ٹائپنگ مکمل کربلا : صفحہ 105

نایاب

لائبریرین
KarBala%20-%2000107.gif
 

نایاب

لائبریرین
(212 )
توڑ دی ۔ ہائے اب کوئی سہارا نہیں رہا ۔ تمہیں اپنے پہلو میں دیکھتے ہوئے مجھے وہ بھروسہ ہوتا تھا ۔ جو بچے کو اپنی ماں کی گود میں ہوتا ہے ۔ تم میرے پشت پناہ تھے ۔ ہائے اب کسے دیکھ کر دل کو ڈھارس ہو گی ۔ آہ ۔ اگر تم کو اتنی جلدی رخصت ہونا تھا تو پہلے مجھی کو مر جانے دیتے ۔ میں نے تمہیں اب تک اس طرح بچایا تھا جیسے آندھی میں کوئی چراغ کو بچاتا ہے ۔ پر قضا سے کچھ بس نہ چلا ۔ ہائے میں پانی لینے کیوں نہ گیا ۔ خیر بھیا اتنی تسکین ہے کہ پھر ہم تم سے جلد ملاقات ہو گی ۔ اور ہم قیامت تک جدا نہ ہوں گے ۔
چھٹا سین
دوپہر کا وقت ۔ حضرت حسین اپنے خیمے میں کھڑے ہیں ۔ زینب ، کلثوم ، سکینہ ، شہر بانو سب انہیں گھیرے ہوئے ہیں ۔
حسین۔ زینب عباس کے بعد علی اکبر سے دل کو تسکین رہتی تھی ۔ اب کسے دیکھ کر دل کو ڈھارس دوں ۔ ہائے میرا جوان بیٹا تڑپ تڑپ کر مر گیا ۔ کس شان سے میدان جنگ میں گیا تھا ۔ کتنا خوش مزاج ہمت کا دھنی ۔ زینب ۔ میں نے اس کو کبھی اداس نہیں دیکھا ہمیشہ مسکرایا کرتا تھا ۔ مگر میں روتا کیوں ہوں ۔ اچھا اب اگر یہ آنکھیں روئیں تو ان کو نکال کر پھینک دوں گا ۔ خدا کی مرضی میں رونا کیسا ۔ معلوم ہوتا ہے تمام قدرت مجھے تباہ کرنے ہی پر تلی ہوئی ہے ۔ یہ دھوپ کہ اس کی طرف دیکھنے ہی سے آنکھیں جلنے لگتی ہیں ۔ یہ جلتا ہوا ریت یہ لو کے جھلسانے والے جھونکے ۔ اور یہ پیاس ۔ اس طرح زندہ جلنا تیروں اور بھالوں کے زخموں سے بھی کہیں زیادہ سخت ہے ۔

( 213 )

( علی اصغر آتے ہیں اور بیہوش ہو کر گر پڑتے ہیں ۔)
شہر بانو۔ ہائے میرے بچے کو کیا ہوا ۔
حسین۔ ( اصغر کو گود میں اٹھا کر ) آہ ۔ یہ پھول پانی کے بغیر مرجھایا جا رہا ہے ۔ خدایا اس رنج میں اگر میری زبان سے تیری شان میں کوئی بے ادبی ہو جائے تو معاف کرنا ۔ میں اس وقت اپنے ہوش میں نہیں ہوں ۔ ایک کٹورے پانی کے لئے جنت سے ہاتھ دھونے کو تیار ہوں ۔
( اصغر کو گود میں لئے خیمے سے باہر آ کر )
اے ظالم قوم اگر تمہارے خیال میں میں گنہگار ہوں تو اس بچے سے تو کوئی خطا نہیں ہوئی ہے ۔ اسے ایک گھونٹ پانی پلا دو ۔ میں تمہارے نبی کا نواسا ہوں ۔ اگر اس میں تمہیں کوئی شک ہے تو کعبہ کا ایک بے کس مسافر سمجھ لو ۔ اور اگر اس میں بھی تمہیں تامل ہو تو آخر مسلماں ہی ہوں ۔ یہ بھی نہیں تو اللہ کا ایک ناچیز بندہ تو ضرور ہوں ۔ کیا میرے مرتے ہوئے بچے پر تمہیں اتنا بھی رحم نہیں آتا ۔
میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ پانی مجھے لا دو
تم آن کے چلو سے اسے آپ پلا دو
مرتا ہے یہ مرتے ہوئے بچے کو جلا دو
للہ کلیجے کی مری آگ بجھا دو
جب منہ مرا تکتا ہے یہ حسرت کی نظر سے
اے ظالمو اٹھتا ہے دھواں میرے جگر سے
شمر ایک تیر مارتا ہے جو اصغر کے گلے کو چھیدتا ہوا حسین کے بازو میں چبھ جاتا ہے ۔ حسین جلدی سے تیر نکال دیتے ہیں مگر تیر نکلتے ہی اصغر کی جان نکل جاتی ہے ۔ حسین اصغر کو لئے پھر خیمے میں آتے ہیں ۔
شہر بانو۔ ہائے میرا پھول سا بچہ ۔
 
Top