پیام مشرق( حصہ مئے باقی) سے غزل "حسرت جلوۂ آن ماہ تمامی دارم " بمع منظوم ترجمہ

توصیف امین

محفلین
پیام مشرق سے علامہ محمد اقبال (رح)کی یہ غزل مجھے بہت پسند ہے۔ اور پسندیدگی کے لیے علامہ صاحب کی غزل ہونا ہی کافی ہے :)
پیام مشرق علامہ صاحب کے سارے مجموعہ کلام میں سب سے نمایاں حیثیت رکھتی ہے اور اس شعری مجموعے میں سے حصہ "مئے باقی" کی غزلیات سب سے خوبصورت ہیں۔ اور اگر میں غلط نہیں کہہ رہا تو یہ وہ مجموعہ ہے جس میں علامہ صاحب کا شاعرانہ پہلو دوسرے تمام رنگوں پر حاوی نظر آتا ہے۔ غزل کو منظوم ترجمے کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں۔ اور یہ ترجمہ بھی فیض صاحب کا ہی کیا ہوا ہے۔
(ساتھ ایک ویڈیو بھی شیئر کر رہا ہوں جومیں نےاور میرے ایک ایرانی دوست نے مل کر بنائی ہے۔آپ حضرات کی آراء کا انتظار رہے گا۔ )

حسرت جلوۂ آن ماہ تمامی دارم
دست بر سینہ نظر بر لب بامی دارم


آرزو ہے کہ نظر آئے میرا ماہ تمام
ہاتھ سینے پہ ہیں اور آنکھ لگی ہہے لب بام

حسن می گفت کہ شامی نپذیرد سحرم
عشق می گفت تب و تاب دوامی دارم


حسن کہتا تھا مری شب کی سحر ہو کہ نہ ہو
عشق کہتا تھا ملی مجھ کو تب و تاب دوام

نہ بہ امروز اسیرم نہ بہ فردا نہ بہ دوش
نہ نشیبی نہ فرازی نہ مقامی دارم

میں نہ امروز نہ دیروز نہ فردا میں اسیر
سنگ رھ ہے میرے رستے میں نہ منزل نہ مقام

بادۂ رازم و پیمانہ گساری جویم
در خرابات مغان گردش جامی دارم

بادہ راز ہوں میں ' مجھکو ہے مے کش کی تلاش
سر مے خانہ میں لیے پھرتا ہوں گردش جام

بی نیازانہ ز شوریدہ نوایم مگذر
مرغ لاہوتم و از دوست پیامی دارم


ان سنی کر کے نہ جا' سن میری شوریدہ نوا
مرغ لاہوت ہون میں یار سے لایا ہوں پیام

پردہ برگیرم و در پردہ سخن میگویم
تیغ خونریزم و خود را بہ نیامی دارم

پردہ بردار بھی ہے میرا سخن درپردہ
تیغ خوں ریز ہوں مگر زیر نیام

 
Top