طارق شاہ

محفلین

مانوس ہو چلا تھا تسلّی سے حالِ دل
پھر تُو نے یاد آ کے بدستور کر دیا

بیتابیوں سے چھُپ نہ سکا ماجرائے دل
آخر، حضورِ یار بھی مذکور کر دیا

حسرت موہانی
 

طارق شاہ

محفلین

نیازِ عاشقی کو ناز کے قابل سمجھتے ہیں
ہم اپنے دل کو بھی اب آپ ہی کا دل سمجھتے ہیں

حسرت موہانی
 

طارق شاہ

محفلین

الہٰی ایک دل ہے، تُو ہی اِس کا فیصلہ کر دے
وہ اپنا دل سمجھتے ہیں، ہم اپنا دل سمجھتے ہیں


حسرت موہانی
 

طارق شاہ

محفلین

آنکھوں میں ستارے تو کئی شام سے اُترے
پر دل کی اُداسی نہ در و بام سے اُترے

اوروں کے قصیدے فقط آورد تھے جاناں
جو تجھ پہ کہے شعر وہ الہام سے اُترے

احمد فراز
 

طارق شاہ

محفلین

ایک اُلجھی سی ڈور ہے یہ حیات
ہاتھ جس کا سِرا نہیں لگتا

روز مر مر کے یُوں مِرا جینا
کیا تمھیں معجزہ نہیں لگتا

سائمن ڈیوڈ ضیا
 

طارق شاہ

محفلین

آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں

آرزو ہے کہ تو یہاں آئے
اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں

ناصر
کاظمی
 

طارق شاہ

محفلین


ہر پل خلوصِ دل سے ملاقات کے سِوا
کیا چاہتا ہُوں ایک تِرے ساتھ کے سِوا

کہتے ہیں لوگ مجھ سے کوئی اور بات کر
لاؤں کہاں سے بات، تِری بات کے سِوا


ڈاکٹر جاوید جمیل
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

کہانی میں نئے کردار شامل ہو گئے ہیں
نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہو گا

کہانی آپ اُلجھی ہے کہ اُلجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھُلے گا جب تماشا ختم ہو گا

افتخارعارف
 

طارق شاہ

محفلین

دنیا ہے ہم سے برسرِ پیکار اِک طرف
ہم اپنے حال سے بھی ہیں بیزار اِک طرف

قصرِ انا میں وہ کہیں محصور ہو نہ جائیں
ہر دن اُٹھا رہے ہیں جو دیوار اِک طرف

افتخار راغب
 

طارق شاہ

محفلین

تم کو ہزار شرم سہی، مجھ کو لاکھ ضبط
اُلفت وہ راز ہے کہ، چُھپایا نہ جائے گا

کیوں چھیڑتے ہو ذکر نہ مِلنے کا رات کے
پُوچھیں گے ہم سبب، تو بتایا نہ جائے گا

الطاف حسین
حالی
 

طارق شاہ

محفلین

مِلنا ہے آپ سے تو نہیں حضر غیر پر
کِس کِس سے اختلاط بڑھایا نہ جائے گا

راضی ہیں ہم کہ دوست سے ہو دشمنی، مگر
دشمن کو ہم سے دوست بنایا نہ جائے گا

الطاف حسین
حالی
 

طارق شاہ

محفلین

ضبط اپنا شعار تھا، نہ رہا
دل پہ کچھ اختیار تھا، نہ رہا

دلِ مرحوم کو خدا بخشے
ایک ہی غم گسار تھا، نہ رہا

موت کا انتظار باقی ہے!
آپ کا انتظار تھا، نہ رہا

فانی بدایونی
 

طارق شاہ

محفلین


حالِ شکستہ کا جو کبھی کچھ بیاں کِیا
نِکلا نہ ایک اپنی زباں سے سُخن دُرست

کم شاعری بھی نسخۂ اکسیر سے نہیں
مستغنی ہو گیا، جسے آیا یہ فن دُرست

خواجہ حیدر علی
آتش
 

طارق شاہ

محفلین

تِرے سروِ قامت سے، یک قدِ آدم
قیامت کے فِتنے کو کم دیکھتے ہیں

تماشا کر، اے محوِ آئینہ داری
تجھے کِس تمنّا سے ہم دیکھتے ہیں

مرزا غالب
 

طارق شاہ

محفلین

در پردہ جفاؤں کو اگر مان گئے ہم
تم یہ نہ سمجھنا کہ بُرا مان گئے ہم

اب اور ہی عالم ہے جہاں کا، دلِ ناداں
اب ہوش میں آئے تو مِری جان، گئے ہم

پلکوں پہ لرزتے ہوئے تارے سے یہ آنسو
اے حُسنِ پشیماں، تِرے قربان گئے ہم

سیف الدین سیف
 

طارق شاہ

محفلین


ہماری عمر گزاری ہے اور لوگوں نے
ہمیں گزارنے والوں سے یاد کرتے رہو

کوئی وصال کی ساعت کہاں نصیبوں میں
ہمیں فراق کے سالوں سے یاد کرتے رہو

یاسمین حبیب
 
Top