے باہر نکل کر) اُف کتنی گہری تاریکی ہے گویا میری آنکھوں نے کبھی روشنی دیکھی ہی نہیں ۔ ایک گہرا سناٹا ہے ۔ گویا سننے کی طاقت سے مجبور ہوں گویا یہ دنیا ابھی ابھی عدم کے غار سے نکلی ہے (زور سے کوئی ہے ؟

(علی اکبر کا داخل ہونا)​

علی اکبر : حاضر ہوں ابا جان کیا ارشاد ہے؟

حسین : یہاں سے ابھی کوئی سوار تو نہیں گذرا ہے ؟

علی اکبر : اگر میرے ہوش و حواس بجا ہیں تو ادھر کوئی جاندار نہیں گذرا ۔

حسین : تعجب ہے ابھی لیٹا ہوا تھا اور جہاں تک مجھے یاد ہے میری پلک تک نہیں جھپکی پر میں نے دیکھا کہ ایک مسلح آدمی گھوڑے پر سوار سامنے کھڑے ہو کر کہہ رہا ہے کہ اے حسین عراق جانے کی تیاری کر رہے ہو اور موت تمہارے پیچھے پیچھے دوڑی جا رہی ہے۔ "

بیٹا معلوم ہوتا ہے کہ میری موت قریب ہے ۔

علی اکبر : بابا کیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟

حسین : بیشک ہم حق پر ہیں اور حق ہمارے سامنے ہے ۔

علی اکبر : اگر ہم حق پر ہیں تو موت کا کیا ڈر ہے . اگر ہم موت کی طرف جائیں یا موت ہاری طرف آئے ۔

حسین : بیٹا تم نے دل خوش کر دیا ۔ خدا تم کو وہ سب سے بڑا انعام دے جو باپ بیٹے کو دے سکتا ہے ۔

(حبیب ققلبی اور اس کی عورت کا داخل ہونا)

علی اکبر کون ادھر سے جا رہا ہے ؟

زبیر : ہم مسافر ہیں ۔ یہ خیمے کیا حضرت کے ہیں ؟

علی اکبر : ہاں ۔

زبیر : خدا کا شکر ہے کہ ہم منل مقصود پر پہنچ گئے ۔ ہم انہی کی زیارت کے لیے کوفہ سے آ رہے ہیں ۔

حسین : جس کے لیے آپ کوفہ سے آ رہے ہیں وہ خود آپ سے ملنے کے لیے کوفہ جا رہا ہے ، میں ہی حسین ابن علی ہوں ۔

زبیر : ہمارے زہے نصیب کہ آپ کی زیارت ہوئی ، ہم سب کے سب آپ کے غلام ہیں ۔ کوفہ میں آجکل در و دیوار آپ کے دشمن ہیں ۔ آپ ادھر قصد نہ فرمائیں ۔ ہم اسی لیے چلے آئے ہیں کہ وہاں رہ کر آپ کی کچھ خدمت نہیں کرسکتے ۔ ہم نے حضرت مسلم کے قتل کا خونی نظارہ دیکھا ہے ہانی کو قتل ہوتے دیکھا ہے اور غریب طوعہ کی چوٹیاں کٹتے دیکھا ہے جو لوگ آپ کی دوستی کا دم بھرتے تھے آج زیاد کے داہنے بازو بنے ہوئے ہیں ۔

حسین : خدا انہیں نیک راستہ پر لائے مجھے تقدیر کوفہ لیے جاتی ہے اور اب کوئی طاقت وہاں جانے سے نہیں روک سکتی ۔ آُ لوگ چل کر آرام فرمائیں ۔ کل کا دن مبارک ہو گا کیونکہ میں اُس مقام پر پہنچ جاؤں گا جہاں شہادت میرے انتظار میں کھڑی ہے

گزر میں" ذ "نہیں ہے بلکہ "ز "ہے
 
Top