پختون کی بیٹی
اجتِماع
سید تفسیر احمد
باب دوئم۔اجتماع
1۔ خواب
2۔ تشخیص
3۔ تعمیل کا منصوبہ
4۔ سوچ ایک طریقہ ہے
5۔ خواہش
6۔ یقین و ایمان
7۔ آٹوسجیشن
8۔ تعلیمِ خصوصی
9۔ تصور
10۔ منظم منصوبہ بندی
11۔ ارادۂِ مصمم اور فیصلہ
12۔ ثابت قدم
13۔ ماسٹرمائنڈ
14۔ کامیابی کے اصول۔ ایک نظرِ ثانی
خواب
جب گلاب کا پُھول کُھلتا ہے تب اس کی خوشبو باہر نکلتی ہے۔ کیا یہ ایسا ہے؟ کیا تم کِسی کلی کی بھی خوشبوُ کو سُونگھ سکتے ہو؟ نہیں، تم نہیں۔
کیا تم اس کی خوبصورتی کو دیکھ سکتے ہو؟ نہیں یہ تو صرف ایک کلی ہے۔ جب یہ کِھل جائےگی تب اس کی خوبصورتی اور خوشبوُ کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔
دل ، ایک پھول ہے اگرچہ کہ وہ موجود ہے مگروہ کَلی طرح ہے تم اس کی خوبصورتی کو، اس کے رنگ کو محسوس نہیں کر پاؤگے۔ جب یہ دل پُھول کی طرح کُھل جائے گا تب ہی تم اس کی مہک کو سُونگھ سکوگےاور پُھول کودیکھ سکوگے۔ تب ہی اس کی خوبصورتی، رنگ، اور اُس کا امتیاز پہچان جاؤ گے۔ یہ خصوصیات کلی میں نہیں دیکھی جاسکتیں۔ اس لیے دل جو پُھول ہے اس کوکُھولناہوگا۔ اس کوکِھلناہوگا۔
پُھولوں کے باغ کو بند کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جانور اندر آ کراُس کو تباہ نہ کرسکیں۔ ہم کواس پُھولوں کے باغ کوکُھولنا ہے۔ تا کہ ہم اندر جائیں اوراُس کی دیکھ بھال کریں۔ہمیں پودوں کو پانی دینا ہے، غذا دینی ہے اور ان کی حفاظت کرنی ہے۔ ہم سچائ اور دانائ کر کے پُھولوں کا باغ کھولتے ہیں۔ جب ہم داخل ہوتے ہیں تو ہم یہ معلوم کریں کہ اس کلی کو بڑھ کر کِھل جانے کے لیے کس چیزکی ضرورت ہے۔ ہم اس کو حسن مُتَبرّک کی غذا اور پانی دیں۔ اس طرح پُھول شاداب ہوگا۔ یہ مالی کا کام تم ‘ بہنوں’ کو کرنا ہے، تم’خان ذادیوں‘ اور’ ملک ذادیوں‘ کوکرنا ہوگا۔
کیا تم شرمسارنہیں ہوکہ جانور تمہارے گُلوں کے باغیچے کوتباہ کررہے ہیں؟
٭٭٭
باجی۔۔۔۔۔۔ مجھ سے بولونا، آپ تو میری شادی میں بھی نہیں آئیں۔کیا میری باجی مجھ سے ناراض ہیں ؟ مجھے سخت درد ہو رہا ہے۔ مجھے ڈاکٹر کے پاس لے چلیں۔ میں درد سے تڑپ رہی ہوں۔آپ نے کہا تھا ناکہ ایک دن میں تم کو پشاور لے جاؤں گی۔ میں تو تیار بیٹھی ہوں۔ کیا پشاور میں ڈاکٹر بھی ہوگا؟
میں مررہی ہوں۔ میرے پیٹ میں ایک ننھی مر رہی ہے۔ کیا میری ننھی آپ کی ننھی نہیں ہے؟
باجی۔۔۔۔۔۔ باجی آپ نے مجھے بھی تواپنی ننھی کہا تھا۔میری ننھی کو بھی اپنی ننھی بنالیں نا۔
٭٭٭
” سلام“
مسینجرکی کھڑکی کااسکرین ’ کپکپایا ‘۔
” سلام۔ آپ کون ہیں“۔
” بھائ جان اس وقت نہیں ہیں۔ میں ان کی بہن سعدیہ ہوں۔آپ ان کے لیے پیغام چھوڑ دیں“۔ سعدیہ نے جواب دیا۔ ” تم سعدیہ ہو۔“۔ آواز میں خوشی بھی تھی اور غم بھی!
” جی ہاں“
” یہ تو اور بھی اچھا ہے۔ میں آپ سے ہی بات کرنا چاہتی ہوں۔ میں یاسمین ہوں۔ ہم آڈیو پہ بات کرتے ہیں“۔
” کیوں؟ “ سعدیہ اس کے لیے تیار نہ تھی۔وہ ا ِنڑنیٹ پر ریسرچ کررہی تھی۔
” میرے، آپ کے اور ہماری سب بہنوں کے مشترک مسئلہ سے متعلق ۔” یاسمین نے کہا۔
” اچھا“۔ اور سعدیہ نے آڈیو کوآن کردیا۔
” میں نے ’داستانِ گل و بلبل‘ پڑھی ۔ کیا آپ یہ سمجھتی ہیں کہ یہ کہانی آپ کے بھائ نے آپ کے یا سکینہ کے یا پھرگل کے لیے لکھی ہے ؟“
” دیکھیں یاسمین۔ آپ میرا وقت برباد کررہی ہیں ۔ آپ بھائ جان کے لیے پیغام چھوڑ دیں”۔ سعدیہ نے کہا۔
” نہیں سعدیہ ، تم کومجھےسنناہوگا۔ یہ کہانی میر ے لیے لکھی گئ ہے۔ یہ کہانی میری پاکستانی بہنوں کے لیے لکھی گئ ہے۔ یہ کہانی پختون کی خانزادیوں اور ملک زادیوں کے لیے لکھی گئ ہے۔
تم تو اس کی اکلوتی بہن ہو۔ لیکن وہ ہم سب بہنوں کا اکلوتا بھائ ہے۔ تم اس کی خوشی ہو۔ ہم اس کا غم ہیں۔ تم اس کا پیار ہو۔ ہم سب اس کی جدائ ہیں۔ تم اس کا سُہانا خواب ہو۔ ہم اس کا ڈراؤنا“۔یاسمین نے روتے ہوئے کہا۔
” جب میں نے یہ کہانی پڑھی تو میں گھنٹوں روئ۔ میں نےسارا دن کسی سے بات بھی نہ کی۔ میں جرنلسٹ بناچاہتی تھی تاکہ میں دنیا کو میری بہنوں کا حال بتاؤں۔ماں نے کہا بیٹی انجنئیر بن جاؤ اس میں پیسہ ہے۔ میں نے کہا میں وکیل بنوں گی۔ بھائ نے کہا میری بہن عدالت میں مردوں کے سامنے نہیں کھڑی ہوگی۔ سعدیہ میں تمہارے پاؤں پڑتی ہوں۔ بھیا سے کہو۔ میں اب تیار ہوں۔ مجھے راہ دکھائے۔ مجھے بتاؤ کہ میں کیا کروں؟“
٭٭٭
جھرنے کا مدھم شور فضاء میں گھوم رہا ہے اور پرندوں کی چرچراہٹ گونج رہی ہے۔ ندی کا میٹھا پانی انگڑائ لے کر بہہ رہا ہے۔ ندی کے کنارے حسین پُھول، ساری وادی کی فِضا کو معطّر کررہے ہیں۔ یہ فطرت کی رنگین رَعنائیوں اور دلکش نظاروں سے بھری جگہ ہے۔ ایک عورت ندی کے کنارے بیٹھی گنگنا رہی ہے۔ وہ ایک کتھئ اور لال رنگ کے کشیدہ کاری سے بھری کھٹ "پرتوگ" اور ٹیکریا پہنے اور پاؤں میں سانکڑی پہنے ہے۔ ایک آٹھ یا نوسالہ بچی نزدیک کھڑی ہے۔
میں نے کہا”۔ السلامُ علیکم“
” وعلیکم سلام“۔عورت بولی
” زما نوم سعدیہ دے”
” ستا نوم سہ دے؟“
” زما نامہ نورا دہ“
” تا وا؟“
” چنگا“۔
” ستاد خیل نوم “
” کوہاٹ“
” ستا شکریہ”
اچانک میں ندی میں گری اور ہڑبڑا کرکھڑی ہوگئ۔ بھائ نے سارا کے سارا پانی کا جگ مجھ پر الٹ دیا تھا۔ ” صبح ہوگئ اب اٹھ جاؤ۔تم کو اپنا وعدہ یاد نہیں کہ ہم ابا اور اماں جان سے ’ گل کے مسئلہ ‘ پر بات کریں گے؟“۔ بھائ جان نے بہت زور سے قہقہہ لگایا۔
” بھیا ، مجھ کوسونے دو۔ میں دیر سے سوئ تھی“ اور میں نے کروٹ لےکر دیوارکی طرف منہ کرلیا۔ بھائ جان نے مجھ کوگود میں اٹھا کر باتھ ٹب میں رکھ دیا اور جلدی سے بھاگ گئے۔
[/INDENT][/SIZE]
تشخیص
میں سمندرکی طرف کے کُھلے ہوئے برآمدے میں آیا۔ ناشتے کی میز آج الگ سے لگی ہوئ تھی۔ جب بھی ہمیں کوئ اہم بات کرنی ہوتی ہے ماں کھا نے کا سامان الگ میز پر رکھتی ہیں۔ میں نےمیز کو دیکھا۔۔۔ میزکودیکھا اور پھرماں کو۔ ” میرا نارنگی کاجوس، پین کیک اورگرم چائے کہاں ہے، ماں؟“
” آج ہم پختونی کھانا کھائیں گے۔ آپ کو پتہ ہے کیا بجا ہے؟“ سعدیہ نےماں کے بجائے ہنس کر جواب دیا۔
” بہت سے پختون دن میں صرف دو دفعہ کھاتے ہیں۔گیارہ بجےدوپہرکواور پھرمغرب کے بعد“۔ سعدیہ نے مجھ سے اس طرح کہا جیسےایک بچے کوسبق پڑھا تے ہیں۔
میں نےگھڑی میں وقت دیکھا۔گیارہ بجے تھے۔
میں نےماں سے کہا”۔ اس لڑکی کو کیا بیماری لگی ہے؟“
ماں نے کہا”۔ بیٹا تم کھا کرتودیکھو۔ تم کو پسند آئےگا اور آج چائے کی جگہ قہوہ بنایا ہے“۔
میں نےاپنی رکابی اِن لوازمات سے بھری، چھری اورکانٹا اٹھانے کے لیے بڑھا توسعدیہ جلدی سے بولی“۔ نہیں بھیا پختون ہاتھ سے کھانا کھاتے ہیں“۔
میں غُرایا۔”خدا ایسی بہن صرف مجھ ہی کودے“۔
میں نے اباجان سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ اگرمیرا بس چلے تومیں اس بہن کو تکیوں سےاتنا ماروں کہ یہ رو دے اور میں کرسی پر بیٹھ گیا“۔
سعدیہ اُٹھ کر میرے پاس آئ اور پیچھے سےگلےمیں باہیں ڈال کر کہا۔ ” بھائ جان۔ آئیندہ میری چٹکی بہت زیادہ تکلیف دہ ہوگی“۔ اس نے جھک کرمیرے سر پر پیار کیا اور واپس جا کراپنی کرسی پر بیٹھ گئ۔
ا باجان نے کہا۔ ” میں نے تمہاری گل کی داستاں پڑھی۔ تم نےاس کو لکھ کرسکینہ اور سعدیہ کوتوخوش کردیا۔ مگر میں تم سے یہ پوچھتا ہوں کہ تم اپنی دوسری بہنوں کو اس ظلم سے کس طرح نجات دلاؤگے“۔
” ابا جان سعدیہ اور میں نے اس پرگھنٹوں بحث کی ہے، پچاس سال سے پختون ، پاکستان اور صوبۂ سرحد کی حکومتیں اس مسئلہ پرکام کر رہی ہیں مگر یہ مسئلہ حل ہونے کے بجائے اور بھی خراب ہورہا ہے ہم دونوں اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ یہ لوگ اس مسئلہ کی بنیاد کو سمجھنے سے قاصِر ہیں“۔
” وہ کیسے؟ “ ماں نے پو چھا۔
” کسی بھی مسئلے کو حل کرنے سے پہلے اس کی صحیح وجہ کا جاننا ضروری ہے“۔ میں نے سوچتے ہوئے کہا۔
” غلط وجہ متعین کریں اورآپ غلط راہ پر چل نکلیں گے“۔ سعدیہ نے میرا جملہ مکمل کیا۔
” ہماری سوچ یہ ہے کہ یہ مسئلہ عورتوں کا ہے۔ عورتیں ہی اس مسئلہ کو حل کرسکتی ہیں“۔
سعدیہ نے بات جاری رکھی۔
” اس لیے میں سعدیہ کے ساتھ اس پرکام کروں گا“۔ میں کہا۔
” ہم نےاس مسئلہ کا مکمل تجزیہ کیا ہے اور اس تجزیے کو لکھا ہے۔ آپ دونوں کے لیے میں نےاس کی نقل بھی بنائ ہیں۔ ابھی ہم آپ کو صرف اس کا نتیجہ بتاتے ہیں“۔ سعدیہ بولی۔
مسئلہ کیا ہے؟“ میں نے سعدیہ سے پوچھا۔
”عورتوں پر ظلم ، ان کی بے حرمتی، ان سے زنا بالجبر، ان کا بدل ، سوارہ“۔
کیونکہ یہ مسئلہ اسلامی بھی ہے اس لیے یہ مسئلہ بین الاقوامی طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن ہمارا فوری سُروکار گُل اور اس کی تقربیاً آٹھ کروڑ پختون بہنیں ہیں“۔
” اس مسئلہ کے مرکزی کردارکون ہیں؟“ میں نے سعدیہ سے پوچھا۔
پختون کی بیٹیاں۔ مرکزی مظلوم
غیر مرکزی مظلوم، پاکستان کی اوراسلام کی بیٹیاں “۔ سعدیہ کی آواز میں درد تھا۔
” پاکستان کی اوراسلام کی بیٹیاں اس لئےغیرمرکزی ہیں کیونکہ پاکستان میں سینکڑوں پڑھی لکھی عورتیں ان کے مسئلہ پر کا م کررہی ہیں“ ۔ سعدیہ نے کہا۔
” مگر پختونخواہ کی پڑھی لکھی لڑکیوں کی توجہ اس طرف نہیں ہے۔ میں نے انٹرنیٹ پرریسرچ کی مگرایک بھی پختون کی مشہور پڑھی لکھی لڑکی نہیں ملی“۔ سعدیہ نے ہا۔
” جن پختون عورتوں نے اعلٰی تعلیم حاصل کی ہے وہ یا تو گھر بیٹھی ہیں یا حکومت پاکستان کے لیے کام کررہی ہیں“۔
مرکزی ظالم پختون کا مرد
اور غیر مرکزی پاکستان اور اسلام کا مرد ہے“۔
اماجان نے سوال کیا”۔ ظلم کی وجہ؟
” پہلی اور اہم وجہ
پختون قوم کے پرانے رسم و رواج۔ ان رسم و رواج کا مجموعہ پختون ولی کہلاتا ہے۔
” دوسری وجہ
شریعہ اور اسلامی قانون کی غلط تفسیر اور
” تیسری وجہ
حدود ارڈینینس قانون جوکہ عورتوں کےحقوق کومارتا ہے۔ ان کےساتھ نا انصافی اور ذیادتی کرتا ہے“۔
میں نے کہا۔” غُربت اور بےعلمی“۔
” سعدیہ نے کہا۔ غربت اور بے علمی ظلم کو کرنے کی بنیادی وجہ نہیں ہیں۔ فارغ البالی اور تعلیم سے مدد ملے گی لیکن مسئلہ حل نہیں ہوگا“۔
” کیا اور بھی وجوہ ہیں؟“
” بڑھتی ہوئ آبادی ، بےکاری ، جرائم، نشہ ، بچوں کی مزدوری ، بڑھاپا، رشوت ستانی، پرانی رسموں کی حفاظت اور مقامی علاقائ مفاد“۔
” کیا ان دوسرے مسئلوں کو حل کرنے پرکام ہو رہاہے؟“
” ہاں ، ناں گورنمینٹل ایجینسیز۔انٹرنیشنل سوشل ریلیف ایجینسیز۔ یو-این ، حکومتِ صوبہ سرحد کے مختلف شعبے، حکومتِ پاکستان کے مختلف شعبے ان مسائل کی اصلاح میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن رسم و رواج ، شریعہ اور اسلامی قانون کی غلط تعمیل، پاکستان کا حدود اورڈینیس ان مسئلوں میں ان کے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں اور وہ بنیادی مسئلہ کو حل نہیں کرسکتے “۔
” ہمارے خیال میں یہ مسئلہ اُس وقت تک حل ہوسکتا جب پختون لڑکیاں اس میں حصہ لیں اور خاص طور پرپختون زادیاں ، ملک زادیاں اور پڑھی لکھی پختون عورتیں بھی حصہ لیں”ہم دونوں نے یکجا ہوکرکہا“۔
ناشتہ کے بعد ابا جان نے ماں سے کہا“۔ چلو شیری، ہم ان کے تجزیے کا مطالعہ کرتے ہیں“۔
میں نے بھائ جان سے کہا“۔ بھیا آپ مجھےگاڑی میں اسکول پر چھوڑ دیں؟“
اچھا”۔ توچلو ، ورنہ میں لیٹ ہو جاؤں گا“۔
” آج ہم پختونی کھانا کھائیں گے۔ آپ کو پتہ ہے کیا بجا ہے؟“ سعدیہ نےماں کے بجائے ہنس کر جواب دیا۔
” بہت سے پختون دن میں صرف دو دفعہ کھاتے ہیں۔گیارہ بجےدوپہرکواور پھرمغرب کے بعد“۔ سعدیہ نے مجھ سے اس طرح کہا جیسےایک بچے کوسبق پڑھا تے ہیں۔
میں نےگھڑی میں وقت دیکھا۔گیارہ بجے تھے۔
میں نےماں سے کہا”۔ اس لڑکی کو کیا بیماری لگی ہے؟“
ماں نے کہا”۔ بیٹا تم کھا کرتودیکھو۔ تم کو پسند آئےگا اور آج چائے کی جگہ قہوہ بنایا ہے“۔
میں نےاپنی رکابی اِن لوازمات سے بھری، چھری اورکانٹا اٹھانے کے لیے بڑھا توسعدیہ جلدی سے بولی“۔ نہیں بھیا پختون ہاتھ سے کھانا کھاتے ہیں“۔
میں غُرایا۔”خدا ایسی بہن صرف مجھ ہی کودے“۔
میں نے اباجان سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ اگرمیرا بس چلے تومیں اس بہن کو تکیوں سےاتنا ماروں کہ یہ رو دے اور میں کرسی پر بیٹھ گیا“۔
سعدیہ اُٹھ کر میرے پاس آئ اور پیچھے سےگلےمیں باہیں ڈال کر کہا۔ ” بھائ جان۔ آئیندہ میری چٹکی بہت زیادہ تکلیف دہ ہوگی“۔ اس نے جھک کرمیرے سر پر پیار کیا اور واپس جا کراپنی کرسی پر بیٹھ گئ۔
ا باجان نے کہا۔ ” میں نے تمہاری گل کی داستاں پڑھی۔ تم نےاس کو لکھ کرسکینہ اور سعدیہ کوتوخوش کردیا۔ مگر میں تم سے یہ پوچھتا ہوں کہ تم اپنی دوسری بہنوں کو اس ظلم سے کس طرح نجات دلاؤگے“۔
” ابا جان سعدیہ اور میں نے اس پرگھنٹوں بحث کی ہے، پچاس سال سے پختون ، پاکستان اور صوبۂ سرحد کی حکومتیں اس مسئلہ پرکام کر رہی ہیں مگر یہ مسئلہ حل ہونے کے بجائے اور بھی خراب ہورہا ہے ہم دونوں اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ یہ لوگ اس مسئلہ کی بنیاد کو سمجھنے سے قاصِر ہیں“۔
” وہ کیسے؟ “ ماں نے پو چھا۔
” کسی بھی مسئلے کو حل کرنے سے پہلے اس کی صحیح وجہ کا جاننا ضروری ہے“۔ میں نے سوچتے ہوئے کہا۔
” غلط وجہ متعین کریں اورآپ غلط راہ پر چل نکلیں گے“۔ سعدیہ نے میرا جملہ مکمل کیا۔
” ہماری سوچ یہ ہے کہ یہ مسئلہ عورتوں کا ہے۔ عورتیں ہی اس مسئلہ کو حل کرسکتی ہیں“۔
سعدیہ نے بات جاری رکھی۔
” اس لیے میں سعدیہ کے ساتھ اس پرکام کروں گا“۔ میں کہا۔
” ہم نےاس مسئلہ کا مکمل تجزیہ کیا ہے اور اس تجزیے کو لکھا ہے۔ آپ دونوں کے لیے میں نےاس کی نقل بھی بنائ ہیں۔ ابھی ہم آپ کو صرف اس کا نتیجہ بتاتے ہیں“۔ سعدیہ بولی۔
مسئلہ کیا ہے؟“ میں نے سعدیہ سے پوچھا۔
”عورتوں پر ظلم ، ان کی بے حرمتی، ان سے زنا بالجبر، ان کا بدل ، سوارہ“۔
کیونکہ یہ مسئلہ اسلامی بھی ہے اس لیے یہ مسئلہ بین الاقوامی طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن ہمارا فوری سُروکار گُل اور اس کی تقربیاً آٹھ کروڑ پختون بہنیں ہیں“۔
” اس مسئلہ کے مرکزی کردارکون ہیں؟“ میں نے سعدیہ سے پوچھا۔
پختون کی بیٹیاں۔ مرکزی مظلوم
غیر مرکزی مظلوم، پاکستان کی اوراسلام کی بیٹیاں “۔ سعدیہ کی آواز میں درد تھا۔
” پاکستان کی اوراسلام کی بیٹیاں اس لئےغیرمرکزی ہیں کیونکہ پاکستان میں سینکڑوں پڑھی لکھی عورتیں ان کے مسئلہ پر کا م کررہی ہیں“ ۔ سعدیہ نے کہا۔
” مگر پختونخواہ کی پڑھی لکھی لڑکیوں کی توجہ اس طرف نہیں ہے۔ میں نے انٹرنیٹ پرریسرچ کی مگرایک بھی پختون کی مشہور پڑھی لکھی لڑکی نہیں ملی“۔ سعدیہ نے ہا۔
” جن پختون عورتوں نے اعلٰی تعلیم حاصل کی ہے وہ یا تو گھر بیٹھی ہیں یا حکومت پاکستان کے لیے کام کررہی ہیں“۔
مرکزی ظالم پختون کا مرد
اور غیر مرکزی پاکستان اور اسلام کا مرد ہے“۔
اماجان نے سوال کیا”۔ ظلم کی وجہ؟
” پہلی اور اہم وجہ
پختون قوم کے پرانے رسم و رواج۔ ان رسم و رواج کا مجموعہ پختون ولی کہلاتا ہے۔
” دوسری وجہ
شریعہ اور اسلامی قانون کی غلط تفسیر اور
” تیسری وجہ
حدود ارڈینینس قانون جوکہ عورتوں کےحقوق کومارتا ہے۔ ان کےساتھ نا انصافی اور ذیادتی کرتا ہے“۔
میں نے کہا۔” غُربت اور بےعلمی“۔
” سعدیہ نے کہا۔ غربت اور بے علمی ظلم کو کرنے کی بنیادی وجہ نہیں ہیں۔ فارغ البالی اور تعلیم سے مدد ملے گی لیکن مسئلہ حل نہیں ہوگا“۔
” کیا اور بھی وجوہ ہیں؟“
” بڑھتی ہوئ آبادی ، بےکاری ، جرائم، نشہ ، بچوں کی مزدوری ، بڑھاپا، رشوت ستانی، پرانی رسموں کی حفاظت اور مقامی علاقائ مفاد“۔
” کیا ان دوسرے مسئلوں کو حل کرنے پرکام ہو رہاہے؟“
” ہاں ، ناں گورنمینٹل ایجینسیز۔انٹرنیشنل سوشل ریلیف ایجینسیز۔ یو-این ، حکومتِ صوبہ سرحد کے مختلف شعبے، حکومتِ پاکستان کے مختلف شعبے ان مسائل کی اصلاح میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن رسم و رواج ، شریعہ اور اسلامی قانون کی غلط تعمیل، پاکستان کا حدود اورڈینیس ان مسئلوں میں ان کے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں اور وہ بنیادی مسئلہ کو حل نہیں کرسکتے “۔
” ہمارے خیال میں یہ مسئلہ اُس وقت تک حل ہوسکتا جب پختون لڑکیاں اس میں حصہ لیں اور خاص طور پرپختون زادیاں ، ملک زادیاں اور پڑھی لکھی پختون عورتیں بھی حصہ لیں”ہم دونوں نے یکجا ہوکرکہا“۔
ناشتہ کے بعد ابا جان نے ماں سے کہا“۔ چلو شیری، ہم ان کے تجزیے کا مطالعہ کرتے ہیں“۔
میں نے بھائ جان سے کہا“۔ بھیا آپ مجھےگاڑی میں اسکول پر چھوڑ دیں؟“
اچھا”۔ توچلو ، ورنہ میں لیٹ ہو جاؤں گا“۔