ٹائپنگ مکمل کربلا : صفحہ 3

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
KarBala%20-%2000005.gif
 

شاہ حسین

محفلین
۸


راجہ سنگھ بیدی ، سردار گیانی گورمکھ سنگھ ، مرہٹوں کے شیواجی ، گوپال کرشن گوکھلے ، مہاراجہ بلکر آف اندور ، مہاراجہ جیواجی سندھیا آف گوالیار ، پارسیوں کے دستور کیخروماہی کے علاوہ ہندو شاعر نرائن داس طالب ، رام بہاری لال صبا ، رام پرکاش ساحر ، جگدیششاہ جہاں پوری ، گرسرن لال ادیب ، مہندر سنگھ سحر ۔ کرشن گوپال ، رائے بہادر بابو اتادین وشنو ناتھ پرشاد ، جولا پرشاد نگم،ہنس راج عرشی ، جگدیش پرشاد گپتا ، کرشن بہاری لکھنوی ، سردار بلونت سنگھ ، منشی بشیشور پرشاد ، حکیم چھنو مل ، منشی لچھمن نرائن سخا ، دیوی روپ کماری ، دلو رام کوثری ، اور رانا بھگوان داس بھگوان نے بھی انسانیت کے اس نجات دہندہ و رہنما کے حضور اپنا نذرانہ عقیدت پیش کیا ہے ۔
زیر نظر کتاب "کربل" میں منشی پریم چند نے انسانیت کے اس عظیم "اوتار " حضرت امام حسین کے حضور اپنے خلوص دل کا خراج پیش کیا ہے ۔ اور اپنے افکار و نظریات کے مطابق واقعہ کربلا کو اپنے مخصوص انداز میں تحریر کیا ہے ۔


کچھ منشی پریم چند کے بارے میں

منشی پریم چند اردو کے مایہ ناز صاحب قلم ، صاحب طراز ادیب ، منفرد و معروف ناول نویس اور بہترین افسانہ نگار ہیں آپ اردو اور ہندی زبانوں پر یکساں عبور رکھتے ہیں اور ہر دو زبانوں کے مسلم ادیب اور داستان نگار سمجھے جاتے ہیں ۔
منشی پریم چند کی طرز نگارش کی دو اہم خصوصیات ہیں انہوں نے زندگی کے عصری مسائل اور سماجی و سیاسی حالت اور اس کی کشمکش کو اپنی تحریر کا عنوان بنایا ہے وہ اپنے گرد و پیش کی زندگی کی صحیح عکاسی کرتے ہیں ۔ ان کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے ۔


۹

نے اردو ادب کو مختصر کہانیوں اور افسانوں سے روشناس کرایا ہے ۔ منشی پریم چند نے عصری مسائل کو اپنے ناول و افسانوں کا عکاس ضراور بنایا ہے لیکن وہ عہد حٓضر کے افسانہ نگاروں کی طرح گفتنی و نا گفتنی سب کچھ کہہ جانے کے قائل نہیں وہ اصلاحی مقصد انسان مشربی و اخلاقی قدروں کا بڑا احترام کرتے ہیں اور اپنے افسانوں سے اس مقصد کو حٓصل کرنے کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں چناچہ ان کے محبوب اور پسندیدہ کردار ہمیشہ اخلاق ، عمل اور فرض شناسی کے ہیکر ہوتے ہیں پریم چند کا مشاہدہ گہرا اور متخیلہ تیز ہے ۔ نہ وہ مبالغہ کے قریب جاتے ہیں اور نہ وہ واقعات میں افراط اور تفریق کرتے ہیں ۔ وہ جو کچھ اور جس انداز سے دیکھتے ہیں اسی انداز سے پیش کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں ۔ جبکہ ہمارے بیشتر افسانہ نگاروں کی دنیا منفی کرداروں سے آباد ہے ان کی نظر عجیب و غریب جنسی میلانات اور زندگی کے کریہہ و دلدوز گوشوں تک محدود ہو گئی ہے ، ایسے افسانہ نگار شاذ ہی نظر آتے ہیں جن کی تحریروں میں دلنواز فنی محٓاسن کے ساتھ ساتھ اعلیٰ انسانی اقدار کی حیات بخش تنویر بھی موجود ہو اور ان کی فکر انسانی زندگی کی ازلی و ابدی صحت مند اقدار سے ہم آہنگ ہو جو کسی اچھے معاشرے کی بقا کی ضامن ہوتی ہیں ، منشی پریم چند کا شمار ان معدود چند افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے جو فنی عظمت کے ساتھ عصمتِ قلم کے بھی قائل ہیں اور جن کی تحریروں میں ہماری تہذیبی اقدار بھی موجود ہے ۔
منشی پریم چند دروغ گوئی و مصلحت آمیزی کو پسند نہیں کرتے نہ وہ کسی کے تیوریوں کے بل دیکھتے ہیں نہ کسی کی پیشانی کی شکنوں کی پرواہ کرتے ہیں وہ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں بڑی جرأت و بے باکی سے کہہ جاتے ہیں ۔
ذیل میں ہم منشی پریم چند کے بارے میں اردو کے نامور ادیبوں کی گرانقدر آرا پیش
 
Top