ٹائپنگ مکمل کربلا : صفحہ 49

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
KarBala%20-%2000051.gif
 

کاشفی

محفلین
کربلا : صفحہ 49

اب تو ہمیں بھی دغا کا جواب فریب سے دینا چاہیئے۔

مسلم: کیونکر؟

شریک: نہایت آسان ہے۔ زیاد سے میری پرانی راہ رسم ہے۔ میں اُسے لکھوں گا کہ تمہارا رفیق بسترِ مرگ پر پڑا ہوا ہے۔ شاید اُسے پھر اٹھا نصیب نہ ہو۔ ملاقات کا بیحد اشتیاق ہے ۔ زیاد دوست نواز آدمی ہے۔ فوراََ میری مزاج پُرسی کے لئے آئےت گا۔ آپ وہیں چھپے بیٹھے رہیں۔ ایک وار میں کام تمام کر دیں۔

مسلم: اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ مسلمان کو مسلمان کا خون حرام ہے۔

شریک : لیکن اللہ تعالی نے یہ بھی تو فرمایا ہے کہ بے دین کو پناہ دینا سانپ پالنا ہے۔

حضرت! حق کا راستہ راہزنوں‌ سے خالی نہیں۔ اگر آپ حق کی حمایت کرنی چاہتے ہیں تو رہزنوں کا استیصال کرنا ہوگا۔ اس مسئلہ کے ہر ایک پہلو پر غور فرمائیے۔

(باہر سے کوفیوں کا ایک مجمع دروازہ توڑ کر اندر آجاتا ہے)

ایک آواز: حضرت مسلم کہاں ہیں؟

دوسری آواز: ہم اس دشمن قوم کو شہر بدر کرنا چاہتے ہیں۔

تیسری آواز: وہ وہ مسلم وہ ہیں۔ انہیں گرفتار کر لو۔

مسلم: ہاں میں یہیں ہوں۔ اگر چاہتے ہو تو مجھے قتل کردو ۔( کمر سے تلوار پھینک کر) یہ لو اب تمہیں مجھ سے کوئی خوف نہیں۔ اگر تمہارا خلیفہ میرے خون کا پیاسا ہے تو یہ سینہ حاضر ہے۔ مگر خدا کے لئے حضرت حسین علیہ السلام کو لکھ دو کہ آپ یہاں‌نہ آئیں۔ اُنہیں خلافت کی ہوس نہیں ہے۔ ان کا منشا صرف آپ کی حمایت کرنا تھا۔ وہ آپ کے اوپر اپنی جانثار کرنا چاہتے تھے۔ ان کے پاس فوج نہیں تھی، اسلحے نہیں تھے۔ دولت نہیں تھی محض اسلام کا درد تھا صرف آپ کی فریاد کے زیرِ اثر وہ اپنے گوشہء عبادت کو چھوڑنے پر آمادہ ہوئے تھے۔ اب آپ کو ان کی ضرورت نہیں ہے تو انہیں‌منع کر دیجئے کہ یہاں‌ نہ آئیں۔ انہیں بلا کر شہید کر دینے سے آپ کو بجز ندامت اور افسوس کے اور کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ اُن کی جان لینی کوئی مشکل کام نہیں ۔ یہاں کی کیفیت دیکھ کر وہ شاید خود ہی روحانی کوفت سے مر جائیں۔ اگر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جان دینے والی اُمت آج اُن کے نواسے کو قتل کرنا چاہتی ہے تو اُسے وہ اُمت کا انحراف نہیں۔ اپنا قصور سمجھیں گے۔ اور یہ صدمہ اُن کی جان لینے کو کافی ہے۔ بولئے انہیں اطلاع دے دوں کہ جن لوگوں کی حمایت کے لئے آپ نے شہید ہونا قبول کیا تھا وہ اب آپ کو شہید کرنے کی فکر میں ہیں۔ آپ اِدھر کا رخ نہ کریں۔

(کوئی آواز نہیں‌ آتی)

مسلم: خموشی نیم رضا ہے۔

ایک آواز: کون کہتا ہے کہ حضرت حسین علیہ السلام کو ہم قتل کرنا چاہتے ہیں۔

مسلم: آپ کہتے ہیں۔ آپ کے اطوار کہتے ہیں۔ آپ کے تیور کہتے ہیں ۔ آپ اپنی غرض کے غلام ہیں۔ آپ نے اپنا دین اور ایمان منصب اور جاگیر کے اوپر قربان کر دیا ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ہمیشہ صبر اور قناعت کی تلقین کی۔ آپ کو خوب معلوم ہے کہ وہ کتنی سادگی سے زندگی بسر کرتے تھے۔
 
Top