چھوٹی سی بات سلطان حسین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذرا زور سے تالیاں بجاؤ گوریو

Sultan Hussain

محفلین
چھوٹی سی بات
سلطان حسین

ذرا زور سے تالیاں بجاؤ گوریو


ہر لفظ اپنے اندر ایک خاص معنی رکھتا ہے لیکن بعض الفاظ ایسے ہوتے ہیں جو کوزے میں دریا بند کرنے کے مترادف ہوتے ہیں ایسے الفاظ کی تشریح کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی اب آپ ناک کو ہی لے لیجیے اکثر آپ نے سنا ہوگا کہ یہ ہوگیا تو میری ناک کٹ جائے گی اگر وہ ہوگیا تو میری ناک کٹ جائے گی بات بات پہ ناک کٹنے کا خطرہ رہتا ہے ناک کٹتی ہے یا نہیں کٹتی لیکن اس شخص کو اپنی عزت خطرے میں ضرور نظر آتی ہے جو ناک کٹنے کی بات کرتا ہے اور جسے بچانے کے لیے وہ سب کچھ کرنے پر تل جاتا ہے انسان میں ایک ناک ہی ایسی ہے جس پر اس کی ساری زندگی کا درومدر ہوتا ہے اس ناک سے انسان سانس بھی لیتا ہے اور اسی سانس کے بل بوتے پر اس کی گردن اکڑی رہتی ہے ناک سے جڑے جتنے بھی لفظ ہیں وہ سب خطرے سے خالی نہیں ہوتے ان سب کا یہی حال ہے مثال کے طور پر جیسے خوفناک ' عبرتناک 'خطرناک'تشویشناک 'شیش ناگ'انگریزی والا ناک وغیرہ وغیرہ گذشتہ روز جب آرمی چیف نے اعلان کیا کہ اب کوئی رعایت نہیں ہوگی تو ہمارے سمیت زیادہ تر ہم وطنوں کو پہلی بار پہلے والے دو ''ناک'' کی خواہش پیدا ہوئی کیوںکہ کہتے ہیں تنگ آمد بجنگ آمد لیکن جو لوگ ایک آنکھ سے دنیا کو دیکھتے ہیں انہیں تیسری ناک محسوس ہوئی 'جو اس سے بھی خود کو زیادہ حساس سمجھتے ہیں انہیں چوتھا ناک نظر آنے لگا تاہم پہلے والے دو''ناک'' کے حمایتی جو تنگ آمد بجنگ آمد کے محاورے کے حق میں ہیں وہ آرمی چیف کے اعلان اور اس پر عمل کو انگریزی والے ناک کا پہلا ''ناک''(دستک) بھی سمجھ رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ اب ان پر منحصر ہے جن کو یہ ''ناک'' دی گئی ہے کہ وہ احسان اتارتے ہیں یا بس اس بار بھی اپنی ناک کو موم کی طرح ٹیڑی ہی رکھتے ہیں وہ جن کے ناک کی خاطر یہ سب کچھ کرتے ہیں وہ اپنا مطلب نکلنے کے بعد نظر بھی نہیں آئیں گے جیسے ہمارے ساتھ دومرتبہ وہ کرچکے ہیں پچھلے چند دنوں سے باامر مجبوری موم کی اس ناک کی سرجری کی کوشش تو کی جارہی ہے لیکن اگر اس سرجری میں وہ خود ادھر ادھر والوں کو دیکھے بغیر خوش دلی سے حصہ لیں تو یہ دونوں کے حق میں بہتر ہوگا بڑے بزرگ کہتے ہیں کہ تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے ایک ہاتھ سے آپ تالی بجانے کی بہت کوشش کریں تالی نہیں بجے گی بلکہ ٹھس ٹھس کی آواز ہی آئے گی جب دونوں ہاتھوں سے تالی بجائی جائے گی تو تب ہی تالی بجے گی اور اس کی آواز بھی زور سے آئے گی اسی لیے تو کہا جاتا ہے ۔۔ذرا زور سے تالیا ںبجاؤ گوریو۔یہ گھڑی ہے ملن کی ۔اور اگر اس گھڑی کو ملن کی بنانا مقصود ہو تو زور سے تالیاں بجانی پڑیں گی تاکہ اس کی آواز دور دور تک سنی جائے ورنہ تو ایسا ہی ہوگا جیسا کہ ان دو دوستوں کے ساتھ ہوا کہتے ہیںدو دوستوں نے گھوڑے خریدے دونوں کی عمر ایک جیسی تھی اس لیے مسلّہ یہ درپیش ہوا کہ یہ کس طرح پتہ چلے کہ کونسا گھوڑا کس کا ہے ؟ ایک دوست نے کہا''یہ کون سا مشکل کام ہے میں اپنے گھوڑے کی دم کاٹ دیتا ہوں یہ نشانی رہے گی پس انہوں نے دونوں گھوڑے ایک ہی جگہ باندھے اور ایک کی دم کاٹ دی ۔ صبح اٹھے تو کسی ستم ظریف نے دوسرے گھوڑے کی بھی دم کاٹ دی تھی اب فیصلہ کیا گیا کہ ایک گھوڑے کا کان کاٹ دیا جائے پھر ایسا ہی ہوا لیکن جب وہ اگلی صبح اٹھے تو دوسرے گھوڑے کا کان بھی کاٹا جا چکا تھا دونوں بڑے پریشان ہوئے آخر کا دونوں بڑی دیر تک سوچتے رہے اور پھر ایک دوست کے ذہن میں اس مسلّے کو حل کرنے کے لیے ایک تجویز آئی جس پر دونوں نے عمل کرنے کی ٹھان لی تاکہ مسلّہ حل ہو جائے وہ تجویز کیا تھی جس پر دونوں کا اتفاق ہوا ایک دوست نے یہ تجویز پیش کی کہ '' ایسا کرتے ہیں کہ تم یہ کالا والاگھوڑا لے لو اور میں سفید والاگھوڑا لے لیتا ہوں''اس سے پہلے کہ دوسرے ''دونوں'' کی مزید دم اور کان کاٹیںاب ایک کو کالاوالا اور دوسرے کو سفید والا گھوڑا لے لینا چاہیے اور اپنی دم اور کان مزید کاٹنے سے بچالینا چاہیے یہی دونوں کے حق میں بہتر رہے گا۔
 
بہت ہی اچھی تحریر ہے ۔۔۔کچھ گزارشات حاضر خدمت ہیں۔۔۔
دارومدار
تھوڑا فاصلہ دیں۔۔کیوں کہ
فاصلہ دیں۔۔ تالیاں بجاؤ
یہاں بھی فاصلہ کی کمی ہے ۔۔۔ یہاں دو۔۔
شد نہیں آئےگی ۔۔۔مسئلہ
اسی طرح یہ بھی ۔۔۔ مسئلے
یہاں بھی فاصلہ دیں ۔۔ کاٹیں اب۔۔۔
یہاں۔۔کالا کے بعد بھی تھوڑا سا فاصلہ ضروری ہے ۔۔ کالا والا۔۔
 

Sultan Hussain

محفلین
پسند کرنے اورکچھ خامیوں کی نشان دہی کرنے کا بہت بہت شکریہ ' آئندہ کوشش ہوگی کہ جن خامیوں کی نشان دہی کی گئی ہے وہ نہ ہوں
چھوٹی سی بات
سلطان حسین
عوام کی خدمت کے ''دعویدار''؟؟؟؟

استاد نے شاگرد کے پیپرسے نظریں ہٹا کر اسے دیکھتے ہوئے حیرت سے کہا ''تعجب ہے تم نے گائے پر لفظ بہ لفظ وہی مضمون لکھا ہے جو دوسال قبل تمہارے بھائی نے لکھا تھا ؟''شاگرد نے بڑی معصومیت سے جواب دیتے ہوئے کہا ''استاد جی میں نے بھی اسی گائے پر مضمون لکھا ہے جس گائے پر میرے بھائی نے مضمون لکھا تھا ابھی وہ گائے زندہ ہے ''میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ میں جو کالم لکھ رہا ہوں وہ بھی چار سال قبل اس شہر کے اہم مسلّے پر لکھے گئے کالم کی طرح لفظ بہ لفظ وہی ہے تاہم یہ ضرور کہوں گا کہ چار سال قبل میں نے جس مسلّے پر کالم لکھا تھا آج بھی وہی مسلّہ اسی طرح جوں کا توں موجود ہے کہتے ہیں کہ جہاں آبادی ہوتی ہے وہاں مسائل بھی ہوتے ہیں لیکن ان مسائل پر توجہ دینا اور اسے حل کرنا بھی حکومتوں ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے بہتر حکمرانی کی ایک یہ بھی نشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ حکومتیں عوام کی تکالیف کو سمجھتی ہیں اور انہیں حل کرنے کی حتی الوسع کوششیں کرتی ہیںلیکن ہمارے ملک میں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے مسائل سے آنکھیں چراناآج کل کے حکومتی حکام کی روایت بن چکی ہے اور حکمران بھی اپنی کرسی مضبوط کرنے کے چکر میں مسائل کی طرف توجہ دیتے ہیں اور نہ ہی حکام کو اسے حل کرانے کے احکامات دیتے ہیں جہاں حکمرانوں کا ذاتی اور انتخابی مفاد وابستہ ہو وہی کام ہوتے ہیں اور وہی مسائل حل ہوتے ہیںاسی لئے پشاور کے مسائل پر کوئی بھی توجہ نہیں دے رہا گذشتہ دو تین دہائیوں میں اس شہر کو حکمرانوں نے تقریباً کھنڈر بنا دیا تھا اب اگر کچھ صورتحال بہتر ہوئی ہے تو مسائل وہی بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑھ گئے ہیں کئی مسائل میں ایک اہم مسئلہ آج کل پشاور کا نکاسی آب کا بھی ہے مسلسل عدم توجہ کے باعث اب اس مسئلے نے اتنی شدت اختیار کر لی کہ بارش میں شہر سیلاب کامنظر پیش کرتا ہے گذشتہ دنوں چار دن کی مسلسل بارشوں نے ایک بار پھر منتخب نمائندوں کے ترقیاتی منصوبوں اور بیوروکریسی کی توجہ کا پول کھول دیا تھاشہر کے عام علاقے تو رہے ایک طرف پوش علاقوں کی سڑکیں بھی سیلاب کا منظر پیش کررہی تھیںکئی علاقوں میں نالوں کا گندا پانی گھروں میں بھی گھس گیاتھاجس سے مکینوں کو بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑایہ مسائل آج کے نہیں گذشتہ تیس سالوں سے موجود ہیں حکومتیں آتی ہیں اس شہر کو پھولوں کا شہر بنانے کے دعویٰ کرتی ہیں اور انہی دعووں کے پس منظر میں اپنی سیٹیں اور اپنی حکومت مضبوط کرنے کی کوششیں کرتی ہیں اور چلی جاتی ہیں لیکن یہ مسائل اسی طرح موجود رہتے ہیں بلدیاتی ادارے بھی آئے اس میں عوامی نمائندگی کے دعویدار بیٹھے اور عوام کے مسائل حل کرنے کے دعوے کئے لیکن عوام کے مسائل تو حل نہ ہوئے البتہ ان کے اپنے کئی ''مسائل'' حل ضرور ہوگئے ۔بلدیاتی اداروں اور اس میں بیٹھے عوامی نمائندوں کی غفلت اور لا پرواہی کی وجہ سے ہی اس شہر کے مسائل بڑھتے رہے اور ان مسائل میں شہر کے نکاسی آب کے مسلّے نے شدت اختیار کرلی اب حالت یہ ہے کہ اس وقت شہر میں نکاسی آب کے تقریباً تمام بڑے نالے بند ہو چکے ہیں اور بارش کے دنوں میں پانی کی نکاسی نہ ہونے سے پورا شہر جل تھل بنا رہتا ہے کمیشن کیلئے بعض علاقوں میں نئے نالے تو تعمیر ہو رہے ہیں جبکہ پرانے نالوں کی طرف توجہ ہی نہیں دی جا رہی ہے اگر یہ کہا جائے کہ حکام کو اس شہر کے نکاسی آب کے سسٹم کا ہی علم نہیں ہے تو بے جا نہ ہوگا اکثر پرانے نالے تجاوزات کی زد میں آچکے ہیں کئی پلازے اور کئی نالوں پر گھر بن گئے کئی گھروں کے درمیان نالوں کو گھیر لیا گیا اور ان نالوں کی صفائی کیلئے کوئی گزر گاہ ہی نہیں چھوڑی گئی بعض مقامات پر دکانوں کی فٹ پاتھوں کے نیچے اسے بند کر دیا گیا جس کی وجہ سے پورے شہر کے نکاسی آب کا سسٹم ہی درہم برہم ہو چکا ہے جس سے اس شہر کے باسی بری طرح متاثر ہورہے ہیں لیکن حکمرانوں کو فکر ہے اور نہ ہی منتخب عوامی نمائندے اس طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں بیوروکریسی ''خپلہ خاورہ خپل اختیار ہے ''کی پالیسی پر عمل کررہے ہیں کیونکہ ان سے تو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے اس لئے پشاور کے باسی مصیبت میں مبتلا ہیں اور لگتا یہی ہے کہ وہ اس مصیبت اور پریشانی کو برداشت کرتے رہیں گے تاوقتیکہ اس شہر کا کوئی نیک اور ایماندار بیوروکریٹس کو اس کا اختیار نہ مل جائے یا اس شہر کا کوئی حقیقی نمائندہ منتخب ہو کر سامنے نہ آجائے ویسے تو سب ہی عوامی نمائندے دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ''عوام ''کے غم میں گھلتے جارہے ہیںلیکن ان کا یہ غم صرف انتخابات کے دنوں تک ہی محدود رہتا ہے یا پھر جب وہ کرسی سے اترتے ہیں تو ان کا کرسی کا نشہ اتر جاتا ہے پھر انہیں ''بے چارے '' عوام یاد آجاتے ہیں اور ان کے مسائل حل کرنے کی یقین دہانیاں کراتے رہتے ہیں لیکن جیسے ہی وہ دوبارہ منتخب ہوتے ہیں نہ تو پھر انہیں وہ مسائل یاد رہتے ہیں نہ ہی وہ ان سے ملنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اس لیے ان مسائل کے حل کے لیے صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے ۔
 
Top