پیغام حدیث : بخاری و صحاح ستہ سمیت 12 مجموعوں کی تلخیص

یوسف-2

محفلین
اداریہ : موضوعاتی درجہ بندی پر مبنی ’پیغامِ قرآن‘ کی عوام الناس میں بے پناہ مقبولیت کے بعد اسی انداز میں ’پیغامِ حدیث‘ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جارہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی، اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی (النسائ۔۰۸)۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بجا طور پرشارح قرآن بھی کہا جاتا ہے کیونکہ قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی پر نازل ہوا اور آپ ہی اس کی بہترین تشریح و تعبیر کرسکتے ہیں۔قرآن کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لےے ا حادیث کا مطالعہ نہایت ضروری ہے۔ چونکہ صحاحِ ستہ یعنی احادیث کے چھ صحیح ترین مجموعوں (بخاری، مسلم، ترمذی،ابو دائود، ابن ماجہ، نسائی) میں سرِ فہرست ہونے کے ناطے بخاری شریف کو قرآن کے بعد مستند ترین کتاب یعنی اصح الکتب کا درجہ حاصل ہے۔ اسی لےے ہم نے بخاری شریف کو بنیاد بنا کر’ پیغامِ حدیث ‘ مرتب کی ہے ،جس کی خصوصیات حسب ذیل ہیں۔

بخاری شریف کی کتب کی اصل ترتیب کوبرقرار رکھتے ہوئے ابواب کے عنوانات کو حذف کر دیا گیا ہے تاہم کتب اور ابواب میں موجود احادیث کی اصل ترتیب میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ طوالت سے بچنے کے لےے احادیث کے تذکرے میںغیر ضروری تفاصیل اور مکرر بیانات کو حذف کردیا گیا ہے۔اسی طرح ایک ہی حدیث کے مختلف کتب میں بار بار آمد کی روایت سے انحراف کرتے ہوئے بعد میں آنے والی تمام مکرر احادیث کو بھی حذف کر دیا گیا ہے۔۔ صرف انہی راویوں کا ذکر کیا گیا ہے جنہوں نے براہِ راست نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔طویل احادیث کو موضوع کی مناسبت سے چھوٹے چھوٹے نثر پاروں میں تقسیم کرکے ایسے ذیلی عنوانات قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو حدیث کے متعلقہ حصہ سے ہم آہنگ ہوں۔طویل احادیث کی ترتیبِ نوکرتے ہوئے احادیث کی اصل روح کو برقرار رکھنے کی بھی ہر ممکن سعی کی گئی ہے۔ قارئین کی سہولت کی خاطر’پیغامِ حدیث‘ کو عام کتابوں کی طرز پر مرتب کیا گیا ہے اوراحادیث کا لفظی ترجمہ کرنے کی بجائے بامحاورہ اور رواں اردو مفہوم کو اختیار کیا گیا ہے تاکہ قارئین کو حدیث کا مفہوم سمجھنے میں آسانی ہو۔

پیغامِ حدیث کو پیغامِ قرآن کی ویب سائٹ پر بھی پیش کیا جا رہا ہے تاکہ اس کتاب تک رسائی نہ رکھنے والے قارئین بھی دنیا بھر میں ہر جگہ اس سے استفادہ کرسکےں۔ شیخ التفسیرو شیخ الحدیث مفتی محمد ابراہیم حنیف صاحب ہما رے خصوصی شکریے کے مستحق ہیں کہ اُنہوں نے پیغامِ حدیث کے مسودے پر نظر ثانی کرتے ہوئے گرانقدر مشوروں سے نوازا۔پیغامِ حدیث کو مزید بہتر بنانے کے لےے قارئین کی تجاویز کا بھی خیر مقدم کیا جائے گا۔ اللہ مو¿لف کی اس کاوش کو قبول کرتے ہوئے جملہ ادارتی ، انتظامی اور مالی معاونین کو اجرِ عظیم عطا کرے۔ آمین، ثُم آمین۔ طالبِ دُعائ۔ یوسف ِ ثانی ۔۸ اپریل ۰۱۰۲ ئ

اشاعتِ ثانی:پیغامِ حدیث کے موجودہ ایڈیشن میں تقریباََ سَو صفحات پر مشتمل چار خصوصی ضمیمے شامل کئے گئے ہیں۔ ان ضمیموں میں صحاحِ ستہ کے دیگر مجموعوں یعنی صحیح سلم، جامع ترمذی، سنن ابی دائود، ابن ماجہ، سنن نسائی،کے علاوہ مسند احمد، سنن دارمی، موطا امام مالک، اوسط للطبرانی، بیہقی اور شرح السنہ سے اُن اضافی احادیث کو شامل کیا گیا ہے جو بخاری شریف کے جملہ کتب کی تلخیص میں شامل نہیں ہیں۔ گویا اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ احادیث ِ نبوی کے ذخیروں کے سمندرکو پیغامِ حدیث کے کوزے میں سمودیا گیا ہے۔

اشاعتِ اوّل پر اہلِ علم اور دینی اسکالرز کی موصول شدہ رائے اور تجاویز کی روشنی میں اس دوسری اشاعت میں مناسب ترامیم کرنے کے علاوہ کمپوزنگ کی اُن اغلاط کی بھی تصحیح کر دی گئی ہے جو سابقہ اشاعت میں پائی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ ایک اہم خوبی کا اضافہ یہ کیا گیا ہے کہ متن میں جہاں کہیں بھی امر و نہی کا بلاواسطہ یابالواسطہ حکم موجود ہے اُن سطور کو جلی اور خط کشیدہ الفاظ میں تحریر کیا گیا ہے تاکہ قارئین کو ایک نظر میںہی اندازہ ہوجائے کہ حدیث میں کن باتوں کا حکم دیا گیا ہے اور کن باتوں سے منع کیا گیا ہے۔ مطلوبہ احکام کی تلاش میں آسانی کی غرض سے کتاب کے آخر میں امر و نہی کا اشاریہ بھی شامل کیا گیا ہے۔

الحمد للہ ترامیم و اضافہ شدہ اس ایڈیشن کا اختتامی کام حالیہ سفرحج کے دوران مکة المکرمہ اور مدینہ منورہ میں انجام دینے کی سعادت حاصل ہوئی ۔اللہ مولف کی اس کاوش کو قبول کرتے ہوئے جملہ ادارتی ، انتظامی اور مالی معاونین کو اجرِ عظیم عطا فرمائے۔ آمین، ثُم آمین۔ طالبِ دعا : یوسفِ ثانی، مسجدِ نبوی، مدینہ منورہ ۔ 14 دسمبر 2010 ء
 

یوسف-2

محفلین
صحیح بخاری شریف ۔ کتاب بدء الوحی (آغازِ وحی)


۱۔اعمال کا دارومدار نیت پر ہے
۲۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کس طرح آتی تھی؟
۳۔وحی کا آغاز اچھے خواب سے ہوا
۴۔پہلی مرتبہ وحی آنے کا احوال
۵۔ورقہ بن نوفل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات
۶۔زمین و آسمان کے درمیان معلق فرشتہ
۷۔ہونٹوں کو جلد ی جلدی ہلاکروحی کو یاد کرنا
۸۔رمضان کی ہر رات جبرئیل ؑ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنا
۹۔شاہِ روم ہرقل کی گواہی
۰۱۔شاہِ روم کے نام رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط
۱۱۔کاہن ہرقل کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو غالب دیکھنا
۲۱۔ہرقل کے کاہن دوست کی تصدیق
۳۱۔نبی کی بیعت کرلو ، ہرقل کا مشورہ

۱۔اعمال کا دارومدار نیت پر ہے
خلیفہ¿ راشد سیدنا عمر بن خطا بؓ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ پس جس کی ہجرت دولتِ دنیا حاصل کرنے کے لےے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض سے ہو، پس اُس کی ہجرت انہی چیزوںکے لےے شمار ہوگی جن کو حاصل کرنے کے لےے اُس نے ہجرت کی ہے۔

۲۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلمپر وحی کس طرح آتی تھی؟
اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ حارث بن ہشام کے پوچھنے پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کبھی تو میرے پاس گھنٹی کی آواز کی طرح کی آواز آتی ہے ،جومجھ پر زیادہ دشوار ہے۔ جب فرشتے کی کہی بات کو اخذ کر چکتا ہوں تویہ حالت مجھ سے دور ہو جاتی ہے ۔کبھی فرشتہ میرے سامنے آدمی کی صورت میں آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے تو جو کچھ وہ کہتا ہے اس کو میں حفظ کرلیتا ہوں۔ حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے سخت سردی والے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلمپر وحی اترتے ہوئے دیکھی۔جس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلمکی پیشانی سے پسینہ بہنے لگتا تھا۔

۳۔ وحی کا آغاز اچھے خواب سے ہوا
اُمُّ المومنین حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ سب سے پہلی وحی جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر شروع ہوئی، وہ اچھے خواب تھے۔ پس جو خواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے تھے وہ صاف صاف صبح کی روشنی کے مثل ظاہر ہو جاتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خلوت کی محبت دیدی گئی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غارِحراءمیں خلوت فرمایا کرتے تھے اور وہاں آپ کئی رات لگاتارعبادت کیا کرتے تھے، بغیر اس کے کہ اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر آتے اور اسی قدر زادِ راہ بھی لے جاتے۔

۴۔پہلی مرتبہ وحی آنے کا احوال
غارِحراءمیں فرشتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ پڑھو! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ فرشتے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑکرزور سے بھینچا ، پھر چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھئے! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں فرشتے نے تین مرتبہ ایسا ہی کیا پھر مجھ سے کہا کہ (العلق : ۳ - ا)”اپنے پروردگار کے نام کی برکت سے پڑھو جس نے ہر چیز کوپیدا کیا۔ انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا پڑھو اور یقین کرلو کہ تمہارا پروردگار بڑا بزرگ ہے “۔

۵۔ورقہ بن نوفل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات
رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کا دل پہلی وحی کے واقعہ سے خوف کے مارے ہلنے لگا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُمّ المو منین خدیجہ ؓ کے پاس تشریف لائے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کمبل اُڑھا دیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل سے خوف جاتا رہا تو خدیجہؓ سے سارا حال بیان کیا۔ خدیجہ ؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچا کے بیٹے ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ ورقہ بوڑھا نابینا تھا اور انجیل کو عبرانی میں لکھا کرتا تھا ۔ رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ دیکھا تھا ان سے بیان کیا تو ورقہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یہ وہی فرشتہ ہے جسے اﷲ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر نازل کیا تھا۔ اے کاش میں اس وقت زندہ رہتا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی قوم مکہ سے نکالے گی۔کیونکہ جس شخص نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کی جیسی بات بیان کی اس سے ہمیشہ دشمنی کی گئی اور اگر مجھے آپصلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا دَور مل گیا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلمکی بہت ہی بھرپور طریقے سے مدد کروں گا۔ مگر چند ہی روز میں ورقہ کی وفات ہوگئی اور وحی کی آمد عارضی طور پر چند روز کے لئے رک گئی۔

۶۔ زمین و آسمان کے درمیان معلق فرشتہ
سیدناجابر بن عبداللہ مروی ہیںکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک دن میں چلا جارہا تھا تو یکا یک میں نے آسمان سے ایک آواز سنی، میں نے اپنی نظر اٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو غارِ حراءمیں میرے پاس آیا تھا ایک کرسی پر زمین و آسمان کے درمیان میں معلق بیٹھا ہوا ہے۔ میں اس کے دیکھنے سے ڈرگیا تو میں نے گھر میں آکر کہا مجھے کمبل اڑھا دو، مجھے کمبل اڑھا دو۔ اس موقعہ پر اﷲتعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں (ترجمہ) اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے! اٹھو اور خبردار کرو اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو۔ اور اپنے کپڑے پاک رکھو اور گندگی سے دور رہو۔ (المدثر: ۵- ۱) اس کے بعد وحی کی آمد خوب سرگرم ہوگئی اور لگاتار آنے لگی۔

۷۔ہونٹوں کو جلد ی جلدی ہلاکروحی کو یاد کرنا
سیدنا ابن عباسؓ سے منقول ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو نزولِ قرآن کے وقت سخت دقت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت دیکھ کر اﷲتعالیٰ نے یہ آیتیں اتاریں: (ترجمہ) اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! اس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لےے اپنی زبان کو حرکت نہ دو۔ اس کو یاد کرادینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے“(سورة القیامتہ: ۷۱۔۶۱) ۔ پھر اس کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرئیل ؑ کلامِ الٰہی لے کر آتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم توجہ سے سنتے تھے۔ جب جبرئیل ؑ چلے جاتے تو اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اُسی طرح پڑھتے تھے جس طرح جبرئیل ؑ نے اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھا تھا۔

۸۔رمضان کی ہر رات جبرئیل ؑ کا آپ سے ملنا
سیدنا ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور تمام اوقات سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں سخی ہو جاتے تھے خصوصاً جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جبرئیل ؑ آکر ملتے تھے اور جبرئیل ؑ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان کی ہر رات میں ملتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کا دور کیا کرتے تھے۔ تو یقینا اس وقت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم خلق اﷲ کی نفع رسانی میں تندوتیز ہوا سے بھی زیادہ سخاوت میں تیز ہوتے تھے۔

۹۔شاہِ روم ہرقل کی گواہی
سیدنا ابن عباسؓ نے ابو سفیانؓ بن حرب سے بیان کیا کہ شاہِ روم ہر قل نے قریشی تاجروں کو اپنے دربار میں طلب کیا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریب النّسب ، ابوسفیانؓ سے کہا کہ میں ابوسفیان سے اس مرد کا حال پوچھتا ہوں ،جو اپنے کو نبی کہتا ہے۔ پس اگر یہ مجھ سے جھوٹ بیان کرے تو تم لوگ اس کی تکذیب کر دینا۔ ابوسفیان کہتے ہیں کہ اﷲ کی قسم! اگرمجھے اس بات کی شرم نہ ہوتی کہ لوگ میرے اوپر جھوٹ بولنے کا الزام لگائیں گے، تو یقینا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت غلط باتیں بیان کردیتا۔ غرض سب سے پہلے جو ہر قل نے مجھ سے پوچھا تھا، یہ تھا کہ ان کا نسب تم لوگوں میں کیسا ہے؟ میں نے کہا کہ وہ ہم میں بڑے نسب والے ہیں۔ پھر ہرقل نے کہا کہ کیا تم میں سے کسی نے ان سے پہلے بھی نبوت کا دعویٰ کیا ہے؟ میں نے کہا نہیںپھر ہر قل نے کہا کہ کیا اُن کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ گزرا ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ پھر ہر قل نے کہا کہ با اثر لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے یا کمزور لوگوں نے؟ میں نے کہاامیروں نے نہیں بلکہ کمزور لوگوں نے۔ پھر ہر قل بولا کہ آیا ان کے پیروکاردن بہ دن بڑھتے جاتے ہیں یا گھٹتے جاتے ہیں؟ میں نے کہا کم نہیں ہوتے بلکہ زیادہ ہوتے جاتے ہیں۔ پھرہر قل نے پوچھا کہ آیا ان لوگوں میں سے کوئی اُن کے دین میں داخل ہونے کے بعد ان کے دین سے بدظن ہوکر منحرف بھی ہو جاتا ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ ہر قل نے پوچھا کہ کیا وہ کبھی وعدہ خلافی کرتے ہیں؟ میں نے کہا کہ نہیں، اور اب ہم ان کی طرف سے مہلت میں ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ اس مہلت کے زمانہ میں کیا کریں گے (وعدہ خلافی یا وعدہ وفائی) ابوسفیان کہتے ہیں کہ سوائے اس کلمہ کے اور مجھے قابو نہیں ملا کہ میں کوئی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات میں داخل کر دیتا۔ ہر قل نے پوچھا کہ کیا تم نے کبھی اس سے جنگ کی ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ تو ہر قل بولا تمہاری جنگ اس سے کیسی رہتی ہے؟ میں نے کہا کہ لڑائی ہمارے اور ان کے درمیان ڈول کے مثل رہتی ہے کہ کبھی ہم فتح پاتے ہیں اور کبھی وہ۔ ہرقل نے پوچھا کہ وہ تم کو کیا حکم دیتے ہیں؟ میں نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ صرف اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کی عبادت کیساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور شرکیہ کی باتیںوعبادتیں جو تمہارے باپ دادا کیا کرتے تھے، سب چھوڑ دو۔ اور ہمیں نماز پڑھنے اور سچ بولنے اور پرہیز گاری اور صلہ رحمی کاحکم دیتے ہیں۔ یہ باتیں سن کر ہرقل نے کہا کہ اگر جو تم کہتے ہو سچ ہے تو عنقریب وہ میرے ان دونوں قدموں کی جگہ کے مالک ہوجائیں گے۔ اور بے شک میںکتب سابقہ کی پیش گوئی سے جانتا تھا کہ وہ ظاہر ہونے والے ہیں مگر میں یہ نہ سمجھتا تھا کہ وہ تم میں سے ہوں گے۔ پس اگر میں جانتا کہ ان تک پہنچ سکوں گا تو میں ان سے ملنے کا بڑا اہتمام وسعی کرتا اور اگر میں ان کے پاس ہوتا تو یقینا میں ان کے قدموں کو دھوتا“

۰۱۔شاہِ روم کے نام رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط
” اﷲ نہایت مہربان رحم والے کے نام سے یہ خط ہے اﷲ کے بندے اور اس کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بادشاہِ روم کی طرف۔ اس شخص پر سلام ہو جو ہدایت کی پیروی کرے۔ بعد اس کے واضح ہو کہ میں تم کو اسلام کی طرف بلاتا ہوں۔ اسلام لاو¿ گے تو قہرالہٰی سے بچ جاﺅگے اور اﷲ تمہیں تمہارا ثواب دو گنا دے گا اور اگر تم میری دعوت سے منہ پھیرو گے تو بلاشبہ تم پر تمہاری تمام رعیت کے ایمان نہ لانے کا گناہ ہوگا اور.... ”اے اہلِ کتاب ایک ایسی بات کی طرف آﺅ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے یعنی یہ کہ ہم اور تم اﷲ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کیساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اور نہ ہم میں سے کوئی کسی کو سوائے اﷲ کے پروردگار بنائے۔اﷲتعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر اگر اہلِ کتاب اس سے اعراض کریں تو تم کہہ دینا کہ اس بات کے گواہ ہو کہ ہم تو اﷲ کی اطاعت کرنے والے ہیں“ (آل عمران: ۴۶)

۱۱۔کاہن ہرقل کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو غالب دیکھنا
ابوسفیان کہتے ہیںکہ ابن ناطور جو ایلیا کا حاکم، ہرقل کا مصاحب اور شام کے عیسائیوں کا پیرپادری ، وہ بیان کرتا ہے کہ ہر قل جب ایلیا میں آیا تو ایک دن صبح کو بہت پریشان اٹھا ۔ ہر قل کا ہن تھا اور علم نجوم میں مہارت رکھتا تھا۔ اس نے اپنے خواص سے یہ کہا کہ میں نے رات کو جب نجوم میں نظر کی تو دیکھا کہ ختنہ کرنے والا بادشاہ غالب ہوگیا تو دیکھو کہ اس دَور کے لوگوں میں ختنہ کون کرتا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ سوائے یہود کے کوئی ختنہ نہیں کرتا ،سو یہود کی طرف سے آپ اندیشہ نہ کریں اور اپنے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں حاکموں کو لکھ بھیجئے کہ جتنے یہود وہاں ہیں سب قتل کردیئے جائیں۔ پس وہ لوگ اپنی اسی منصوبہ بندی میں تھے کہ ہر قل کے پاس ایک آدمی لایا گیا جسے غسان کے بادشاہ نے بھیجا تھا وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر بیان کرتا تھا۔ سو جب ہر قل نے اس سے یہ خبر معلوم کی تو اپنے لوگوں سے کہا کہ جاﺅ اور دیکھو کہ وہ ختنہ کئے ہوئے ہے یا نہیں؟ لوگوں نے اس کو دیکھا تو بیان کیا کہ وہ ختنہ کئے ہوئے ہے۔ اور ہر قل نے اس سے عرب کا حال پوچھا تو اس نے کہا کہ وہ ختنہ کرتے ہیں۔ تب ہر قل نے کہا کہ یہی (نبی صلی اللہ علیہ وسلم) اس دَور کے لوگوں کا بادشاہ ہے جو ظاہر ہو گیا۔

۲۱۔ہرقل کے کاہن دوست کی تصدیق
پھر ہر قل نے اپنے ایک دوست کو رومیہ یہ حال لکھ بھیجا اور وہ علم نجوم میں اسی کا ہم پایہ تھا اور یہ لکھ کر ہر قل حمص کی طرف چلا گیا۔ پھر حمص سے باہر بھی نہیں جانے پایا تھا کہ اس کے دوست کا خط آگیا وہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے بارے میں ہر قل کی رائے کی موافقت کرتا تھا اوراُس نے لکھا تھاکہ وہ نبی ہیں۔

۳۱۔نبی کی بیعت کرلو ، ہرقل کا مشورہ
اس کے بعد ہر قل نے سردارانِ روم کو اپنے محل میں جو حمص میں تھا طلب کیا اور حکم دیا کہ محل کے دروازے بند کر لئے جائیں ، تو وہ بند کردئیے گئے۔ پھر ہر قل اپنے بالا خانے سے نمودار ہوا اور کہا کہ اے روم والو! کیا ہدایت اور کامیابی میں کچھ حصہ تمہارا بھی ہے؟ اور تمہیں یہ منظور ہے کہ تمہاری سلطنت قائم رہے تو اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کرلو ۔ یہ بات سنتے ہی وہ لوگ وحشی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف بھاگے، کواڑوں کو بند پایا۔ بالآخر جب ہر قل نے ان کی نفرت دیکھی اوران کے ایمان لانے سے مایوس ہوگیا تو بولا کہ میں نے یہ بات ابھی جو کہی تو اس سے تمہارے دین کی مضبوطی کا امتحان لینا مقصودتھا اور وہ مجھے معلوم ہو گئی۔ پس لوگوں نے اسے سجدہ کیا اور اس سے خوش ہوگئے اور ہرقل کی آخری حالت یہی رہی۔
 

یوسف-2

محفلین
صحیح بخاری شریف ۔ کتاب الایمان


۱۔ اسلام کی عمارت پانچ ستونوں پر قائم ہے
۲۔حیاایمان کا حصہ ہے
۳۔کون سااسلام افضل ہے؟
۴۔آشنا، نا آشنا سب کو سلام کرنا
۵۔ اپنے اور دوسرے مسلمان کے لےے یکساں سوچنا
۶۔والدین و اولاد سے زیادہ حُبِّ رسول
۷ ۔ایمان کی شیرینی تین باتوں میں ہے
۸۔ انصار سے محبت رکھنا ایمان کی علامت
۹۔دیدہ و دانستہ کسی پربہتان باندھنا
۰۱۔اپنے دین کو فتنوں سے بچانے کے لےے بھاگنا
۱۱۔اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا کون؟
۲۱۔ادنیٰ درجہ کے مومن کا جہنم سے نکالا جانا
۳۱۔حضرت عمر ؓ کادین اور حضورﷺ کا خواب
۴۱۔حیاءایمان میں سے ہے
۵۱۔مجھے قتال کا حکم دیا گیا ہے، رسولﷺ
۶۱۔ ایمان عمل کا نام ہے
۷۱۔مومن اور مسلم کا فرق
۸۱۔ شوہر کی ناشکری بھی کفر ہے
۹۱۔ غلاموں سے ایساکام نہ کراو¿ جو اُن پر شاق ہو
۰۲۔ قاتل مسلمان اور مقتول مسلمان دونوں جہنمی ہیں
۱۲۔بے شک شرک بڑا ظلم ہے
۲۲۔ منافق کی پہچان کیا ہے؟
۳۲۔ شبِ قدر میںعبادت سے گذشتہ گناہ معاف
۴۲۔ اﷲ کی راہ میں جہاد کرنا ایمان میں شامل ہے
۵۲۔ماہِ رمضان کے روزے اور تراویح کی فضیلت
۶۲۔ اسلام بہت آسان دین ہے
۷۲۔ سولہ مہینے بیت المقدس کے رُخ نماز پڑھی گئی
۸۲۔نیکی کا بدلہ دس گُنا سے سات سَو گُنا تک
۹۲۔ دینی کام جوہمیشہ کیا جائے
۰۳۔کم سے کم ایمان والا بھی دوزخ سے نکال لیا جائے گا
۱۳۔یہودیوں کا ایک قرآنی آیت پر رشک کرنا
۲۳۔نماز، روزہ اور زکوٰة: فرض اور نوافل کا فرق
۳۳۔جنازہ اور تدفین میں شرکت کابڑاثواب ہے
۴۳۔ مسلم کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر ہے
۵۳۔ نبی کریم ﷺ معین شب قدر بتلاناچاہتے تھے
۶۳۔ایمان کیا چیز ہے؟
۷۳۔ اسلام کیا چیز ہے؟
۸۳۔ احسان کیا چیز ہے؟
۹۳۔ قیامت کب ہوگی؟
۰۴۔جو مشتبہ چیزوں سے بچ گیااس نے اپنا دین بچا لیا
۱۴۔ جو شخص شبہ کی چیزوں میں ملوث ہوگیا
۲۴۔ دل خراب تو سارا بدن خراب
۳۴۔مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ یعنی خمس کا ادا کرنا
۴۴۔چار قسم کے برتنوں میں پینا منع ہے
۵۴۔ اعمال کے نتیجے نیت کے موافق ہوتے ہیں
۶۴۔ اہل و عیال پر خرچ کرنا صدقہ ہے
۷۴۔ مسلمانوںسے خیر خواہی دین کا حصہ ہے

۱۔ اسلام کی عمارت پانچ ستونوں پر قائم ہے
سیدنا عبداﷲ ابن عمرؓ مروی ہیں:نبی ﷺ نے فرمایا کہ اسلام کی عمارت پانچ ستونوں پر قائم ہے۔ (۱)اس بات کی شہادت دینا کہ اﷲتعا لیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور اس بات کی گواہی بھی دینا کہ محمد اﷲ کے رسول ہیں۔ (۲) نماز پڑھنا۔( ۳) زکوٰة دینا ۔ (۴) حج کرنا۔ (۵) رمضان کے روزے رکھنا۔

۲۔ حیاایمان کا حصہ ہے
سیدنا ابو ہریرہؓ راوی ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ایمان ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں رکھتا ہے۔ اور حیا بھی ایمان کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے۔ سیدنا عبداﷲ بن عمروؓ راوی ہیںکہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ پکامسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان ایذانہ پائیں اور اصل مہاجر وہ ہے جو اُن چیزوں کو چھوڑدے جن کی اﷲنے ممانعت فرمائی ہے

۳۔کون سااسلام افضل ہے؟
سیدنا ابو موسیٰ ؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ کون سا اسلام افضل ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ اس شخص کا اسلام جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان ایذانہ پائیں۔

۴۔آشنا، نا آشنا سب کو سلام کرنا
سیدناعبداﷲ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اﷲ ﷺ سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کھانا کھلاﺅ اور سب کو سلام کرو خواہ تم اسے جانتے ہویا نہیں جانتے ہو۔

۵۔ دوسرے مسلمان کے لےے یکساں سوچنا
سیدنا انسؓ راوی ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایماندار نہ ہوگا یہاں تک کہ اپنے مسلمان بھائی کے لےے وہی کچھ چاہے جو اپنے لئے چاہتا ہے۔

۶۔والدین و اولاد سے زیادہ حُبِّ رسول
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ اس پاک ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اُس کے نزدیک اس کے ماں باپ اور اس کی اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہو جاﺅں۔ سیدنا انسؓ کی روایت میں اتنا اضافہ مزید ہے کہ ”اور میں تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاﺅں“

۷۔ ایمان کی شیرینی تین باتوں میں ہے
سیدناانسؓ روایت کرتے ہیںکہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ تین باتیں جس کسی میں ہوں گی وہ ایمان کی شیرینی کامزہ پائے گا۔ (۱) اﷲتعا لیٰ اور اس کے رسول ﷺ اُس کے نزدیک تمام ماسوا سے زیادہ محبوب ہوں۔( ۲) اور جس کسی سے محبت کرے تو اﷲ ہی کے لےے اُس سے محبت کرے۔ (۳) اور کفر میں واپس جانے کو ایسا بُرا سمجھے جیسے آگ میں ڈالے جانے کو ہر کوئی بُرا سمجھتا ہے۔

۸۔ انصار سے محبت رکھنا ایمان کی علامت
سیدنا انسؓ راوی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ انصار سے محبت کرنا ایماندار ہونے کی نشانی ہے اور انصار سے دشمنی رکھنا منافق ہونے کی علامت ہے۔

۹۔دیدہ و دانستہ کسی پربہتان باندھنا
سیدنا عبادہ بن صامتؓ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی کہ رسول اﷲ ﷺ نے اُن سے مخاطب ہو کر فرمایا : تم لوگ مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور چوری نہ کرنا اور زنانہ کرنا اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا اور نہ ایسا بہتان کسی پر باندھنا جس کو تم دیدہ و دانستہ اپنے سامنے بناﺅ اور کسی اچھی بات میںاﷲورسول کی نافرمانی نہ کرنا۔ پس جو کوئی تم سے اس عہد کو پورا کریگا تو اس کا ثواب اﷲ کے ذمہ ہے اور جو کوئی ان بُری باتوں میں سے کسی میں مبتلا ہو جائے گا اور دنیا میں اُس کی سزا اُسے مل جا ئے گی تو یہ سزا اس کا کفارہ ہو جائے گی۔ اور جوان بُری باتوں میں سے کسی میں مبتلا ہو جائے گا اور اﷲ اس کو دنیا میں پوشیدہ رکھے گا تو وہ اﷲ کے حوالے ہے اگر چاہے تو اس سے درگزر کرے اور اگر چاہے تو اسے عذاب کرے ۔سیدنا عبادہ بن صامتؓ کہتے ہیں کہ ہم سب لوگوں نے آپ ﷺ سے ان باتوں پر بیعت کرلی۔

۰۱۔اپنے دین کو فتنوں سے بچانے کےلئے بھاگنا
سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ قریب ہے کہ مسلمان کا اچھا مال بکریاں ہوں جن کو لے کر وہ پہاڑ کی چوٹیوں پر اور چٹیل میدانوں میں چلا جائے تا کہ وہ اپنے دین کو فتنوں سے بچالے۔

۱۱۔اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا کون؟
حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اﷲﷺ جب لوگوں کو نیک اعمال کرنے کا حکم دیتے تو ایسے اعمال کا حکم دیتے جن کو وہ ہمیشہ کرسکیں ۔عباداتِ شاقہ کی ترغیب کبھی ان کو نہ دیتے تھے ۔ ایک مرتبہ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اﷲ کے رسول ﷺ ہم آپ کی مثل نہیں ہیں۔ بے شک اﷲ نے آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کردئیے ہیں لہٰذا ہمیں آپ سے زیادہ عبادت کرنی چاہیئے ۔اس پر آپ ﷺ غضب ناک ہوئے حتیٰ کہ چہرہ¿ مبارک میں غضب کا اثر ظاہر ہونے لگا۔ پھر فرمایا کہ تم سب سے زیادہ اﷲ تعا لیٰ کا جاننے والا اور اس سے ڈرنے والا میں ہوں۔

۲۱۔ادنیٰ درجہ کے مومن کا جہنم سے نکالا جانا
سیدنا ابو سعید خدریؓ مروی ہیںکہ آپ ﷺ نے فرمایا جب جنت والے جنت میں اور دوزخ والے دوزخ میں داخل ہوچکیں گے تو اس کے بعد اﷲ تعا لیٰ فرشتوں سے فرمائے گا کہ جس کے دل میں رائی کے دانے برابربھی ایمان ہو، اُس کودوزخ سے نکال لو۔ پس وہ دوزخ سے نکالے جائیں گے اور وہ جل کر سیاہ ہوگئے ہوں گے۔ پھر وہ نہر حیات میں ڈالے جائیں گے۔اس حدیث کے ایک راوی امام مالکؒ کا کہناہے کہ تب وہ تر و تازہ ہو جائیں گے جس طرح دانہ تروتازگی کے سا تھ پانی کی روانی کی جانب اگتا ہے۔ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ وہ زرد باہم لپٹا ہوا نکلتا ہے۔

۳۱۔حضرت عمر ؓ کادین اور حضور کا خواب
سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے اپنا ایک خواب بیان فرمایا کہ لوگ میرے سامنے پیش کئے جاتے ہیں اور ان کے بدن پر قمیصیں ہیں۔ بعضے قمیص تو صرف پستانوںہی تک ہیں اور بعضے ان سے نیچے ہیں۔ عمر بن خطاب ؓ کے بدن پرجو قمیص ہے وہ اتنی نیچی ہے کہ وہ اس کو کھینچتے ہوئے چلتے ہیں۔ صحابہ کرامؓنے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ آپ نے اس کی کیا تعبیر لی؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ قمیص کی تعبیر میں نے دین سے کی ہے۔

۴۱۔حیاءایمان میں سے ہے
سیدنا ابنِ عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ ایک مرتبہ کسی انصاری مَرد کے پاس سے گزرے اور ان کو دیکھا کہ وہ اپنے بھائی کو حیاءکے بارے میںنصیحت کررہے تھے تو رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ حیاءایمان میں سے ہے۔

۵۱۔مجھے قتال کا حکم دیا گیا ہے، رسولﷺ
سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کو اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس بات کی بھی گواہی دیںکہ محمدﷺ اﷲ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنے لگیں اور زکوٰة دیں۔ پس جب یہ باتیں کرنے لگیں تو مجھ سے اپنے خون اور اپنے مال بچالیں گے۔

۶۱۔ ایمان عمل کا نام ہے
سیدنا ابو ہریرہؓ راوی ہیں کہ نبی ﷺ سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل افضل ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ اﷲ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لانا۔ پھر پوچھا گیا کہ پھر کو ن سا عمل افضل ہے؟ فرمایا کہ اﷲ کی راہ میں جہاد کرنا۔ پھر پوچھا گیا کہ اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے؟ فرمایا کہ حجِ مبرور۔

۷۱۔مومن اور مسلم کا فرق
سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے کچھ لوگوں کومال دیالیکن ایک ایسے شخص کو نہیں دیا جو مجھے سب سے اچھا معلوم ہوتا تھا۔ تو میں نے پوچھاکہ کیا وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے فلاں شخص سے اعراض کیا؟ اﷲ کی قسم میں تو اُسے مومن سمجھتا ہوں تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ مومن سمجھتے ہو یا مسلم؟ تو میں نے تھوڑی دیر سکوت کیا پھر مجھے جو کچھ اس شخص کی بابت معلوم تھا اس کی وجہ سے میں نے اپنی وہی بات دہرائی۔ بالآ خر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ”اے سعد! میں ایک شخص کو اس اندیشے کے تحت کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اگر اس کو نہ دیا جائے تو وہ کافر ہو جائے اور اﷲ اس کو آگ میں سرنگوں نہ ڈال دے، دے دیتا ہوں حالانکہ دوسرا شخص اس سے زیادہ مجھے محبوب ہوتا ہے“۔ اس کو نہیں دیتا کیونکہ اس کی نسبت ایسا خیال نہیں ہوتا۔

۸۱۔ شوہر کی ناشکری بھی کفر ہے
سیدنا ابنِ عباسؓ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ مجھے دوزخ دکھلائی گئی تو اُس میں مَیں نے زیادہ تر عورتوں کو پایا۔ وجہ یہ ہے کہ وہ کفر کرتی ہیں۔ عرض کیا گیا کہ کیا اﷲ کا کفر کرتی ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ شوہر کا کفر کرتی ہیں اور احسان نہیں مانتیں۔ اے شخص اگر تو کسی عورت کے ساتھ عرصہ درازتک احسان کرتا رہے اور اس کے بعد کوئی ناگوار بات تجھ سے وہ دیکھ لے تو فوراًکہہ دے گی کہ میں نے تو کبھی تجھ سے آرام نہیں پایا۔

۹۱۔ غلاموں سے ایساکام نہ کرانا جو اُن پر شاق ہو
سیدنا ابوذرؓ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے غلام کو گالی دی۔ یہ خبرجب نبی ﷺ تک پہنچی تو آپ نے مجھ سے فرمایا :بے شک تم میں ابھی تک جاہلیت کا اثر باقی ہے۔ تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں۔ ان کو اﷲ نے تمہارے قبضے میں دے د یا۔ پس جو خود کھاو¿ اسے بھی کھلاو¿ اور جو خود پہنو اُسے بھی پہناو¿۔اپنے غلاموں سے ایسا کام کرنے کو نہ کہو جوان پر شاق ہو اور جو ایسے کام کی ان کو تکلیف دو تو خود بھی ان کی مدد کرو۔

۰۲۔ قاتل اور مقتول مسلمان دونوں جہنمی ہیں
سیدنا ابوبکرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب دو مسلمان تلواروں کی ساتھ لڑیں توقاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲﷺ یہ قاتل کی نسبت جو آپ نے فرمایا اس کی وجہ تو ظاہر ہے مگر مقتول کیوں دوزخ میں جائے گا تو آپ نے فرمایا اس وجہ سے کہ وہ اپنے حریف کے قتل کا خواہشمند تھا۔

۱۲۔ بے شک شرک بڑاظلم ہے
سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت (ترجمہ) ” جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ خلط ملط نہیں کیا (الانعام: ۲۸) نازل ہوئی تو رسول اﷲ ﷺ کے اصحاب بہت گھبرائے اور کہنے لگے کہ ہم میں سے کون ایسا ہے جس نے ظلم نہیں کیا؟ تو اﷲ بزرگ و برتر نے یہ آیت (ترجمہ) ” بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے“ (لقمان: ۳۱) نازل فرمائی۔

۲۲۔ منافق کی پہچان کیا ہے؟
سیدنا عبداﷲ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا چار باتیں جس میں ہوں گی وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان چاروں میں سے ایک بات ہوگی توبھی اُس میں ایک بات نفاق کی ضرورہے تاوقتیکہ اس کو چھوڑ نہ دے۔( ۱) جب امین بنایا جائے تو خیانت کرے (۲) اور جب بات کرے تو جھوٹ بولے (۳)اور جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے (۴) اور جب لڑے تو بےہودہ گوئی کرے۔

۳۲۔ شبِ قدر میںعبادت، گذشتہ گناہ معاف
سیدنا ابو ہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا جو کوئی ایمان رکھتے ہوئے، ثواب جان کر، شبِ قدر میں عبادت کے لےے بیدار رہے تو اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف کردئیے جائیںگے۔

۴۲۔ اﷲ کی راہ میں جہاد، ایمان میں شامل ہے
سیدنا ابو ہریرہؓ راوی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ اس شخص کے لئے جو اس کی راہ میںجہاد کرنے کو نکلے اور اس کو اﷲ تعا لیٰ پر ایمان رکھنے اور اس کے پیغمبروں پر ایقان ہی نے جہاد پر آمادہ کر کے گھر سے نکالا ہو، اس امر کا ذمہ دار ہو گیا ہے کہ یا تو میں اﷲ اسے اس ثواب اورمالِ غنیمت کے ساتھ واپس کروں گا جو اس نے جہاد میں پایا ہے یا اسے شہید بنا کر جنت میں داخل کردوں گا۔ اور رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ اگر میں اپنی امت پر دشوار نہ سمجھتا تو کبھی کسی سریہ (یعنی جس جنگ میں رسول اﷲ ﷺ شریک نہ تھے) سے بھی پیچھے نہ رہتا۔ اور میں (یعنی نبی ﷺ) یقینا اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ اﷲ کی راہ میں مارا جاﺅں پھر زندہ کیا جاﺅں، پھر مارا جاﺅں پھر زندہ کیا جاﺅں، پھر مارا جاﺅں۔

۵۲۔ رمضان کے روزے اور تراویح کی فضیلت
سیدنا ابو ہریرہؓ مروی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص رمضان میں، ایمان رکھتے ہوئے اور ثواب سمجھ کر عبادت (یعنی نمازِ تراویح پڑھا) کرے تو اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف کردئیے جائیں گے۔ رسول اﷲ ﷺ نے مزیدفرمایا کہ جو شخص ماہِ رمضان میں ایماندار ہوکر اور ثواب سمجھ کر روزے رکھے تو اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف کردئیے جائیں گے۔

۶۲۔ اسلام بہت آسان دین ہے
سیدنا ابوہر یرہؓ راوی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ دین بہت آسان ہے اور جو شخص دین میں سختی کرے گا تو وہ اس پر غالب آ جائے گا۔ یعنی خود پیدا کردہ سختی کا متحمل نہیں ہو سکے گا۔ پس تم لوگ راست و میانہ روی کرو اورایک دوسرے سے قریب رہو اور خوش ہو جاﺅ کہ تمہیں ایسا آسان دین ملا ہے۔ اور صبح اور دوپہر کے بعد اور کچھ دیر رات میں عبادت کرنے سے قوت حاصل کرو۔

۷۲۔ سولہ مہینے بیت المقدس قبلہ رہا
سیدنا براءبن عازبؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو پہلے اپنے انصاری ننھیال کے ہاں اترے اور آپ ﷺ نے مدینہ آنے کے بعد سولہ یا سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی۔ آپ کو یہ اچھا معلوم ہوتا تھا کہ آپ کا قبلہ کعبہ کی طرف ہو جائے۔ چنانچہ جب قبلہ کعبہ کی طرف ہوگیا توآپ نے کعبہ کی طر ف رُخ کرکے سب سے پہلے عصر کی نماز پڑھی تھی۔جب آپ ﷺ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے تو یہود اور جملہ اہلِ کتاب بہت خوش ہوتے تھے مگر جب آپ ﷺ نے اپنا منہ کعبہ کی طرف پھیرلیا تو یہ ان کو ناگوار گزرا۔

۸۲۔نیکی کا بدلہ دس گُنا سے سات سَو گُنا تک
سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ فرماتے تھے کہ جب آدمی مسلمان ہو جاتا ہے اور اس کا اسلام اچھا خوب سے خوب تر اور مضبوط ہو جاتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کے تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے۔ پھر اس کے بعد معاوضہ کا سلسلہ شروع ہوتا ہے کہ نیکی کا بدلہ اس کے دس گُنا سے سات سو گُنا تک اور بُرائی کا اسی کے موافق دیا جاتا ہے مگر یہ کہ اﷲ تعا لیٰ اس سے درگزر فرمائے۔

۹۲۔ دینی کام جو ہمیشہ کیا جائے
اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہ ؓ کہتی ہیں کہ ایک دفعہ نبیﷺ اُن کے پاس آئے ۔حضرت عائشہؓ نے اپنے پاس بیٹھی عورت کی نمازکی کثرت کا حال بیان کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ دیکھو! تم اپنے ذمہ اسی قدر اعمال کی بجا آوری رکھو جن کی ہمیشہ کرنے کی تم کو طاقت ہو۔ اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ ثواب دینے سے نہیں تھکتا تاوقتیکہ تم خود عبادت کرنے سے تھک جاﺅ اور اﷲ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ دین کا کام ہے جسے ہمیشہ کیا جائے۔

۰۳۔کم ایمان والا بھی دوزخ سے نکال لیا جائے گا
سیدنا انسؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص لا الٰہ الا اﷲ کہہ دے اور اُس کے دل میں ایک جَو برابر نیکی یعنی ایمان ہوتو وہ دوزخ سے نکال لیا جائے گا اور جو شخص لا الٰہ الا اﷲ کہے اور اُس کے دل میں گندم کے ایک دانے کے برابر نیکی یعنی ایمان ہوتو وہ بھی دوزخ سے نکال لیا جائے گا۔ اور جو شخص لا الٰہ الا اﷲ کہے اور اُس کے دل میں ذرے کے برابر نیکی یعنی ایمان ہو تو وہ بھی دوزخ سے نکال لیا جائے گا۔

۱۳۔یہودیوں کا ایک قرآنی آیت پر رشک کرنا
امیر المو منین عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے ان سے کہا کہ امیر المو منین! آپ کی کتاب یعنی قرآن میں ایک ایسی آیت ہے جس کو تم پڑھتے ہو، اگر ہم یہودیوں پر وہ آیت نازل ہوتی تو ہم اس دن کو (جس دن وہ نازل ہوئی) عید مناتے۔ امیر المو منین نے پوچھا وہ کونسی آیت ہے؟ یہودی بولا (ترجمہ) ” آج میں (اﷲ) نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا“ (المآ ئدة :۳) ۔سیدنا عمرؓ یہ سن کر کہنے لگے کہ بے شک ہم نے اس دن کو اور اس مقام کو یاد کرلیا ہے جس میں یہ آیت نبی ﷺ پر نازل ہوئی۔ آپ ﷺ اس دن عرفہ میں مقیم تھے اور جمعہ کا دن تھا۔

۲۳۔نماز، روزہ و زکوٰة: فرض اور نوافل کا فرق
سیدنا طلحہ بن عبید اﷲؓ سے روایت ہے کہ نجد کا رہنے والا ایک پراگندہ حال شخص نبی ﷺ کے پاس آیااور اسلام کی بابت پوچھا تو رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ دن رات میں پانچ نمازیں ہیں۔ وہ شخص بولا کہ کیا اِن کے علاوہ بھی کوئی نماز میرے اوپرفرض ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں! مگر یہ کہ تو اپنی خوشی سے نفل پڑھے۔پھر رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا اور ماہِ رمضان کے روزے۔ اس نے عرض کیا کہ کیا اس کے علاوہ اور روزے بھی میرے اوپر فرض ہیں؟ تو آپﷺ نے فرمایا نہیں! مگر یہ کہ تو اپنی خوشی سے رکھے ۔ رسول اﷲ ﷺ نے اس سے زکوٰة کا بھی ذکر کیا۔ اس نے کہا کہ کیا میرے اوپر اس کے علاوہ اور کوئی صدقہ بھی فرض ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں، مگر یہ کہ تو اپنی خوشی سے دے۔ سیدنا طلحہؓ کہتے ہیں کہ پھر وہ شخص یہ کہتا ہوا پلٹا کہ اﷲ کی قسم میں ان مذکورہ فرائض میں نہ اضافہ کروں گا اور نہ اس میں کمی کروں گا۔ تو رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ سچ کہہ رہا ہے تو کامیاب ہوگیا۔

۳۳۔جنازہ و تدفین میں شرکت کرناثواب ہے
سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا جو شخص کسی مسلمان کے جنازے کے پیچھے ایمان کا تقاضہ اور ثواب سمجھ کر جاتا ہے اور جب تک کہ اس پر نماز نہ پڑھ لی جائے اور اس کے دفن سے فراغت حاصل نہ کرلی جائے، اس کے ہمراہ رہتا ہے تو وہ دو حصہ ثواب کے لے کر لوٹتا ہے اور ان میں سے ہر ایک حصہ احد پہاڑ کے برابر ہوتا ہے اور جو شخص صرف جنازے پر نماز پڑھ لے پھر تدفین سے پہلے لوٹ آئے تو وہ ایک قیراط ثواب لے کر لوٹتا ہے۔

۴۳۔ مسلم کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر ہے
سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ نے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ مسلم کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے۔

۵۳۔ نبی کریم معین شب قدر بتلاناچاہتے تھے
سیدنا عبادہ بن صامتؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ ایک مرتبہ لوگوں کو شب قدر بتانے کے لےے نکلے مگر اتفاق سے اس وقت دو مسلمان باہم لڑ رہے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایاکہ اس وقت میں اس واسطے نکلا تھا کہ تمہیںمعین شب قدر بتادوں مگر چونکہ فلاں اور فلاں باہم لڑے اس لئے اس کی قطعی خبر دنیا سے اٹھالی گئی۔ اور شاید یہی تمہارے حق میں مفید ہو کہ اب تم شب قدر کو رمضان کی۵۲ویں، ۷۲ ویں اور ۹۲ ویں تاریخوں میں تلاش کرو۔

۶۳۔ایمان کیا چیز ہے؟
سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ ایک دن نبی ﷺ لوگوں کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے کہ یکایک آپ کے سامنے ایک شخص آیا اور اُس نے آپ سے پوچھا کہ ایمان کیا چیز ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تم اﷲ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اورآخرت میں اﷲ سے ملنے پر اور اﷲ کے پیغمبروں پر ایمان لاﺅ اور قیامت کا یقین کرو۔

۷۳۔اسلام کیا چیز ہے؟
پھر اس شخص نے پوچھا کہ اسلام کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ تم اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراﺅ اور نماز قائم کرو اور فرض زکوٰة ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔

۸۳۔ احسان کیا چیز ہے؟
پھر اُس شخص نے کہا کہ احسان کیا چیز ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ احسان یہ ہے کہ تم اﷲ کی عبادت اس خشوع و خضوع اور خلوص سے کرو گویا کہ تم اُسے دیکھ رہے ہو اور اگریہ حالت نہ نصیب ہو کہ تم اس کو دیکھتے ہو تو یہ خیال رہے کہ وہ تو ضرور تمہیں دیکھتا ہے۔

۹۳۔ قیامت کب ہوگی؟
پھر اس شخص نے کہا کہ قیامت کب ہوگی؟ تو اس کے جواب میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ میںخود بھی تم سے زیادہ اس کو نہیں جانتا۔البتہ میں تم کو اس کی علامتیں بتائے دیتا ہوں کہ جب لونڈی اپنے سردار کو جنے اور سیاہ اونٹوں کو چرانے والے اونچی اونچی عمارتوں میں رہنے لگیں تو سمجھ لینا کہ قیامت قریب ہے اور قیامت کا علم تو اُن پانچ چیزوں میں سے ہے کہ جن کو اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ جبرئیل ؑ تھے جو لوگوں کو ان کے دین کی تعلیم دینے آئے تھے۔

۰۴۔ مشتبہ چیزوں سے بچ گیاتواپنا دین بچا لیا
سیدنا نعمان بن بشیرؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے سنا کہ حلال ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان شبہ کی چیزیں ہیں کہ جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ پس جو شخص شبہ کی چیزوں سے بچ گیا تو اس نے اپنے دین اور اپنی آبرو کو بچا لیا۔

۱۴۔ جو شخص شبہ کی چیزوں میں ملوث ہوگیا
اور جو شخص شبہ کی چیزوں میں ملوث ہوگیا تو وہ مثل اس چروا ہے کے ہے جو سلطانی چراگاہ کے قریب چراتا ہے عین ممکن ہے کہ وہ اپنے مویشی اس میں چھوڑ دے۔ اے لوگو! آگاہ رہو کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہے۔اور اﷲ تعالیٰ کی چراگاہ اس کی زمین میں اس کی حرام کی ہوئی چیزیں ہیں۔

۲۴۔ دل خراب تو سارا بدن خراب
اور خبردار ہو جاﺅ کہ بدن میں ایک ٹکڑا گوشت کا ہے، جب وہ سنور جاتا ہے تو تمام بدن سنور جاتا ہے اور جب وہ خراب ہو جاتا ہے تو تمام بدن خراب ہو جاتا ہے خوب سن لو! وہ ٹکڑا دل ہے۔

۳۴۔مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ، خمس ادا کرنا
سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ قبیلہ عبدالقیس کے لوگ جب نبی ﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺنے انہیں چار باتوں کا حکم دیا اور چار باتوں سے منع کیا۔ (ا) اس بات کی گواہی دینا کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد (ﷺ) اﷲ کے رسول ہیں( ۲) اوران کو حکم دیا نماز پڑھنے کا ۔(۳) اور زکوٰة دینے کا (۴) اور رمضان کے روزے رکھنے کا اور حکم دیا اس بات کا کہ مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ بیت المال میں دے دیا کرو۔

۴۴۔چار قسم کے برتنوں میں پینا منع ہے
آپ ﷺنے چار قسم کے برتنوں میں پانی یا اور کوئی چیز پینے سے منع کیاہے۔ (۱) سبز لاکھی مرتبان (حنتم) سے۔ (۲) اور کدو کے تونبے (الُّدبَّا) سے ۔(۳) اور کریدے ہوئے لکڑی کے برتن (النَّق±یِر) سے ( ۴) اور روغنی برتن (الَمزَفتَّ یامقیر)سے۔

۵۴۔ اعمال کے نتیجے نیت کے موافق ہوتے ہیں
سیدنا عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ اعمال کے نتیجے نیت کے موافق ہوتے ہیں ۔ اور ہر شخص کیلئے وہی ہے جو وہ نیت کرے لہٰذا جس کی ہجرت اﷲ اور اس کے رسول کے لےے ہوگی تو اﷲ کے ہاں اس کی ہجرت اسی کام کے لئے لکھی جاتی ہے جس کے لئے اس نے ہجرت کی۔

۶۴۔ اہل و عیال پر خرچ کرنا صدقہ
سیدنا ابو مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا جب مرد اپنے اہل و عیال پر ثواب سمجھ کر خرچ کرے تو وہ اس کے حق میں صدقہ کا حکم رکھتا ہے۔

۷۴۔ مسلمانوںسے خیر خواہی دین کا حصہ ہے
سیدنا جریر بن عبداﷲؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ سے نماز قائم کرنے اور زکوٰة ادا کرنے اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنے کے اقرار پر بیعت کی۔ آپ کہتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ آپ ﷺ سے اسلام پر بیعت کرنا چاہتا ہوں، تو آپ ﷺ نے مجھے اسلام پر قائم رہنے اور ہر مسلم کی خیر خواہی کرنے کی شرط عائد کی۔ پس اسی پر میں نے آپ ﷺ سے بیعت کی۔
 
Top