ٹائپنگ مکمل کربلا : صفحہ 54

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
KarBala%20-%2000056.gif
 

کاشفی

محفلین
کربلا : صفحہ 54

میں اب تک اُسے اپنا دوست سمجھتا تھا۔ خدا، کچھ حقیقت نہیں کھلتی کہ کون میرا دوست ہے اور کون دشمن۔ میں‌ ابھی ہانی کے گھر گای تھا اگر شریک بھی ہانی کا شریک ہے تو یہی کہنا پڑے گا کہ دنیا میں وفا کی جنس معدود ہے۔

بارہواں سین

دس بجے رات کا وقت ہے۔ زیاد کے محل کے سامنے سڑک پر سلیمان مختار اور ہانی چلے آرہے ہیں۔

سلیمان: زیاد اب بہت مہربان معلوم ہوتا ہے۔

مختار: ہاں ورنہ ہم سے مشورہ کیوں طلب کرتا۔

ہانی: مجھے تو خوف ہے کہ اُسے ساری باتیں معلوم ہو گئی ہیں۔ کہیں اس کی نیت میں فتور نہ ہو۔

مختار: اگر کچھ شک نہ ہوتا ۔ تو وہ آج آپ کے گھر کیوں جاتا۔

ہانی: اس وقت شاید بھید لینے ہی کے ارادے سے گیا ہو ۔ مجھ سے غلطی ہوئی کہ اپنے قبیلہ کے کچھ آدمیوں کو ساتھ نہ لایا ۔ تلوار بھی نہیں۔

سلیمان: میں تو سمجھتا ہوں یہ آپ کا وہم ہے۔

تینوں زیاد کے مکان پر جا پہنچتے ہیں ۔ وہاں قیس، شمر ، حجاج وغیرہ بیٹھے ہوئے ہیں۔

زیاد: سلام علیک! آئیے، آپ حضرات سے ایک خاص معاملہ میں مشوہ کرنا ہے۔ کیوں شیخ ہانی، آپ کے ساتھ خلیفہ یزید نے جو رعاتیں کیں۔ کیا اس کا یہی صلہ ہے کہ آپ مسلم کو اپنے گھر میں‌ ٹھہرائیں اور لوگوں کو حضرت حسین علیہ السلام کی بیعت لینے پر آمادہ کریں۔ ہم آپ کا رتبہ اور وقار بڑھاتے ہیں۔ اور آپ ہماری جڑ‌ کھودنے کی فکر کرتے ہیں۔

ہانی: یا امیر، خدا جانتا ہے۔ میں نے مسلم کو خود نہیں بلایا۔ وہ رات کو میرے گھر آئے اور میری پناہ مانگی۔ یہ انسانیت کے خلاف تھا کہ میں انہیں گھر سے نکال دیتا۔ آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ اس میں میری کیا خطا تھی۔

زیاد: تمہیں یہ نہ معلوم تھا کہ حضرت حسین علیہ السلام خلیفہ یزید کے دشمن ہیں۔

ہانی: اگر میرا دشمن بھی میری پناہ میں آتا۔ تو میں دروازہ بند نہ کرتا۔

زیاد: اگر تم اپنی خیریت چاہتے ہو تو مسلم کو میرے حوالے کر دو۔ ورنہ کلام پاک کی قسم تم پھر آفتاب کی روشنی نہ دیکھو گے۔

ہانی: یا امیر اگر آپ میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالیں اور ان ٹکڑوں کو آگ میں‌جلا دیں تو بھی میں مسلم کو آپ کے حواے نہیں کر سکتا۔ مروت اور حمیت اسے کبھی نہ قبول کرے گی۔ یہ آئین انسانیت اور شرافت کے خلاف ہے۔

قیس: (ہانی کو کنارے لے جا کر) بھائی جان سوچو اس ضد کا انجام کیا ہو گا۔ اپنے اوپر نہ سہی اپنے خاندان پر، خاندان بھی نہ سہی، اپنے قبیلے پر رحم کرو۔ اتنے آدمیوں کو قربان کر کے ایک فرد کی جان بچانا کہاں کی دنائی ہے۔

ہانی: قیس تمہارے منہ سے ایسی باتیں نازیباں ہیں۔ میں‌حضرت مسلم کے ساتھ کبھی دغا نہ کروں گا۔ چاہے میرا سارا خاندان اور قبیلہ خاک میں مل جائے۔
 
Top