محمد فہد

محفلین
کچھ سایے سے ہر لحظہ کسی سمت رواں ہیں
اس شہر میں ورنہ، نہ مکیں ہیں نہ مکاں ہیں

ہم خود سے جدا ہو کے تجھے ڈھونڈنے نکلے
بکھرے ہیں اب ایسے کہ یہاں ہیں نہ وہاں ہیں

جاتی ہیں ترے گھر کو سبھی شہر کی سڑکیں
لگتا ہے کہ سب لوگ تری سمت رواں ہیں---!!

اے موجہء آوارہ!! کبھی ہم سے بھی ٹکرا--!!
اک عمر سے ہم بھی سر- ساحل نگراں ہیں--!!

تو ڈھونڈ ہمیں وقت کی دیوار کے اس پار
ہم دور بہت دور کی منزل کا نشاں ہیں---!!

سمٹے تھے کبھی ہم تو سمائے سر- مژگاں--!!
پھیلے ہیں اب ایسے کہ یہاں ہیں نہ وہاں ہیں

اک دن ترے آنچل کی ہوا بن کے اڑے تھے--!!
اس دن سے زمانے کی نگاہوں سے نہاں ہیں

توڑو نہ ہمارے لیے آواز کا آہنگ-----!!!!!
ہم لوگ تو اک ڈوبتے لمحے کی فغاں ہیں--!!!

(رشید قیصرانی)
المرسل :-: ابوالحسن علی ندوی(بھٹکلی)
 

محمد فہد

محفلین
ملتی مدت میں ہے اور پل میں ہنسی جاتی ہے
زندگی یوں ہی کٹی یوں ہی کٹی جاتی ہے
اپنی چادر میں اسے کھینچ لیا، لپٹے رہے
چاندنی یوں ہی چھوئی یوں ہی چھوئی جاتی ہے
بھیگی آنکھوں سے کبھی بھیگے لبوں سے ہو کر
شاعری یوں ہی بہی یوں ہی بہی جاتی ہے
عشق اس سے بھی کیا، تم سے بھی کر لیتے ہیں
بندگی یوں ہی ہوئی یوں ہی ہوئی جاتی ہے
آپ کی یاد بھی بس آپ کے ہی جیسی ہے
آ گئی یوں ہی ابھی، یوں ہی ابھی جاتی ہے
(بھویش دلشاد)
 

فرقان احمد

محفلین
تمتماتا ہے چہرۂ ایّام !
دل پہ کیا واردات گزُری ہے

پھر کوئی آس لڑکھڑائی ہے
کہ، نسیمِ حیات گزُری ہے
 

عباد اللہ

محفلین
بے نالہ و بے زاری بے خستگی و خواری
امروز کبھی اپنا فردا نہ ہوا ہوگا
جز مرتبۂ کل کو حاصل کرے ہے آخر
یک قطرہ نہ دیکھا جو دریا نہ ہوا ہوگا
میر
 
ہم اس طرح ترے چہرے کے دیدار میں کھو جاتے ہیں
جیسے بچے بھرے بازار میں کھو جاتے ہیں۔
میری خدداری نے احسان کیا ہے مجھ پر
ورنہ جو جاتے ہیں، دربار میں کھو جاتے ہیں۔
 
Top