ٹائپنگ مکمل کربلا : صفحہ 104

نایاب

لائبریرین
KarBala%20-%2000106.gif
 

نایاب

لائبریرین
(210)

( سعد کا آنا )
سعد۔ ٹھیرو ٹھیرو ۔ دشمن کو دوست بنا لینے میں جتنا فائدہ ہے ۔ اتنا قتل کرنے میں نہیں ۔ عباس میں آپ سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں ۔ ایک دم کے لئے تلوار روک دیجئے ۔ تنی ہوئی تلوار مصلحت کی زبان بند کر دیتی ہے ۔
عباس۔ مصالحت کی گفتگو کرنا ہو تو حضرت حسین کے پاس کیوں نہیں جاتے ۔ حالانکہ شاید اب وہ کچھ نہ سنیں گے ۔ دو بھانجے ۔ دو بھتیجے مارے جا چکے ۔ کتنے ہی احباب شہید ہو گئے ۔ وہ خود بھی زندگی سے بیزار ہیں مرنے پر کمر باندھ چکے ہیں ۔
سعد۔ تو ایسی حالت میں آپ کو اپنی جان کی اور بھی قدر کرنی چاہیئے ۔ ، ؟؟؟؟؟؟ میں علی کی کوئی نشانی تو باقی رہے ۔ خاندان کا نام تو نہ مٹے ۔
عباس۔ بھائی کے بعد جینا بیکار ہے ۔
سعد۔
مابین لحد ساتھ برادر نہیں جاتا
بھائی کوئی بھائی کے لئے مر نہیں جاتا
عباس۔
بھائی کے لئے جی سے گزر جاتا ہے بھائی
جاتا ہے برادر بھی جدھر جاتا ہے بھائی
کیا بھائی ہو تیغوں میں تو ڈر جاتا ہے بھائی
آنچ آتی ہے بھائی پہ تو مرجاتا ہے بھائی
سعد۔ آپ سے خلیفہ کو کوئی دشمنی نہیں ۔ آپ ان کی بیعت قبول کر لیجیئے ۔ آپ کی ہر طرح بھلائی ہو گی ۔ جو رتبہ چاہیں گے ۔ وہ آپ کو مل جائے گا ۔ اور آپ حضرت علی کے جانشین سمجھے جائیں گے ۔

(211)

عباس۔ جب حسین جیسے صلح پسند انسان کو جنہوں نے کبھی غصے کو پاس نہیں آنے دیا ۔ جنگ پر کبھی سبقت نہیں کی ۔ اور انہوں نے آج بھی مجھ سے تاکید کر دی تھی کہ راہ نہ ملے تو دریا پر نہ جانا ۔ تو میں جو ان اوصاف میں سے ایک بھی نہیں رکھتا ۔ کس طرح تمہاری بات مان سکتا ہوں ۔
سعد۔ تمہیں اختیار ہے ۔
شمر ۔ ٹوٹ پڑو ۔ ٹوٹ پڑو ۔
ایک سپاہی پیچھے سے آ کر تلوار مارتا ہے جس سے حضرت عباس کا داہنا ہاتھ کٹ جاتا ہے ۔ عباس بائیں ہاتھ میں تلوار لے لیتے ہیں ۔
شمر، ابھی ایک ہاتھ باقی ہے جو اسے گرا دے اسے ایک لاکھ دینار انعام ملے گا ۔
چاروں طرف سے زخمی سپاہیوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں ۔ حضرت عباس صفوں کو چیرتے ۔ سپاہیوں کو گراتے حضرت امام حسین کے خیمے کے سامنے پہنچ جاتے ہیں ۔ اتنی میں ایک سپاہی تلوار سے ان کا بایاں ہاتھ بھی گرا دیتا ہے ۔ شمران کی چھاتی میں بھالا چھبو دیتا ہے ۔ حضرت عباس مشک کو دانتوں سے پکڑ لیتے ہیں ۔ تب سر پر ایک گرز پڑتا ہے ۔ اور جناب عباس گھوڑے سے گر پڑتے ہیں ۔
عباس ۔ ( چلا کر ) بھیا تمہارا غلام اب جاتا ہے ۔ اس کا آخری سلام قبول کرو ۔ ( حسین خیمے سے نکل کر دوڑتے ہوئے آتے ہیں ۔ اور حضرت عباس کے پاس پہنچ کر انہیں گود میں اٹھا لیتے ہیں ۔ )
حسین۔ آہ میرے پیارے بھائی ۔ میرے قوت بازو ۔ تمہاری موت نے کمر
 
Top