پی ٹی وی کا سنہرا دور: کس کس کو یہ یاد ہے

اک اک کرکے ستاروں کی طرح ڈوب گئے
ہائے کیا لوگ میرے حلقہ احباب میں تھے
ایک سوال:
کیا ہم اپنی باقیماندہ مستعار زندگی میں ایسے سورج چاند ستاروں کو دوبارہ دیکھ سکیں گے؟؟؟

سنتے ہیں عمر رفتہ کبھی لوٹتی نہیں
جا میکدے سے میری جوانی اٹھا کے لا
 
آخری تدوین:
دلدار پرویز بھٹی ایک لیجنڈ ۔ اس پروگرام میں فردوس جمال،راحت کاظمی، انور مقصود، جاوید شیخ ، جمشید انصاری مؤجود ہیں
میزبان عورت کون ہے اگر کوئی بھائی بتا سکتے تو؟؟؟
 

زبیر مرزا

محفلین
آغاسکندر وارث سیریل میں تھے اور ان کا ایک یادگار ڈرامہ سکینہ اور سنڈریلا (تحریر اشفاق احمد)
Agha-p1.jpg

نوین تاجک آہوچشم باصلاحیت اداکارہ جن کا بے مثال ڈرامہ قرۃ العین کسے بھول سکتا ہے
Bhoolay-Bisray-Chehray-24.jpg


اسماعیل شاہ کوئٹہ مرکز سے آغاز کیا اور شاہین میں بدربن مغیرہ بن کے چھاگئے

Bhoolay-Bisray-Chehray-6.jpg


شاہین سیریل کی اینجلا بن کر پی ٹی وی سے سفرکا آغاز کرنے والی کراچی کی ہما اکبر(اب ہمابختیار) جوکارواں میں سُکھاں بنیں
جنھوں نے ڈرامہ راشد منہاس میں ان کی بہن کاکردار اس خواہش کے ساتھ حاصل کیاتھا کہ انہوں نے راشد منہاس کو ہمیشہ اپنا بھائی تصورکیا
پھرخلیج میں کریم بختیار کے ساتھ آئیں اور ان سے بیاہ کر امریکہ سدھاریں (پی ٹی وی پر حسن اور صلاحیتوں کی چھاپ لگاکر)
huma-akbar.JPG
 
آخری تدوین:
واہ اسماعیل شاہ واہ کیا یاد دلا دیا ۔۔۔۔ اسماعیل شاہ جو شاہین سے شاہین بن اڑا اور پھر لالی وڈ پر شاہین کی طرح چھا گیا ۔ اسماعیل شاہ کی ایکٹنگ ، اسماعیل شاہ کا ڈانس واہ کیا یاد دلا دیا ۔
 

دوست

محفلین
دلدار پرویز بھٹی کو پنجند میں ہی دیکھا ہے۔ آخری تین پروگرام ریکارڈ کروا کر لندن جانا تھا دل کے آپریشن کے لیے۔ لیکن جانا نصیب نہ ہوا اوپر کی ٹکٹ کٹ گئی۔ پنجابی بڑی سجری اور ٹھیٹھ لہجے میں بولتے تھے۔
 

اوشو

لائبریرین
ففٹی ففٹی ، اندھیرا اجالا، جانگلوس، وارث ، ان کہی، تنہائیاں، آنگن ٹیڑھا

کون بھول سکتا ہے بھلا
آج بھی دیکھیں تو پہلی بار دیکھنے جیسا مزہ دیتے ہیں۔
 
دلدار پرویز بھٹی کو پنجند میں ہی دیکھا ہے۔ آخری تین پروگرام ریکارڈ کروا کر لندن جانا تھا دل کے آپریشن کے لیے۔ لیکن جانا نصیب نہ ہوا اوپر کی ٹکٹ کٹ گئی۔ پنجابی بڑی سجری اور ٹھیٹھ لہجے میں بولتے تھے۔
دلدار پرویز بھٹی کا انتقال نیویارک میں ہوا تھا ۔ وہ نیویارک میں شوکت خانم کینسر ہسپتال کی فنڈ ریزینگ کے لیے شو کر رہے تھے۔
شوکت خانم ہسپتال میں ایک وارڈ ان کے نام سےمنسوب ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ٹھیٹھ پنجابی بولنے والے دلدار پرویز بھٹی انگریزی ادب میں ماسٹرز تھے
 

اوشو

لائبریرین
دلدار پرویز بھٹی کا انتقال نیویارک میں ہوا تھا ۔ وہ نیویارک میں شوکت خانم کینسر ہسپتال کی فنڈ ریزینگ کے لیے شو کر رہے تھے۔
شوکت خانم ہسپتال میں ایک وارڈ ان کے نام سےمنسوب ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ٹھیٹھ پنجابی بولنے والے دلدار پرویز بھٹی انگریزی ادب میں ماسٹرز تھے

لیکن اوپر والے کلپ میں ان کی اردو زبان کی ادائیگی اور شستگی بھی کمال کی ہے جو ان کی ہمہ جہت شخصیت کی عکاسی کرتی ہے۔
 

تلمیذ

لائبریرین
دلدار پرویز بھٹی مرحوم کی بات چلی ہے تو ایک ٹی وی شو میں ان کی سنائی ہوئی ایک بات یاد آ گئی ہے جسے آپ لطیفہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا:

خواتین کی ایک محفل میں دو خواتین، ایک معمر عورت اور ایک جوان لڑکی داخل ہوئیں۔ جوان لڑکی جو کم صورت سی تھی اور آج کل کے ریت رواج کے برعکس عام سے کپڑے پہنے کسی میک اپ کے بغیر سادگی کے ساتھ گھریلو انداز سےدوپٹہ اوڑھے ہوئے تھی۔ ان کی آمد پر محفل میں پہلے سے موجود دو خواتین تجسّس کی بنا پر ایک دوسرے سے یوں گویا ہوئیں (بھٹی صاحب پنجابی بول رہے تھے):

‘‘ایہہ کڑی اوس عورت دی نونہہ اے یا دھی اے۔’’

دوسری خاتون نے جواب میں کہا کہ ‘‘نہیں میرا نہیں خیال ایہہ اوہدی نونہہ اے۔ ایہہ اوہدی دھی ای ہو سکدی اے۔ نونہہ تے بندہ ویخ تک کے لیاؤندا اے۔۔’’

اب اس چھوٹے سے جُملے سے معاشرے میں مروّج معیارات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
 
Top