ٹائپنگ مکمل کربلا : صفحہ 65

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
KarBala%20-%2000067.gif
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

یاد ہے تسکین اب تک وہ زمانہ یاد ہے
جب چھڑایا تھا فلک نے میرے دلبر سے مجھے

(وہب آتا ہے نسیمہ خاموش ہو جاتی ہے)


وہب : خاموش ہو گئیں ، یہی سن کر تو مین آیا تھا ۔

نسیمہ : اپنا درد کیوں سناؤں جب کوئی سننا نہ چاہے ۔

وہب : شکوہ کرنے کا حق تو میرا ہے ، پھر اسے تم زبردستی چھینے لیتی ہو۔

نسیمہ : تم کہتے ہو تم میرے ہو پر مجھے اس کا یقین نہیں آتا ۔ مجھے ہر دم یہی اندیشہ رہتا ہے کہ تم مجھے بھول جاؤ گے۔ تمہارا دل مجھ سے بیزار ہو جائے گا ۔ مجھ سے بے اعتنائی کرنے لگو گے ۔ یہ خیال دل سے نہیں نکلتا ، تب میں رونے لگتی ہوں اور غم ناک خیالات خوفناک صورتیں اختیار کر کے مجھے چاروں طرف سے گھیر لیتے ہیں ۔ مجھے ایسا گمان ہوتا ہے کہ ہماری بہار بہت تھوڑے دنوں کی مہمان ہے ، میں تم سے منت کرتی ہوں کہ مجھ سے بے اعتنائی نہ کرنا قرنہ میرا جگر پاش پاش ہو جائے گا ۔ مجھے یہاں آںے سے پہلے کبھی نہ معلوم ہوا تھا کہ میرا دل اتنا نازک ہے ۔

وہب : میری کیفیت اس کے بالکل بر عکس ہے ۔ میرے دل میں ایک نئی قوت پیدا ہو گئی ہے ۔ مجھے خیال ہوتا ہے کہ اب دنیا کی کوئی فکر ، کوئی ترغیب ، کوئی تمنا میرے دل پر فتح نہیں پا سکتی ۔ کوئی ایسی طاقت نہیں ہے جس کا میں مقابلہ نہ کر سکوں یہاں تک کہ مجھے اب موت کا بھی غم نہیں ہے ۔ محبت نے مجھے دلیر ، بے خوف اور مستحکم بنا دیا ہے ۔ مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ محبت قوت دل کی کیمیا ہے ۔


نسیمہ : وہب تمہاری ان باتوں سے مجھے وحشت ہو رہی ہے ۔ شاید کہیں ہماری تباہی کے سامان ہو رہے ہیں ۔ اب میں تمہیں جانے نہ دوں گی ۔ مجھے اس کی فکر نہیں ہے کہ کون خلیفہ ہوتا ہے اور کون امیر ۔ مجھے مال و زر کی اور جاگیر کی مطلق تمنا نہیں ، میں تمہیں چاہتی ہوں ، صرف تمہیں ۔

( قمر آتی ہے )​

قمر : بیٹا وہب ، دیکھ دروازہ پر ظالم زیاد کے سپاہی کیا غضب ڈھا رہے ہیں انہوں نے تیرے والد کو گرفتار کر لیا ہے اور جامعہ کی طرف کھینچے لیے جاتے ہیں ۔

نسیمہ : ہائے ستم اسی لیے تو مجھے وحشت ہو رہی ہے ۔

( وہب اٹھ کھڑا ہوتا ہے ، نسیمہ اس کا ہاتھ پکڑ لیتی ہے)​

وہب : نسیمہ میں ابھی لوٹ آتا ہوں ۔ تم گھبرانا نہیں ۔

نسیمہ : نہیں نہیں تم مجھے یہاں زندہ چھوڑ کر نہیں جاسکتے میں زیاد کو جانتی ہوں تمہیں بھی جانتی ہوں ، زیاد کے روبرو جا کر پھر تم واپس نہیں آ سکتے ۔

قمر : وہب اگر نسیمہ تجھے نہیں جانے دیتی تو مت جا ، مگر یاد رکھ تیرے منہ پر ہمیشہ کے لیے ذلت کا داغ لگ جائے گا ۔ میں خود جاتی ہوں ، نسیمہ شاید اب تجھ سے پھر ملاقات نہ ہو گی ۔ شاید یہ آخری ملاقات ہے ۔ رخصت ، وہب یہ گھر بار تجھے سونپا ۔ خدا مجھے نیکی کی توفیق دے اور تیری عمر دراز کرے ۔

وہب : اماں جان ، میں بھی چلتا ہوں ۔

قمر : نہیں تجھ پر اپنی بیوی کا حق سب سے زیادہ ہے ۔

وہب : نسیمہ خدا کے لیے ۔ ۔ ۔

نسیمہ : "نہیں میرے پیارے آقا ، مجھے زندہ چھوڑ کر نہیں۔"
 
Top