پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں

آوازِ دوست

محفلین
میں سمجھتی تھی کہ ہمیشہ سے اچھا لکھتی آئی ہوں۔ خیر کوئی بات نہیں
جی بالکل آپ کی پہلی تحریریں بھی اچھی ہیں لیکن اِس میں آپ نے ایک ساد مُراد سی لڑکی کے ناقدانہ ویو پوائینٹ کو بڑی خوبی اور کمال سے پورٹریٹ کیا ہے۔ :) جاری رکھیےگا
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کسی لفظ کو ممکن ہے کہ آج ہم غیر ٹھہرائیں مگر کل اردو کا حصہ قرار دیں تو دونوں صورتوں میں ہمارے فیصلے کی کوئی خاص بنیاد تو نہیں سوائے قبول عام کی دلیل کے حالانکہ قبول عام کو ہم ہر مرتبہ سند نہیں بنایا کرتے خصوصا شاعری میں۔ کچھ یہ بھی میری سمجھ میں نہیں آتا کہ الفاظ تو ہم دوسری زبانوں سے بھی مستعار لیتے ہیں مثلاً فارسی ترکیبوں سے بعض اوقات شعر چمک اٹھتے ہیں تو پھر انگریزی سے غیریت برتنے کی وجہ کیا ہے ایک روایت کے علاوہ۔

پھر کبھی کبھار کوئی لفظ ایسا بھی ہوتا ہے جس کا مفہوم ترجمے میں آدھا رہ جاتا ہے۔

اب کوشش کروں گی کہ اگلی تحریر خالصیت پسند مکتبہ فکر کے مطابق لکھوں۔

نمرہ صاحبہ ، آپ کی بات سے تقریبا سو فیصد متفق ہوں ۔ وضاحتا عرض کرتا ہوں کہ میں نے لکھا تھا کہ انگریزی الفاظ کے بادام پستوں میں سے صرف "کچھ" کڑوے نکلے اور میری ناقص رائے میں ان کی جگہ معروف و مستعمل اردو متبادل برتے جاسکتے تھے ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ آپ کی اس شگفتہ تحریر کے بعض فقرے تو انگریزی الفاظ کے بغیر لکھے ہی نہیں جاسکتے تھے ۔ مثلا وہ جال "ڈیزائن کرنے" والا جملہ ۔ ان جملوں میں انگریزی الفاظ کا ترجمہ کرنے کی کوشش میں واقعی خیال کا خون ہوجاتا اور بات بے لطف ہوجاتی ۔ دراصل آپ کی تحریر اُسی اردو زبان کی آئینہ دار ہے جومجھ سمیت تمام لوگ آپس میں بولتے اور سمجھتے ہیں ۔ اب چونکہ خیالات بھی ہمارے ذہن میں انگریزی الفاظ کے ساتھ ہی وارد ہوتے ہیں اس لئے یہ الفاظ ہماری روز مرہ زبان کا حصہ بن گئے ہیں ۔ (ان الفاظ کو روزمرہ زبان کا حصہ بنانے میں کون کون سے عوامل کارفرما ہیں اور ایسی زبان بولنا صحیح ہے یا غلط ، یہ سب الگ نوعیت کے مباحث ہیں ) ۔ چنانچہ اب اس صورتحال میں انگریزی الفاظ کو تحریری زبان سے یکسر نکال دینے کا تقاضا یا ارادہ غیر معقول سا معلوم ہوتا ہے ۔ آپ براہِ کرم اپنے فطری اندازِ تحریر کو بدلنے کی بالکل بھی کوشش نہ کریں ۔ آپ جس طرح سوچتی ہیں ایک سچے قلمکار کی حیثیت سے اُسی طرح اپنے خیال کو جامہء الفاظ دیتی رہیں ۔ یہی آپ کی تحریر کا اصل اور فطری حسن ہے۔ بحیثیت قلمکار میری آپ سے یہ گزارش تھی کہ جس جگہ اردو متبادل موجود ہوں انہیں استعمال کرنے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے ۔ اور اگر کسی لفظ یا اصطلاح کا "ترجمہ" ممکن ہو سکے تو اسے تراشنے کی کوشش بھی کرنی چاہئے کہ زبان کا دامن اسی طرح وسیع ہوتا ہے ۔ مجھے تسلیم ہے کہ بعض مضامین اور خیالات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ کچھ مخصوص الفاظ یا اصطلاحات کی مدد کے بغیر کماحقہ ادا نہیں ہوسکتے ۔ یہ اردو کی خوبی ہے کہ وہ دیگر زبانوں کے الفاظ کا پیوند اکثر بغیر کسی ناگواری کے قبول کرلیتی ہے ۔ لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اردو کا خمیر ہندی میں فارسی عربی کی ملاوٹ ہی سے اٹھا ہے اور اسی باٰعث اس کا ایک خاص مزاج بن گیا ہے ۔ اس کی صوتیات اور گرامر ایک خاص طرز کے الفاظ اور اسلوبِ بیان کو نسبتا زیادہ آسانی سے اپنالیتے ہیں ۔ ہر زبان کی طرح اردو زبان کے مزاج کو سمجھنے کے لئے بھی ایک تربیت یافتہ ذوق سلیم درکار ہوتا ہے ۔ اور یہ ذوقِ سلیم کلاسیکی ادب کے مطالعے اور زبان سے لگاؤ کے باعث پیدا ہوتا ہے ۔ ابھی کچھ دن پہلے ویب سائٹ کا ترجمہ ویب گاہ کی صورت میں نظر سے گزرا اور نہایت اچھا معلوم ہوا ۔ یعنی ویبگاہ ایک ایسا لفظ ہے کہ اسے نثر کے علاوہ شعر میں بھی بلاتکلف استعمال کرنے کو جی چاہتا ہے ۔​
میں معذرت خواہ ہوں کہ بات طویل ہوتی جارہی ہے ۔ لیکن یہ ایک اہم اور دلچسپ بحث ہے اور آپ کی بد قسمتی سے میرا پسندیدہ موضوع بھی ہے ۔ :D سو میں اپنا نقطہء نظر کچھ تفصیل سے پیش کرنا چاہوں گا ۔ آپ کی بات بالکل درست ہے کہ اردو ہر دور میں دیگر زبانوں سے الفاظ لے لے کر اپنے اندر سموتی رہی ہے اور وہ لفظ جو اول اول ایک دور میں غیر سمجھا جاتا ہے ایک مقام پر آکر اردو کا حصہ بن جاتا ہے ۔دراصل زبان ایک جیتی جاگتی شے ہے ۔ جیسے ہر زندہ شے اپنے آپ کو زندہ رکھنے کی کوشش میں ماحول کے زیرِ اثر آہستہ آہستہ تبدیل ہوتی رہتی ہے اسی طرح زبان کا معاملہ بھی ہے ۔ چنانچہ پچھلی چند دہائیوں میں انگریزی الفاظ کی ایک کثیر تعداد اگر اردو میں در آئی ہے تو یہ تعجب کا مقام نہیں ۔ دراصل کوئی عالم ، شاعر یا ادیب گھر بیٹھ کر زبان نہیں بناتا ۔ زبان کثیر سطح پر استعمال سے بنتی ہے ۔ لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ زبان دو سطحوں پر بن رہی ہوتی ہے ۔ ایک تو عوامی سطح ہے ۔ عام گلی کوچوں اور گھروں میں بولی جانے والی زبان اور دوسری ادبی زبان ۔ (اس بات کو کچھ لوگ اردوئے معلی اور اردوئے محلہ کہہ کر بھی ممیز کرتے ہیں) ۔ چونکہ روز مرہ استعمال ہونے والی زبان کا بنیادی مقصد روزمرہ زندگی کے کاروبار کو چلانا اور ضروریاتِ زندگی کے مادی پہلوؤں کا احاطہ کرنا ہے اس لئے اس زبان کا خاصہ اس کی فی البدیہہ نوعیت ، سادہ اسلوب اور عام فہم الفاظ کا استعمال ہے ۔ چونکہ عوامی زبان کے مخاطب تعلیمی اور ذہنی سطح کے لحاظ سے مختلف النوع ہوتے ہیں اس لئے عوامی زبان بھی کئی طرح کی ہوتی ہے ۔ دوکانداری اور بازار میں بولی جانیوالی زبان اور ہوتی ہے ۔ مسجد کے خطیبوں اور واعظوں کی زبان اور ہوتی ہے ۔ صحافت کی زبان اور ہے ۔ دفتروں اور اسکولوں کی اور ۔ گھروں کے اندر بولی جانیوالی زبان نسل درنسل چلی آتی ہے ۔ اکثر ذات پات اور علاقے کا پتہ بھی دیتی ہے ۔ اس زبان کے بر عکس ایک زبان ادبی سطح پر بھی بن رہی ہوتی ہے ۔ چونکہ ادبی زبان کا بنیادی مقصد لطیف احساسات کی عکاسی اور تجریدی خیالات کا ابلاغ ہوتا ہے اس لئےلامحالہ اس زبان کے الفاظ اور طرزِ بیان مختلف ہوتا ہے ۔ ادبی زبان کے مخاطب تعلیم یافتہ اور سلجھے ہوئے ذہن کے مالک ہوتے ہیں جوادب میں زندگی کے جمالیاتی اور فکری تقاضوں کی تسکین ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں ۔ پھر نثر اور شعر کی زبان میں بھی مزید فرق نظر آتا ہے ۔ مثلا یہ جملہ دیکھئے : " بیٹا ، میں سات بجے تک پارک پہنچ جاؤں گا ، آپ بھی آجاؤ " ۔ اس پر کسی کے کان کھڑے نہیں ہوتے ۔ کوئی اس میں کیڑے نہیں نکالتا ۔ لیکن یہی بات شعر میں کہی جائے تو اس میں شتر گربہ نظر آتا ہے ۔ اندازِ تخاطب پر اعتراض ہوتا ہے کہ یہاں بیٹا نہیں بلکہ بیٹے کا محل ہے ۔ بعض لوگوں کو پارک کے لفظ پر اعتراض ہو تا ہے کہ میاں ایسا سوکھا زرد لفظ کیوں استعمال کیا ۔ باغ یا باغیچے جیسا ہرا بھرا شاداب لفظ کیوں نظر نہیں آیا ۔ یعنی شعر میں ایک قسم کا لسانی تصنع جان بوجھ کر رکھا جاتا ہے ۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے کمھار کی بنائی ہوئی صراحی اور کسی آرٹسٹ کی بنائی ہوئی صراحی ۔ دونوں بظاہر ایک جیسی ہیں لیکن دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ کمھار نے تو مکھی پر مکھی ماری ہوئی ہوتی ہے ۔ صراحی کا جو سراپا اور اُس پر جو نقش و نگار اُس کے باپ دادا سالوں سے بناتے چلے آرہے ہیں اُسی طریقے سے وہ بھی ایک دن میں درجنوں کے حساب سے بنادیتا ہے ۔ مٹی کم زیادہ ہوگئی یا ایک آدھ حصہ ٹیڑھا بھینگا ہو بھی گیا تو کوئی بات نہیں ۔ صراحی دو روپے کم میں بک جائے گی ۔ لیکن ایک فنکار اپنی صراحی کی صورت گری اور نقاشی میں ایک پورے تہذیبی اور تاریخی ورثے کو سمو سکتا ہے ۔ دس دفعہ اُسے بناتا ہے ، بگاڑتا ہے ۔ اُس کی شکل ، سائز اور رنگوں کے ساتھ مختلف تجربات کرتا ہے تب کہیں جاکر مطمئن ہوتا ہے۔ کمھار کی صراحی کا مقصد پانی محفوظ کرنا اور فنکار کی صراحی کا کام تاریخی اور تہذیبی ورثہ کو محفوظ رکھنا ۔ اوّل الذکر تو کسی کونے کھدرے میں پڑی رہتی ہے لیکن ثانی الذکراکثر کسی صاحبِ ذوق کے دیوان خانے میں نمایاں جگہ پر سجی ہر ایک کا مرکزِ نگاہ ہوتی ہے۔
حاصلِ کلام یہ کہ تقریری اورتحریری زبان میں فرق ایک آفاقی حقیقت ہے ۔ نثر کی نسبت شعر کی زبان پر کچھ اضافی پابندیاں اس لئے بھی عائد ہوتی ہیں کہ اسےنہ صرف یہ کہ شعریت کے صوتی تقاضوں کو پورا کرنا ہوتا ہے بلکہ قاری کےتخیل میں ایک ایسی تصویر بھی اُبھارنی ہوتی ہے کہ جو جمالیاتی اعتبار سے تسکین بخش ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ جب غالب جیسا شاعر " بھوں پاس آنکھ قبلہء حاجات چاہئے" جیسا مصرع لکھتا ہے تو مجھ جیسا مبتدی بھی چلا اٹھتا ہے کہ یہ مصرع شعریت کی سطح سے نیچے ہے ۔ طبیعت پر ناگوار گزرا ہے ۔ لیکن یہی بات اِسی تشبیہ کے ساتھ اگر نثر میں لکھی جائے تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔
اگر دیکھا جائے تو "تقریری زبان" اور " تحریری زبان" کے درمیان الفاظ اور اسلوب کا تبادلہ ایک مستقل اور جاری و ساری عمل ہے ۔ عوامی زبان سے الفاظ آہستہ آہستہ ادبی زبان میں نفوذ کرتے رہتے ہیں ۔ لیکن انجذاب کا یہ عمل سست رو اور غیر شعوری ہے ۔ میں یا آپ کوئی لفظ گھڑ کر اصرار نہیں کرسکتے کہ اس لفظ کو صحیح مانا جائے اور اسے باقاعدہ سندِ صحت دے کر اس کے استعمال کی اجازتِ عام دیدی جائے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ بحیثیت قلمکار ہمارا کام الفاظ کو درست طریقے سے استعمال کرنا ہے ۔ اسے قبولیتِ عام دینا یا رد کرنا وقت کا کام ہے ۔ اس پر ایک دلچسپ مثال یاد آئی ۔ میں نے بہت پہلے کہین پڑھا تھا کہ پچھلی صدی کے وسط میں جب مغرب میں آزادیء نسواں کی تحریک اپنے عروج پر تھی تو امریکا میں ایک آواز یہ بھی اٹھی کہ صاحب مذہبی لٹریچر کو بھی جنسی تعصب سے پاک کیا جائے ۔ کہنا ان کا یہ تھا کہ بائبل میں خدا کے لئے
He​
اور
His کے​
الفاظ استعمال ہورہے ہیں جبکہ خدا مذکر اور مونث کی خصوصیت سے مبرا ہے ۔ چنانچہ مذہبی لٹریچر کو نیوٹرل بنایا جائے ۔ اس مسئلے کے حل کیلئے کچھ ماہرینِ لسانیات کی طرف سے
Jhe​
اور
Jhis​
کے الفاظ تجویز کئے گئے ۔ ایک ادارے کی طرف سے کچھ لٹریچر ان نئے الفاظ کے ساتھ شائع بھی کیا گیا لیکن ظاہر ہے کہ عوام کی اکثریت وہی الفاظ بولتی اور استعمال کرتی رہی کہ جن کی انہیں عادت تھی ۔ چنانچہ یہ دونوں الفاظ کم عمری ہی میں وفات پا گئے ۔ :):):)
 

نمرہ

محفلین
نمرہ صاحبہ ، آپ کی بات سے تقریبا سو فیصد متفق ہوں ۔ وضاحتا عرض کرتا ہوں کہ میں نے لکھا تھا کہ انگریزی الفاظ کے بادام پستوں میں سے صرف "کچھ" کڑوے نکلے اور میری ناقص رائے میں ان کی جگہ معروف و مستعمل اردو متبادل برتے جاسکتے تھے ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ آپ کی اس شگفتہ تحریر کے بعض فقرے تو انگریزی الفاظ کے بغیر لکھے ہی نہیں جاسکتے تھے ۔ مثلا وہ جال "ڈیزائن کرنے" والا جملہ ۔ ان جملوں میں انگریزی الفاظ کا ترجمہ کرنے کی کوشش میں واقعی خیال کا خون ہوجاتا اور بات بے لطف ہوجاتی ۔ دراصل آپ کی تحریر اُسی اردو زبان کی آئینہ دار ہے جومجھ سمیت تمام لوگ آپس میں بولتے اور سمجھتے ہیں ۔ اب چونکہ خیالات بھی ہمارے ذہن میں انگریزی الفاظ کے ساتھ ہی وارد ہوتے ہیں اس لئے یہ الفاظ ہماری روز مرہ زبان کا حصہ بن گئے ہیں ۔ (ان الفاظ کو روزمرہ زبان کا حصہ بنانے میں کون کون سے عوامل کارفرما ہیں اور ایسی زبان بولنا صحیح ہے یا غلط ، یہ سب الگ نوعیت کے مباحث ہیں ) ۔ چنانچہ اب اس صورتحال میں انگریزی الفاظ کو تحریری زبان سے یکسر نکال دینے کا تقاضا یا ارادہ غیر معقول سا معلوم ہوتا ہے ۔ آپ براہِ کرم اپنے فطری اندازِ تحریر کو بدلنے کی بالکل بھی کوشش نہ کریں ۔ آپ جس طرح سوچتی ہیں ایک سچے قلمکار کی حیثیت سے اُسی طرح اپنے خیال کو جامہء الفاظ دیتی رہیں ۔ یہی آپ کی تحریر کا اصل اور فطری حسن ہے۔ بحیثیت قلمکار میری آپ سے یہ گزارش تھی کہ جس جگہ اردو متبادل موجود ہوں انہیں استعمال کرنے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے ۔ اور اگر کسی لفظ یا اصطلاح کا "ترجمہ" ممکن ہو سکے تو اسے تراشنے کی کوشش بھی کرنی چاہئے کہ زبان کا دامن اسی طرح وسیع ہوتا ہے ۔ مجھے تسلیم ہے کہ بعض مضامین اور خیالات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ کچھ مخصوص الفاظ یا اصطلاحات کی مدد کے بغیر کماحقہ ادا نہیں ہوسکتے ۔ یہ اردو کی خوبی ہے کہ وہ دیگر زبانوں کے الفاظ کا پیوند اکثر بغیر کسی ناگواری کے قبول کرلیتی ہے ۔ لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اردو کا خمیر ہندی میں فارسی عربی کی ملاوٹ ہی سے اٹھا ہے اور اسی باٰعث اس کا ایک خاص مزاج بن گیا ہے ۔ اس کی صوتیات اور گرامر ایک خاص طرز کے الفاظ اور اسلوبِ بیان کو نسبتا زیادہ آسانی سے اپنالیتے ہیں ۔ ہر زبان کی طرح اردو زبان کے مزاج کو سمجھنے کے لئے بھی ایک تربیت یافتہ ذوق سلیم درکار ہوتا ہے ۔ اور یہ ذوقِ سلیم کلاسیکی ادب کے مطالعے اور زبان سے لگاؤ کے باعث پیدا ہوتا ہے ۔ ابھی کچھ دن پہلے ویب سائٹ کا ترجمہ ویب گاہ کی صورت میں نظر سے گزرا اور نہایت اچھا معلوم ہوا ۔ یعنی ویبگاہ ایک ایسا لفظ ہے کہ اسے نثر کے علاوہ شعر میں بھی بلاتکلف استعمال کرنے کو جی چاہتا ہے ۔​
میں معذرت خواہ ہوں کہ بات طویل ہوتی جارہی ہے ۔ لیکن یہ ایک اہم اور دلچسپ بحث ہے اور آپ کی بد قسمتی سے میرا پسندیدہ موضوع بھی ہے ۔ :D سو میں اپنا نقطہء نظر کچھ تفصیل سے پیش کرنا چاہوں گا ۔ آپ کی بات بالکل درست ہے کہ اردو ہر دور میں دیگر زبانوں سے الفاظ لے لے کر اپنے اندر سموتی رہی ہے اور وہ لفظ جو اول اول ایک دور میں غیر سمجھا جاتا ہے ایک مقام پر آکر اردو کا حصہ بن جاتا ہے ۔دراصل زبان ایک جیتی جاگتی شے ہے ۔ جیسے ہر زندہ شے اپنے آپ کو زندہ رکھنے کی کوشش میں ماحول کے زیرِ اثر آہستہ آہستہ تبدیل ہوتی رہتی ہے اسی طرح زبان کا معاملہ بھی ہے ۔ چنانچہ پچھلی چند دہائیوں میں انگریزی الفاظ کی ایک کثیر تعداد اگر اردو میں در آئی ہے تو یہ تعجب کا مقام نہیں ۔ دراصل کوئی عالم ، شاعر یا ادیب گھر بیٹھ کر زبان نہیں بناتا ۔ زبان کثیر سطح پر استعمال سے بنتی ہے ۔ لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ زبان دو سطحوں پر بن رہی ہوتی ہے ۔ ایک تو عوامی سطح ہے ۔ عام گلی کوچوں اور گھروں میں بولی جانے والی زبان اور دوسری ادبی زبان ۔ (اس بات کو کچھ لوگ اردوئے معلی اور اردوئے محلہ کہہ کر بھی ممیز کرتے ہیں) ۔ چونکہ روز مرہ استعمال ہونے والی زبان کا بنیادی مقصد روزمرہ زندگی کے کاروبار کو چلانا اور ضروریاتِ زندگی کے مادی پہلوؤں کا احاطہ کرنا ہے اس لئے اس زبان کا خاصہ اس کی فی البدیہہ نوعیت ، سادہ اسلوب اور عام فہم الفاظ کا استعمال ہے ۔ چونکہ عوامی زبان کے مخاطب تعلیمی اور ذہنی سطح کے لحاظ سے مختلف النوع ہوتے ہیں اس لئے عوامی زبان بھی کئی طرح کی ہوتی ہے ۔ دوکانداری اور بازار میں بولی جانیوالی زبان اور ہوتی ہے ۔ مسجد کے خطیبوں اور واعظوں کی زبان اور ہوتی ہے ۔ صحافت کی زبان اور ہے ۔ دفتروں اور اسکولوں کی اور ۔ گھروں کے اندر بولی جانیوالی زبان نسل درنسل چلی آتی ہے ۔ اکثر ذات پات اور علاقے کا پتہ بھی دیتی ہے ۔ اس زبان کے بر عکس ایک زبان ادبی سطح پر بھی بن رہی ہوتی ہے ۔ چونکہ ادبی زبان کا بنیادی مقصد لطیف احساسات کی عکاسی اور تجریدی خیالات کا ابلاغ ہوتا ہے اس لئےلامحالہ اس زبان کے الفاظ اور طرزِ بیان مختلف ہوتا ہے ۔ ادبی زبان کے مخاطب تعلیم یافتہ اور سلجھے ہوئے ذہن کے مالک ہوتے ہیں جوادب میں زندگی کے جمالیاتی اور فکری تقاضوں کی تسکین ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں ۔ پھر نثر اور شعر کی زبان میں بھی مزید فرق نظر آتا ہے ۔ مثلا یہ جملہ دیکھئے : " بیٹا ، میں سات بجے تک پارک پہنچ جاؤں گا ، آپ بھی آجاؤ " ۔ اس پر کسی کے کان کھڑے نہیں ہوتے ۔ کوئی اس میں کیڑے نہیں نکالتا ۔ لیکن یہی بات شعر میں کہی جائے تو اس میں شتر گربہ نظر آتا ہے ۔ اندازِ تخاطب پر اعتراض ہوتا ہے کہ یہاں بیٹا نہیں بلکہ بیٹے کا محل ہے ۔ بعض لوگوں کو پارک کے لفظ پر اعتراض ہو تا ہے کہ میاں ایسا سوکھا زرد لفظ کیوں استعمال کیا ۔ باغ یا باغیچے جیسا ہرا بھرا شاداب لفظ کیوں نظر نہیں آیا ۔ یعنی شعر میں ایک قسم کا لسانی تصنع جان بوجھ کر رکھا جاتا ہے ۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے کمھار کی بنائی ہوئی صراحی اور کسی آرٹسٹ کی بنائی ہوئی صراحی ۔ دونوں بظاہر ایک جیسی ہیں لیکن دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ کمھار نے تو مکھی پر مکھی ماری ہوئی ہوتی ہے ۔ صراحی کا جو سراپا اور اُس پر جو نقش و نگار اُس کے باپ دادا سالوں سے بناتے چلے آرہے ہیں اُسی طریقے سے وہ بھی ایک دن میں درجنوں کے حساب سے بنادیتا ہے ۔ مٹی کم زیادہ ہوگئی یا ایک آدھ حصہ ٹیڑھا بھینگا ہو بھی گیا تو کوئی بات نہیں ۔ صراحی دو روپے کم میں بک جائے گی ۔ لیکن ایک فنکار اپنی صراحی کی صورت گری اور نقاشی میں ایک پورے تہذیبی اور تاریخی ورثے کو سمو سکتا ہے ۔ دس دفعہ اُسے بناتا ہے ، بگاڑتا ہے ۔ اُس کی شکل ، سائز اور رنگوں کے ساتھ مختلف تجربات کرتا ہے تب کہیں جاکر مطمئن ہوتا ہے۔ کمھار کی صراحی کا مقصد پانی محفوظ کرنا اور فنکار کی صراحی کا کام تاریخی اور تہذیبی ورثہ کو محفوظ رکھنا ۔ اوّل الذکر تو کسی کونے کھدرے میں پڑی رہتی ہے لیکن ثانی الذکراکثر کسی صاحبِ ذوق کے دیوان خانے میں نمایاں جگہ پر سجی ہر ایک کا مرکزِ نگاہ ہوتی ہے۔
حاصلِ کلام یہ کہ تقریری اورتحریری زبان میں فرق ایک آفاقی حقیقت ہے ۔ نثر کی نسبت شعر کی زبان پر کچھ اضافی پابندیاں اس لئے بھی عائد ہوتی ہیں کہ اسےنہ صرف یہ کہ شعریت کے صوتی تقاضوں کو پورا کرنا ہوتا ہے بلکہ قاری کےتخیل میں ایک ایسی تصویر بھی اُبھارنی ہوتی ہے کہ جو جمالیاتی اعتبار سے تسکین بخش ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ جب غالب جیسا شاعر " بھوں پاس آنکھ قبلہء حاجات چاہئے" جیسا مصرع لکھتا ہے تو مجھ جیسا مبتدی بھی چلا اٹھتا ہے کہ یہ مصرع شعریت کی سطح سے نیچے ہے ۔ طبیعت پر ناگوار گزرا ہے ۔ لیکن یہی بات اِسی تشبیہ کے ساتھ اگر نثر میں لکھی جائے تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔
اگر دیکھا جائے تو "تقریری زبان" اور " تحریری زبان" کے درمیان الفاظ اور اسلوب کا تبادلہ ایک مستقل اور جاری و ساری عمل ہے ۔ عوامی زبان سے الفاظ آہستہ آہستہ ادبی زبان میں نفوذ کرتے رہتے ہیں ۔ لیکن انجذاب کا یہ عمل سست رو اور غیر شعوری ہے ۔ میں یا آپ کوئی لفظ گھڑ کر اصرار نہیں کرسکتے کہ اس لفظ کو صحیح مانا جائے اور اسے باقاعدہ سندِ صحت دے کر اس کے استعمال کی اجازتِ عام دیدی جائے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ بحیثیت قلمکار ہمارا کام الفاظ کو درست طریقے سے استعمال کرنا ہے ۔ اسے قبولیتِ عام دینا یا رد کرنا وقت کا کام ہے ۔ اس پر ایک دلچسپ مثال یاد آئی ۔ میں نے بہت پہلے کہین پڑھا تھا کہ پچھلی صدی کے وسط میں جب مغرب میں آزادیء نسواں کی تحریک اپنے عروج پر تھی تو امریکا میں ایک آواز یہ بھی اٹھی کہ صاحب مذہبی لٹریچر کو بھی جنسی تعصب سے پاک کیا جائے ۔ کہنا ان کا یہ تھا کہ بائبل میں خدا کے لئے
He​
اور
His کے​
الفاظ استعمال ہورہے ہیں جبکہ خدا مذکر اور مونث کی خصوصیت سے مبرا ہے ۔ چنانچہ مذہبی لٹریچر کو نیوٹرل بنایا جائے ۔ اس مسئلے کے حل کیلئے کچھ ماہرینِ لسانیات کی طرف سے
Jhe​
اور
Jhis​
کے الفاظ تجویز کئے گئے ۔ ایک ادارے کی طرف سے کچھ لٹریچر ان نئے الفاظ کے ساتھ شائع بھی کیا گیا لیکن ظاہر ہے کہ عوام کی اکثریت وہی الفاظ بولتی اور استعمال کرتی رہی کہ جن کی انہیں عادت تھی ۔ چنانچہ یہ دونوں الفاظ کم عمری ہی میں وفات پا گئے ۔ :):):)
آپ کی یہ دلیل تو سو فیصد درست ہے کہ اردو کا خمیر جن زبانوں سے اٹھا ہے ان کا اثر اس کی جمالیات میں نظر آتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ مجھے کلاسیکی ادب پڑھنے کی ضرورت ہے اس نکتہ نظر سے۔
تقریری اور تحریری ادب میں تفاوت کی بات خوب کہی آپ نے۔ اس پر بھی کچھ غور کرنا پڑے گا۔ ذاتی طور پر میں لکھتے ہوئے ادبیت کو ذرا کم اہمیت دیتی ہوں اور خیال کی روانی اور تحریر کی بے ساختگی کو کہیں زیادہ۔
فطری طرز تحریر اپنی جگہ، مگر انسان تجربے تو کرتا ہی رہتا ہے۔
یہاں آپ کے تجزیے سے مجھے اپنی تحریر کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کا اتفاق ہوا ورنہ عموما میرے مضامین کے ساتھ کاتا اور لے دوڑی والا حساب ہوتا ہے۔
 
بھئی ہم تو یہ تحریر پڑھ کر تھوڑا تھوڑا مغرور سا محسوس کر رہے ہیں۔ نمرہ بٹیا کی تحریروں پر تعریف کرنا چھوڑے ہوئے عرصہ گزرا کہ خلش سی رہ جاتی تھی کہ "حق تو یہ ہے حق ادا نہ ہوا"۔ ویسے بعض مقامات پر املا وغیرہ پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ :) :) :)
 

نمرہ

محفلین
بھئی ہم تو یہ تحریر پڑھ کر تھوڑا تھوڑا مغرور سا محسوس کر رہے ہیں۔ نمرہ بٹیا کی تحریروں پر تعریف کرنا چھوڑے ہوئے عرصہ گزرا کہ خلش سی رہ جاتی تھی کہ "حق تو یہ ہے حق ادا نہ ہوا"۔ ویسے بعض مقامات پر املا وغیرہ پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ :) :) :)
بس املا کے مسائل!
 

نور وجدان

لائبریرین
بہت اچھی تحریر ...شاید سمجھنے والے کے شہر میں ہلچل مچادینی والی .. فضا مکدر ہے ... وحشت کا افسانہ ہے ..ڈسپلیسمینٹ نے بہتوں کو متاثر کیا ... بہتوں کے دلوں کا خون ہوا ..شناخت کے کرائسز پہ کم.لکھا گیا جبکہ ہجرت کو بہت ہائی لائٹ کیا گیا ہے ..تحریر کے ابتدائے جملے تو گویا دل میں گاڑھنے کے لیے لکھے ہیں ..زندہ جینا تو درد کے ساتھ پڑتا ہے
 

نمرہ

محفلین
بہت اچھی تحریر ...شاید سمجھنے والے کے شہر میں ہلچل مچادینی والی .. فضا مکدر ہے ... وحشت کا افسانہ ہے ..ڈسپلیسمینٹ نے بہتوں کو متاثر کیا ... بہتوں کے دلوں کا خون ہوا ..شناخت کے کرائسز پہ کم.لکھا گیا جبکہ ہجرت کو بہت ہائی لائٹ کیا گیا ہے ..تحریر کے ابتدائے جملے تو گویا دل میں گاڑھنے کے لیے لکھے ہیں ..زندہ جینا تو درد کے ساتھ پڑتا ہے
:)
 

لاریب مرزا

محفلین
زبردست!! کیا بات ہے!! بہت خوب لکھتی ہیں آپ۔ :)
اتنی بھاری بھر کم شگفتگی لکھنا یقیناً اپنے آپ میں ایک کمال ہے۔ بعض مقامات پر ہمیں شک گزرا کہ تحریر درست زمرے میں ہی ہے نا؟؟ :rolleyes:
 
Top