ٹائپنگ مکمل کربلا : صفحہ 109

نایاب

لائبریرین
KarBala%20-%2000111.gif
 

نایاب

لائبریرین
(220)

ہوں ۔ پر ہیں تو یہ میرے نانا کی ہی کی امت ۔ ہیں تو یہ سب مسلمان ہی ۔ پھر انہیں کس لئے ماروں ؟ اب کس لئے زندہ رہوں ؟ ہائے اکبر :
کس سے کہیں جو خون جگر ہم نے پیا ہے
بعد ایسے پسر کے بھی کہیں باپ جیا ہے
ہائے عباس ۔ ہائے عباس
عباس غش آتا ہے ہمیں پیاس کے مارے
الفت ہمیں لے آئی ہے پھر پاس تمہارے
اس سوکھے ہوئے ہونٹوں سے ہونٹوں کو ملا دو
کچھ مشک میں پانی ہو تو بھائی کو پلا دو
لیٹے ہوئے ہو ریت میں کیوں منہ کو چھپائے
کیا بھائی کے پیچھے یہ نماز آج نہ پڑھو گے ۔
لڑتے لڑتے شام ہو گئی ۔ ہاتھ نہیں اٹھتے ۔ آخری نماز پڑھ لوں کاش نماز پڑھتے ہوئے سر کٹ جاتا تو کتنا اچھا ہوتا ۔
حسین نماز میں جھک جاتے ہیں ۔ اشعث پیچھے سے آ کر ان کے کندھے پر تلوار چلاتا ہے ۔ حسین اٹھتے ہیں پھر گر پڑتے ہیں ۔ فوج میں سناٹا چھا جاتا ہے ۔ سب کے سب انہیں گھیر لیتے ہیں ۔
شمر ۔ خلیفہ یزید نے حضرت حسین کا سر مانگا تھا ۔ کون یہ فخر حاصل کرنا چاہتا ہے ۔
ایک سپاہی آگے بڑھ کر تلوار چلاتا ہے ۔ مسلم کی چھوٹی لڑکی دوڑی ہوئی خیمے سے آتی ہے اور حسین کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ دیتی ہے ۔
نسیمہ۔ او خبیث کیا تو میرے چچا کو قتل کرے گا ۔
( تلوار نسیمہ کے دونوں ہاتھوں پر پڑتی ہے اور ہاتھ کٹ جاتے ہیں ۔ )

(221)

( شیث تلوار لے کر آگے بڑھتا ہے اور حسین کا منہ دیکھتے ہی تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ جاتی ہے ۔)
شمر۔ کیوں تلوار کیوں ڈال دی ۔
شیث۔ انہوں نے جب آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا تو معلوم ہوا کہ رسول کی آنکھیں ہیں ۔ میرے ہوش اڑ گئے ۔
قیس۔ میں جاتا ہوں ۔
تلوار لے کر جاتا ہے ۔ تلوار ہاتھ سے گر پڑتی ہے اور الٹے قدم کانپتا ہوا لوٹ آتا ہے ۔
شمر۔ کیوں تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟
قیس۔ یہ حسین نہیں خود رسول پاک ہیں ۔ رعب سے میرے ہوش غائب ہو گئے ۔ یا خدا جہنم کی آگ میں نہ جلائیو ۔ :
شمر۔ ان کی موت میرے ہی ہاتھوں لکھی ہے ۔ تم سب دل کے بودے ہو ۔ تلوار لے کر حضرت حسین کے سینہ پر چڑھ بیٹھتا ہے ۔
حسین۔ آنکھیں کھولتے ہیں اور اس کی طرف دیکھتے ہیں ۔
شمر۔ میں ان بزدلوں میں نہیں ہوں ۔ جو تمہاری آنکھوں سے دہل اٹھتے تھے ۔
حسین۔ تو کون ہے ۔؟
شمر۔ میرا نام شمر ہے ۔
حسین۔ مجھے پہچانتا ہے ۔؟
شمر۔ خوب پہنچانتا ہوں ۔ تم علی اور فاطمہ کے بیٹے اور محمد کے نواسے ہو ۔
 
Top