ٹائپنگ مکمل کربلا : صفحہ 108

نایاب

لائبریرین
KarBala%20-%2000110.gif
 

نایاب

لائبریرین
(218)
شمر۔ اب اور بھی غضب ہو گیا ۔ پانی پی کر لوٹے تو خدا جانے کیا کریں گے ۔ حجاج کو تاکید کرنی چاہیئے کہ دریا کا راستہ نہ دے ۔
( حجاج کو بلا کر )
حجاج حسین کو ہرگز دریا کی طرف جانے نہ دینا ۔
حجاج۔ ( دل میں ) یہ عذاب کیوں اپنے سر لوں مجھے بھی تو قیامت میں رسول ہی سے کام پڑے گا ۔ ( ظاہر ) جی ہاں آدمیوں کو جمع کر رہا ہوں ۔
( حضرت حسین گھوڑے کی باگ ڈھیلی چھوڑ دیتے ہیں پر وہ پانی کی طرف گردن نہیں بڑھاتا ۔ منہ پھیر کر حسین کی رکاب کو کھینچتا ہے ۔ )
حسین۔ آہ میرے پیارے بے زبان رفیق ۔ تو حیوان ہو کر آقا کا اتنا خیال رکھتا ہے یہ انسان ہو کر آل رسول کے لہو کے پیاسے ہو رہے ہیں ۔ خیر میں اس وقت تک پانی نہ پیوؤں گا ۔ جب تک تو پانی نہ پی لے ۔ ( پانی پینا چاہتے ہیں )
حجاج۔ حسین تم یہاں پانی پی رہے ہو اور لشکری خیموں میں گھسے جاتے ہیں ۔
حسین۔ کیا تو سچ کہہ رہا ہے ۔؟
حجاج۔ یقین نہ آئے تو جا کر دیکھ آئیے ۔
حسین۔ ( دل میں ) اس بیکسی کی حالت میں کوئی مجھ سے دغا نہیں کر سکتا مرتے ہوئے آدمی سے دغا کر کے کیوں کوئی اپنی عزت سے ہاتھ دھوئے گا ۔
( گھوڑے کو پھیر دیتے ہیں اور دوڑاتے ہوئے خیمے کی طرف آتے ہیں ۔
آہ ۔ انسان اس سے کہیں زیادہ کمینہ اور کور باطن ہے جتنا میں سمجھتا تھا ۔ اس آخری وقت میں مجھ سے دغا کی اور محض اسلئے کہ میں پانی

( 219)

نہ پی سکوں ۔ پھر میدان میں آ کر لشکر پر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ سپاہی ادھر ادھر بھاگنے لگتے ہیں ۔
شمر۔ ( تیر چلا کر ) تم میرے ہی ہاتھوں مرو گے ۔
( تیڑ حضرت حسین کے منہ میں لگتا ہے اور وہ گھوڑے سے گر پڑتے ہیں ۔ پھر سنبھل کر اٹھتے ہیں اور تلوار چلانے لگتے ہیں ۔ )
سعد۔ شمر تمہارے سپاہی حسین کے خیموں کی طرف جا رہے ہیں ۔ یہ مناسب نہیں ہے ۔
شمر۔ عورتوں کی حفاظت کرنا ہمارا کام نہیں ہے ۔
حسین۔ ( ڈاڑھی سے خون پوچھتے ہوئے ) سعد اگر تمہیں دین کا خوف نہیں ہے تو انسان تو ہو ۔ تمہارے بھی اہل و عیال ہیں ۔ ان بدمعاشوں کو میرے خیموں میں آنے سے کیوں نہیں روکتے ۔ ؟
سعد۔ جب تک میں زندہ ہوں آپ کے خیمے میں کوئی نہ جا سکے گا ۔
( خیموں کے سامنے جا کر کھڑا ہو جاتا ہے )
زینب۔ ( باہر نکل کر ) کیوں سعد حسین اس بے کسی سے مارے جائیں اور تم کھڑے دیکھتے رہو ؟ مال و دنیا تم کو اس قدر پیاری ہے ۔/
( سعد منہ پھیر کر رونے لگتا ہے ۔)
شمر۔ تف ہے تم پر اے جوانو ۔ ایک پیادہ بھی تم سے نہیں مارا جاتا ۔ تم اب ناحق حسین سے ڈرتے ہو ۔ حسین میں اب جان نہیں ہے ۔ ان کے ہاتھ نہیں اٹھتے ۔ پیر تھرا رہے ہیں ۔ آنکھیں جھپکی جاتی ہیں ۔ پھر بھی تم ان کو شیر سمجھ رہے ہو ۔
حسین۔ ( دل میں ) معلوم نہیں میں نے کتنے آدمیوں کو مارا اور اب بھی مار سکتا ۔
 
Top