کربلا : صفحہ 63
عباس علیہ السلام: بیشک اب اہل کوفہ کو ان کی دغا کی سزا دیئے بغیر لوٹ جانا ایسی ذلت ہے جس سے ہماری گردن ہمیشہ جھکی رہے گی۔ خدا کو جو کچھ منظور ہے وہ ہوگا۔ ہم سب شہید ہو جائیں۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کا نشان مٹ جائے۔ یہاں سے لوٹ کر ہم دنیا کو اپنے اوپر ہنسے کا موقعہ نہ دیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ شرارت کوفہ کے امراء اور عمائد کی ہے جنہیں زیاد کے وعدوں نے دیوانہ بنا رکھا ہے۔ آپ جس وقت کوفہ میں قدم رکھیں گے رعایا آپ کے ہاتھوں پر بیعت کرنے کو دوڑے گی آپ خدا کا نام لے کر کوچ فرمائیے ۔ حق کے لئے شہید ہونا وہ درجہ ہے جس کے لئے فرشتوں کی دوحیں بھی تڑپتی ہیں۔
زینب سلام اللہ علیہا: عباس میں تجھ پر صدقے یہاں سے لوٹ چلو۔
حسین علیہ السلام: زینب یہاں سے واپس جانا میرے اختیار کی بات نہیں مجھے دور سے دشمن کی فوج کا غبار نظر آرہا ہے۔ نشیب کی طرف بھی دشمنوں نے راستہ روک رکھا ہے۔ دائیں بائیں کوسوں تک بستی کا کہیں نشان نہیں۔ ہم اب کوفہ کے سوا کہیں نہیںجاسکتے۔ کوفہ میں تخت نصیب ہو یا تختہ ہمارے لئے کوئی دوسرا مقام نہیں ہے۔ عباس! جا کر رفیقوں سے کہہ دو میں انہیں خوشی سے اجازت دیتا ہوں جہاں چاہے چلے جائیں مجھے کسی سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ میں اپنے ساتھ ان کی اور ان کے بال بچوں کی جان عذاب میں ڈالنا نہیں چاہتا۔