چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے. (پانچواں حصہ)

با ادب

محفلین
بیٹا آج ہم گاڑی میں جائیں گے
گھر؟ ؟ وہ سوالیہ نگاہوں سے تکتا ہے. . .
ہم بہت جلد گھر جائیں گے انشاء اللہ آپ دعا کریں.
خالہ مجھے نانو کے گھر جانا ہے.
وہ اسلام آباد آتے ہوئے شدید بیماری کے عالم میں بھی خوش تھا کہ اس کے لئیے اسلام آباد صرف نانو کا گھر تھا.
ہم ضرور جائیں گے. . .
پیاری آنکھوں اور مہربان مسکراہٹ والی ڈاکٹر عینی ذوالأید کی فائل اس کی والدہ کو دیتی ہیں. یہ فائل ڈاکٹر ندیم کو دکھا کر آپ آج ذوالأید کو اے.ایف.آئی.پی لے جائیں.
ہسپتال کی فضائیں فرشتوں کی آہٹ کو محسوس کرتی ہیں.
خالہ کسی انہونی کے ڈر میں مبتلا ہے. اسے ایک ماں کو خوف اور مایوسی کے چنگل سے بچانا ہے. وہ جانتی ہے کوئی بری گھڑی آنے والی ہے. والدہ کو ڈاکٹر ندیم کی طرف روانہ کر کے وہ ذوالأید کو بستر پر لٹاتی ہے.
اسے کمرہ نمبر ا کے مریض کع دیکھنے جانا ہے. وہ بھاگتے قدموں سے ڈاکٹرز روم میں داخل ہوتی ہے. وہاں کا منظر بدل چکا ہے. افراتفری گہرے سکوت میں ڈھل چکی ہے. زندہ وجود سفید چادر کا حصہ بن چکا تھا.
بے یقینی سی بے یقینی ہے یہ بچہ ابھی زندہ تھا ..کل رات وہ اپنی ماں سے باتیں کر رہا تھا. اور آج اسکی ماں خاموش ہے. اس سے باتیں کرنے والا نہیں رہا.
اللہ تیری دنیا ایک فریب ہے. کوئی خوشیاں منا رہا ہے کوئی آنسوؤں سے روتا ہے. سب کو اپنے وقت تک جینا ہے. جینے کے ڈھنگ ہزار. . . .
وہ کمرہ نمبر ۵ سے ذوالأید کو اٹھا کر باھر کی جانب قدم بڑھاتی ہے. . .
باہر اگست کی بارش رکنے کا نام نہیں لے رہی. ذوالأید کو گاڑی میں بٹھا کر اسکی والدہ کو فون پر گاڑی میں آنے کی ہدایت دیتی ہے. وہ نہیں چاہتی کہ ایک ماں ایک بچے کی موت سے آگاہ ہو. وہ خود اس دکھ کو گزار آئی تھی.
ذوالأید کو گود میں بٹھائے خود سے لگائے وہ اس کے ہونے کا یقین کر رہی تھی. اللہ سے سر گوشیاں جاری تھیں. اللہ بون میرو ٹھیک ہو.
بون میرو! یہ لفظ ایک خوف میں مبتلا کرتا تھا. یہ الفاظ جو کہیں نظروں کے سامنے گزرے ضرور تھے لیکن ان کی اہمیت اور افادیت کا پتہ آج چلتا تھا. ایک ایک عضو کی اہمیت خون کے ایک ایک قطرے کی اہمیت کیا ہے کوئی ان سے پوچھتا. . . .
اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کی قدر اور شکر کوئی ان سے پوچھتا. وہ نعمتیں جن کے بارے میں ہم رک کر کبھی سوچتے بھی نہیں. ہاتھ ' پاؤں ' آنکھ ' کان ' ناک موجود ہیں. اور کبھی احساس نہیں ہوتا کہ ان کی موجودگی کے معنی کیا ہیں.
اولاد چلتی پھرتی بھاگتی دوڑتی ہے اور ہم انھیں اصناف میں تقسیم.کرتے ہوئے ایک لحظے کو کسی ڈر خوف کا شکار نہیں ہوتے. بیٹا بیٹی کے چکر میں ان کے صحت مند وجود پر الحمدللہ کہنا بھول جاتے ہیں.
زندگی کے آخری لمحے تک کی گئی پلاننگز میں کہیں کسی ایک برے لمحے کا تصور ذہن میں نہیں لاتے. ہر آزمائش ہر امتحان سے بے پرواہ خواہشات کی اندھی دوڑ کے گھوڑے بنے سر پٹ بھاگتے رہتے ہیں. آنکھ تب کھلتی ہے جب منہ کے بل گرتے ہیں. تب جھٹکا لگتا ہے منہ سے آہ نکلتی ہےتو شکوہ کناں ہونے کے لئیے اللہ کی یاد آتی ہے. زندگی میں جب بھی ہم نے زندگی کے خوشگوار لمحات جئیے تب کبھی سوال نہیں کیا کہ اللہ تو نے ہمیں ہی کیوں نوازا. لیکن بری گھڑی کا شکوہ کرنے میں ہم لمحے بھر کی دیری نہیں کرتے. انسان واقعی بہت ناشکرا اور ناقدرا ہے. . . .
وہ نظریں جھکائے کھڑی ہے وہ بولنا چاہتی ہے. وہ بتانا چاہتی ہے پانچ سال میں گزاری گئی پانچ صدیوں کی داستان کو. لیکن زبان ساتھ دینے سے انکاری ہے. بولتی ہے تو فقط اتنا
بابا میں اچھی بیٹی ثابت نہ ہو پائی. . .
بوڑھے باپ کی سفید داڑھی آنسوؤں سے تر ہے.
تم سے زیادہ اچھی بیٹی دنیا میں اور کوئی نہیں. مجھے تم پر فخر ہے. تم مان ہو میرا. تم نے اتنا ظلم کیوں سہا؟ ؟؟
تم نے اپنے بابا کو کیوں نہیں بتایا؟ ؟؟
تمھیں مجھ پہ یقین نہیں تھا بیٹا؟ ؟؟
یقین تھا بابا. . . . .
پھر کہا کیوں نہیں؟ ؟؟
جو والدین اپنے معاشرتی ' علاقائی اور قبائلی اقدار کی شدید مخالفت لے کر بیٹیوں کو علم کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں بابا ان بیٹیوں کے کندھوں پر بھاری ذمے داریوں کا بوجھ ہوتا ہے. وہ اپنے باپ کے کئیے گئے فیصلوں کو کبھی غلط ثابت نہیں کر سکتیں. انھیں اس مان کو برقرار رکھنا ہوتا ہے چاہے اس کے لئیے اپنی ذات ہی گروی کیوں نہ رکھنی پڑے. . .
اگر بات فقط میری ذات تک رہتی تو میں آج بھی اف نہیں کرتی.
لیکن بابا وہ روشنی جو آپ نے مجھے دی تھی وہ میری بیٹیوں سے چھننے والی تھی. وہ اندھیروں میں پلتیں یہ مجھے گوارا نہیں تھا. مجھے ان کےمستقبل کو بچانے کے لئیے ان کے والد کو سمجھنے کا ایک موقع دینا تھا. وہ بچیوں کی تعلیم.کے حق میں نہیں تھے اگر میں ان پہاڑوں سے نہیں نکلتی تو ہم سب ایک دن وہاں دفن ہو جاتے . اگر ان کی.ماں ہر روز اپنی عزت نفس کو مجروح کرتی تو ان کی شخصیتوں کو کبھی استحکام نہیں مل پاتا. زندگی میں باپ کے سامنے بولے جانے والے یہ پہلے اور آخری تفصیلی جملے تھے جنہیں وہ بول گئی تھی.
......................................................................
پانی کے رنگ ہزار. . . پانی روز رنگ بدلتا ہے. . . نیلا ' گہرا نیلا. . سبز ' گہرا سبز
وہ ہر رنگ کو اپنا لیتا ہے. وہ ہر شکل میں ڈھل جاتا ہے.
چیختی چنگھاڑتی لہریں ساحل سے پوری قوت سے ٹکراتی ہیں ..لہروں کا شور شدید خوف میں مبتلا کئیے دیتا ہے. . افق پر شام کی سرخی چھائی ہے. . .
سورج گول سنہرے تھال کی مانند شعلہ جوالہ بنا کسی اور دیس جانے کی تیاری میں ہے. پانی کی یخ بستہ لہریں اسکے پیروں سے ٹکراتی ہیں. یخ بستہ ہوا کا شور کانوں کے پردے پھاڑے ڈال رہا ہے.
بے نیازی کا وہ عالم ہے کہ خود بے نیازی حیران ہے. اس وقت اگر وہ خود پانی کی لہروں میں ڈوب کر فنا ہو جائے تب بھی شاید فنا ہونے کا احساس نہ ہو.

۹ ستمبر. ۲۰۱۷
دو دن بعد عید الاضحی ہے. . .
عید شاید کسی خوشی کا نام ہے. . .
تو پھر خوشی ہے کیوں نہیں؟ ؟؟
خوشی کہاں سے ملے گی؟ ؟
آنکھوں سے نمکین پانی گر کر بیلا کے نمکین پانیوں کا حصہ بنتا ہے. . .
پاؤں کے نیچے کہیں پھسلن ہے. شاید پتھر پر گہری کھائی جمی ہے.
وہ دھیرے سے بیٹھ کر پانی.کے کنارے لگے پتھروں پہ جمی کائی کو دیکھتی ہے. گہری سبز. . . سختی سے جمی کائی. . .
دیوانگی کے عالم میں دیوانگی کے عالم میں دیوانگی کے عالم میں دیوانگی کے عالم میں وہ اس کائی کو ہاتھوں سے ہٹانے کی کوشش کرتی ہے.
کائی کو.مٹانا آسان نہیں.
آنسوؤں کی رفتار میں تیزی آتی ہے. . .
جب کائی جم.جاتی ہے تو کیا ہوتا ہے؟ ؟؟
وہ جاننا چاہتی تھی. . . .
ہاتھ میں پکڑے موبائل فون پر انگلیاں تیزی سے اس نمبر کو ڈائل کرنے لگیں جو آج کل ہر وقت ڈائل لسٹ میں موجود تھا.
فون کان سے لگائے وہ آواز سننے کہ.منتظر تھی.
کاش وہ کہہ دے کائی آسانی سے ہٹ جاتی ہے. . . دھل جاتی ہے. . . مٹ جاتی ہے. .
انتظار ختم.ہوتا ہے. . .
ڈاکٹرز کیا کہہ رہے ہیں. فون کے دوسری طرف کی آواز کا انتظار کئے بغیر سوال داغا جاتا ہے.
دوسری جانب فقط سسکیوں کی آوازیں ہیں.
خالہ کا دل ڈوبنے لگتا ہے . مجھے بتاؤ ڈاکٹرز کیا کہتے ہیں؟ .
فنگس ناک میں پھیل چکا ہے. .
اب؟ ؟؟؟؟
ڈاکٹرز کہتے ہیں اگر فنگس کنٹرول نہ ہوا تو دماغ تک پہنچ جائے گا. ذوالأید ذہنی طور پر معذور ہو جائے گا. .
ایسا نہیں ہو سکتا. . فنگس کو روکنے کا کوئی علاج نہیں کیا. میرا بچہ اتنے بہترین دماغ والا ہے اس کے ذہن کو کچھ نہیں ہوگا. .
تم آجاؤ. .
میں آتی ہوں گھبراؤ مت. . میری بات غور سے سنو. ذوالأید کس نے دیا تھا؟ ؟؟
میں نے اللہ سے مانگ کے لیا ہے
آج اللہ نہیں کیا؟ ؟
ہے.
تو کیا آج مانگنا بھول گئی ہو؟ ؟
ہمت نہیں
تم تو میری سب سے بہادر بہن ہو. کیا یمت ہار دو گی؟ ؟
. . . . .
یاد ہے ہم دونوں زندگی کی جنگ کے سپاہی ہیں. ہمارا ہتھیار اللہ پہ یقین ہے. سپاہی کبھی ہار نہیں مانتا. کیا تم ہار مان رہی ہو؟ ؟
نہیں. میں کبھی ہار نہیں مانوں گی .
وہ ایک ماں کا جذبہ تھا اور ماؤں کی ہمت کبھی کم.نہیں ہوتی.
تم دعا کرو میں آتی ہوں. .
. . . . . ......................
انسانوں کی فطرت بھی عجیب ہے انسان کی قدر تب آتی ہے جب وہ نہیں رہتا. اسے بھی بیوی کی قدر آگئی تھی جب وہ اس کے آنگن کے دروازے کو پار کر گئی تھی. لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی. پانی سر سے گزر چکا تھا.
بیوی کی وہ ڈگریاں جنہیں جلانے کی دھمکیاں دی جاتی تھیں. ان کی قدر اور اہمیت سے آگاہی ہونے لگی تھی.
بیوی کی وہ تعلیم جو اسکے لئیے ہر وقت کا طعنہ تھی آج اسکی افادیت کا پتہ لگ رہا تھا.
آج وہ اس کے اخلاق کے گن گانے لگا تھا. وہ چلاتا اگر کوئی مسجد مجں قرآن پر ہاتھ رکھوا کر قسم اٹھوائے کہ اپنی بیوی کے عیب بتاؤ. تو میں قسم کھا کے کہہ سکتا ہوں وہ بے عیب ہے اس سے اچھی عورت روئے زمین پر کوئی نہیں. اور لوگ تھو تھو کرتے اگر اتنی ہی اچھی تھی تو پہلے خیال کیوں نہ آیا.
نیک خیال اگر دیر سے بھی آجائیں تو ان کا خیر مقدم کیا جانا چاہیئے.
غلطی کا احساس جب بھی ہو جائے اسے سدھار لینا چاھیئے. یہی بڑے پن کی علامت ہے اسی میں کامیابی کا راز ہے
 
Top