کتے

یہ کتے میرے ہیں آپ ان کتوں کو پطرس کے کتوں کے ساتھ مکس نہ کیجیے گا کیونکہ میرے کتے زیادہ کتے نہیں ہیں اور یہ وہ کتے ہیں جو گھروں میں باعزت زندگی گزارتے ہیں پطرس کے کتے تو باہر گلی محلوںمیں چرسیوں کے ساتھ گھومتے پھرتے ہیں اور رات کو مشاعرہ کرتے ہیں راتوں کو مشاعرہ کرنا یہ بتاتا ہے کہ یقینا یہ لوگ سوٹا بھی لگاتے ہوں گے ورنہ اتنی اچھی شاعری تو مشکل ہے۔فارسی میں کتوں کو سگ کہتے ہیں مگر پاکستان میں کچھ بہت زیادہ عقیدت مند لوگ اپنے آپ کو کسی نہ کسی بزرگ شخصیت کا سگ کہتے رہتے ہیں اگرچہ اس شخصیت نے ایسا کوئی تقاضا نہیں کیا ہوتا ۔ہمارے ہاں ماں باپ بچوں کو غصے میں آکر کتا یا کسی اور جانور کا نام لے دیتے ہیں سب جانوروں کے نام نہیں لکھے جا سکتے ممکن ہے میرا قلم چالیس دن کے لیے ناپاک ہو جائےمگر مجھے سمجھ نہیں آئی کہ کتا تو کافی وفادار جانور ہے اور اس میں کوئی بڑی خرابی بھی نہیں خرابی تو انسان میں ہے میرے خیال میں بچے کے لیے سب سے بڑی گالی یہی ہے کہ آپ اسےانسان کہہ دیں۔کہا جاتا ہے کہ بھونکنے والے کتے کاٹتے نہیں مگر واللہ میں نے کوئی ایسا کتا نہیں دیکھا جو بھونکا اور کاٹنے کو نہ دوڑا ہو یہ تو انسان کی چالاکی ہے کہ اس کے پالان کو فیل کر دیتا ہے ورنہ وہ تو خلوص نیت کے ساتھ آشیر باد دینے آرہا ہوتا ہے ۔ان کتوں کو گھر کا ایک فرد سمجھا جاتا ہے ہمارے ہاں تو اکثر ایسے کتے مالک کی رکھوالی کے لیے رکھے جاتے ہیں مگر ترقی یافتہ ممالک کے کتوں کی خود مالکوں کو رکھوالی کرنی پڑتی ہے۔ہمارے ہاں بھی کچھ لوگ کتوں کا بہت خیال کرتےہیں اور ان کو وہ وہ غذائیں دیتے ہیں جو راقم اور ملک کی بڑی آبادی نے دیکھی بھی نہیں ہیں۔گھریلو کتے بھی اچھی خاصی غذا کھا کر بھی رات کو جاگتے ہیں الو بارڈر پہ فوجی اور کتے ان کے نصیب میں رات کو سونا نہیں لکھا ہم تیسری دنیا کے لوگ مغرب سے بہت پیچھے ہیں اور ہمارے کتے بھی۔ وہاں کتوں کو خصوصی حقوق ملتے ہیں ایک دوست بتا رہے تھے کہ مغرب میں اکثر وہ لوگ کتا نہلاتے ہیں جن کے اپنے دیس کے کتے غربت اور کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں -
ایک زمانہ تھا جب مغرب میں انسانی حقوق کی باتیں ہوا کرتی تھیں اب وہ لوگ اس سے آگے جانوروں کے حقوق کی بات کر رہے ہیں اور ہمیں انسانی حقوق میں الجھا دیا ہے مغربی کتے اور پاکستانی کتے میں کچھ چیزیں مشترک ہیں مثلا دونوں کی چار چار ٹانگیں ہوتی ہیں دونوں غراتے ہیں دونوں کی شادیاں نہیں ہو سکتیں ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے ہاں کا کتا ڈپریشن کے ماحول کی وجہ سے زیادہ سخت مزاج ہو گھروں میں پالے جانے والے کتے مختلف انواع و اقسام کے ہیں کچھ کے ہمیں نام آتےہیں جن میں پستہ ، بوہلی ، جرمن شیفرڈ، السشن وغیرہ ہیں ان کی اور بھی بہت سی اقسام ہیں جن کا ہمیں علم نہیں شاءد اس لیے مرحوم پطرس نے ایسے کتوں کا انتخاب کیا جن کو چرسی اور گھر سے عاق کیا ہوا کہا جا سکتا ہے ۔انگریز مردوں کی توجہ عورتوں پہ اور انگریز عورتوں کی توجہ کتوں بلیوں پہ ہوتی ہے۔وہاں کے کتے بھی سلجھے ہوئے لائق اتنے کہ انگریزی بھی سمجھتے ہیں اور مجال ہے جو راستے میں کسی انسان کو تکلیف دیں مگر ہماری بدقسمتی دیکھیں کہ کتے بھی ملے تو وہ جن کو گھر سے باہر لے کر جایا جائے تو بدنامی کا باعث بنتے ہیں اور نالائق اتنے کہ انہیں انگریزی کی اے بی سی نہیں آتی۔ لیکن ہمارے کتوں میں اچھی بات ہے کہ انہیں جو دو اس پہ قانع ہو جاتے ہیں سردی ہو یا گرمی کسی اورکوٹ کی لیے نہیں غراتے مگر مغربی کتے موسم کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ لباس بھی تبدیل کرتے ہیں۔پاکستان کے کچھ علاقوں میں انسانوں کی پر زور حمایت اور زور پہ کتے آپس میں لڑنے پہ مجبور ہوتے ہیں اگرچہ لڑائی میں ایک نے جیتنا ہوتا ہے اور دوسرے نے ہارنا ایک کتا جیتتا ہے اور ایک ہارتا ہے یہاں کتوں اور انسانوں میں ایک باریک فرق یہ ہے کہ کتے اپنی ہار کو مان کر میدان سے کھسک لیتے ہیں مگر اشرف المخلوقات انسان اپنے کتے کی ہار کو اپنی ہارمانتے ہوئے بھی تسلیم نہیں کرتا اور جیتنے کے لیے پھر کتے کو تیار کرتا ہے اور کتا مالک کی اطاعت میں تیار بھی ہو جاتا ہے کیونکہ کہا جاتا ہے کہ کتا سب سے وفادار جانور ہے مگر یہ انسان کو متاثر نہیں کر سکا ہم اس کی وفاداری تب مانتے جب یہ اپنے مالک کو بھی وفادار بنا دیتا-
 
Top