ڈنمارک میں ملازمین کا استحصال

کعنان

محفلین
ڈنمارک میں ملازمین کا استحصال
فاروق بلوچ، 24/12/2016

ڈینش سیاست میں موجود ہر قسمی نحوست کا الزام تارکین وطن، پناہ گزینوں اور تارکین وطن محنت کشوں پہ دھرا جاتا ہے. ”ڈینش ماڈل“ کو مناسب اجرت اور کام کے بہتر حالات کی وجہ اکثر کوئی بہت ہی منفرد چیز بنا کر پیش کیا جاتا ہے. لیکن کارکنوں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد کے لئے اب مناسب اجرت اور کام کے بہتر حالات غیر یقینی و غیر حقیقی خواب ہیں.

REVOLT میگزین نے ڈنمارک میں ایک پاکستانی تارکِ وطن محنت کش عمران سے گفتگو کرتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کی کہ درحقیقت محنت کش طبقہ ڈنمارک میں رہتے ہوئے کیا محسوس کرتا ہے.

آئر لینڈ میں آئی ٹی یونیورسٹی سے ماسٹرز کی سند مکمل کرنے کے بعد آئرلینڈ میں رہنے کے لیے اُسے تیس ہزار یورو ”پےآف“ ملازمت کی تلاش تھی. عمران نے بتایا کہ یہ اس کے لیے مکمل طور پر ناممکن تھا مگر 2011ء میں اُسے ڈنمارک میں ایک کام کی اجازت مل گئی، اور کام کرنے کے لیے یہاں کا سفر کیا. عمران نے بتایا کہ ڈنمارک میں آ کر کام تلاش کرنا بہت مشکل تھا، جب تک ڈینش زبان نہ آتی ہو اُس وقت تک تعلیم کا بھی کوئی فائدہ نہیں جبکہ میں یہاں کسی کو جانتا بھی نہیں تھا. مسئلہ تو یہ ہے کہ سارا وقت معمولی اجرت والی مشکل ملازمت میں صرف ہو جاتا ہے اور مقامی زبان سیکھنے کے لیے وقت ہی نہیں بچتا. لہذا ڈنمارک میں رہنے والے اپنے پہلے پانچ ماہ کے دوران، وہ بے روزگار تھا. اُس نے بتایا کہ وہ تمام پیسے جو اُس نے آئر لینڈ میں جمع کیے تھے اور جو دوستوں سے ادھار لیے تھے، ختم ہو گئے.

پانچ ماہ بعد اُسے کَلمپنبورگ میں ایک ریستوران میں برتن دھونے کی ملازمت مل گئی، وہ بھی ساٹھ ڈینش کراؤن کی معمولی اجرت کے عوض. جبکہ کام کے اوقات کا کوئی مخصوص شیڈول بھی نہیں دیا گیا تھا. بلکہ آجر اُس کو کسی بھی وقت کام کرنے کے لیے بُلا لیتا تھا. پندرہ دن بعد ہی اُس کو اِس کمر توڑ ملازمت سے فارغ کر دیا گیا،
کچھ عرصے کی بیروزگاری کے بعد عمران کو ڈنمارک میں رہائش پذیر پاکستانی کمیونٹی کی مدد سے ایک دوسری ملازمت مل گئی. یہ نئی ملازمت ایک ادویات ساز کمپنی کی کینٹین میں برتن دھونے کی تھی. عمران نے بتایا کہ ریسٹورنٹ میں کام کی طرح یہ ملازمت بھی بہت زیادہ کٹھن تھی. مجھے ایک وسیع جگہ پہ پانچ باورچیوں کے ساتھ اکیلا کام کرنا پڑتا تھا. میں اپنا کام مکمل نہیں کر پاتا تھا. میں آدھے گھنٹے سے ایک گھنٹے تک اضافی وقت لگاتا تھا مگر کسی اضافی اجرت کے بغیرگھنٹوں کی فل ٹائم ملازمت کے باوجود اُسے ماہانہ دس ہزار ڈینش کراؤن ہی بطور تنخواہ مل پاتے تھے. ٹیکسوں کی ادائیگی کے بعد اُسی ریسٹورنٹ جتنی اجرت ہی جیب میں آتی تھی.

عمران کو دوا ساز کمپنی کی کینٹین میں ملازمت ایک ٹھیکیدار کے ذریعے ملی تھی. چار سال گزر گئے تھے مگر عمران اپنے خاندان سے ملنے گھر نہیں جا پایا تھا. کینٹین کی ملازمت کے سات ماہ بعد عمران نے ٹھیکیدار سے معاہدہ کیا کہ وہ پاکستان اپنے خاندان سے ملنے کا متمنی ہے، ٹھیکیدار نے اُسے یقین دلایا کہ واپسی پر اُس کی یہی ملازمت پھر سے بحال کر دی جائے گی. عمران نے ایک تکلیف دہ مسکراہٹ کے ساتھ بتایا کہ ٹھیکیدار کی بات سچ ثابت نہ ہوئی اور وہ ایک مرتبہ پھر سے بےروزگاری کے دلدل میں دھکیل دیا گیا.

دو مہینے کی بےروزگاری کے بعد اپنے رہائشی شراکت دار کی مدد سے عمران کو اپنی موجودہ ملازمت یعنی ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں برتن دھونے کی ملازمت مل گئی. ویسے تو یہ جگہ مقبول نظر آتی ہے مگر کام کے حالات پہلی ملازمتوں سے بھی بدتر ہیں. عمران نے بتایا کہ بظاہر یہ 40 گھنٹے ماہانہ کی جُز وقتی ملازمت ہے مگر حقیقتاً ہمیں 170 گھنٹے ماہانہ کام کرنا پڑتا ہے. یہ ملازمت بھی ایک ٹھیکیدار کی بدولت میسر آئی ہے. اس ٹھیکیدار نے تمام ملازمین سے چالیس گھنٹے کے معاہدے پہ دستخط کروا رکھے ہیں تاکہ ملازمین کوئی مسئلہ نہ بنا سکیں. اگر کوئی ملازم مسئلہ کھڑا کرے تو اُسے 40 گھنٹے تک محدود کر دیا جاتا ہے جس پہ گزارا کرنا ناممکن ہے. لہذا ٹھیکیدار نے ایک ایسا نظام ترتیب دے رکھا ہے کہ کوئی ملازم اپنی زبان کھولنے کے یا کوئی مسئلہ بنانے کی ہمت ہی نہیں کرتا. ٹھیکیدار کا ہوٹل والوں سے 15-20 سال کا معاہدہ ہے، لہذا ہوٹل کے تمام لوگ بھی اس بات سے واقف ہیں کہ وہ کس طرح کام کرتا ہے.

عمران نے بتایا کہ کیسے اُس ٹھیکیدار کیساتھ کام کرنے کیلئے آغاز کے کچھ دن بلامعاوضہ کام کرنا پڑتا ہے. اگر آپ ٹھیکیدار کو پسند آ گئے تو آپ کو کام مل جاتا ہے، اگر آپ پسند نہیں آئے تو آپ فارغ ہیں. اِس طرح ٹھیکیدار ہوٹل میں ہونے والی بڑی تقریبات کے دوران بلامعاوضہ محنت کشوں کی محنت کا استعمال کر لیتا ہے. پندرہ سو مہمانوں تک کی تعداد والی تقریبات کے لیے صرف دس نفوس کچن میں کام پہ معمور ہوتے ہیں. ایسے حالات میں ہم شدید دباؤ کا شکار ہوتے ہیں، اور لوگ انتہائی کشیدہ ہو جاتے ہیں. یہ کوئی صبح آٹھ سے شام چھ بجے والا باقاعدہ کام نہیں ہے، بلکہ عمران کو رات نو بجے سے لیکر صبح چار بجے تک کام کرنا پڑتا ہے. اس طرح اس کی نیند کا شیڈول خراب ہوتا ہے اور دن کی روشنی میں دوسرے امور کا وقت بھی بہت مشکل ملتا ہے. عمران نے کہا کہ میں سارا سال کام کرتا ہوں، حتی کہ سرکاری تعطیلات کے دوران بھی. پچھلی دو کرسمس کی چھٹیاں بھی کام میں ہی صرف ہو گئیں. یہاں تنخواہ دیگر مقامات کے مقابلے میں معمولی بہتر ہے. عمران کو 115 کراؤن فی گھنٹہ کے حساب سے پیسے ملتے ہیں. مگر بس یہی تنخواہ ملتی ہے. ٹھیکیدار باقاعدہ رات کے وقت کام کے لیے، یا اختتام ہفتہ پر یا چھٹیوں پر کام کے لئے کوئی بونس فراہم نہیں کرتا ہے.

عمران نے کہا کہ اُسے اضافی کچھ بھی نہیں ملتا. مجھے کرسمس پر کام کے لئے ایک بونس نہیں ملا. ان وجوہات کی بنا پر عملی طور پر عمران کو کام کی صورت حال کی نسبت کمتر تنخواہ ملتی ہے. عمران نے واضح کیا کہ اپنے ویزہ کی باقاعدگی سے تجدید کروانی پڑتی ہے اور میں سالانہ کئی ہزار کراؤن یہی کام کرنے میں خرچ کرتا ہوں. لیکن اگر آپ بے روزگار ہیں، یا پچھلے عرصے میں کافی کام نہیں کیا تو ویزہ کی تجدید نہیں کر سکتے ہیں. جبکہ موجود ملازمت کے دوران کام سے نکالے جانے کا خوف، بیمار ہونے کا خوف، یا پھر خاندان میں کوئی بیمار نہ ہو جائے جس کی دیکھ بھال کا خوف مسلسل لاحق رہتا ہے.

عمران نے بتایا کہ اُس کے لیے نام نہاد سوشل ڈیموکریٹک فلاحی ریاست میں رہنے یا خلیجی بادشاہتوں میں رہنے کے درمیان زیادہ فرق نہیں ہے. ڈنمارک میں ویزہ قواعد کا مطلب یہ ہے کہ ڈنمارک میں ورک ویزہ رکھنے کے لیے آپ کو سالانہ تین لاکھ چھبیس ہزار کراؤن کمانے ہوں گے. عمران نے ماندے انداز سے میز کو تکتے ہوا کہا لیکن قوانین کو مسلسل تبدیل اور سخت کیا جا رہا ہے. کون جانتا ہے، وہاں مزید کیا اور کب سختی کر دی جائے گی؟ مستقل سکونت کے لیے درخواست دینے کے اہل ہونے کے لیے چھ سال تک انہی شرائط کے تحت کام کرنا ہو گا.

عمران جیسی صورتحال میں مبتلا محنت کشوں کے لیے کسی ”بےروزگار فنڈ“ کی رکنیت حاصل کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا کیونکہ بےروزگاری کی صورت میں تو ملک ہی سے باہر پھینک دیا جائے گا. مگر کارکنان کی یونین تو عموماً دکھائی ہی نہیں دیتی. عمران نے کہا کہ میں نے جہاں جہاں بھی کام کیا، مجھے کارکنان کی یونین کہیں نظر نہیں آئی. وہ خود کئی سال تک ایک یونین کا رکن رہا ہے، اور اس کے کچھ دوسرے کام کے ساتھی بھی خود کو منظم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں. عمران نے بتایا کہ ہمارا ایک کارکن ساتھی ایک یونین ”کریفا“ کا رکن تھا، اس کو کام کے دوران کافی عرصہ سے پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، نتیجتاً اس کی اور اس کے باس کی لڑائی ہو گئی. لڑائی کے فوراً بعد اُس محنت کش کو ملازمت سے فارغ کر دیا گیا. جبکہ کریفا یونین محنت کش کے لیے کچھ بھی نہ کر سکی.

عمران کے مطابق اصل معاملہ یہ ہے کہ نہ کسی مزدوروں کی یونین اور نہ ہی بائیں بازوں کی کسی جماعت کا کوئی نمائندہ یہاں ملازمت کی جگہ پہ موجود نہیں ہے. عمران نے بتایا کہ ہمیں سرمایہ داروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا، اور ریاست پرواہ نہیں کرتی. اس طرح کے حالات صرف باورچی خانے اور کنٹین کاروبار میں نہیں ہیں، بلکہ ہر جگہ اِسی طرح تارکِ وطن محبت کشوں کو معمولی اجرت کے عوض استعمال کیا جاتا ہے. سب سے پہلا اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ کمپنی ٹھیکیدار کے معاملات کی ذمہ دار نہیں ہے. اگر ٹھیکیدار کی یہ قانون شکنی بے نقاب ہوتی ہے تو وہ صرف دیوالیہ پن ظاہر کرکے اپنا دھندہ دوبارہ شروع کر لیتا ہے.

یہ ایک گھن چکر ہے جس کا توڑ صرف یہ ہے کہ بڑی بڑی کمپنیوں کو ٹھیکیداروں کے معاملات میں ذمہ دار بنانا ہو گا. لیکن مسئلے کی جڑ کے نظام میں پنہاں ہے. عمران نے سوالیہ انداز میں کہا کہ امیگریشن کے معاملات اصل مسئلہ نہیں ہیں جو خود ایک بہت بڑے پیمانے پر دنیا کے مختلف خطوں میں بحرانوں اور جنگوں کی پیدا کردہ ہیں.

میرے خیال میں سرمایہ دارانہ نظام کے اندر امیگریشن کے مسائل کو حل کرنے کی کوششیں حقیقت پسندی نہیں ہیں. اور یہ ہو بھی کیسے سکتا ہے، سرمایہ دارانہ نظام تو دنیا بھر سے قومی سرحدوں کے اندر نسلی تنازعات کو حل کرنے کے بھی قابل نہیں ہے. عمران کے مطابق طاقت کا سبب اتحاد ہوتا ہے. یونینوں اور بائیں بازو کو بلاامتیاز رنگ و نسل محنت کش طبقے کو یکجا کرنا چاہیے. ورنہ دوسری صورت میں ہار صرف محنت کش طبقہ کی ہی ہوگی. عمران ایک خیالی تخلص ہے تاکہ اس کو ملازمت سے نکال باہر نہ کیا جائے. عمران کی حقیقت صرف ادارتی عملے کو معلوم ہے.

(شکریہ دلیل پی کے)
 
Top