کالا رنگ

نور وجدان

لائبریرین
پاس حرم ہے اور ایک کالا کپڑا ہے. دل چاہتا ہے کالا کپڑا چڑھا دوں...؟

''نور کو کالے کپڑے کی ضرورت نہیں ہے . بس سب رنگوں کی کے پردے ہیں. ان رنگوِں کو نفی اثبات کرنا مقصود ہے.

''تم کون؟

''میں کالا رنگ ہوں؟
رنگینیاں کے ڈھانپے ہوئے ہوں.
ایک طرف خاکی رنگ اور دوسری طرف نوری رنگ.

"نور " : ... کالا رنگ بھی مجھ سے نکلا ہے. یہ میرا حجاب ہے

کالا رنگ!!!
" کیسا حجاب ہے؟
سب خاکی مجھ سے گزرتے ہیں میری حیثیت کیا ہے؟
نور : وہی نسبت جو روح الامین کی تھی.

"نور" : یہ بے تابی کیسی؟
اضطرابی پہلے تو نہ تھی؟

''اوئے رنگی
تیرے توں جیہڑا وی لنگے
اوہی پہچان چھڈے تے لنگے
تو کیہڑ یاں فکراں پالیاں؟ ''

اے خاکی! وڈا کثیف!
اے پلیتی تے پاکی وی
ایڈی پلیتی اچ لنگی حیاتی وی
ایڈیاں پلیتیاں تو پردے پاندی
تیری بے رنگی اے ذاتی وی

کالا رنگ: میڈا سائیں ..
تیرا حکمتاں مالک میں کیہ جانڑاں؟
''او مالک''
میرے تو لنگدے خاکی
اپنے رنگ چھڈ تیرے کول
آندے تے جاندے
میرا رنگ کیہڑ اے؟
میں رنگاں نوں سونگاں آں
مینوں پر کج نہ پلے
ای کیہڑا راز.

نور ": اس وجہ سے تو تیرا رنگ کالا ہے کہ تجھ پر خاکی رنگ نہ چڑھے اور خاکی پر نوری رنگ چڑھے.
یہ وہ حکمت تو جان نہ سکے. تو خاک کے لیے ہے مگر خاک تجھ سے نہیں بالکل اسی طرح جس طرح خاک مجھ سے ہے
از نور


2015
 
بہت ہی خوبصورت تحریر ہے ۔۔ بہت گہرا ادراک لیے ۔۔
بس ایک چیز پہ آپ کےویوز جاننے ہیں ۔۔۔
. ان رنگوِں کو نفی اثبات کرنا مقصود ہے.
مجھے سمجھ نہیں آتا کہ یہ نفی اثبات کیا ہے ۔ کچھ لوگوں کے قریب یہ تصوف کی ایک اصطلاح ہے جو لا اور الا للہ سے متعلق ہے ۔۔ لیکن کچھ لوگوں سے میں نے سُنا ہے کہ صوفی حضرات کی جو کرامات ہوتی ہیں وہ اسی نفی اثبات کے تابع ہوتی ہیں جس کے تحت وہ ہوا میں معلق ہو سکتے ہیں یا ایسی ہی کوئی ملتی جُلتی کہانیاں ہیں ۔ تو اگر آپ لفظی اور اصطلاحی ترتیب سے اس پہ روشنی ڈال سکیں ۔تو پلیز ۔
اسی طرح اس تحریر میں بھی اصطلاح استعمال ہوئی ہے کہ ان رنگوں کو نفی اثبات کرنا مقصود ہے ۔میں نے پہلے بھی محفل میں سے کسی سے پوچھا تھا لیکن میری تسلی نہیں ہوئی ۔
 
شکریہ چوہدری صاحب !
شکریہ کے بعد انگریزی میں بھی کچھ کہتے ہیں لیکن شاید اردو میں رواج نہیں۔
ذرہ نوازی ہے آپ نے پسند کیا ورنہ بندی کس قابل
یہ تو اب آپ عاجزی اور انکساری میں کہہ رہی ہیں ورنہ بندی قابل تو بہت ہے۔ :)
 

مژگان نم

محفلین
ماشاللہ بہت خوبصورت انداز بیاں تعریف لفظ بیان سے باہر ہے بس اتنا کہوں گی

جھوم اٹھتے ہیں الفاظ خود
آخر کس قلم سے لکھتے ہو؟
 

نور وجدان

لائبریرین
بہت ہی خوبصورت تحریر ہے ۔۔ بہت گہرا ادراک لیے ۔۔
بس ایک چیز پہ آپ کےویوز جاننے ہیں ۔۔۔

مجھے سمجھ نہیں آتا کہ یہ نفی اثبات کیا ہے ۔ کچھ لوگوں کے قریب یہ تصوف کی ایک اصطلاح ہے جو لا اور الا للہ سے متعلق ہے ۔۔ لیکن کچھ لوگوں سے میں نے سُنا ہے کہ صوفی حضرات کی جو کرامات ہوتی ہیں وہ اسی نفی اثبات کے تابع ہوتی ہیں جس کے تحت وہ ہوا میں معلق ہو سکتے ہیں یا ایسی ہی کوئی ملتی جُلتی کہانیاں ہیں ۔ تو اگر آپ لفظی اور اصطلاحی ترتیب سے اس پہ روشنی ڈال سکیں ۔تو پلیز ۔
اسی طرح اس تحریر میں بھی اصطلاح استعمال ہوئی ہے کہ ان رنگوں کو نفی اثبات کرنا مقصود ہے ۔میں نے پہلے بھی محفل میں سے کسی سے پوچھا تھا لیکن میری تسلی نہیں ہوئی ۔

پہلے پہل تو شکر ادا کرنا چاہیے کہ آپ کو لکھا پسند آیا ہے اور سند قبولیت بخشی !
محترم ڈاکٹر عامر شہزاد صاحب !
نفی اثبات کے بارے میں اتنا ہی علم رکھتی ہوں جتنا یہاں لکھا ہے ! دو سال پہلے لکھی گئی تحریر ہے جو بے خبری میں ادھر ادھر پڑی ہوئی تھی جسکو کسی انجان لمحے نے قرطاس پر تحریر کرتے عدم امکان سے امکان کی اشکالات دے دیں !

بُزرگوں کی تحاریر یا کلام میں اسکو کچھ اسطرح سے سُنا ہے
الف اللہ چنبے دی بوٹی مرشد من وچ لائی ھو !
نفی اثبات دا پانی ملیا ہر رگے ہر جائی ھو
اندر بوٹی مشک مچایا جان پھلن تے آئی ھو !
جیوے مرشد کامل باھو جنہے بوٹی لائی ھو !

میرے نزدیک آپ جناب نے نفی اثبات کی حقیقت کھولی ہے اس میں مرشدِ حق سے مراد نبی پاکﷺ کی ذات اقدس عالی ہے !

میری تحریر جو نفی اثبات کا ذکر ہے وہ صرف وجدان پر اتری ایک سوچ ہے ۔ دنیا میں سب رنگ فانی ہے جن میں الجھنا اک نادانی ہے سوا کچھ نہیں ہے ، سچا خالق رحمت فرماتے مجھے سچ کی جانب لے جائے اور مجھے اپنے سچے رنگ سے نوادے کہ جس پر کوئی اور رنگ نہ چڑھ سکتا ہے اور نہ جسکو ملمع کی حاجت ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں جھٹلاتی ہوں ہر جھوٹے رنگ کی اور خواہش کرتی ہوں کہ مجھے اپنے رحمت میں لے لے !

'نفی اثبات ' کلمہ طیبہ کا جزوِ لازم ہے جس کے بنا کوئی مسلمان ایمان لانے کا تصور کر نہیں سکتا جس طرح زبان مٹی کا قفل کھولتے اقرار کرتی ہے اسطرح روح عملی طور پر اس کی تقلید کرتی ہوئے ہر معبودِ فانی کی نفی اور معبودِ سبحانی کے اثبات پر یقین کرتی ہے !


میرے لیے دعا کیجیے کہ جواب لکھنا بھی نہیں چاہا مگر خود کو مجبور بھی پایا کہ آپ شاید اس کی حقیقت کھول دیں میں جو اسکے معانی کی تلاش میں ہوں ، آپ سے گفتگو کرتے مجھے علم ہوسکے کہ اصل معانی ہے کیا ! اس بارے میں مزید گفتگو کا حاصل کچھ نہیں کہ میں علم کی طالب ہوں ، آپ مجھے بتاسکتے ہیں مگر خود سے کچھ معانی گھڑ لینا ممکن نہیں ہے ! دعا میں یاد رکھیے گا ! خوش رہیں ۔ ولسلام
 

نور وجدان

لائبریرین
ماشاللہ بہت خوبصورت انداز بیاں تعریف لفظ بیان سے باہر ہے بس اتنا کہوں گی

جھوم اٹھتے ہیں الفاظ خود
آخر کس قلم سے لکھتے ہو؟

آپ کے انگریزی ترجمے سے ہم جھوم اٹھے تھے تو یہی جوابی شعر آپ پر داغ دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب انگریزی ادب میں کیا پڑھ رکھا ہے جو اتنا پیارا ڈکشن ہے آپ کا جو کسی منجھے ہوئے شاعر کا ہی ہوسکتا ہے ! شکریہ بیحد پسند آوری پر !
 

با ادب

محفلین
نفی اثبات ۔
لا ۔ ۔ نفی ۔ دنیا کی ہر چیز کی ۔
الہ ۔ اثبات ۔ اللہ کی وحدانیت کا
تو جب اس کو خالق مان لیا تو دبیا کی ہر چیز ہر ذات کی نفی کر دی ۔ سوائے اللہ کے ۔ اور جب دنیا کو نہ کہہ کے اللہ کی وحدانیت اور حاکمیت پہ سر جھکا دیا ہے تو پھر اپنی مرضی کی حیثیت کیا ۔
 
بہت شکریہ کہ آپ نے اس موضوع پہ اتنی تفصیل سے بات کی ۔ میرا علم بہت ناقص ہے ۔ یہاں بہت سے پڑھے لکھے اور صوفیاء سےتعلق اور نسبت رکھنے والے محفلین بھی موجود ہیں جیسے وارث سر ہیں شاید وہ بہتر راہنمائی کر سکیں ۔
مجھے اس سے متعلق جو پتہ چلا ہے وہ یہ ہے کہ نفی اثبات ذکر کی ایک قسم ہے ۔ اس کے حوالے سے کچھ شیئر کرتا ہوں ۔
شیخ المشائخ حضرت خواجہ احمد سعید قدس سرہ اربع انہار میں قیوم ربانی حضرت مجدد الف ثانی نوّر اللہ مرقدہ کے حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں۔
ذکر کے دو قسم ہیں۔ اول ذکر اسم ذات۔ دوم ذکر نفی و اثبات

توجہ و خیال کی زبان سے لَاأِلٰہَ اِلآَااللّٰہُ کے ذکر کو نفی و اثبات کہتے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ سالک پہلے اپنے باطن کو ہر قسم کے خیالات ماسویٰ اللہ سے پاک و صاف کرے، اس کے بعد اپنے سانس کو ناف کے نیچے روکے اور محض خیال کی زبان سے کلمہ ”لا“ کو ناف سے لیکر اپنے دماغ تک لے جائے، پھر لفظ ”اِلٰہَ“ کو دماغ سے دائیں کندھے کی طرف نیچے لے آئے اور کلمہ ”اِلاَّ اللہُ“ کو پانچوں لطائف عالم امر میں سے گذارکر قوت خیال سے دل پر اس قدر ضرب لگائے کہ ذکر کا اثر تمام لطائف میں پہنچ جائے۔ اس طرح ایک ہی سانس میں چند مرتبہ ذکرکرنے کے بعد سانس چھوڑتے ہوئے خیال سے ”مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ“ کہے۔ ذکر نفی و اثبات کے وقت کلمہ طیبہ کی معنیٰ کہ سوائے ذات پاک کے کوئی اور مقصود و معبود نہیں، کا خیال رکھنا اس سبق کے لئے شرط ہے۔ کلمہ ”لا“ ادا کرتے وقت اپنی ذات اور تمام موجودات کی نفی کرے اور ”اِلَّا اللّٰہُ“ کہتے وقت ذات حق سبحانہ و تعالیٰ کا اثبات کرے۔
فائدہ: ذکر نفی و اثبات میں طاق عدد کی رعایت کرنا بہت ہی مفید ہے۔ اس طور پر کہ سالک ایک ہی سانس میں پہلے تین بار پھر پانچ بار اس طریقہ پر یہ مشق بڑھاتا جائے یہاں تک کہ ایک ہی سانس میں اکیس بار یہ ذکر کرے۔ البتہ یہ شرط و لازم نہیں ہے۔ طاق عدد کی اس رعایت کو اہل تصوف کی اصطلاح میں وقوف عددی کہا جاتا ہے۔ نیز چاہئے کہ ذکر کے وقت بزبان حال کمال عجز و انکساری سے بارگاہ الٰہی میں یہ التجا کرے۔
خداوندا مقصود من توئی و رضائے تو
محبت و معرفت خود مرا بدہ​
ترجمہ: الٰہی تو ہی میرا مقصود ہے اور میں تیری ہی رضا کا طالب ہوں۔ تو مجھے اپنی محبت و معرفت عطا فرما۔
چونکہ ذکر نفی و اثبات میں غیر معمولی حرارت و گرمی ہوتی ہے، اسلئے ہمارے مشائخ عموماً سردی کے موسم میں اسکی اجازت دیتے تھے۔ جبکہ بعض لوگوں کو سردیوں میں بھی سانس روکنا دشوار ہوتا ہے، ایسے لوگوں کو سانس روکے بغیر اور بلا رعایت تعداد ذکر نفی و اثبات کی اجازت دی جاتی ہے۔
چونکہ ذکر نفی و اثبات تمام سلوک کا خلاصہ اور مکھن ہے اور اس سے غیر کے خیالات کی نفی، محبت الٰہی میں اضافہ اور قلب میں رقت پیدا ہوتی ہے تو اس سے بعض اوقات تو کشف بھی حاصل ہوتا ہے۔ لہٰذا سالک کو چاہئے کہ اسکے حصول کی پوری طرح کوشش کرے۔ اگر کچھ عرصہ ذکر کرنے کے باوجود مذکور فوائد حاصل نہ ہوں تو سمجھے کہ میرے عمل میں کسی قسم کی کمی رہ گئی ہے۔ لہٰذا پھر سے بتائے گئے طریقے کے مطابق ذکر شروع کرے۔
نیز مشائخ نے فرمایا ہے کہ اس ذکر کے دوران اعتدال طبع کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔ مرغّن غذا اور ہضم کے مطابق دودھ استعمال کرنا چاہئے تاکہ گرمی کی وجہ سے دماغ میں خشکی پیدا ہوکر ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔

حوالہ
اسباق طریقہ نقشبندیہ

باقی واللہ اعلم
 
Top