ڈاکٹر سے معائنہ کرواتے وقت چند سوالات ضرور کریں

کعنان

محفلین
ڈاکٹر سے معائنہ کرواتے وقت چند سوالات ضرور کریں
علیم احمد؛ جمعرات 22 ستمبر 2016

اکثر لوگ بھی جب ڈاکٹر کے پاس علاج کروانے جاتے ہیں تو پرہیز اور دوا کے اوقات سے زیادہ کچھ نہیں پوچھتے۔

کراچی: عموماً لوگ کسی بیماری میں ڈاکٹر سے رجوع تو کرتے ہیں لیکن ان سے اپنی صحت سے متعلق سوالات نہیں کرتے اس لیے آپ کو چند ایسے سوالات سے آگاہ کیا جا رہا ہے جو ڈاکٹر کے پاس جاتے وقت آپ کو ضرور پوچھنے چاہئیں تاکہ بہتر علاج ممکن ہو سکے۔

بات صرف ان پڑھ اور کم تعلیم یافتہ لوگوں کی نہیں، پاکستان میں اکثر پڑھے لکھے لوگ بھی جب ڈاکٹر کے پاس علاج کروانے جاتے ہیں تو پرہیز اور دوا کے اوقات سے زیادہ کچھ نہیں پوچھتے۔ یعنی وہ اپنی بیماری کی نوعیت اور کیفیت سے لاعلم رہتے ہوئے علاج کروا رہے ہوتے ہیں۔ اسی لاعلمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت سے ڈاکٹر انہیں مہنگی یا غلط دوائیں تجویز کر دیتے ہیں۔ لیکن تھوڑی سی سنجیدہ توجہ دے کر آپ بھی اپنی بیماری اور متعلقہ علاج اور احتیاط وغیرہ سے بہتر طور پر آگاہ ہوکر اپنی صحت کا مناسب خیال رکھ سکتے ہیں۔

  • یہ علامات اور کیفیات کس بیماری کی وجہ سے ہو سکتی ہیں؟
  • یہ بیماری میری گھریلو اور پیشہ ورانہ زندگی پر کس حد تک اثر ڈالے گی؟
  • اس بیماری/ کیفیت کا علاج کم وقت میں ہو جائے گا یا اس میں زیادہ وقت لگے گا؟
  • اس بیماری/ کیفیت کی وجہ کیا ہے؟
  • کیا ان ظاہری علامات کی وجہ کوئی اور بیماری بھی ہو سکتی ہے؟
  • مجھے کون کونسی ظاہری علامات کو بطورِ خاص نظر میں رکھنا چاہیے؟
  • کیا مجھے کسی خاص بیماری کے لیے ٹیسٹ کروانا چاہیے؟
  • اگر ہاں، تو پھر ان ٹیسٹوں سے میری بیماری/ کیفیت کے بارے میں کیا پتا چلے گا؟
  • اس بیماری/ کیفیت کی درست تشخیص میں مزید کون کونسے ٹیسٹ درکار ہو سکتے ہیں؛ اور ان کی لاگت کیا ہو گی؟
  • یہ ٹیسٹ کس حد تک محفوظ اور درست ہوں گے؟
  • ٹیسٹ کے نتائج (رزلٹس) کتنے دنوں میں مل جائیں گے؟
  • کیا مجھے دوبارہ معائنے کے لیے آنا ہو گا؛ اگر ہاں تو کتنے دن بعد/ کونسی علامات ظاہر ہونے یا موجود رہنے پر؟
  • کیا مجھے دوسروں کو اس بیماری سے محفوظ رکھنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی؟
  • اس بیماری کا علاج کس طرح کیا جائے گا؟ (مثلاً اگر اینٹی بایوٹک دی جارہی ہے تو اس کا کورس کتنے دن میں مکمل ہو گا؟)
  • اس دوا یا علاج کے ممکنہ ضمنی اثرات (سائیڈ ایفیکٹس) کیا ہوسکتے ہیں؟
  • ضمنی اثرات زیادہ شدید ہونے کی صورت میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟
  • اگر میں علاج نہ کرواؤں یا علاج میں تاخیر کر دوں تو کیا ہو گا؟
  • علاج کے دوران مجھے کس کس چیز سے پرہیز کرنا چاہیے؟
  • دورانِ علاج میری ملازمت/ پیشہ ورانہ زندگی کس حد تک متاثر ہو گی اور کب تک؟
  • صحت کی مکمل بحالی میں زیادہ سے زیادہ کتنا عرصہ لگ جائے گا؟
ہو سکتا ہے کہ سوالوں کی یہ فہرست آپ کو بہت طویل محسوس ہو لیکن یہ بہت ہی بنیادی نوعیت کے سوال ہیں اور کسی بھی ڈاکٹر کو ان کا جواب دینے میں 5 منٹ سے زیادہ نہیں لگنے چاہئیں۔

ح
 

محمداحمد

لائبریرین
ہم تو یہ سوال پوچھنے میں ہی پانچ منٹ لگا دیں گے۔ :)

ویسے یہ فہرست بہت طویل ہے اور ہمارے ہاں نہ تو ڈاکٹروں کو اتنی فرصت ہوتی ہے اور نہ مریضوں میں بوجہ بیماری اتنی ہمت۔ ڈاکٹر اپنے اپنے ایک ایک منٹ کو کیش کرانا چاہتے ہیں سو زیادہ سوال انہیں بیزار کر دیتے ہیں۔

ہاں! کچھ اسپیلسٹ بہرکیف اپنے مریضوں کا معائنہ بہت اطمینان سے کرتے ہیں بلکہ سوال جواب کا موقع بھی دیتے ہیں تاہم اُن کی فیس پانچ مریضوں جتنی ہوتی ہے سو ڈاکٹر حضرات کی کمائی میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ :)
 
ہم تو یہ سوال پوچھنے میں ہی پانچ منٹ لگا دیں گے۔ :)

ویسے یہ فہرست بہت طویل ہے اور ہمارے ہاں نہ تو ڈاکٹروں کو اتنی فرصت ہوتی ہے اور نہ مریضوں میں بوجہ بیماری اتنی ہمت۔ ڈاکٹر اپنے اپنے ایک ایک منٹ کو کیش کرانا چاہتے ہیں سو زیادہ سوال انہیں بیزار کر دیتے ہیں۔

ہاں! کچھ اسپیلسٹ بہرکیف اپنے مریضوں کا معائنہ بہت اطمینان سے کرتے ہیں بلکہ سوال جواب کا موقع بھی دیتے ہیں تاہم اُن کی فیس پانچ مریضوں جتنی ہوتی ہے سو ڈاکٹر حضرات کی کمائی میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ :)
ویسے اگر غور کیا جائے تو اکثر سوالات کے جوابات نارمل چیک اپ اور تشخیص کے دوران مل چکے ہوتے ہیں۔ اس کو چیک لسٹ کہہ سکتے ہیں کہ جو بات رہ گئی ہو، وہ پوچھ لی جائے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ویسے اگر غور کیا جائے تو اکثر سوالات کے جوابات نارمل چیک اپ اور تشخیص کے دوران مل چکے ہوتے ہیں۔ اس کو چیک لسٹ کہہ سکتے ہیں کہ جو بات رہ گئی ہو، وہ پوچھ لی جائے۔

ایسا ہوتا ہے لیکن اسپیشلسٹ وغیرہ کے ہاں۔

گلی محلے کے ڈاکٹر تو ایسے ہیں کہ آپ کچھ کہنے کے لئے منہ کھولیں تو وہ تھرمامیٹر لگا دیتے ہیں۔ :) :) :)
 
آخری تدوین:
ایسا ہوتا ہے لیکن اسپیشلسٹ وغیرہ کے ہاں۔

گلی محلے کے ڈاکٹر کو تو آپ کچھ کہنے کے لئے منہ کھولیں تو وہ تھرمامیٹر لگا دیتا ہے۔ :) :) :)
میں اس معاملے میں ایک سپیشلسٹ کا بھی ڈسا ہوا ہوں۔ اسلام آباد کے ایک مشہور نیورو سرجن کے پاس گیا۔ جنہوں نے میرے دو جملے سن کر میری بیماری کا اندازہ لگا لیا۔ نہ ہسٹری دیکھنے کی ضرورت محسوس کی اور نہ کسی ٹیسٹ اور ایم۔ آر۔ آئی۔ کی ضرورت محسوس کی۔ اگر 5 منٹ کہوں تو شاید یہ بھی زیادہ ہوں گے اس وقت سے جو اس نے مجھے دیا۔ جس کا خمیازہ مجھے بعد میں بھگتنا پڑا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
میں اس معاملے میں ایک سپیشلسٹ کا بھی ڈسا ہوا ہوں۔ اسلام آباد کے ایک مشہور نیورو سرجن کے پاس گیا۔ جنہوں نے میرے دو جملے سن کر میری بیماری کا اندازا لگا لیا۔ نہ ہسٹری دیکھنے کی ضرورت محسوس کی اور نہ کسی ٹیسٹ اور ایم۔ آر۔ آئی۔ کی ضرورت محسوس کی۔ اگر 5 منٹ کہوں تو شاید یہ بھی زیادہ ہوں گے اس وقت سے جو اس نے مجھے دیا۔ جس کا خمیازہ مجھے بعد میں بھگتنا پڑا۔

افسوس!
 

فاخر رضا

محفلین
السلام علیکم. یہ سوالات عمومی ہیں اور انہیں ضرورت کے لحاظ سے بدلہ جاسکتا ہے، دوسرے یہ صرف ہمارے معاشرے کے لئے ہی نہیں ہیں بلکہ مغرب کے لئے بھی ہیں.
ڈاکٹر کا کام ہی مریض کو مطمئن کرنا ہوتا ہے اور اسے مریض کے تمام سوالات کا ایمانداری سے جواب دینا چاہیے.
ویسے ڈاکٹر کے پاس جانے میں بہت جلدبازی نہیں کرنی چاہیے. بہت سارے مسائل خود بخود ہی حل ہو جاتے ہیں.
سوالات اپنی بیماری ہی کے بارے میں پوچھنے چاہیئں. انٹرنیٹ سے تحقیق کرکے تمام جہان کے سوالات وقت کا ضیاع ہوتے ہیں.
ڈاکٹر کو انسائیکلوپیڈیا نہیں سمجھنا چاہیے اور ڈاکٹر کو بھی اگر نہ معلوم ہو تو اعتراف کرنا چاہیے.
دوائیں دو طرح کی ہوتی ہیں ایک علامات کے خاتمے کے لئے اور دوسری اصل بیماری کے لئے. اس لحاظ سے آپ کو پوچھ لینا چاہیے کہ کون سی دوا کس کام کے لئے ہے. اس کے بعد آپ علامات ٹھیک ہوجانے پر اپنی دوا خود بھی کم کرسکتے ہیں.
ڈاکٹر اگر کوئی دوا دے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ آپ اپنے دائمی امراض مثلاً شوگر اور بلڈ پریشر کی دوا بند کر دیں. انہیں ہمیشہ جاری رکھیں اور ہاں ڈاکٹر کو ان کے بارے میں ضرور بتائیں.
یاد رکھیں ڈاکٹر کی تشخیص کا اسی فیصد دارومدار آپ کی دی ہوئی ہسٹری پر ہوتا ہے.
امید ہے یہ معلومات آپ کو اپنے علاج اور ڈاکٹر کو اپنی تشخیص تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہوں گی.
دعا ہے کہ خدا آپ کو ہمیشہ تندرست و توانا رکھے
 
آخری تدوین:

فاخر رضا

محفلین
السلام علیکم. یہ سوالات عمومی ہیں اور انہیں ضرورت کے لحاظ سے بدلہ جاسکتا ہے، دوسرے یہ صرف ہمارے معاشرے کے لئے ہی نہیں ہیں بلکہ مغرب کے لئے بھی ہیں.
ڈاکٹر کا کام ہی مریض کو مطمئن کرنا ہوتا ہے اور اسے مریض کے تمام سوالات کا ایمانداری سے جواب دینا چاہیے.
ویسے ڈاکٹر کے پاس جانے میں بہت جلدبازی نہیں کرنی چاہیے. بہت سارے مسائل خود بخود ہی حل ہو جاتے ہیں.
سوالات اپنی بیماری ہی کے بارے میں پوچھنے چاہیئں. انٹرنیٹ سے تحقیق کرکے تمام جہان کے سوالات وقت کا ضیاع ہوتے ہیں.
ڈاکٹر کو انسائیکلوپیڈیا نہیں سمجھنا چاہیے اور ڈاکٹر کو بھی اگر نہ معلوم ہو تو اعتراف کرنا چاہیے.
دوائیں دو طرح کی ہوتی ہیں ایک علامات کے خاتمے کے لئے اور دوسری اصل بیماری کے لئے. اس لحاظ سے آپ کو پوچھ لینا چاہیے کہ کون سی دوا کس کام کے لئے ہے. اس کے بعد آپ علامات ٹھیک ہوجانے پر اپنی دوا خود بھی کم کرسکتے ہیں.
ڈاکٹر اگر کوئی دوا دے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ آپ اپنے دائمی امراض مثلاً شوگر اور بلڈ پریشر کی دوا بند کر دیں. انہیں ہمیشہ جاری رکھیں اور ہاں ڈاکٹر کو ان کے بارے میں ضرور بتائیں.
یاد رکھیں ڈاکٹر کی تشخیص کا اسی فیصد دارومدار آپ کی دی ہوئی ہسٹری پر ہوتا ہے.
امید ہے یہ معلومات آپ کو اپنے علاج اور ڈاکٹر کو اپنی تشخیص تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہوں گی.
دعا ہے کہ خدا آپ کو ہمیشہ تندرست و توانا رکھے
 

قیصرانی

لائبریرین
ہم تو یہ سوال پوچھنے میں ہی پانچ منٹ لگا دیں گے۔ :)

ویسے یہ فہرست بہت طویل ہے اور ہمارے ہاں نہ تو ڈاکٹروں کو اتنی فرصت ہوتی ہے اور نہ مریضوں میں بوجہ بیماری اتنی ہمت۔ ڈاکٹر اپنے اپنے ایک ایک منٹ کو کیش کرانا چاہتے ہیں سو زیادہ سوال انہیں بیزار کر دیتے ہیں۔

ہاں! کچھ اسپیلسٹ بہرکیف اپنے مریضوں کا معائنہ بہت اطمینان سے کرتے ہیں بلکہ سوال جواب کا موقع بھی دیتے ہیں تاہم اُن کی فیس پانچ مریضوں جتنی ہوتی ہے سو ڈاکٹر حضرات کی کمائی میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ :)
آپ منظوم کیے بغیر پوچھ لیجیے گا
 

قیصرانی

لائبریرین
السلام علیکم. یہ سوالات عمومی ہیں اور انہیں ضرورت کے لحاظ سے بدلہ جاسکتا ہے، دوسرے یہ صرف ہمارے معاشرے کے لئے ہی نہیں ہیں بلکہ مغرب کے لئے بھی ہیں.
ڈاکٹر کا کام ہی مریض کو مطمئن کرنا ہوتا ہے اور اسے مریض کے تمام سوالات کا ایمانداری سے جواب دینا چاہیے.
ویسے ڈاکٹر کے پاس جانے میں بہت جلدبازی نہیں کرنی چاہیے. بہت سارے مسائل خود بخود ہی حل ہو جاتے ہیں.
سوالات اپنی بیماری ہی کے بارے میں پوچھنے چاہیئں. انٹرنیٹ سے تحقیق کرکے تمام جہان کے سوالات وقت کا ضیاع ہوتے ہیں.
ڈاکٹر کو انسائیکلوپیڈیا نہیں سمجھنا چاہیے اور ڈاکٹر کو بھی اگر نہ معلوم ہو تو اعتراف کرنا چاہیے.
دوائیں دو طرح کی ہوتی ہیں ایک علامات کے خاتمے کے لئے اور دوسری اصل بیماری کے لئے. اس لحاظ سے آپ کو پوچھ لینا چاہیے کہ کون سی دوا کس کام کے لئے ہے. اس کے بعد آپ علامات ٹھیک ہوجانے پر اپنی دوا خود بھی کم کرسکتے ہیں.
ڈاکٹر اگر کوئی دوا دے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ آپ اپنے دائمی امراض مثلاً شوگر اور بلڈ پریشر کی دوا بند کر دیں. انہیں ہمیشہ جاری رکھیں اور ہاں ڈاکٹر کو ان کے بارے میں ضرور بتائیں.
یاد رکھیں ڈاکٹر کی تشخیص کا اسی فیصد دارومدار آپ کی دی ہوئی ہسٹری پر ہوتا ہے.
امید ہے یہ معلومات آپ کو اپنے علاج اور ڈاکٹر کو اپنی تشخیص تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہوں گی.
دعا ہے کہ خدا آپ کو ہمیشہ تندرست و توانا رکھے
اس پر مجھے ایک لطیفہ یاد آیا کہ میرے نانا بہت عرصہ قبل ڈاکٹری کی پریکٹس کرتے تھے تو انہوں نے اپنی ایکسرے مشین خرید لی تھی۔ مریض اکثر ایکسرے کرا کے چلے جاتے اور واپس نہ آتے۔ پھر انہوں نے پتہ کرایا تو پتہ چلا کہ مریض کے خیال میں ایکسرے ہو گئی ہے تو بیماری ٹھیک ہو گئی ہوگی، یعنی ایکسرے کو ٹیسٹ کی بجائے علاج سمجھتے تھے۔ پھر انہوں نے فیس پہلے لینا شروع کر دی
اسی طرح ایک ہمارے ہمسائے ریڈیالوجسٹ تھے جن کے پاس مریض کو یہ پوچھتے ہوئے بھی پایا گیا کہ ‘ڈاکٹر صاحب، الٹرا ساؤنڈ کر کے بتائیں کہ کینسر ہے یا ہینسر‘
 

محمد وارث

لائبریرین
سوالات و جوابات میرے تجرے کے مطابق ڈاکٹر کی فیس اور نوعیت پر منحصر ہوتے ہیں۔

میرا اب تک تین قسم کے (دوائیوں والے) ڈاکٹرز سے پالا پڑا ہے، زیادہ تر پاکستانیوں کا بھی یہی تجربہ ہوگا۔

عطائی۔ یہ ڈاکٹرز ہوتے ہی نہیں، میڈیکل سٹور یا ہومیو پیتھک کی آڑ میں "پریکٹس" کرتے ہیں۔ یہ صرف علامات کا علاج کرتے ہیں معمولی فیس لے کر، ان سے کسی قسم کی بحث ویسے ہی فضول ہے کہ ان کی اپنی معلومات سینہ بہ سینہ اور تجربات پر مشتمل ہوتی ہیں۔

عام ایم بی بی ایس ڈاکٹرز: یہ ہوتے تو پروفیشنل ڈاکٹر ہیں لیکن یہ اپنی فیس مناسب رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے کلینک پر گاہکوں کا تانتا بندھا ہوتا ہے، ان کے پاس ڈسکشن کے لیے عام طور پر وقت نہیں ہوتا، اگر کوئی بات کرنا چاہے بھی تو ٹال دیتے ہیں۔ عموما ایک یا دو دن کی دوا دیتے ہیں اور مریض کو کم از کم دو تین بار بلاتے ہیں، جس سے کم فیس کی کمی پوری ہو جاتی ہے۔

سپیشلسٹ ڈاکٹرز: ان کی فیس سب سے زیادہ ہوتی ہے، آٹھ سو، ہزار، بارہ سو اور اس سے بھی زیادہ یعنی مرض اور انکی سپیشلائزیشن کے مطابق۔ ان کے پاس وقت لے کر یا عرفِ عام میں نمبر لے کر جانا پڑتا ہے۔ چونکہ انکی فیس زیادہ ہوتی ہے اس لیے یہ مریض کو تسلی سے دیکھتے ہیں، ان کی بات بھی سنتے ہیں اور وقت بھی دیتے ہیں اور خوش مزاجی سے بھی پیش آتے ہیں۔ دوا بھی عموما ایک ہفتے کی یا چار دنوں کی لکھتے ہیں۔ یہ صحیح معنوں میں مارکیٹنگ کے اصولوں پر چلتے ہیں مقابلہ بازی کی وجہ سے لیکن اگر خدانخواستہ مقابلہ بازی نہ ہو، جیسے سیالکوٹ میں صرف دو یا تین نیورو سرجن ہیں تو پھر یہ بھی کسی "فرعون" سے کم نہیں۔ :)
 

فاخر رضا

محفلین
سوالات و جوابات میرے تجرے کے مطابق ڈاکٹر کی فیس اور نوعیت پر منحصر ہوتے ہیں۔

میرا اب تک تین قسم کے (دوائیوں والے) ڈاکٹرز سے پالا پڑا ہے، زیادہ تر پاکستانیوں کا بھی یہی تجربہ ہوگا۔

عطائی۔ یہ ڈاکٹرز ہوتے ہی نہیں، میڈیکل سٹور یا ہومیو پیتھک کی آڑ میں "پریکٹس" کرتے ہیں۔ یہ صرف علامات کا علاج کرتے ہیں معمولی فیس لے کر، ان سے کسی قسم کی بحث ویسے ہی فضول ہے کہ ان کی اپنی معلومات سینہ بہ سینہ اور تجربات پر مشتمل ہوتی ہیں۔

عام ایم بی بی ایس ڈاکٹرز: یہ ہوتے تو پروفیشنل ڈاکٹر ہیں لیکن یہ اپنی فیس مناسب رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے کلینک پر گاہکوں کا تانتا بندھا ہوتا ہے، ان کے پاس ڈسکشن کے لیے عام طور پر وقت نہیں ہوتا، اگر کوئی بات کرنا چاہے بھی تو ٹال دیتے ہیں۔ عموما ایک یا دو دن کی دوا دیتے ہیں اور مریض کو کم از کم دو تین بار بلاتے ہیں، جس سے کم فیس کی کمی پوری ہو جاتی ہے۔

سپیشلسٹ ڈاکٹرز: ان کی فیس سب سے زیادہ ہوتی ہے، آٹھ سو، ہزار، بارہ سو اور اس سے بھی زیادہ یعنی مرض اور انکی سپیشلائزیشن کے مطابق۔ ان کے پاس وقت لے کر یا عرفِ عام میں نمبر لے کر جانا پڑتا ہے۔ چونکہ انکی فیس زیادہ ہوتی ہے اس لیے یہ مریض کو تسلی سے دیکھتے ہیں، ان کی بات بھی سنتے ہیں اور وقت بھی دیتے ہیں اور خوش مزاجی سے بھی پیش آتے ہیں۔ دوا بھی عموما ایک ہفتے کی یا چار دنوں کی لکھتے ہیں۔ یہ صحیح معنوں میں مارکیٹنگ کے اصولوں پر چلتے ہیں مقابلہ بازی کی وجہ سے لیکن اگر خدانخواستہ مقابلہ بازی نہ ہو، جیسے سیالکوٹ میں صرف دو یا تین نیورو سرجن ہیں تو پھر یہ بھی کسی "فرعون" سے کم نہیں۔ :)
کہیں سنا تھا کہ جی پی غریبوں کا اسپیشلسٹ ہوتا ہے اور کنسلٹنٹ امیروں کا جی پی.
مجموعی طور پر مادہ پرستی اور کسی بھی قسم کی پکڑ کے خوف سے آزاد ڈاکٹرز بہت ہی بڑی تعداد میں. اسی وجہ سے میں نے مریضوں سے پیسے لینا چھوڑ دیا اور صرف ایسے اسپتال میں کام کرنا مناسب سمجھا جہاں لگی بندھی تنخواہ ملتی ہے اور غلط پریکٹس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا
 

محمد وارث

لائبریرین
کہیں سنا تھا کہ جی پی غریبوں کا اسپیشلسٹ ہوتا ہے اور کنسلٹنٹ امیروں کا جی پی.
مجموعی طور پر مادہ پرستی اور کسی بھی قسم کی پکڑ کے خوف سے آزاد ڈاکٹرز بہت ہی بڑی تعداد میں. اسی وجہ سے میں نے مریضوں سے پیسے لینا چھوڑ دیا اور صرف ایسے اسپتال میں کام کرنا مناسب سمجھا جہاں لگی بندھی تنخواہ ملتی ہے اور غلط پریکٹس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا
ایمان بچانے کا مجھے تو اور کوئی طریقہ سمجھ نہیں آتا
اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائیں۔
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم

روزمرہ موسمی بیماریاں جیسے نزلہ زکام بخار وغیرہ اس پر تو ڈاکٹرز نے منٹوں میں ہی چیک کرنا ہے اور پرچی لکھ دینی ہے اس پر تو پرہیز ہی پوچھا جاتا ہے۔ جو لسٹ پیش کی گئی ہے وہ مہلک بیماریوں پر ہے جو عمر بڑھنے کے ساتھ شروع ہوتی ہیں اور اس پر سپیشلسٹ جسے آپ نے ایک بھاری فیس ادا کرنی ہے اس کے لئے ہے، یہ بھی ضروری نہیں کہ تمام سوالات پوچھنے ہیں اپنی بیماری سے متعلق جو خاص ہے وہ ڈاکٹر سے پوچھنیں چاہیں، خیال رہے سپیشلسٹ ڈاکٹر کا ایک مریض کے لئے 15 منٹ سے 30 منٹ تک کا وقت ہوتا ہے اور اس میں تسلی کر لینی چاہئے۔

پاکستان میں اب تو ہر جگہ پرائیویٹ ہسپتال بھی بنے ہوئے ہیں، موسمی بیماری ہو یا اس سے بڑھ کر کوئی اور صاحب حیثیت اب ان کے پاس جانا ہی پسند کرتے ہیں۔ ان کی فیس جی پی کلینک سے زیادہ ہی ہوتی ہے، مگر یہ بیماری کی تشخیص کے دوران آپ کے لباس سے اندازہ لگا لیتے ہیں اور تھوڑی گفتگو سے انہیں کنفرم ہو جاتا ہے کہ اس سے فائدہ بھی حاصل ہو گا یا نہیں جس سے وہ اپنی نارمل فیس سے بندہ کو مزید ٹیسٹ سے اپنے اخراجات پورے کر لیتے ہیں۔ پہلے تو پاکستان میں پرسکرپشن کے ساتھ انجکشن سے فیس بڑھتی تھی اب تو ڈاکٹر ڈرپ کا بھی مشورہ دیتے ہیں جس سے وہ وہاں کمرہ میں لٹا کے ڈرپ لگا دیتے ہیں اس کے ختم ہونے میں بھی وقت لگتا ہے اس سے بھی ان کی فیس بڑھ جاتی ہے۔ اور کچھ مریض خود ہی وہمی ہوتے ہیں جو خود ہی ڈاکٹر کو راستہ دکھاتے ہیں جس سے ڈاکٹر ان کی خواہش کے مطابق انہیں مزید الجھا کے پرمننٹ ہی انہیں اپنا گرویدہ کر لیتے ہیں کہ ایسے لوگ پھر آئے دن انہی کے پاس وقفہ وقفہ سے جاتے رہتے ہیں۔ فارمیسی یا ڈی ایم پی ایچ ڈاکٹر سے علاج کروانے سے بچنا چاہئے وہ اتنی ہیوی ملی گرام ڈوز دیتے ہیں کہ بندہ ایک دن میں شفایاب ہو جاتا ہے مگر اس کے سائیڈ افیکٹس بہت ہیں۔ اور ایم بی بی ایس ڈاکٹر کم ملی گرام کی ڈوز دیتے ہیں اور اس سے بیماری ٹھیک ہونے میں تھوڑا وقت لگتا ہے یہی بہتر ہے۔

برطانیہ میں علاج کا طریقہ بہت مختلف ہے۔ کسی بھی موسمی بیماری پر یہ تہہ ہے کہ 3 دن سے پہلے ڈاکٹر پر نہیں جانا، اگر چلے جائیں گے تو وہ یہی مشورہ دیتے ہیں کہ کوئی بھی پیٹنٹ دوائی استعمال کریں جیسے بچوں کے لئے شربت اور بڑوں کے لئے ڈیب، بروفن، پیراسیٹامول، کالپول وغیرہ۔ اگر تین دن میں بیماری ٹھیک نہیں ہوتی تو پھر وہ اینٹی بائیوٹک دیتے ہیں جس کی مقدار 3 دن تک کی ہوتی ہے۔ انجکشن نام کی کوئی چیز اس دوران کبھی نہیں دی جاتی۔ اگر بیماری ایسی ہے کہ جس سے کوئی خدشہ ہو تو پھر اسے ہسپتال میں داخل کر لیا جاتا ہے۔

پہلے 3 دن تک دوائی نہ دینے کا مقصد یہی ہے کہ کوئی بھی بیماری اس میں حکمت ہے کہ فاصد و زہریلے مادوں کا جسم سے اخراج ضروری ہے اور اس دوران اینٹی بائیوٹک لینے سے مزید نقصان کا خدشہ ہے۔ یہاں ٹریٹمنٹ فری ہے اور پرسکرپشن پر اگر بینیفٹس لے رہے ہیں یا تنخواہ کم ہے تو وہ بھی فری ہو گی ورنہ پرسکرپشن پر قیمت ادا کرنے پڑے گی۔

والسلام
 
Top