پروین کمار اشک کی زمین میں لکهی گئی غزل

مانی عباسی

محفلین

سنا ہے عشق میں جب تک جلا نہیں ہوتا
کوئی بھی آدمی تب تک کھرا نہیں ہوتا

ہنسی خوشی کی ضمانت نہیں ہوا کرتی
مسافتوں کی سند آبلہ نہیں ہوتا

یہ جو فراق کا صحرا ہے وصل کے پیاسو
کبھی یہاں سے گزر آب کا نہیں ہوتا

ملی ہے زندگی اس ریت کو تو نسبت سے
حسین ہوتے نہ تو کربلا نہیں ہوتا

کوئی ان اہلِ جہاں کو بتائے مانی جی
کہ ہاتھ جوڑ کر پتھر خدا نہیں ہوتا​
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top