پختون کی بیٹی - اجتماع - دوسری قسط

تفسیر

محفلین

پختون کی بیٹی

اجتِماع

سید تفسیر احمد
باب دوئم۔اجتماع



1۔ خواب
2۔ تشخیص
3۔ تعمیل کا منصوبہ
4۔ سوچ ایک طریقہ ہے
5۔ خواہش
6۔ یقین و ایمان
7۔ آٹوسجیشن
8۔ تعلیمِ خصوصی
9۔ تصور
10۔ منظم منصوبہ بندی
11۔ ارادۂِ مصمم اور فیصلہ
12۔ ثابت قدم
13۔ ماسٹرمائنڈ
14۔ کامیابی کے اصول۔ ایک نظرِ ثانی

خواب​

جب گلاب کا پُھول کُھلتا ہے تب اس کی خوشبو باہر نکلتی ہے۔ کیا یہ ایسا ہے؟ کیا تم کِسی کلی کی بھی خوشبوُ کو سُونگھ سکتے ہو؟ نہیں، تم نہیں۔

کیا تم اس کی خوبصورتی کو دیکھ سکتے ہو؟ نہیں یہ تو صرف ایک کلی ہے۔ جب یہ کِھل جائےگی تب اس کی خوبصورتی اور خوشبوُ کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔

دل ، ایک پھول ہے اگرچہ کہ وہ موجود ہے مگروہ کَلی طرح ہے تم اس کی خوبصورتی کو، اس کے رنگ کو محسوس نہیں کر پاؤگے۔ جب یہ دل پُھول کی طرح کُھل جائے گا تب ہی تم اس کی مہک کو سُونگھ سکوگےاور پُھول کودیکھ سکوگے۔ تب ہی اس کی خوبصورتی، رنگ، اور اُس کا امتیاز پہچان جاؤ گے۔ یہ خصوصیات کلی میں نہیں دیکھی جاسکتیں۔ اس لیے دل جو پُھول ہے اس کوکُھولناہوگا۔ اس کوکِھلناہوگا۔

پُھولوں کے باغ کو بند کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جانور اندر آ کراُس کو تباہ نہ کرسکیں۔ ہم کواس پُھولوں کے باغ کوکُھولنا ہے۔ تا کہ ہم اندر جائیں اوراُس کی دیکھ بھال کریں۔ہمیں پودوں کو پانی دینا ہے، غذا دینی ہے اور ان کی حفاظت کرنی ہے۔ ہم سچائ اور دانائ کر کے پُھولوں کا باغ کھولتے ہیں۔ جب ہم داخل ہوتے ہیں تو ہم یہ معلوم کریں کہ اس کلی کو بڑھ کر کِھل جانے کے لیے کس چیزکی ضرورت ہے۔ ہم اس کو حسن مُتَبرّک کی غذا اور پانی دیں۔ اس طرح پُھول شاداب ہوگا۔ یہ مالی کا کام تم ‘ بہنوں’ کو کرنا ہے، تم’خان ذادیوں‘ اور’ ملک ذادیوں‘ کوکرنا ہوگا۔

کیا تم شرمسارنہیں ہوکہ جانور تمہارے گُلوں کے باغیچے کوتباہ کررہے ہیں؟

٭٭٭

باجی۔۔۔۔۔۔ مجھ سے بولونا، آپ تو میری شادی میں بھی نہیں آئیں۔کیا میری باجی مجھ سے ناراض ہیں ؟ مجھے سخت درد ہو رہا ہے۔ مجھے ڈاکٹر کے پاس لے چلیں۔ میں درد سے تڑپ رہی ہوں۔آپ نے کہا تھا ناکہ ایک دن میں تم کو پشاور لے جاؤں گی۔ میں تو تیار بیٹھی ہوں۔ کیا پشاور میں ڈاکٹر بھی ہوگا؟

میں مررہی ہوں۔ میرے پیٹ میں ایک ننھی مر رہی ہے۔ کیا میری ننھی آپ کی ننھی نہیں ہے؟

باجی۔۔۔۔۔۔ باجی آپ نے مجھے بھی تواپنی ننھی کہا تھا۔میری ننھی کو بھی اپنی ننھی بنالیں نا۔

٭٭٭

” سلام“
مسینجرکی کھڑکی کااسکرین ’ کپکپایا ‘۔
” سلام۔ آپ کون ہیں“۔
” بھائ جان اس وقت نہیں ہیں۔ میں ان کی بہن سعدیہ ہوں۔آپ ان کے لیے پیغام چھوڑ دیں“۔ سعدیہ نے جواب دیا۔ ” تم سعدیہ ہو۔“۔ آواز میں خوشی بھی تھی اور غم بھی!
” جی ہاں“
” یہ تو اور بھی اچھا ہے۔ میں آپ سے ہی بات کرنا چاہتی ہوں۔ میں یاسمین ہوں۔ ہم آڈیو پہ بات کرتے ہیں“۔
” کیوں؟ “ سعدیہ اس کے لیے تیار نہ تھی۔وہ ا ِنڑنیٹ پر ریسرچ کررہی تھی۔
” میرے، آپ کے اور ہماری سب بہنوں کے مشترک مسئلہ سے متعلق ۔” یاسمین نے کہا۔
” اچھا“۔ اور سعدیہ نے آڈیو کوآن کردیا۔
” میں نے ’داستانِ گل و بلبل‘ پڑھی ۔ کیا آپ یہ سمجھتی ہیں کہ یہ کہانی آپ کے بھائ نے آپ کے یا سکینہ کے یا پھرگل کے لیے لکھی ہے ؟“
” دیکھیں یاسمین۔ آپ میرا وقت برباد کررہی ہیں ۔ آپ بھائ جان کے لیے پیغام چھوڑ دیں”۔ سعدیہ نے کہا۔
” نہیں سعدیہ ، تم کومجھےسنناہوگا۔ یہ کہانی میر ے لیے لکھی گئ ہے۔ یہ کہانی میری پاکستانی بہنوں کے لیے لکھی گئ ہے۔ یہ کہانی پختون کی خانزادیوں اور ملک زادیوں کے لیے لکھی گئ ہے۔
تم تو اس کی اکلوتی بہن ہو۔ لیکن وہ ہم سب بہنوں کا اکلوتا بھائ ہے۔ تم اس کی خوشی ہو۔ ہم اس کا غم ہیں۔ تم اس کا پیار ہو۔ ہم سب اس کی جدائ ہیں۔ تم اس کا سُہانا خواب ہو۔ ہم اس کا ڈراؤنا“۔یاسمین نے روتے ہوئے کہا۔
” جب میں نے یہ کہانی پڑھی تو میں گھنٹوں روئ۔ میں نےسارا دن کسی سے بات بھی نہ کی۔ میں جرنلسٹ بناچاہتی تھی تاکہ میں دنیا کو میری بہنوں کا حال بتاؤں۔ماں نے کہا بیٹی انجنئیر بن جاؤ اس میں پیسہ ہے۔ میں نے کہا میں وکیل بنوں گی۔ بھائ نے کہا میری بہن عدالت میں مردوں کے سامنے نہیں کھڑی ہوگی۔ سعدیہ میں تمہارے پاؤں پڑتی ہوں۔ بھیا سے کہو۔ میں اب تیار ہوں۔ مجھے راہ دکھائے۔ مجھے بتاؤ کہ میں کیا کروں؟“

٭٭٭

جھرنے کا مدھم شور فضاء میں گھوم رہا ہے اور پرندوں کی چرچراہٹ گونج رہی ہے۔ ندی کا میٹھا پانی انگڑائ لے کر بہہ رہا ہے۔ ندی کے کنارے حسین پُھول، ساری وادی کی فِضا کو معطّر کررہے ہیں۔ یہ فطرت کی رنگین رَعنائیوں اور دلکش نظاروں سے بھری جگہ ہے۔ ایک عورت ندی کے کنارے بیٹھی گنگنا رہی ہے۔ وہ ایک کتھئ اور لال رنگ کے کشیدہ کاری سے بھری کھٹ "پرتوگ" اور ٹیکریا پہنے اور پاؤں میں سانکڑی پہنے ہے۔ ایک آٹھ یا نوسالہ بچی نزدیک کھڑی ہے۔
میں نے کہا”۔ السلامُ علیکم“
” وعلیکم سلام“۔عورت بولی
” زما نوم سعدیہ دے”
” ستا نوم سہ دے؟“
” زما نامہ نورا دہ“
” تا وا؟“
” چنگا“۔
” ستاد خیل نوم “
” کوہاٹ“
” ستا شکریہ”
اچانک میں ندی میں گری اور ہڑبڑا کرکھڑی ہوگئ۔ بھائ نے سارا کے سارا پانی کا جگ مجھ پر الٹ دیا تھا۔ ” صبح ہوگئ اب اٹھ جاؤ۔تم کو اپنا وعدہ یاد نہیں کہ ہم ابا اور اماں جان سے ’ گل کے مسئلہ ‘ پر بات کریں گے؟“۔ بھائ جان نے بہت زور سے قہقہہ لگایا۔
” بھیا ، مجھ کوسونے دو۔ میں دیر سے سوئ تھی“ اور میں نے کروٹ لےکر دیوارکی طرف منہ کرلیا۔ بھائ جان نے مجھ کوگود میں اٹھا کر باتھ ٹب میں رکھ دیا اور جلدی سے بھاگ گئے۔
[/INDENT][/SIZE]

تشخیص
میں سمندرکی طرف کے کُھلے ہوئے برآمدے میں آیا۔ ناشتے کی میز آج الگ سے لگی ہوئ تھی۔ جب بھی ہمیں کوئ اہم بات کرنی ہوتی ہے ماں کھا نے کا سامان الگ میز پر رکھتی ہیں۔ میں نےمیز کو دیکھا۔۔۔ میزکودیکھا اور پھرماں کو۔ ” میرا نارنگی کاجوس، پین کیک اورگرم چائے کہاں ہے، ماں؟“
” آج ہم پختونی کھانا کھائیں گے۔ آپ کو پتہ ہے کیا بجا ہے؟“ سعدیہ نےماں کے بجائے ہنس کر جواب دیا۔
” بہت سے پختون دن میں صرف دو دفعہ کھاتے ہیں۔گیارہ بجےدوپہرکواور پھرمغرب کے بعد“۔ سعدیہ نے مجھ سے اس طرح کہا جیسےایک بچے کوسبق پڑھا تے ہیں۔
میں نےگھڑی میں وقت دیکھا۔گیارہ بجے تھے۔
میں نےماں سے کہا”۔ اس لڑکی کو کیا بیماری لگی ہے؟“
ماں نے کہا”۔ بیٹا تم کھا کرتودیکھو۔ تم کو پسند آئےگا اور آج چائے کی جگہ قہوہ بنایا ہے“۔
میں نےاپنی رکابی اِن لوازمات سے بھری، چھری اورکانٹا اٹھانے کے لیے بڑھا توسعدیہ جلدی سے بولی“۔ نہیں بھیا پختون ہاتھ سے کھانا کھاتے ہیں“۔
میں غُرایا۔”خدا ایسی بہن صرف مجھ ہی کودے“۔
میں نے اباجان سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ اگرمیرا بس چلے تومیں اس بہن کو تکیوں سےاتنا ماروں کہ یہ رو دے اور میں کرسی پر بیٹھ گیا“۔
سعدیہ اُٹھ کر میرے پاس آئ اور پیچھے سےگلےمیں باہیں ڈال کر کہا۔ ” بھائ جان۔ آئیندہ میری چٹکی بہت زیادہ تکلیف دہ ہوگی“۔ اس نے جھک کرمیرے سر پر پیار کیا اور واپس جا کراپنی کرسی پر بیٹھ گئ۔
ا باجان نے کہا۔ ” میں نے تمہاری گل کی داستاں پڑھی۔ تم نےاس کو لکھ کرسکینہ اور سعدیہ کوتوخوش کردیا۔ مگر میں تم سے یہ پوچھتا ہوں کہ تم اپنی دوسری بہنوں کو اس ظلم سے کس طرح نجات دلاؤگے“۔
” ابا جان سعدیہ اور میں نے اس پرگھنٹوں بحث کی ہے، پچاس سال سے پختون ، پاکستان اور صوبۂ سرحد کی حکومتیں اس مسئلہ پرکام کر رہی ہیں مگر یہ مسئلہ حل ہونے کے بجائے اور بھی خراب ہورہا ہے ہم دونوں اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ یہ لوگ اس مسئلہ کی بنیاد کو سمجھنے سے قاصِر ہیں“۔
” وہ کیسے؟ “ ماں نے پو چھا۔
” کسی بھی مسئلے کو حل کرنے سے پہلے اس کی صحیح وجہ کا جاننا ضروری ہے“۔ میں نے سوچتے ہوئے کہا۔
” غلط وجہ متعین کریں اورآپ غلط راہ پر چل نکلیں گے“۔ سعدیہ نے میرا جملہ مکمل کیا۔
” ہماری سوچ یہ ہے کہ یہ مسئلہ عورتوں کا ہے۔ عورتیں ہی اس مسئلہ کو حل کرسکتی ہیں“۔
سعدیہ نے بات جاری رکھی۔
” اس لیے میں سعدیہ کے ساتھ اس پرکام کروں گا“۔ میں کہا۔
” ہم نےاس مسئلہ کا مکمل تجزیہ کیا ہے اور اس تجزیے کو لکھا ہے۔ آپ دونوں کے لیے میں نےاس کی نقل بھی بنائ ہیں۔ ابھی ہم آپ کو صرف اس کا نتیجہ بتاتے ہیں“۔ سعدیہ بولی۔
مسئلہ کیا ہے؟“ میں نے سعدیہ سے پوچھا۔
”عورتوں پر ظلم ، ان کی بے حرمتی، ان سے زنا بالجبر، ان کا بدل ، سوارہ“۔
کیونکہ یہ مسئلہ اسلامی بھی ہے اس لیے یہ مسئلہ بین الاقوامی طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن ہمارا فوری سُروکار گُل اور اس کی تقربیاً آٹھ کروڑ پختون بہنیں ہیں“۔
” اس مسئلہ کے مرکزی کردارکون ہیں؟“ میں نے سعدیہ سے پوچھا۔
پختون کی بیٹیاں۔ مرکزی مظلوم
غیر مرکزی مظلوم، پاکستان کی اوراسلام کی بیٹیاں “۔ سعدیہ کی آواز میں درد تھا۔
” پاکستان کی اوراسلام کی بیٹیاں اس لئےغیرمرکزی ہیں کیونکہ پاکستان میں سینکڑوں پڑھی لکھی عورتیں ان کے مسئلہ پر کا م کررہی ہیں“ ۔ سعدیہ نے کہا۔
” مگر پختونخواہ کی پڑھی لکھی لڑکیوں کی توجہ اس طرف نہیں ہے۔ میں نے انٹرنیٹ پرریسرچ کی مگرایک بھی پختون کی مشہور پڑھی لکھی لڑکی نہیں ملی“۔ سعدیہ نے ہا۔
” جن پختون عورتوں نے اعلٰی تعلیم حاصل کی ہے وہ یا تو گھر بیٹھی ہیں یا حکومت پاکستان کے لیے کام کررہی ہیں“۔
مرکزی ظالم پختون کا مرد
اور غیر مرکزی پاکستان اور اسلام کا مرد ہے“۔
اماجان نے سوال کیا”۔ ظلم کی وجہ؟
” پہلی اور اہم وجہ
پختون قوم کے پرانے رسم و رواج۔ ان رسم و رواج کا مجموعہ پختون ولی کہلاتا ہے۔
” دوسری وجہ
شریعہ اور اسلامی قانون کی غلط تفسیر اور
” تیسری وجہ
حدود ارڈینینس قانون جوکہ عورتوں کےحقوق کومارتا ہے۔ ان کےساتھ نا انصافی اور ذیادتی کرتا ہے“۔
میں نے کہا۔” غُربت اور بےعلمی“۔
” سعدیہ نے کہا۔ غربت اور بے علمی ظلم کو کرنے کی بنیادی وجہ نہیں ہیں۔ فارغ البالی اور تعلیم سے مدد ملے گی لیکن مسئلہ حل نہیں ہوگا“۔
” کیا اور بھی وجوہ ہیں؟“
” بڑھتی ہوئ آبادی ، بےکاری ، جرائم، نشہ ، بچوں کی مزدوری ، بڑھاپا، رشوت ستانی، پرانی رسموں کی حفاظت اور مقامی علاقائ مفاد“۔
” کیا ان دوسرے مسئلوں کو حل کرنے پرکام ہو رہاہے؟“
” ہاں ، ناں گورنمینٹل ایجینسیز۔انٹرنیشنل سوشل ریلیف ایجینسیز۔ یو-این ، حکومتِ صوبہ سرحد کے مختلف شعبے، حکومتِ پاکستان کے مختلف شعبے ان مسائل کی اصلاح میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن رسم و رواج ، شریعہ اور اسلامی قانون کی غلط تعمیل، پاکستان کا حدود اورڈینیس ان مسئلوں میں ان کے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں اور وہ بنیادی مسئلہ کو حل نہیں کرسکتے “۔
” ہمارے خیال میں یہ مسئلہ اُس وقت تک حل ہوسکتا جب پختون لڑکیاں اس میں حصہ لیں اور خاص طور پرپختون زادیاں ، ملک زادیاں اور پڑھی لکھی پختون عورتیں بھی حصہ لیں”ہم دونوں نے یکجا ہوکرکہا“۔
ناشتہ کے بعد ابا جان نے ماں سے کہا“۔ چلو شیری، ہم ان کے تجزیے کا مطالعہ کرتے ہیں“۔
میں نے بھائ جان سے کہا“۔ بھیا آپ مجھےگاڑی میں اسکول پر چھوڑ دیں؟“
اچھا”۔ توچلو ، ورنہ میں لیٹ ہو جاؤں گا“۔
 

تفسیر

محفلین

تعمیل کا منصوبہ

شام کی چائے پرہم لوگ پھر جمع ہوئے۔ مسئلہ کی تشخیص ہوچکی تھی۔ حل کی نشان دہی بھی ہو چکی تھی۔ اب سوال پختون کی خان زادیوں اور ملک زادیوں کی تعلیم اور ٹرینینگ کرنے کے منصوبے کا تھا۔ مگر اس سے پہلےسعدیہ اور مجھے بھی ابا جان سے کامیابی کے اصول اور اماں جان سے تنظیم کا سلیقہ سیکھنا تھا۔ ہمارا طریقِ کار یہ بنا کہ سعدیہ ہمارے مقاصد کو صاف کرے گی۔ اباجان مختلف نشستوں میں کامیابی کے اصولوں کا جائزہ لیں گے اوراماں جان ہمیں پھر معاشی فلاح و بہبود ، پختونخواہ کی تاریخ اور رسم و رواج سے، اسلام کے اصول ، فقہ اور حدیث، اسلام کے بہبودِ عامہ کے ادارے ، سیاست، سائکولوجی کی تعلیم دیں گیں تاکہ ہم اس علم کو اپنے مقصد کے حصول کے لیے استعمال کریں۔ میں سعدیہ کی مدد کروں اور سعدیہ اور سکینہ دوسری پختون اور پاکستان کی لڑکیوں کی مدد سے اس حل کو عملی جامہ پہنائیں گی۔

سعیدہ کیونکہ صرف 15سال کی ہے اس لیے اس کی شخصیت کو چھپانے کے لیے وہ ’ افغانہ ‘ کہلائےگی۔ اباجان بولے۔ بیٹا اس ظلم کوجو پختون مرد ، آٹھ کروڑ پختون عورتوں پر رسم و رواج کےنام پر کر رہے تعلیم یافتہ پختون لڑکیوں کوختم کرنا ہوگا ۔“

ابا جان نے سعیدہ سے پوچھا”۔ اس کے حل کے متلعق تم نے سوچا ہے“۔

سعد یہ اٹھ کر اباجان کے پاس گئ اوران کےگلے میں باہیں ڈال کرکہا”۔ ابا جان آپ کو پتہ ہے نا ہم اس صبح کیوں جمع ہوئے ہیں کہ آپ ہم کو اس کے جواب کو تلاش کرنے میں مدد دیں گے“۔

اباجان نے کہا۔” لیکن تمہیں اس کے حل کا علم ہے”۔

” اچھا۔ وہ کیسے؟“

اباجان نے ماں سے مسئلہ کی تشخیص کو پھر سے دُ ہرانے کو کہا۔اور سعدیہ سےکہا کہ ماں کو غور سے سنے۔

اماں جان نے کہا۔


۔” اس ظلم کو جو پختون مرد ، آٹھ کروڑ پختون عورتوں پر رسم و رواج کے نام پر کر رہے ہیں تعلیم یافتہ پختون لڑکیوں کو ختم کرنا ہوگا“۔

ماں نے کس چیز کو تبدیل کرنے کا اشارہ کیا ہے۔

” رسم و رواج کو بدلناہے“۔ سعدیہ نے فوراً جواب دیا۔

” کیا ہم پختون ولی کے تمام رسم و رواج چھوڑ دیں؟“ اباجان نے مجھ سے پوچھا۔

” نہیں ، صرف ’ فرسودہ رسم و رواج‘ کو بدلناہے کیوں کہ پختون ولی میں اچھے رسم و رواج بھی ہیں“۔ میں نے کہا۔

” اس کام کی ذمہ داری کس کی ہے؟“

” پختون تعلیم یافتہ لڑکیوں کی“ میں نے کہا۔

اباجان نے سعدیہ سے یہی سوال کیا“۔ اس کام کی ذمہ داری کس کی ہے؟“

سعدیہ نے کہا۔” جب ہم میں سے کسی ایک ملک ، نسل، یا فرقہ پر ظلم ہوتا ہے تو انسان ہونے کی حیثیت سے ہم سب پرلازم ہے کہ اپنے آسائش سے باہر نکلیں اور اس کےخلاف احتجاج کریں۔ یہ میری ذمہ داری ہے یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔ یہ پاکستان کی عورتوں کی ذمہ داری ہے۔یہ ہر عورت کی ذمہ داری ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر یہ مظلوم کی ذمہ داری ہے کہ خود بھی اس کےخلاف احتجاج کرے۔ خاص طور پر پختون تعلیم یافتہ لڑکیاں ان کے بغیر یہ کام نہیں ہوسکتا“۔

اباجان نے مجھ سے سوال کیا۔” بیٹا، جب تم ان پختون خانزادیوں اور ملک زادیوں سے مسینجر پر بات کرتے ہو تو وہ کیا کہتی ہیں؟”

” اباجان، ہماری شہزادیاں بھی رسم و رواج کے ظلم کا شکار ہیں۔ لیکن ان کو بہتر سہولتیں عطا ہیں اور ان کی زندگی ان کی بہنوں سے بہتر ہے۔ یہ عطائیں اُن کی توجہ کو اس مسئلہ سے دور رکھتے ہیں۔ مثلاً ان میں سے کچھ کوشش کے بعد تعلیم حاصل کرسکتی ہیں۔ کوشش کے بعد ان میں سے کچھ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ استعمال کرسکتی ہیں۔ان کی شادی ہم عمرکزن سے ہوگی۔ جو ان ہی کی طرح تعلیم یافتہ بھی ہوگا۔ نتیجہ یہ ہے کہ ان کے لیے زندگی ذرا اچھی ہے“۔

” مگر ان کے دوسرے مسئلے وہی ہیں جس کا شکار ہر پختون عورت ہے“۔

ابا جان نے سعدیہ سے پوچھا کہ کیا اب تم کواس مسئلے کا جواب معلوم ہوا؟

سعدیہ نے کہا ہاں ہم کو پختون تعلیم یافتہ لڑکیوں کوخود مختار کرنا ہوگا۔

اماں جان نے اپنے نوٹس میں دوسرے پوائنٹ کا اضافہ کیا۔

1۔ اس ظلم کو جو پختون مرد، آٹھ ملین پختون عورتوں پر رسم و رواج کے نام پر کر رہے ہیں تعلیم یافتہ پختون لڑکیوں کو ختم کرنا ہوگا۔

2۔ ہم کو پختون تعلیم یافتہ لڑکیوں کوخود مختار بنانا ہوگا۔

میں نے ہنس کر سعدیہ سے پوچھا۔” لڑکیوں کو خود مختارکرنے کا مطلب ہوا کہ مردوں کی کِشتی ڈوب جائےگی“۔

سعدیہ نےماں سے کہا۔” اماں میں نے کہا تھا نا آپ سے کہ میرے بھائ جان بالکل بدھو ہیں۔ آپ اب خود سے دیکھ لیں“۔
اماں جان نے توجہ کومسئلہ کی طرف لاتے ہوئے کہا۔

” اختیاری ، اخذ کی ہوئ چیزوں پر احتراز کرتی ہے۔

اختیاری بنیادی ، امرِ قیاسی، طاقت، ا مداد ، حصول اورکامیابی کے بارے میں ہماری رائے کو بدلتی ہے۔

اختیاری کے حاصل کرنے سے مرد اور عورت کے درمیان ’ توازنِ طاقت‘ برابر ہوجاتا ہے اور عورت کی ’ قوت‘ بڑھتی ہے۔
اباجان نے کہا۔ اختیاری دو درجوں پر کام کرتی ہے۔ انفرادی اور مجموعی۔

انفرادی اختیاری، پختون عورتوں کو خود اعتمادی د ےگی۔

مجموعی اختیاری، پختون عورت کو پختونخواہ میں ایک سیاسی قوت بنا ئے گی۔پختون عورتوں کواپنے شعور کو بلند کرناہوگا۔اجتماعیت سیکھنی ہوگی۔ منظّم ہونا ہوگا۔

اماں نے اپنے نوٹس میں تیسرے اور چوتھے پوائنٹ کا اضافہ کیا۔

1۔ پختون تعلیم یافتہ لڑکیوں کووہ ظلم ختم کرنا ہوگا جو پختون مرد آٹھ میلین پختون عورتوں کے اوپر رسم و رواج کے نام پہ کر رہے ہیں۔

2۔ پختون تعلیم یافتہ لڑکیوں کو خود مختار بنانا ہوگا۔

3۔ انفرادی طو رپر پختون عورتوں کو خود اعتمادی پیدا کرنی ہوگی مجموعی طور پر پختون عورت کو پختونخواہ میں ایک سیاسی قوت بنانا ہوگا۔

4۔ پختون تعلیم یافتہ لڑکیوں کواپنے شعور کو بلند کرناہوگا۔ منظّم ہونا ہوگا۔

ماں نے کہا مجھے معاشی فلاح و بہبود کا تجربہ ہے۔ پختونخواہ کی تاریخ اور رسم و رواج سے واقف ہوں۔ اسلام کے اصول ، فقہ اور حدیث، اسلام کے بہبود کے ادارے ، سیاست، سائکولوجی، تعلیم سے بھی وا قفیت ہے۔

سعدیہ نے کہا۔ میں گل کے سپاہیوں کی سردارنی ہوں۔ میں خان زادیوں اور ملک زادیوں کا ذریعہ اور وسیلہ ہوں۔
اور تم بھائ جان؟

” میری قابلیت کمپیوٹر کا استعمال ہے گراس رُوٹ اورگینیشن بنانے میں ہے۔اور میں تمہارا اکلوتا "سکینڈ اِن کمانڈ" ہوں“۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔

” وہ کیوں بھیا؟“

” میں اس خان زادی سے پھر ملنا چاہتا ہوں“۔

” ہاں آپ کے خوابوں میں وہ بھی شاید“۔ سعدیہ نے قہقہہ ما رکر کہا۔

ابا جان نے کہا کہ میں’ کامیابی کے اصول‘ سے شروع کروں گا۔


سوچ
کے ساتھ
مقصدِ مقرر،
قائم مزاجی
اور
خواہشِ شدید
کو
شامل
کریں توا ِسکا نتیجہ
مکمل کامیابی
ہوتا ہے-


کامیابی کے عناصر :
یقین کا مل ،
تعلیم خصوصی ،
تصور ،
منظم منصوبہ بندی ،
فیصلہ ،
ماسٹر ماینڈ
ہیں
ہمارا پہلا اجتماع” سوچ” سے مطالق ہے ۔

اور ان اصولوں کا ایک ایک کر کے جائزہ لینا شروع کریں گے“ ۔ ابا جان نے کہا ۔

ہم لوگ کھا نے کے وقت ملیں گئے ۔
 

تفسیر

محفلین

سوچ ایک طریقہ ہے

کھانے کے بعد ہم سب کتب خانہ میں جمع ہوئے۔

اباجان اور اماں جان اپنی پسندیدہ آرام دہ کرسی پر بیٹھ گئے۔ میں نے اور سعدیہ نےصوفہ کا رخ کیا۔

جب ہم سب لوگ آرام سے بیٹھ گئے تو اباجان نے مجھ سے کہا۔ ” ایسا لگتا ہے کہ تم اور تمہاری بہن اتفاقاً اس مسئلہ سے آگاہ ہوئے جس نے تم کو ذہنی اور جذباتی طور پر دُکھ دیا ہے۔اوراب تمہاری بہن مسئلے کوحل کرنے کی ابتداء کرنا چاہتی ہے۔ سکینہ جب تم سے مخاطب ہوئ تو وہ جانتی تھی کہ اس مسئلے کو جاننے کے بعد تم اس سے جدا نہ ہوسکو گے۔کیا حقیقت میں یہ ایک اتفاق تھا؟ میں تم کو اس کا خود فصیلہ کرنےدوں گا۔ میرا کام اب یہ ہے کہ تم کو بتاؤں کہ وہ کیاخصوصیات ہیں جو ایک شخص استعمال کرکے ہرمشکل میں اپنا راستہ دیکھ سکتا ہے اور وہ زندگی کی تمام مشکلات کو عبورکرکے اپنےعزیزخوابوں کو پورا کرتا ہے۔ جبکہ دوسرا شخص تمام کوششوں کے باوجود ناکام ہو جاتا ہے“۔

کمرے میں مکمل خاموشی تھی۔ اس خاموشی میں اپنے سانس کو سن رہا تھا۔

” سوچ ایک خیال ہے۔ جب اس سوچ میں مقصدِ مقرر ، قائم مزاجی اورخواہشِ شدید کو شامل کریں تو اس کا نتیجہ مکمل کامیابی ہے“۔ ابا جان نے کہا۔

” دماغ جو سوچتا ہے اوراُس سوچ پریقین رکھتا ہے تو دماغ اس سو چ کا وسیلہ حاصل کر لیتا ہے“۔

سعدیہ اٹھ کراباجان کے پاس گئ اوراُن کےگلے میں باہیں ڈال کرکہا۔

” اباجان آپ میری زبان میں بولیں نا۔ مجھ کوالفاظ تو سمجھ میں آگئے لیکن معنی سمجھ نہیں آئے“۔

اباجان نے کہا”تم یہاں میرے پاس بیٹھواور غور سے سنو“۔

بجلی کے بلب کا نام لو تو فوراً ایڈیسن کا خیال آتا ہے۔ایڈیسن کا کاروبار بہت بڑا تھا، ایڈیسن نے ہزارہا چیزیں ایجاد کیں۔ ان میں سے ایک ڈیکٹاٹینگ کی مشین بھی ہے۔

ایڈوین۔سی۔بارنیس ایک معمولی شخص تھا۔ اس کی آرزو تھی کہ ایڈیسن کے کاروبار کا حصہ دار ہوجائے۔ اس کی خواہش شدیداورمقررتھی۔ جب یہ خواہش، سوچ میں تبدیل ہوئ تواس کو دو مشکلات نظرآئیں۔ ایک اس کے پاس ریل کے ٹکٹ کوخریدنے کے پیسے نہ تھے۔ دوسرے وہ ایڈیسن کونہیں جانتا تھا۔لیکن نہ صرف اس نے کسی نہ کسی طریقے سے ریل کا ٹکٹ خریدا بلکہ وہ ایڈیسن کے آفس میں پہنچ گیا۔

” میں آپکا شریکِ کاروبار بننا چاہتا ہوں“۔ بارنیس بولا۔

ایڈیسن نے ایک غیراہم شخص کو اپنے سامنے دیکھا۔ ایڈیسن عالم اور تجربہ کار تھا۔ اس نےدیکھا کہ بارنیس اپنےارادے کا پکا ہے۔اور یہ آسانی سے نہیں جائے گا اوراس وقت بارنیس اس قابل نہیں جو وہ چاہتا ہے۔ ایڈیسن نے بارنیس کو اپنے آفس میں ایک معمولی سی نوکری دے دی۔ کئ سال گزرے، بارنیس آفس میں سیلزمین کی باتیں سنتا اور اس سے سیکھتا تھا۔

جب ایڈیسن نے ڈیکٹاٹینگ مشین ایجاد کی۔تواس کے سلیزمین پُرجوش نہیں تھے ان کاخیال تھا کہ لوگ اس میں دلچسپی نہیں لیں گے اوراس کونہیں خریدیں گے۔ انہوں نے ڈیکٹاٹینگ مشین کو بیچنے میں بالکل دلچپسی نہ لی۔
بارنیس نے ایڈیسن سے درخواست کی وہ اس ڈیکٹاٹینگ مشین کو بیچنے کا کام کرنا چاہتا ہے۔ دوسرے تیار نہ تھے تو ایڈیسن نے بارنیس کو اجازت دے دی۔ بارنیس نے اپنی جان کی بازی لگادی اور ان اصولوں کو استعمال کیا جو اس نےاس آفس میں سنے اور سیکھے تھے۔ وہ کامیاب ہوا ، ایڈیسن نے اس کو پورے امریکہ میں ڈیکٹاٹینگ مشین کے کاروبار کا شریکِِ کار بنا لیا۔

” بیٹا سعدیہ۔ بارنیس ایڈیسن کا شریکِ کاروبار بننے میں کیوں کامیاب ہوا؟“

سعدیہ کہا”۔ اباجان اگر آپ نے مجھ کواس طرح پہلے بتایا ہوتا تو سمجھ گئ ہوتی۔ یہ تو بالکل صاف معاملہ ہے۔ بارنیس کی یہ خواہش کہ و ہ ایڈیسن کا شریکِ کاروبار بنے خواہشِ مقرر اور شدید تھی۔ وہ مستقل مزاجی اور اصرارِمسلسل سے اس لگن کو مکمل کرنےمیں لگا رہا۔ اس نے یہ نہیں سوچا کہ میں نہ تو انجینئیر ہوں اور نہ ہی میرے پاس شریکِ کاروبار بننے کے لیے سرمایہ ہے اور نہ ہی بیچنے کی تربیت ہے۔ اُس کو یہ لگن تھی کہ وہ ایڈیسن کا شریکِ کاروبار بنے“۔

اباجان نے مجھ سے پوچھا“۔ تمہارا کیا خیال ہے؟

” میرا خیال ہے کہ سعدیہ صحیح سمجھی۔اس سے ہم یہ سبق سیکھتے ہیں کہ خیالات کےغیرمحسوس بہاؤ کو مادی فائدے یا نتیجہ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے“۔

سعدیہ چلائ۔” اباجان میں نے یہ تو نہیں کہا۔ کیا میں نے یہ کہا ماں ؟“

ماں نے کہا۔ ” تم دونوں نے اس بات کو مختلف طر یقے سے دہرایا ہے۔ لیکن تم دونوں نے سمجھا ایک ہی طرح سے ہے۔ تم نے کہا خواہش۔ بھائ نے کہا غیرمحسوس خیال۔ تم نے کہا شدّت۔ بھائ نے کہا بہاؤ۔ تم نے کہا لگن۔ بھائ نے کہا فائدے یا نتیجہ “۔

” اب سوال یہ ہے کہ خیالات کے غیر محسوس بہاؤ یا خواہش کو ایک فائدے یا نتیجہ میں کس طرح تبدیل کیا جاسکتا ہے؟“۔

” اماں ہم کیوں نا اس گفتگو کو صبع ناشتہ پر جاری رکھیں۔ مجھے میری فرینڈ جنیفرکے ساتھ ایک فلم دیکھنا ہے“۔ سعدیہ نے ماں سے گزارش کی۔

ابا جان نے مسکرا کر کہا“۔ ٹھیک ہے“۔

” اچھا۔ لیکن جانے سے پہلے یہ بتاؤکہ سوچ کیاہے؟

” سوچ ایک خیال ہے اگر طریقۂ سوچ ، مقررمقصد ، قائم مزاجی اور شدیدخواہش کو یک جا کردیں تو اس کا نتیجہ کامیابی ہے“۔

” یہ میری بیٹی ہے“۔ اباجان نے فخرسے کہا۔
 

تفسیر

محفلین


خواہش
پاول گیٹی ، ایک بہت بڑی تیل کی کمپنی کا مالک تھا۔اس کی وفات اُنیس سوچھہتر میں ہوئی۔ وہ دنیا کے بڑے امیرلوگوں میں سے تھا۔ وہ ایک ہمدردِ بنی نوعِ انسان ( فیلانتھروفیسٹ) بھی تھا۔ اس نے کروڑوں ڈالر انسان کی فلاح و بہبود کے لیے دئے۔ سانتامونیکا کے پہاڑوں میں گیٹی میوزیم ایک پہاڑی کے اوپر واقع ہے۔ ملاقاتی اس جگہ سے لاس اینجلس کے مختلف روپ دیکھ سکتا ہے۔ بحرالکاہل ، سان گِبرئل کے پہاڑ ، لاس اینجلس شہر کی شاہراہیں اور یونیورسٹی آف کیلی فورنیا ایٹ لاس اینجلس (اُکلا)۔ جب آپ پہاڑی کے نیچے پہنچتے ہیں تو دو کمپیوٹر کنٹرولڈ ٹرام اُوپر لے جانے کے لیے منتظر ہوتے ہیں۔ اوپری سطح پر سولہ ٹن کا ’ ٹراورٹین‘ کا پتھر ہے۔ یہ خاص طور سے اٹلی سے منگوایا گیا ہے۔ سیدھے ہاتھ پر ریسٹورانٹ ہے اور سامنے ’ برآمدہ ‘ ہے اس برآمدے سےگزرکر آپ کُھلےاحاطہ میں پہنچتے ہیں آپ کے سامنے وسطی باغ ہے۔ الٹے ہاتھ پرمیوزیم اور اس کے برابر میں ایگزیبیشن ہال ہے۔ سیدھے ہاتھ پر ریسرچ انسٹیٹیوٹ ہے۔ گیٹی میوزیم کے بنانے کی قیمت ایک ِبلیین ڈالر سے زیادہ ہے۔ گیٹی میوزیم میں بیسویں صدی سے پہلے کی یورپی مصوری، ڈرائنگ، مصودہ ( مصودہ لفظ سمجھ نہیں آیا کہ اس سے کیا مراد ہے۔ جویریہ)، مجسمے اور امریکہ کے اُنیسویں اور بِیسویں صدی کے فوٹوگراف ہیں۔آج یہاں رمبرانٹ کے ‘ آخری مذہبی صورتیں‘ کی نمائش لگی تھی۔

” ہم آج گیٹی کے میوزیم کو دیکھیں گے“۔ سعدیہ نے کہا۔

سعدیہ تم بھول گئیں کہ اباجان ہم سے ’ مقصد حاصل کرنے کے اصول‘ کے دوسرے قدم کا تذکرہ کرنے والے ہیں؟

ماں نے کہا۔ ”اور ناشتہ کا کیا ہوگا؟“

سعدیہ بولی۔ " اماں میں نے اس مسئلہ کوحل کرلیا"۔

” وہ کیسے؟“ ماں چونک گئ۔

” ہم گیٹی کی میوزیم میں جائیں گے وہاں ایک ریسٹورانٹ ہے جہاں پر آپ تیار کیا ہوا ناشتہ ڈبوں میں لے سکتے ہیں۔ وہاں ایک پکنک کی جگہ ہے۔ جہاں آپ تالاب کے نزدیک بیٹھ کر ناشتہ کر سکتے ہیں۔ وہ جگہ پُرسکون ہے اور آپ بیٹھ کر باتیں بھی کرسکتے ہیں“۔

اباجان نے سعدیہ سے پوچھا۔” تم آج ضرور جاناچاہتی ہو۔ یا تمہاری خواہش ہے کہ آج جاؤ۔ یا صرف یہ اچھا ہوتا کہ آج تم جاتیں“۔

سعدیہ بڑی ہوشیار ہے۔ وہ سمجھ گئ کہ اباجان اس کی مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔

سعدیہ نے کہا ۔” ابا جان میں آج ضرور جانا چاہتی ہوں“۔

اباجان نے میری طرف دیکھا اور کہا سعدیہ نے’ آرزو‘ اور’ خواہش‘ کے بجائے ’ چاہنا ‘ کیوں استعمال کیا۔ میں نے کہا۔ اگر ہم ان الفاظ کو ’ ضرورت‘ اور ’ مقصد‘ کے لحاظ سے دیکھیں تو سب سے چھوٹا درجہ آرزو کو دیں گے۔آرزو سب سے کمزور ہے اور چاہت سب سے مضبوط ۔ چاہت کے لیے جس چیز کی کمی ہوتی ہے، اس چیز کو حاصل کرنے کی لگن۔ انسان کے دل میں کوئ چیز ہے جو اس چاہت کو حاصل کرنے کے لیے اُ کساتی ہے۔

اباجان نے ہنس کرکہا۔” بیٹا تم صحیح کہتے ہو“۔

میں نے سعدیہ کا جملہ دُہرایا۔” اباجان میں آج ضرور جانا چاہتی ہوں“۔

سعدیہ نے اس جملے میں دوا لفاظ ایسے استمال کیے ہیں جو اس کے ارادہ کومقرر اور شدید کرتے ہیں۔

” سعدیہ بیٹا وہ کیا ہیں؟“

” آج اور ضرور“ سعدیہ نے کہا۔

سعدیہ کیا چا ہتی ہے؟

گیٹی کے میوزیم میں جانا۔

کب جانا چاہتی ہو؟ “

” آج“

”اس چاہت کو کونسا لفظ "شدید" کرتا ہے؟“

” ضرور“

اباجان نے کہا۔ ”میں تم کو اب ایک سچی کہانی سناتا ہوں“۔

بہت عرصہ پہلے ایک مشہور مسلمان سپہ سالارکو ایک مشکل فیصلہ کرنا پڑا جو اس کو جنگ میں کامیاب کردےگا۔ وہ اپنی فوجوں کوایک ایسے دشمن سے لڑنے کے لیے لے جا رہا تھا جس کی فوجیں تعداد میں اس کی فوجوں سے کئ گنا بڑی تھیں۔ اُس نے اپنے سپاہیوں کوکشتیوں میں سوار کیا اورکشتیوں کو اسلحہ سے لاد دیا۔ جب وہ دشمن کے ملک پہنچا تواس نے کشتیاں جلانے کا حکم دے دیا جو ان سپاہیوں کووہاں لائ تھیں۔اُس نے اپنے بہادروں سے کہا۔ ” تم اُن کشتیوں کو جلتا دیکھتے ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس جنگ کو جیتے بغیر ہم زندہ واپس نہیں جا سکتے۔ جیتو یا مرجاؤ“ ۔ سپہ سالارطارق بن زیاد کواسپین فتح کرنے میں کامیابی ہوئ۔

ماں نے کہا”سعدیہ بیٹی کامیابی کی کنجی کیا ہے؟“

سعدیہ جلدی سے بولی”۔ میں نے ابھی تو ابو کے سوال کا جواب دیا تھا۔ اب تو بھیا کی باری ہے“۔

” سعدیہ کو اس سوال کا جواب نہیں پتہ“۔میں نے قہقہہ لگایا۔

” سوچ، مقرر، شدت“۔ سعدیہ نے اپنے کانوں کو پکڑ کر مجھے اپنی لمبی زبان دکھائ۔

جوکھوں اور عزیمت کے ارادوں میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اپنی کشتی کوجلادیتے ہیں۔اس کشتی کو جلانے کے عمل سے دماغ کو روحانی کیفیت ملتی ہے یہ کیفیت جیتنے کی چاہت پیدا کرتی ہے جوکہ کامیابی کے لیے بہت ضروری ہے۔

” جیتنے والا منزلِ مراد ( definiteness of purpose) عزمِ عالی شان ( burning desire ) اور مکمل علمِ چاہت (knowledge of what one wants ) کی خصوصیات کا مالک ہوتا ہے“۔
 

تفسیر

محفلین

یقین و ایمان


“ ایمان تم جنت میں لے جائےگا اورایمانِ کامل جنت کو تمہارے پاس لائے گا” ۔



ہم لوگ Self Realization Fellow Ship at Lake Shrine کے باغیچے میں بیٹھے تھے۔ یہ
Pacific Coast Highway and Sunset Blvd کےکونے پر واقع ہے۔1950 میں پاراماہانس یوگاندا نے اسے شروع کیا۔ ہر روز لوگ اس خوبصورت سینکچوری کی زیارت کرنے آتے ہیں۔اس دس ایکڑ کے باغیچے میں ایک قدرتی چشمے سے بنی ہوئ جھیل ہے جس کے تین طرف اونچے پہاڑ ہیں۔ اس میں راج ہنس (سوان) اور بطخیں تیرتی ہیں اور کنول کے پھول کھلتے ہیں۔ایک حصے میں دنیا کے اولین مذاہب کے احترام میں ا یک کورٹ بنایا گیا ہے۔ جس میں ہندو، بدھ ، یہودیت ، عیسایت، اور اسلام کی یادگاریں ہیں۔ ایک چھوٹی جگہ میں گاندھی کی متبرک راکھ بھی رکھی ہے۔

ہم نے ایک الگ سی جگہ تلاش کی اور چادر بچھا کر بیٹھ گئے۔ سعدیہ کو اس جگہ سے بہت محبت ہے اور جب کبھی بھی ہم آئے وہ ہمیشہ ماں سے ان کی شادی کا قصہ سننے پر اصرارکرتی ہے۔

” جب آپ پہنچیں تواباجان باہر پارکینگ لاٹ میں کھڑ ے آپ کا انتظار کررہے تھے“۔ سادہ نے پرجوش ہوکر کہا۔
ماں نے مسکرا کر کہا۔

” ہاں“۔

” اورانہوں نے آپ پر پروگرام تبدیل کروادیا جب کہ آپ اس سفید کشتی میں بیٹھ کریہاں آنا چاہتی تھیں۔

” ہاں“۔ ماں نے ہنس کر کہا۔

” ابا جان کو آپ کا انتظار یہاں کرنا تھا“۔

” ہاں“۔ ماں نے ہنس کر کہا۔

” ماں آپ نے سنہرے گنبد کے نیچے اس سفید محراب کے سامنے کھڑے ہوکر اباجان سے ساری زندگی ساتھ دینے کا وعدہ کیا“۔

” ہاں“۔ ماں نے کہا۔

” اور آپ چوبیس سال کی تھیں“۔ سعدیہ نے جوش میں کہا۔

” ہاں“۔ ماں نے کہا۔

” ماں۔ میں بہت خوش ہوں کہ آپ کو اباجان سے محبت ہوگی اور ان کو آپ سے“۔

” میں بھی“۔ماں نے کہا۔

” ابا جان۔ میں بہت خوش ہوں کہ آپ کو اماں سے محبت ہوگی اور ان کو آپ سے”۔

” ہاں بیٹا، میں بھی“۔اباجان نے ہنس کر کہا۔

سعدیہ نے وہی جملے دُہرائے جو کہ اس نے دسیوں دفعہ پہلے بھی دہرائے تھے۔

ماں اور سعدیہ نے پکنک کا باکس نکال کر کھانا میز پوش پر لگانا شروع کیا۔

میں اور اباجان جھیل کے کنارے پر چہل قدمی کرنے لگے۔

کھانے کے بعد اباجان نے کہا اب ہم اب ’ یقینِ کامل ‘ کا ذکر کریں گے۔

” یقینِ کامل دماغ کا کیمیاگر ہے۔ جب یقینِ کامل اورسوچ کی آمیزش ہوتی ہے۔ تو تحت الشعور ان کے مضطرب ہونے کو محسوس کر لیتا ہے اور اس کو روحانی برابری میں تبدیل کر دیتا ہے۔اور اس کو لا محدود حکمت میں منتقل کردیتا ہے۔ جس طرح کہ عملِ دعا ہے۔

تمام جذبات جو انسان کو فائدہ پہنچاتے ہیں ان میں یقین، لگن اور ہم آغوشئ جذبات سب سے زیادہ طاقتور ہیں۔ جب یہ تین ملتے ہیں تو خیالات کو اس طرح رنگ دیتے ہیں کہ خیالات ایک دم سے تحت الشعور میں پہنچ کر لامحدود حکمت سے جواب لاتے ہیں۔ ایمان ایک ایسی دماغی کیفیت ہے جو کہ لامحدود حکمت کو جواب دینے کی ترغیب دیتی ہے”۔ اباجان نے کہا۔

” اباجان ، میں تو صرف 15 سال کی ہوں۔ آپ مجھ سے اردو میں بولیں نا۔ یہ تو یونانی معلوم ہوتی ہے۔ ہے نا بھیا“۔سعدیہ بولی۔

” ہاں اباجان۔ سعدیہ صحیح کہتی ہے“۔ میں نے ماں کی طرف دیکھا۔ ماں نے میرا ساتھ دیا۔

اماں جان نے ہنس کر ابو سے کہا۔” بچوں کو کیوں ڈرا رہے ہو؟“

” تم ان سے یہ کیوں نہیں کہتے کہ ایمان ایک ایسا جذبہ ہے جس کو ایک ایسی دماغ اغرق ہو نے کی کیفیت کہہ سکتے ہیں جو ہم اظہار حلقی کے دہرانے سے پیدا کرسکتے ہیں”۔

ماں نے ہماری سمجھ کو سلجھانےکی ناکام کوشش کی۔

” بھائ جان، مدد یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں“۔ سعدیہ نے مجھ سے ہاتھ جوڑ کر کہا۔

میں نے کہا۔” ماں نے بتایا نا“۔

” ماں نے بتایا نا“۔ سعدیہ نے میری نقل اُتاری اور مجھےگھاس پردھکا دے دیا۔

” اچھا، اچھا۔ میں بتاتا ہوں“۔ اباجان نے کہا۔

” تبسم، تمہاری سہیلی پانچ وقت کی نماز پڑھتی ہے اور ہر نماز کا اختتام اللہ سے دعا مانگنے پر کرتی ہے”۔

” یہ تو مجھے پتہ ہے اور وہ ایک نیک مسلمان ہونے کی دعا مانگتی ہے۔ تو! “۔ سعدیہ نے حیرت سے کہا۔

” کیوں؟“ اباجان نے سعدیہ سے پوچھا۔

سعدیہ کے دماغ میں بجلی کی طرح خیال پیدا ہوا“۔ اقرار آرزو سے ایمان، اظہارحلقی۔وہ اپنے آپ سے ایک نیک مسلمان بننے کا اقرار کرتی ہے اور کم از کم دن میں پانچ دفعہ اس اقرار کو دہراتی ہے“۔

اباجان اگرآپ نے پہلے ہی تبسم کی بات کی ہوتی تو میں جلدی سمجھ جاتی۔

میں نے کہا " امی سعدیہ کو سیدھی سی بات کو سمجھنے میں بڑی دیر لگتی ہے"۔

سعدیہ نے ہاتھ بڑھا کر میرے بازو میں زبردست چٹکی لی۔" ہمholy shrine میں تھے۔ میں نے اپنی چیخ کو روک لیا" ۔
ابا جان نے کہا”۔” اگر آپ کسی بات کو بار بار دُہرائیں تو تحت الشعور اس پر یقین کرنے لگتا ہے“۔

سوچ کا جذباتی حصہ (ایمان و یقین) ، سوچ کو زندگی بخشتا ہے اور اس پرعمل کرنے پر اکساتا ہے۔یقین اور لگن کے جذبات یکجا ہوکرسوچ کو بہت بڑی قوت بنا دیتے ہیں۔

کسی چیز کو حاصل کرنے میں کامیابی کا پہلااصول اس چیز کی زبردست خواہش اور دوسرا اصول اپنی کامیابی کا یقین ہونا ہے۔
 

تفسیر

محفلین
.

آٹوسجیشن


سعدیہ بہت دنو ں سے کیلیفورنیا سائنس سینٹر جانا چاہتی تھی تاکہ وہ انسان کا اندرونی جسم3 ڈی فلم ایمیکس کے تھیٹرمیں دیکھے۔ ہم دونوں نے ہفتہ کو جانے کا پروگرام بنایا۔ امی اور اباجان کو ایکfund raising میں جانا تھا۔ ہم سب نے دوپہر کے کھانے پر ملنے کا پروگرام بنایا۔

یہ فلم زندگی کی حیرت انگیز کہانی دکھاتی ہے۔ جو اندرونی کام ، بلا ارادہ انسانی جسم میں ہر وقت جاری رہتے ہیں ان کی تفصیل عجیب اور خوبصورت انداز سے دکھاتی ہے۔

explotorium میں سینکڑوںexhibits دیکھنے کے قابل ہیں۔کھانے کا وقت قریب ہو رہا تھا۔ ہم نے سوچا کہ دوپہر کے کھانے کے بعد دو بارہ آکر دیکھیں گے۔ لیکن ایک اکزی بیٹ پر میری نظر پڑی اور میں نے سعدیہ کی توجہ اس طرف کی۔ دو اسپیکر پر دو مختلف گانے ایک ہی وقت میں بج رہے تھے اور گانے کی آواز ایک سیدھے ہاتھ کے اسپیکر سے آتی تھی اوردوسرے گانے کی آواز اُلٹے ہاتھ کے اسپیکر سے آتی تھی۔ جب آپ سیدھے ہاتھ کے اسپیکر کی طرف دیکھتے تو الٹے ہاتھ والے اسپیکر کا گانا پس منظر میں چلاجاتا۔ جب آپ الٹے ہاتھ والے اسپیکر کو دیکھتے تونے کی آواز اُلٹے ہاتھ کے اسپیکر سے آتی تھی۔

” بھیایہ جادو کی طرح ہے نا“۔ سعدیہ نے حیرت سے کہا۔

میں نے سعدیہ سے مذاق میں کہا۔ " یہاں اگر کوئ میرا دوست اتفاق سے مل جائے تو اس کو کو مت بتانا کہ تو میری بہن ہے“ ۔

” وہ کیوں بھائ جان“۔ سعدیہ نے بڑی مصومیت سے پوچھا۔

دل نے کہا خاموش، دماغ نے کہا موقع اچھا ہے۔ میں نے سعدیہ کے ہاتھ کے پہنچ سے دور ہوکر کہا۔

” کیوں کہ تو بیوقوف اور ایک گدھی ہے“ ۔

سعدیہ نے چٹکی بھرنے کے لیے ہاتھ بڑایا۔ لیکن ہاتھ میری کمرتک نہیں پہونچ سکا۔

” آپ بالکل الّو ہیں۔ میں گھر چل کر ایک ایسی چٹکی ماروں گی کہ آپ کوزندگی بھر یاد رہے گی“۔ میں نے قہقہہ لگا کر کہا۔ جب اتوار کو سب خاندان کے لوگ جمع ہوتے ہیں توہر شخص ایک دوسرے سے باتیں کررہا ہوتا ہے۔جب تم کزِن عایشہ سے ’ فیوزن’ بینڈ کے متعلق باتیں کر رہی ہوتی ہو تو کیا تم کو پتہ ہے کہ تمارے دوسری طرف کھڑے کزِن عمران اور کزِن سونیا کیا باتیں کررہے ہیں؟

” اگر میں ان کی طرف دیکھوں تو بتا سکتی ہوں۔ بھائ وہ تو یہی بات ہوئ جو ہم یہاں اسپیکر پر دیکھ رہے ہیں۔ یہ کوئ سمجھانے والا تو جواب نہیں ہوا۔ اب نہ صرف آپ الّو ہیں لیکن اب یہ بھی ثابت ہوگیا کی آپ گدھے بھی ہیں۔ یہاں اگر اتفاق سے میر ی کوئ سیہلی مل جائے تو دور چلے جایےگا۔ ورنہ مجھے تعارف کرانا پڑجائےگا“۔

” کیوں کیا تم اپنی سیہلی کا دنیا کے سب سے شکیل و جمیل، چنچل، فیاض، میٹھی باتیں کرنے والا اور ابھی تک غیرشادی شدہ بندے سے تعارف نہیں کراوگی؟“

” جی میں ان کو یہ سب بتاؤں گی اوراس تعریف کو اس طرح مکمل کروں گی کہ میرا بھائ نہ صرف الّو ہے بلکہ گدھا بھی ہے“۔ سعدیہ نے پیار سے کہا۔

” میری پگلی، دماغ ان آوازوں کو علیحدہ کرتا ہے۔ کان نہیں۔ لیکن سائنس نےاس کی میکانیت کو اب تک مکمل طور پر نہیں جانا ہے“۔

سعدیہ نے کہا”۔ بھیا۔ سچ بتائیں کیا آپ کو یہ جواب پتہ تھا؟“۔

میں نے ہنس کر کہا”۔ نہیں ، میں یہاں آنے سے پہلے اس نمائش کے بارے میں پڑھا تھا“۔

” بھائ جان آپ نہ صرف الّو اور گدھے ہیں لیکن بدھو بھی ہیں“۔

” وہ کیوں“۔ میں نےحیرت سے کہا۔

” اس لیے کہ میں آپ کی قابلیت سے متاثر ہوچکی تھی“۔

” میں نے کہامجھے یہ پتہ ہے تجھ کو متاثر کرنے کے لیے مجھےکچھ بھی نہں چاہیے اگر میں دنیا کا سب سے بڑا بے وقوف انسان بھی ہوتا تب بھی تو مجھ سے یہی کہتی کہ دنیا میں آپ سے بڑھ کر کوئ نہیں“۔

” بھائ جان۔ آپ کے خوابوں میں“۔ سعدیہ نے زبان د کھا کرکہا اور مجھ سے لپٹ گئ۔

میں سینکڑوں لوگوں کے درمیان منہ کھولے کھڑا تھا۔

اچانک اماں جان کی آواز آئ ۔ اب اس بھائی بہن کی محبت کو ختم کرو۔ تم لوگوں کو بھوک نہں لگی“؟

اباجان نے کھانا منگواتے ہوئے کہا”۔ آنکھیں ذہنی تصویر بناتی ہیں۔ دماغ سمعی حرکت کو آواز میں تبدیل کرتا ہے۔ اور ناک سے سونگھنا، منہ سے چکھنا اور ہاتھوں سے چھونا سب دماغ کے کام ہیں۔ حواسِ خمسہ سے دماغ کو ہدایات ملتی ہیں اور دماغ ان پر عمل کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں آپ اس کوخود بھی اس طرح کی ہدایات دے سکتے ہیں۔ آٹوسجیشن یا خود کو دئ ہوئ ہدایات بھی دماغ کے اسی حصے میں پہنچتی ہیں جہاں تحت الشعور کے خیالات پر دماغ عمل کرتا ہے“۔

” وہ غلبہ کرنے والے خیالات جن کو آپ شعور(consciousness) میں رہنے کی جان کر اجازت دیتے ہیں خواہ نفیہ negative) ہوں یا اثباتی (positive)، آٹوسجیشن (خود کو ہدایت دینا) کی میکانیت اُن خیالات کو رضا کارانہ طور پرتحت الشعور (sub-consciousness) میں جانے دیتی ہے۔ اللہ تعالٰی نے انسان کو ان خیالات پرمکمل اختیار دیا ہے۔ یہ انسان پر ہے کہ انسان اس کو اچھے کاموں کے لیے یا بُرے کاموں کے لیے استعمال کرے۔ اگر آپ کی کوئ خواہش ہے توانتظار نہ کریں کہ جب میرے پاس مکمل معلومات اور ذرائع ہوں گے تب ہی میں اس کام کو شروع کروں گا۔ اس کے حل کو تحت الشعور سے طلب کریں اور امید رکھیں کہ جواب آپ کے ذہن میں ایک بجلی کی طرح چھٹی حس کی وجہ سے چمکے گا۔ اس کو شاعر آمد، صوفی روحانی خیال اور خدا پرست آوازِ غیب کہتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے ہر بدبختی، کم بختی ، آفت ، مصیبت ، نحوست کا علاج اس کے ساتھ بھیجا ہے“۔

اباجان نے ہم سے سوال کیا۔” اللہ تعالٰی نے ہر انسان کوکتنے دماغ عطا کیے ہیں“؟

سعدیہ نے کہا۔” ایک۔ اللہ تعالٰی نے ہر انسان کوایک دماغ دیا ہے“۔

میں بولا۔ ” لیکن دماغ کو علمِ نفسیات میں کاموں کے لحاظ سے تین حصوں میں بانٹاگیا ہے۔

شعور، تحت الشعور اور لا شعور“۔

” تو ہم ان دماغ کے مختلف حصوں کو کس طرح اپنی کامیابی لیے استعمال کرتے ہیں؟“

” سوچ + مقرر مقصد + قائم مزاجی + شدیدخواہش = کامیابئ مکمل”سعدیہ نے جواب دیا۔

” آٹوسجیشن کے استعمال سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟” اباجان نے مجھ سے پوچھا۔

آٹوسجیشن کا استعمال ان خیالوں جن کو آپ شدت سے چاہتے ہیں، شعور سے تحت الشعور میں رضاکارانہ طور پر پہہنچا دیتا ہے“

خواہش < -- شدت < -- شدیدخواہش
(شعور) < -- ( آٹوسجیشن) < -- (تحت الشعور)
 

تفسیر

محفلین
خواہش
پاول گیٹی ، ایک بہت بڑی تیل کی کمپنی کا مالک تھا۔اس کی وفات اُنیس سوچھہتر میں ہوئی۔ وہ دنیا کے بڑے امیرلوگوں میں سے تھا۔ وہ ایک ہمدردِ بنی نوعِ انسان ( فیلانتھروفیسٹ) بھی تھا۔ اس نے کروڑوں ڈالر انسان کی فلاح و بہبود کے لیے دئے۔ سانتامونیکا کے پہاڑوں میں گیٹی میوزیم ایک پہاڑی کے اوپر واقع ہے۔ ملاقاتی اس جگہ سے لاس اینجلس کے مختلف روپ دیکھ سکتا ہے۔ بحرالکاہل ، سان گِبرئل کے پہاڑ ، لاس اینجلس شہر کی شاہراہیں اور یونیورسٹی آف کیلی فورنیا ایٹ لاس اینجلس (اُکلا)۔ جب آپ پہاڑی کے نیچے پہنچتے ہیں تو دو کمپیوٹر کنٹرولڈ ٹرام اُوپر لے جانے کے لیے منتظر ہوتے ہیں۔ اوپری سطح پر سولہ ٹن کا ’ ٹراورٹین‘ کا پتھر ہے۔ یہ خاص طور سے اٹلی سے منگوایا گیا ہے۔ سیدھے ہاتھ پر ریسٹورانٹ ہے اور سامنے ’ برآمدہ ‘ ہے اس برآمدے سےگزرکر آپ کُھلےاحاطہ میں پہنچتے ہیں آپ کے سامنے وسطی باغ ہے۔ الٹے ہاتھ پرمیوزیم اور اس کے برابر میں ایگزیبیشن ہال ہے۔ سیدھے ہاتھ پر ریسرچ انسٹیٹیوٹ ہے۔ گیٹی میوزیم کے بنانے کی قیمت ایک ِبلیین ڈالر سے زیادہ ہے۔ گیٹی میوزیم میں بیسویں صدی سے پہلے کی یورپی مصوری، ڈرائنگ، مصودہ ( مصودہ لفظ سمجھ نہیں آیا کہ اس سے کیا مراد ہے۔ جویریہ)، مجسمے اور امریکہ کے اُنیسویں اور بِیسویں صدی کے فوٹوگراف ہیں۔آج یہاں رمبرانٹ کے ‘ آخری مذہبی صورتیں‘ کی نمائش لگی تھی۔

” ہم آج گیٹی کے میوزیم کو دیکھیں گے“۔ سعدیہ نے کہا۔
سعدیہ تم بھول گئیں کہ اباجان ہم سے ’ مقصد حاصل کرنے کے اصول‘ کے دوسرے قدم کا تذکرہ کرنے والے ہیں؟
ماں نے کہا۔ ”اور ناشتہ کا کیا ہوگا؟“
سعدیہ بولی۔ " اماں میں نے اس مسئلہ کوحل کرلیا" ۔
” وہ کیسے؟“ ماں چونک گئ۔

” ہم گیٹی کی میوزیم میں جائیں گے وہاں ایک ریسٹورانٹ ہے جہاں پر آپ تیار کیا ہوا ناشتہ ڈبوں میں لے سکتے ہیں۔ وہاں ایک پکنک کی جگہ ہے۔ جہاں آپ تالاب کے نزدیک بیٹھ کر ناشتہ کر سکتے ہیں۔ وہ جگہ پُرسکون ہے اور آپ بیٹھ کر باتیں بھی کرسکتے ہیں“۔

اباجان نے سعدیہ سے پوچھا۔” تم آج ضرور جاناچاہتی ہو۔ یا تمہاری خواہش ہے کہ آج جاؤ۔ یا صرف یہ اچھا ہوتا کہ آج تم جاتیں“۔

سعدیہ بڑی ہوشیار ہے۔ وہ سمجھ گئ کہ اباجان اس کی مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔
سعدیہ نے کہا ۔” ابا جان میں آج ضرور جانا چاہتی ہوں“۔

اباجان نے میری طرف دیکھا اور کہا سعدیہ نے’ آرزو‘ اور’ خواہش‘ کے بجائے ’ چاہنا ‘ کیوں استعمال کیا۔ میں نے کہا۔ اگر ہم ان الفاظ کو ’ ضرورت‘ اور ’ مقصد‘ کے لحاظ سے دیکھیں تو سب سے چھوٹا درجہ آرزو کو دیں گے۔آرزو سب سے کمزور ہے اور چاہت سب سے مضبوط ۔ چاہت کے لیے جس چیز کی کمی ہوتی ہے، اس چیز کو حاصل کرنے کی لگن۔ انسان کے دل میں کوئ چیز ہے جو اس چاہت کو حاصل کرنے کے لیے اُ کساتی ہے۔

اباجان نے ہنس کرکہا۔” بیٹا تم صحیح کہتے ہو“۔
میں نے سعدیہ کا جملہ دُہرایا۔” اباجان میں آج ضرور جانا چاہتی ہوں“۔
سعدیہ نے اس جملے میں دوا لفاظ ایسے استمال کیے ہیں جو اس کے ارادہ کومقرر اور شدید کرتے ہیں۔
” سعدیہ بیٹا وہ کیا ہیں؟“
” آج اور ضرور“ سعدیہ نے کہا۔
سعدیہ کیا چا ہتی ہے؟
گیٹی کے میوزیم میں جانا۔
کب جانا چاہتی ہو؟ “
” آج“
”اس چاہت کو کونسا لفظ "شدید" کرتا ہے؟“
” ضرور“
اباجان نے کہا۔ ”میں تم کو اب ایک سچی کہانی سناتا ہوں“۔

بہت عرصہ پہلے ایک مشہور مسلمان سپہ سالارکو ایک مشکل فیصلہ کرنا پڑا جو اس کو جنگ میں کامیاب کردےگا۔ وہ اپنی فوجوں کوایک ایسے دشمن سے لڑنے کے لیے لے جا رہا تھا جس کی فوجیں تعداد میں اس کی فوجوں سے کئ گنا بڑی تھیں۔ اُس نے اپنے سپاہیوں کوکشتیوں میں سوار کیا اورکشتیوں کو اسلحہ سے لاد دیا۔ جب وہ دشمن کے ملک پہنچا تواس نے کشتیاں جلانے کا حکم دے دیا جو ان سپاہیوں کووہاں لائ تھیں۔اُس نے اپنے بہادروں سے کہا۔ ” تم اُن کشتیوں کو جلتا دیکھتے ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس جنگ کو جیتے بغیر ہم زندہ واپس نہیں جا سکتے۔ جیتو یا مرجاؤ“ ۔ سپہ سالارطارق بن زیاد کواسپین فتح کرنے میں کامیابی ہوئ۔

ماں نے کہا”سعدیہ بیٹی کامیابی کی کنجی کیا ہے؟“
سعدیہ جلدی سے بولی”۔ میں نے ابھی تو ابو کے سوال کا جواب دیا تھا۔ اب تو بھیا کی باری ہے“۔
” سعدیہ کو اس سوال کا جواب نہیں پتہ“۔میں نے قہقہہ لگایا۔
” سوچ، مقرر، شدت“۔ سعدیہ نے اپنے کانوں کو پکڑ کر مجھے اپنی لمبی زبان دکھائ۔

جوکھوں اور عزیمت کے ارادوں میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اپنی کشتی کوجلادیتے ہیں۔اس کشتی کو جلانے کے عمل سے دماغ کو روحانی کیفیت ملتی ہے یہ کیفیت جیتنے کی چاہت پیدا کرتی ہے جوکہ کامیابی کے لیے بہت ضروری ہے۔

” جیتنے والا منزلِ مراد ( definiteness of purpose) عزمِ عالی شان ( burning desire ) اور مکمل علمِ چاہت (knowledge of what one wants ) کی خصوصیات کا مالک ہوتا ہے“۔​
.
 

تفسیر

محفلین
.
یقین و ایمان

“ایمان تم کو جنت میں لے جائےگا اور ایمانِ کامل جنت کو تمہارے پاس لائے گا”۔​

ہم لوگ Self Realization Fellow Ship at Lake Shrine کے باغیچے میں بیٹھے تھے۔ یہ Pacific Coast Highway and Sunset Blvd کےکونے پر واقع ہے۔1950 میں پاراماہانس یوگاندا نے اسے شروع کیا۔ ہر روز لوگ اس خوبصورت سینکچوری کی زیارت کرنے آتے ہیں۔اس دس ایکڑ کے باغیچے میں ایک قدرتی چشمے سے بنی ہوئ جھیل ہے جس کے تین طرف اونچے پہاڑ ہیں۔ اس میں راج ہنس (سوان) اور بطخیں تیرتی ہیں اور کنول کے پھول کھلتے ہیں۔ایک حصے میں دنیا کے اولین مذاہب کے احترام میں ا یک کورٹ بنایا گیا ہے۔ جس میں ہندو، بدھ ، یہودیت ، عیسایت، اور اسلام کی یادگاریں ہیں۔ ایک چھوٹی جگہ میں گاندھی کی متبرک راکھ بھی رکھی ہے۔

ہم نے ایک الگ سی جگہ تلاش کی اور چادر بچھا کر بیٹھ گئے۔ سعدیہ کو اس جگہ سے بہت محبت ہے اور جب کبھی بھی ہم آئے وہ ہمیشہ ماں سے ان کی شادی کا قصہ سننے پر اصرارکرتی ہے۔

” جب آپ پہنچیں تواباجان باہر پارکینگ لاٹ میں کھڑ ے آپ کا انتظار کررہے تھے“۔ سادہ نے پرجوش ہوکر کہا۔
ماں نے مسکرا کر کہا۔
” ہاں“۔
” اورانہوں نے آپ پر پروگرام تبدیل کروادیا جب کہ آپ اس سفید کشتی میں بیٹھ کریہاں آنا چاہتی تھیں۔
” ہاں“۔ ماں نے ہنس کر کہا۔
” ابا جان کو آپ کا انتظار یہاں کرنا تھا“۔
” ہاں“۔ ماں نے ہنس کر کہا۔

” ماں آپ نے سنہرے گنبد کے نیچے اس سفید محراب کے سامنے کھڑے ہوکر اباجان سے ساری زندگی ساتھ دینے کا وعدہ کیا“۔
” ہاں“۔ ماں نے کہا۔

” اور آپ چوبیس سال کی تھیں“۔ سعدیہ نے جوش میں کہا۔
” ہاں“۔ ماں نے کہا۔
” ماں۔ میں بہت خوش ہوں کہ آپ کو اباجان سے محبت ہوگی اور ان کو آپ سے“۔
” میں بھی“۔ماں نے کہا۔

” ابا جان۔ میں بہت خوش ہوں کہ آپ کو اماں سے محبت ہوگی اور ان کو آپ سے”۔
” ہاں بیٹا، میں بھی“۔اباجان نے ہنس کر کہا۔
سعدیہ نے وہی جملے دُہرائے جو کہ اس نے دسیوں دفعہ پہلے بھی دہرائے تھے۔
ماں اور سعدیہ نے پکنک کا باکس نکال کر کھانا میز پوش پر لگانا شروع کیا۔
میں اور اباجان جھیل کے کنارے پر چہل قدمی کرنے لگے۔

کھانے کے بعد اباجان نے کہا اب ہم اب ’ یقینِ کامل ‘ کا ذکر کریں گے۔

” یقینِ کامل دماغ کا کیمیاگر ہے۔ جب یقینِ کامل اورسوچ کی آمیزش ہوتی ہے۔ تو تحت الشعور ان کے مضطرب ہونے کو محسوس کر لیتا ہے اور اس کو روحانی برابری میں تبدیل کر دیتا ہے۔اور اس کو لا محدود حکمت میں منتقل کردیتا ہے۔ جس طرح کہ عملِ دعا ہے۔
تمام جذبات جو انسان کو فائدہ پہنچاتے ہیں ان میں یقین، لگن اور ہم آغوشئ جذبات سب سے زیادہ طاقتور ہیں۔ جب یہ تین ملتے ہیں تو خیالات کو اس طرح رنگ دیتے ہیں کہ خیالات ایک دم سے تحت الشعور میں پہنچ کر لامحدود حکمت سے جواب لاتے ہیں۔ ایمان ایک ایسی دماغی کیفیت ہے جو کہ لامحدود حکمت کو جواب دینے کی ترغیب دیتی ہے”۔ اباجان نے کہا۔

” اباجان ، میں تو صرف 15 سال کی ہوں۔ آپ مجھ سے اردو میں بولیں نا۔ یہ تو یونانی معلوم ہوتی ہے۔ ہے نا بھیا“۔سعدیہ بولی۔
” ہاں اباجان۔ سعدیہ صحیح کہتی ہے“۔ میں نے ماں کی طرف دیکھا۔ ماں نے میرا ساتھ دیا۔
اماں جان نے ہنس کر ابو سے کہا۔” بچوں کو کیوں ڈرا رہے ہو؟“
” تم ان سے یہ کیوں نہیں کہتے کہ ایمان ایک ایسا جذبہ ہے جس کو ایک ایسی دماغ اغرق ہو نے کی کیفیت کہہ سکتے ہیں جو ہم اظہار حلقی کے دہرانے سے پیدا کرسکتے ہیں”۔

ماں نے ہماری سمجھ کو سلجھانےکی ناکام کوشش کی۔
” بھائ جان، مدد یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں“۔ سعدیہ نے مجھ سے ہاتھ جوڑ کر کہا۔
میں نے کہا۔” ماں نے بتایا نا“۔
” ماں نے بتایا نا“۔ سعدیہ نے میری نقل اُتاری اور مجھےگھاس پردھکا دے دیا۔
” اچھا، اچھا۔ میں بتاتا ہوں“۔ اباجان نے کہا۔
” تبسم، تمہاری سہیلی پانچ وقت کی نماز پڑھتی ہے اور ہر نماز کا اختتام اللہ سے دعا مانگنے پر کرتی ہے”۔
” یہ تو مجھے پتہ ہے اور وہ ایک نیک مسلمان ہونے کی دعا مانگتی ہے۔ تو! “۔ سعدیہ نے حیرت سے کہا۔
” کیوں؟“ اباجان نے سعدیہ سے پوچھا۔

سعدیہ کے دماغ میں بجلی کی طرح خیال پیدا ہوا“۔ اقرار آرزو سے ایمان، اظہارحلقی۔وہ اپنے آپ سے ایک نیک مسلمان بننے کا اقرار کرتی ہے اور کم از کم دن میں پانچ دفعہ اس اقرار کو دہراتی ہے“۔
اباجان اگرآپ نے پہلے ہی تبسم کی بات کی ہوتی تو میں جلدی سمجھ جاتی۔
میں نے کہا " امی سعدیہ کو سیدھی سی بات کو سمجھنے میں بڑی دیر لگتی ہے"۔
سعدیہ نے ہاتھ بڑھا کر میرے بازو میں زبردست چٹکی لی۔" ہمholy shrine میں تھے۔ میں نے اپنی چیخ کو روک لیا" ۔

ابا جان نے کہا”۔” اگر آپ کسی بات کو بار بار دُہرائیں تو تحت الشعور اس پر یقین کرنے لگتا ہے“۔

سوچ کا جذباتی حصہ (ایمان و یقین) ، سوچ کو زندگی بخشتا ہے اور اس پرعمل کرنے پر اکساتا ہے۔یقین اور لگن کے جذبات یکجا ہوکرسوچ کو بہت بڑی قوت بنا دیتے ہیں۔

کسی چیز کو حاصل کرنے میں کامیابی کا پہلااصول اس چیز کی زبردست خواہش اور دوسرا اصول اپنی کامیابی کا یقین ہونا ہے۔​
.
 

تفسیر

محفلین
.
آٹوسجیشن
سعدیہ بہت دنو ں سے کیلیفورنیا سائنس سینٹر جانا چاہتی تھی تاکہ وہ انسان کا اندرونی جسم3 ڈی فلم ایمیکس کے تھیٹرمیں دیکھے۔ ہم دونوں نے ہفتہ کو جانے کا پروگرام بنایا۔ امی اور اباجان کو ایکfund raising میں جانا تھا۔ ہم سب نے دوپہر کے کھانے پر ملنے کا پروگرام بنایا۔

یہ فلم زندگی کی حیرت انگیز کہانی دکھاتی ہے۔ جو اندرونی کام ، بلا ارادہ انسانی جسم میں ہر وقت جاری رہتے ہیں ان کی تفصیل عجیب اور خوبصورت انداز سے دکھاتی ہے۔

explotorium میں سینکڑوںexhibits دیکھنے کے قابل ہیں۔کھانے کا وقت قریب ہو رہا تھا۔ ہم نے سوچا کہ دوپہر کے کھانے کے بعد دو بارہ آکر دیکھیں گے۔ لیکن ایک اکزی بیٹ پر میری نظر پڑی اور میں نے سعدیہ کی توجہ اس طرف کی۔ دو اسپیکر پر دو مختلف گانے ایک ہی وقت میں بج رہے تھے اور گانے کی آواز ایک سیدھے ہاتھ کے اسپیکر سے آتی تھی اوردوسرے گانے کی آواز اُلٹے ہاتھ کے اسپیکر سے آتی تھی۔ جب آپ سیدھے ہاتھ کے اسپیکر کی طرف دیکھتے تو الٹے ہاتھ والے اسپیکر کا گانا پس منظر میں چلاجاتا۔ جب آپ الٹے ہاتھ والے اسپیکر کو دیکھتے تونے کی آواز اُلٹے ہاتھ کے اسپیکر سے آتی تھی۔

” بھیایہ جادو کی طرح ہے نا“۔ سعدیہ نے حیرت سے کہا۔

میں نے سعدیہ سے مذاق میں کہا۔ " یہاں اگر کوئ میرا دوست اتفاق سے مل جائے تو اس کو کو مت بتانا کہ تو میری بہن ہے“ ۔

” وہ کیوں بھائ جان“۔ سعدیہ نے بڑی مصومیت سے پوچھا۔

دل نے کہا خاموش، دماغ نے کہا موقع اچھا ہے۔ میں نے سعدیہ کے ہاتھ کے پہنچ سے دور ہوکر کہا۔

” کیوں کہ تو بیوقوف اور ایک گدھی ہے“ ۔

سعدیہ نے چٹکی بھرنے کے لیے ہاتھ بڑایا۔ لیکن ہاتھ میری کمرتک نہیں پہونچ سکا۔

” آپ بالکل الّو ہیں۔ میں گھر چل کر ایک ایسی چٹکی ماروں گی کہ آپ کوزندگی بھر یاد رہے گی“۔

میں نے قہقہہ لگا کر کہا۔ جب اتوار کو سب خاندان کے لوگ جمع ہوتے ہیں توہر شخص ایک دوسرے سے باتیں کررہا ہوتا ہے۔جب تم کزِن عایشہ سے ’ فیوزن’ بینڈ کے متعلق باتیں کر رہی ہوتی ہو تو کیا تم کو پتہ ہے کہ تمارے دوسری طرف کھڑے کزِن عمران اور کزِن سونیا کیا باتیں کررہے ہیں؟

” اگر میں ان کی طرف دیکھوں تو بتا سکتی ہوں۔ بھائ وہ تو یہی بات ہوئ جو ہم یہاں اسپیکر پر دیکھ رہے ہیں۔ یہ کوئ سمجھانے والا تو جواب نہیں ہوا۔ اب نہ صرف آپ الّو ہیں لیکن اب یہ بھی ثابت ہوگیا کی آپ گدھے بھی ہیں۔ یہاں اگر اتفاق سے میر ی کوئ سیہلی مل جائے تو دور چلے جایےگا۔ ورنہ مجھے تعارف کرانا پڑجائےگا“۔

” کیوں کیا تم اپنی سیہلی کا دنیا کے سب سے شکیل و جمیل، چنچل، فیاض، میٹھی باتیں کرنے والا اور ابھی تک غیرشادی شدہ بندے سے تعارف نہیں کراوگی؟“

” جی میں ان کو یہ سب بتاؤں گی اوراس تعریف کو اس طرح مکمل کروں گی کہ میرا بھائ نہ صرف الّو ہے بلکہ گدھا بھی ہے“۔ سعدیہ نے پیار سے کہا۔

” میری پگلی، دماغ ان آوازوں کو علیحدہ کرتا ہے۔ کان نہیں۔ لیکن سائنس نےاس کی میکانیت کو اب تک مکمل طور پر نہیں جانا ہے“۔

سعدیہ نے کہا”۔ بھیا۔ سچ بتائیں کیا آپ کو یہ جواب پتہ تھا؟“۔

میں نے ہنس کر کہا”۔ نہیں ، میں یہاں آنے سے پہلے اس نمائش کے بارے میں پڑھا تھا“۔

” بھائ جان آپ نہ صرف الّو اور گدھے ہیں لیکن بدھو بھی ہیں“۔

” وہ کیوں“۔ میں نےحیرت سے کہا۔

” اس لیے کہ میں آپ کی قابلیت سے متاثر ہوچکی تھی“۔

” میں نے کہامجھے یہ پتہ ہے تجھ کو متاثر کرنے کے لیے مجھےکچھ بھی نہں چاہیے اگر میں دنیا کا سب سے بڑا بے وقوف انسان بھی ہوتا تب بھی تو مجھ سے یہی کہتی کہ دنیا میں آپ سے بڑھ کر کوئ نہیں“۔

” بھائ جان۔ آپ کے خوابوں میں“۔ سعدیہ نے زبان د کھا کرکہا اور مجھ سے لپٹ گئ۔

میں سینکڑوں لوگوں کے درمیان منہ کھولے کھڑا تھا۔

اچانک اماں جان کی آواز آئ ۔ اب اس بھائی بہن کی محبت کو ختم کرو۔ تم لوگوں کو بھوک نہں لگی“؟

اباجان نے کھانا منگواتے ہوئے کہا”۔ آنکھیں ذہنی تصویر بناتی ہیں۔ دماغ سمعی حرکت کو آواز میں تبدیل کرتا ہے۔ اور ناک سے سونگھنا، منہ سے چکھنا اور ہاتھوں سے چھونا سب دماغ کے کام ہیں۔ حواسِ خمسہ سے دماغ کو ہدایات ملتی ہیں اور دماغ ان پر عمل کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں آپ اس کوخود بھی اس طرح کی ہدایات دے سکتے ہیں۔ آٹوسجیشن یا خود کو دئ ہوئ ہدایات بھی دماغ کے اسی حصے میں پہنچتی ہیں جہاں تحت الشعور کے خیالات پر دماغ عمل کرتا ہے“۔

” وہ غلبہ کرنے والے خیالات جن کو آپ شعور(consciousness) میں رہنے کی جان کر اجازت دیتے ہیں خواہ نفیہ (negative) ہوں یا اثباتی (positive)، آٹوسجیشن (خود کو ہدایت دینا) کی میکانیت اُن خیالات کو رضا کارانہ طور پرتحت الشعور (sub-consciousness) میں جانے دیتی ہے۔ اللہ تعالٰی نے انسان کو ان خیالات پرمکمل اختیار دیا ہے۔ یہ انسان پر ہے کہ انسان اس کو اچھے کاموں کے لیے یا بُرے کاموں کے لیے استعمال کرے۔ اگر آپ کی کوئ خواہش ہے توانتظار نہ کریں کہ جب میرے پاس مکمل معلومات اور ذرائع ہوں گے تب ہی میں اس کام کو شروع کروں گا۔ اس کے حل کو تحت الشعور سے طلب کریں اور امید رکھیں کہ جواب آپ کے ذہن میں ایک بجلی کی طرح چھٹی حس کی وجہ سے چمکے گا۔ اس کو شاعر آمد، صوفی روحانی خیال اور خدا پرست آوازِ غیب کہتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے ہر بدبختی، کم بختی ، آفت ، مصیبت ، نحوست کا علاج اس کے ساتھ بھیجا ہے“۔

اباجان نے ہم سے سوال کیا۔” اللہ تعالٰی نے ہر انسان کوکتنے دماغ عطا کیے ہیں“؟

سعدیہ نے کہا۔” ایک۔ اللہ تعالٰی نے ہر انسان کوایک دماغ دیا ہے“۔

میں بولا۔ ” لیکن دماغ کو علمِ نفسیات میں کاموں کے لحاظ سے تین حصوں میں بانٹاگیا ہے۔

شعور، تحت الشعور اور لا شعور“۔

” تو ہم ان دماغ کے مختلف حصوں کو کس طرح اپنی کامیابی لیے استعمال کرتے ہیں؟“

” سوچ + مقرر مقصد + قائم مزاجی + شدیدخواہش = کامیابئ مکمل”سعدیہ نے جواب دیا۔

” آٹوسجیشن کے استعمال سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟” اباجان نے مجھ سے پوچھا۔

آٹوسجیشن کا استعمال ان خیالوں جن کو آپ شدت سے چاہتے ہیں، شعور سے تحت الشعور میں رضاکارانہ طور پر پہہنچا دیتا ہے“

خواہش ِ < -- شدت < -- شدیدخواہش
(شعور) < -- (آٹوسجیشن) < -- (تحت الشعور)
.​
 

تفسیر

محفلین
.
تعلیمِ خصوصی

میں 101 Freeway سے Wilshire East پر نکلا اور پُل کے نیچے سےگزر کر پہلی ٹریفک لائٹ پر Westwood village کے لیے لفٹ ٹرن لیا۔ تین بلاک کے بعد ہم یونیورسٹی آف کیلی فورنیا ایٹ لاس اینجلس ( اُ کلا ) کے کیمپس میں داخل ہو رے تھے۔
اُکلا، امریکہ کی دس مشہور یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ جگہ میرے لیے دوسرا گھر ہے۔ اباجان اور اماجان نے یہاں تعلیم پائ اور یہاں ہی دونوں پہلی بار ملے اور اب اباجان یہاں فلسفہ پڑھاتے ہیں اور ماں نفسیات۔ میں بھی یہاں پڑھتا ہوں اور دو سال کے بعد سعدیہ بھی یہیں پڑھی گی۔ یہ میں کیوں بتارہا ہوں؟ اس لیے کہ یہ ہماری فیمیلی کی ’ یونی‘ بن گئ ہے۔

اُکلا کیلیفورنیا کی پبلک یونیورسٹی ہے۔ اس کی فیکلٹی کااسٹاف33 ہزار سے زیادہ ہے۔ ان میں سے 5 نوبل پرائزیا فتہ ہیں۔ 26 ہزار انڈر گریجویٹ طالب علم اور تیرہ ہزارگریجویٹ طالب علم ہیں۔ اس کی لائبریری میں سات ملین کتابیں ہیں۔ اس میں ایک سو چوہتّر بلڈنگ ہیں جو چار سو اُنیس ایکڑ پر پھیلی ہیں۔

آج ہم اباجان سے تعلیمِ خصوصی پر گفتگو کریں گے۔ اور اکلا کے علاوہ لاس اینجلس میں اور کس جگہ کو یہ امتیاز مل سکتا ہے؟ میں اور سعدیہ کیرکا ف ہال کے سیکنڈ فلور پر کھلے ہوئے برآمدے میں اباجان اور اماجان کا انتظارکررہے ہیں۔ یہ کیمپس کے درمیان تین منزلہ لال اینٹوں اور کنکریٹ کی خوبصورت بلڈنگ ہے۔ سعدیہ نے اوپر سے اباجان اور ماں کو آتے دیکھا۔ اس نے کہا چلو اندر کافی ہاؤس میں آرام سے بیٹھتے ہیں۔

جیسے ہی سب بیٹھے۔ماں نے ہم سب کے لیے گرم چائے اور کوراسانٹ( فرنچ پپڑی دار پیسٹری ) کا آرڈر دے دیا۔

” سعدیہ بیٹا تم تعلیم حاصل کررہی ہو“۔ اباجان نے کہا۔

سعدیہ نے کہا۔” جی جی“۔

” تم مجھے بتاؤ کہ تم مکمل تعلیم سے کیا مطلب سمجھتی ہو؟“

سعدیہ اس سوال کے لیے تیار نہیں تھی۔اس نے ہڑبڑا کر کہا۔” علم کو حاصل کرنا اور کسی ہنر کو سیکھنا “۔

اباجان نے مجھ سے کہا”سعدیہ نے کہا۔ علم کو حاصل کرنا۔ تم اس کا کیا مطلب سمجھے؟“

” علم کو جاننا“۔ میں نے کہا۔

” علم کو جاننااور سمجھنا دو مختلف درجے ہیں۔ علم کو بغیر جانے سمجھا نہیں جاسکتا اور علم کو بغیر سمجھے اس کا استعمال مشکل ہے“۔ اباجان نے کہا۔

” تعلیم اور ’ تعلیم کُلیت‘ میں امتیاز کرنا چاہیے ؟” سعدیہ نے کہا۔
” ہاں“۔ سعدیہ سمجھ گئ۔ اباجان نے مسکرا کر کہا۔

اباجان نے کہا ۔” سعدیہ کا جواب اچھا ہے۔ تعلیم یافتہ کہلانے کے لیے تین درجوں سےگزر نا پڑتاہے“ ۔

” وہ درجے کیا ہیں ابا جان؟“۔ میں نے حیرت سے پوچھا۔ میرے خیال میں سعدیہ کا جواب مکمل تھا۔

” ایک تعلیم کا حصول ، دوسرے تعلیم کا سمجھنا ، اور تیسرے تعلیم کا استعمال“۔ جب تک آپ تعلیم کو استعمال نہ کریں تعلیم پوری نہیں ہوتی“۔

” ایک قسم تعلیمِ عامہ کہلاتی ہے اور دوسری قسم تعلیمِ مخصوصہ“۔

تعلیم عامہ سے مراد ’ تعلیم کا حصول اوراس کو سمجھنا ‘ ہے۔ پروفیسر تعلیمِ عامہ کے ماہر ہوتے ہیں۔وہ تعلیم کو پیش کرتے ہیں۔ تعلیم کا استعمال، صحیح معنوں میں دولت کو کمانے میں نہیں کرتے۔

تعلیم مخصوصہ سے مراد ’ تعلیم کا استعمال‘ کسی مقصد کو حاصل کرنے میں۔ صنعت کار اس تعلیم سے دولت کماتا ہے۔

اباجان نے کہا۔ ” تعلیم صرف ایک صورتِ امکانی ہے۔ یہ اُس وقت ایک قوت بنتی ہے جب اس کو مقصد کے حصول کے لیے منظم کیا جاتا ہے ا ور اس کا رُخ مقرر خاتمہ کی طرف کیا جائے۔سینکڑوں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئ شخص اسکول نہ جائے تو وہ تعلیم یا فتہ نہیں ہے۔ ایجوکیشن ایک اٹالین لفظ ’ ایڈوکو‘ سے بنی ہے۔ جس کے معنی ’ اندر سےابھرنا ، انکشاف کرنا ‘۔ ضروری نہیں کہ تعلیم یافتہ شخص وہ ہو جس کے پاس تعلیم عامہ یا تعلیم مخصوصہ کی بہتاب ہے، تعلیم یافتہ شخص وہ ہے جس نے اپنے ذہن کو تربیت دی ہے۔ تعلیم یافتہ شخص کسی کا حق مارے بغیر ہر اس چیز کو حاصل کرلیتا ہے جو اس کو پسند ہے“۔

اباجان نے ا پنی بات کو جاری رکھا۔” میں تم کو ہنری فورڈ کا ایک واقعہ سناتا ہوں۔ جس نے امریکہ میں پہلی سستی، مضبوط اور کم خراب ہونے والی ماڈل ٹی کار بنائ۔ ہنری فورڈ ایک بہت مال دار شخص تھا۔ ایک دفعہ شکاگو کے ایک اخبا ر نے اس کو’ جاہل صلح پسند‘ کہا۔ فورڈ کو اپنے بارے یہ رائے زنی پسند نہیں آئ۔ فورڈ نے اخبار پر تحریر باعثِ ہتک کا مقدمہ کردیا۔ عدالت میں وکیلِ دفاع نے فورڈ سے کافی مشکل اور تفصیل وار سوال پوچھے۔تھوڑی دیر تک مسٹر فورڈ ان سوالوں کا جواب دیتے رہے۔ اس کے بعد ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ میری ڈیسک پر دسیوں الیکٹریک پُش بٹن ہیں، اگر مجھ کو اس سوال کا جواب چاہے ہوتا تو میں ایک بٹن کو دباؤں گا اور اس فیلڈ کا ایک ماہر میرے آفس میں اس کا جواب لےکر موجود ہوجائے گا۔ میں کیوں اپنے دماغ کو تعلیمِ عامہ سے بھردوں جب کہ میرے اردگرد ایسے لوگ موجود ہیں جو مجھ کو اس کے جواب سے آگاہ کر سکتے ہیں“۔

” سعدیہ بیٹی کیاعام تعلیم کے لیے تعلیم گاہ ضروری ہے“۔ ابا جان نے سعدیہ سے سوال کیا۔

” نہیں ابا جان۔ عام تعلیم کے لیے تعلیم گاہ جانا ضروری نہیں ہے“۔ سعدیہ نے مسکرا کر کہا۔

” بیٹا، تعلیمِ مکمل کیسے کہتے ہیں؟“

” ایک تعلیم کا حصول ، دوسرے تعلیم کا سمجھنا ، اور تیسرے تعلیم کا استعمال۔ جب تک آپ تعلیم کو استعمال نہ کریں تعلیم پوری نہیں ہوتی“۔ میں نے اباجان کے الفاظ دہرائے۔​
.
 

تفسیر

محفلین
.

تصور

” انسان ہر وہ چیز کرسکتا ہے جس کو وہ سوچ سکتا ہے“۔ اباجان نے کہا۔

” وہ کیسے؟“سعدیہ نے سوال کیا۔

ابا جان نے سوچ کو ایک کارخانے سے تشبیہ دی اور عقل و شعور کو ایک کمہار سے۔

” آپ سوچ کو ایک کارخانہ سمجھ لیں۔ اس کارخانے میں خواہش سے ہم منصوبے بنا تے ہیں اور جس طرح ایک کمہار چکنی مٹی سے مٹکا بناتا ہے اس طرح عقل و شعور ، خواہش کو شکل و صورت دیتی ہے۔ خواہش کو ایک راہ میں ڈھالنا ، گھڑنا اور منصوبے پر عمل ہونا دماغ کے عقل و شعور میں ہوتا ہے۔ انسان نےعقل و شعور کی مدد سے بیماریوں کا علاج دریافت کیےاور قدرتی قوتوں کو قابو کیا ہے ابا جان نے بتایا۔”سوچ دو طرح کی ہوتی ہے۔ اگر ہم پرانے قیاس، خیال، سوچ اور منصوبہ کے بنا پر کوئ نئ چیز پیدا کرتے ہیں تو یہ سوچ ، ترکیبی سوچ ہے“۔

” سوچ موجدہ میں الہامی خیال، تخلیقی تحریک اور آمد ہوتی ہے۔ انسان کا دماغ دوسرے انسانی دماغ سے رابطہ قائم کرلیتا ہے”۔اباجان نے دوسری سوچ کے متعلق بتایا۔

اباجان نے پوچھا۔” تم نے’ خطیب ڈاکٹر فرینک گن زاؤلس‘ کی کہانی سنی ہے؟ “

سعدیہ اور میں نے ایک ساتھ کہا۔” نہیں“۔

جب خطیب ڈاکٹر فرینک گن زاؤلس کالج کے طالب علم تھے انہوں نے اپنے کالج کے نظامِ تعلیم میں بہت سے نقص دیکھے۔اس نے سوچا کہ اگر وہ کالج کے منتظم ہوتے تو وہ ان کی اصلاح کر دیتے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک نیا کالج شروع کرے گا جس میں وہ اپنے منصوبوں کو بغیر پرانے رسمی طریقِ تعلیم کے نافذ کریں گے۔اس کام کو کرنے کے لیے ایک ملین ڈالر کی ضرورت تھی۔کہاں سے اتنی بڑی رقم ملے گی؟

خطیب تمام کامیابی کے اصول جانتا تھا۔ وہ جانتا تھاکہ مقصدِ مقرر سے کامیابی کی شروعات ہوتی ہے۔کوئ اور شخص اپنے آپ سے کہتا کہ یہ خیال تو اچھا ہے مگر میں کچھ نہیں کرسکتا کیوں کہ اس کام کے لیے ایک ملین ڈالر کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر ایسا دو سال سے سوچ رہا تھا۔ ایک سنیچر کی شام اس نے اپنے آپ سے کیا کہ دو سال سے میں دن رات اس کے متعلق سوچتا ہوں لیکن میں نے اس کے لیے کیا ،کیا ہے؟ ڈاکٹر نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ وہ ایک ہفتہ میں ا یک ملین ڈالر حاصل کرلےگا۔ جیسے ہی ڈاکٹر نے فیصلہ کیا کہ وہ اس رقم کو ایک ہفتہ میں حاصل کرے گا۔ ایک بھروسے اور یقین کی کیفیت اس پر طاری ہوگئ۔

اس نے فوراً مقامی اخباروں میں ایک اشتہار چھپوایا۔” اگر میرے پاس ایک ملین ڈالر ہوں تو میں یہ کروں گا“۔اس کے بعد اس نے بیٹھ کرایک خطاب لکھا۔ اس کو اپنے منصوبے کی ایک ایک بات پتہ تھی۔ جب وہ خطبہ گاہ پر پہنچا تو اس کو خیال آیا کہ اس جوش و جذبہ میں وہ اپنے وعظ کوگھر بھول آیا ہے۔اس نے اس خطبہ کو اپنی خوابوں کی روح اور دل سے دیا۔ اس نے کہا کہ وہ کس طرح سے ایک ملین ڈالرسے کالج کھولے گا جو نہ صرف لوگوں کو”درسی تعلیم”جو ان کے دماغوں کو روشن کرے بلکہ ’ ہُنر‘ کی بھی تعلیم دے گا۔

جب خطیب ڈاکٹر فرینک گن زاؤلس نے اپنا واعظ ختم کیا اور بیٹھ گئے۔ایک شخص سامعین میں سے منبر پر آیا اور ڈاکٹر سے ہاتھ ملا کر کہا۔ میرا نام فلیپ ارمر ہے اور مجھے تمہارا وعظ پسند آیا۔تم کل میرے آفس آؤ تو میں تم کو ایک ملین ڈالر دوں گا۔ ڈاکٹرگن زاؤلس دوسرے دن مسٹر ارمر کے آفس پہنچا۔ مسٹر ارمر نے ڈاکٹرگن زاؤلس کو ایک ملین ڈالر پیش کیے۔

آج اس کالج کا نام Illinois Institute of Technology ‘ ہے۔
” پہلے دو سال اور اس ہفتہ میں کیا فرق تھا؟“۔

” دیکھو ، جب خطیب ڈاکٹر نے فیصلۂ مقرر کیااور منصوبۂ مقرر بنایا تو 36 گھنٹے بعد اس کو اس کی خواہش کا صلہ ملا“۔
.

 

تفسیر

محفلین
.
منظم منصوبہ بندی​

اماں جان کو بوناوینچر ہوٹل میں ارگینائزیشن پرایک سلائیڈ پریزینٹیشن کرنی تھی۔ بوناوینچر ہوٹل کا شمار پانچ ستاری ہوٹلوں میں ہوتا ہے۔ یہ بہت خوبصورت پچیس منزلہ سلنڈریکل بلڈنگ ہے۔ تمام بیرونی کھڑکیاں سلور رنگ کی ہیں مگرشیشے کی بنی ہوئ ہیں۔یہ ہوٹل ڈاؤن ٹاؤن لاس اینجلس کے فائنینشل ڈسٹریکٹ میں ہے۔اس کا ریوالوینگ لا ؤنج اور روف ٹاپ اسٹک ہاؤس، ایل آئے پرائم سے آپ لاس اینجلس کا خوب صورت نظارہ کرسکتے ہیں۔میں نے appetizer کے لیےlobster briscuit اور Main course کے لیے Newyork Sirlion Steak اور desert کے لیے crème Brule آرڈرکیا۔ سعدیہ نے baked Oyster Rockefeller ، Chilean bass , tiramisu ۔ اماں اور اباجان نے oysters and seafood salad آرڈر کیا۔

” ہر چیز جو انسان بناتا ہے یا حاصل کرتا ہے وہ خواہش سے شروع ہوتی ہے“۔

خواہش کا پہلا قدم عدمِ وجود سے وجود میں تبدیل ہونا ، قوت متصورہ کے کارخانہ میں ہوتا ہے۔جہاں پر اس کی تبدلی کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔

دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔قائداورمعتقد۔ کچھ لوگ قائد بنتے ہیں کیوں کہ ان میں دلیری ، ضبط ، انصاف پسندی ، ا ستقلال، منصوبہ ، محنت پسندی ، خوش گوار شخصیت ، ہمدردی اور پکی سمجھ ، تفصیل کا مہارت ، ذمہ داری اور مل کر کام کرنے کی صفات ہو تی ہیں۔ معتقد لوگ ، قائد کا کہا مانتے ہیں۔ معتقد ہونا کوئ بری بات نہیں۔ بہت دفعہ ایک قائد، معتقد میں سے ہی بنتا ہے۔

وہ قائد ، اپنے مقصد میں کا میاب نہیں ہوتے ہیں جوکام کی تفصیل سے بھاگتے ہیں اور صرف وہ کام کرنا چاہتے ہیں جو ان کی حیثیت کے برابر ہو، چھوٹا کام کرنا نہیں پسند کرتے۔ وہ اپنی تمام قابلیت، یعنی اپنی تعلیم کے مطابق صلہ مانگتے ہیں اپنے کام کے مطابق نہیں۔جومتقدوں سے مقابلہ کرتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ جن میں صورت متخیلہ نہیں ہوتی اور خود غرضی کا شکار ہوتے ہیں۔

منظم منصوبہ بندی کے اصول

1۔ جتنے ساتھیوں کی اپنے منصوبہ پر عمل کرنے کے لیے ضرورت ہے ان کو اپنے مہتممِ دماغ علم یا ماسٹر مائنڈ کا پارٹنر بنالیں۔

2۔ تمام شرکاء اور شریکِ کار کو پتہ ہو نا چاہیے کہ اس شرکت میں ان کی کیا ذمہ داری ہے۔

3۔ جب تک کہ منصوبہ مکمل نہ ہوجائے، تمام شرکاء اور شریکِ کارکو کم از کم ہفتہ میں دو دفعہ ملنا چاہیے۔

4۔ جب تک کہ منصوبہ مکمل نہ ہوجائے تمام شرکاء اور شریکِ کار کو میل اور اتفاق سے رہنا چاہیے۔

.
 

تفسیر

محفلین

اراد ہِ مصمم اور فیصلہ
کامیاب لوگوں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ جب کسی کام کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو بلا تؤقف فیصلہ کرتے ہیں۔اور جب فیصلہ کرلیں تو اس فیصلہ کو تبدیل کرنے میں وقت لیتے ہیں۔

جب تم نے اپنی قابلیت کے مطابق فیصلہ کرلیا تو دوسروں کی رائے سے متاثر ہو کر فیصلہ تبدیل مت کرو۔

دنیا کو پہلے دکھاؤ کہ تم کیا کرنا چاہتے ہو اور پھر بتاؤ۔

فیصلہ کی قیمت کا انحصار جرات پر ہے۔ دنیا کے وہ فیصلے جن سے تہذیب کی بنیادیں رکھی گئیں، ان فیصلوں کے نتائج کو حاصل کرنے میں جانیں تک خطرے میں تھیں۔

سقراط پر جب یہ دباؤ ڈالا گیا کہ اگر اس نے اپنے خیالات نہ بدلے اور جمہوریت کی باتیں کرتا رہا تو اس کو زہر پی کر مرنا پڑے گا۔ سقراط نے اپنے خیالات نہیں بدلے اور اس کو زہر کا پیالہ دیا گیا۔

ظلم سے آزادی کی خواہش آزادی لائے گی۔
.
 

تفسیر

محفلین
.

ثابت قدم
ثابت قدمی کو صلہ میں تبدیل کرنے کے لیے اصرار اور خواہش کا ہونا لازمی ہے۔ قوتِ ارادہ سے ثابت قدم اور اصرار بنتے ہیں۔

ثابت قدمی کوسیکھا جاسکتا ہے۔ ثا بت قدمی کی بنیاد وضاحت پر ہے۔ ارادۂ شافی، خواہش، جرات، منصوبہ ، صحیح علم، مل کر کام کرنا ، قوت ارادی، صحیح عادت اس کے وجوہ ہیں۔ جب ہم غیر جانبداری سے پیغمبروں،فلسفیوں ،کرشمہ دکھانے والوں اور مذہبی رہنماؤں کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو آپ یہ سبق سیکھتے ہیں کہ ثابت قدمی، جدوجہد کی یکجائ اور عزمِ شافی کی بناء پر انہوں نے اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کی۔ اگرآپ پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم اور اس دورِحاضر کے تمام کامیاب لوگوں کی ز ندگیوں کا تجزیہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان سب میں ثابت قدمی کی خصوصیت موجودہے۔

اُنیس سو بتیس میں’ محمت ایساد بے ‘ نے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک کتاب لکھی اس کا کتاب نام ’ حیرت انگیز محمد صلی اللہ علیہ وسلم‘ ہے۔

محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک نبی تھے۔وہ صوفی نہیں تھے۔ اُنہوں نے اسکول میں نہیں پڑھا اور اُنہوں نے اسلام کی تبلیغ چالیس سال تک نہیں شروع کی۔ جب اُنہوں نے اس بات کا اعلان کیا کہ وہ اللہ تعالٰی کے پیغمبر ہیں اور ایک سچے مذہب کا بتارہے ہیں تو لوگوں نے ان کا مذاق اڑایا اور خبطی، پاگل اور بےوقوف بھی کہا۔ بچوں نے اڑنگے لگائے اور عورتوں نے ان پر نے غلاظت پھینکی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر مکہ سے نکال دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مانے والوں سے ان کی جائیدادیں چھین لیں اور ان کو بھی مکہ سے نکال دیا۔10 سال تک اسلام کو پھیلالینے کی کوشش کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور وہ گنے چنے لوگ تھے۔ جنہوں نے اسلام قبول کیا وہ غربت کی اور تحقیر آمیز زندگی بسر کررہے تھے۔ مگر اس سے پہلے کہ دوسرے دس سال گزرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سارے عرب کے حکمران اور دنیا کے آخری صاحب الکتاب مذہب کے پیغمبر تھے۔ اس سے پہلے کے اس کا بل ٹوٹتا یہ مذہب ڈنیوب سے پایرینیس تک پھیلا۔

اس کے بَل کی بنیاد تین چیزوں پر تھی۔ الفاظ کی قوت ، دعا کی اثر اور انسان کا ا للہ سے روحانی رشتہ۔
.

 

تفسیر

محفلین

ماسٹرمائنڈ


” علم ایک طاقت ہے“۔اباجان نے کہا۔ کامیابی کے لیے طاقتِ علم کا ہونا ضروری ہے“

” منصوبے بغیر معقول طاقتِ علم کے غیرمؤثراور بے کار ہیں اور ان کو عمل میں تبدیل نہیں کیاجاسکتا“۔

” دما غی قوت ، یہاں ایک منظم اوردانش مند علم کو مسئلۂ مرکوز پر توجہ کرنے کے معنی میں استمعال کی گئ ہے“۔

علم کے حاصل کرنے کے تین ذرائع ہیں۔

ایک ۔ لا محدود قابلیت۔

دو ۔ جمع کیا ہوا علم، پبلک لائبریری، پبلک سکول اور کالج۔

تین ۔ تجربات اور تحقیقات، سائنس اور تمام دنیاوی چیزوں میں انسان ہر وقت جمع کرتا ہے، باترتیب رکھتا ہے اور ہرروز مرتب کرتا ہے“۔

علم کوان ذرائع سے حاصل کر کے منصوبۂ مقرر میں مننظم کرنا اور پھر منصوبوں کو عمل میں تبدیل کرنا، دماغ کی طاقتِ علم ہے۔
اگر منصوبہ وسیع ہے تو آپ کو دوسرے لوگوں کے دماغ کی طاقتِ علم کی مدد کی ضرورت گی“۔

” جب دو یا دو سے زیادہ لوگ ایک مقرر اور مخصوص مقصد کو حاصل کر نے کے لیے علم کی ہم آہنگی کرتے ہیں تو وہ ماسٹرمائنڈ کہلاتے ہیں“۔

انسان کے دماغ کو ایک بجلی کی بیٹری سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ اگر دو بیٹریز کو سیزیز میں ملایا جائے تو آپ کو دوگنی بجلی ملتی ہے۔ انسان کا دماغ بھی اسی طرح ہے۔

جب انفرادی دماغ مل کر کسی کام میں ایک تال اور سُرسے ملتے ہیں تواس سے پیدا کی ہوئ مجموعی طاقتِ اجتماع اُن سب کو دستیاب ہوتی ہے۔

گاندھی کی مثال لیں۔ وہ مہاتما اس لیے بنا کہ اس نے دو سوکروڑ لوگوں کی جسم اور جان کو ایک مقصد مقرر کے لیے ملا دیا۔ اور ان کی مجموعی طاقتِ اجتماع نے انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔

گاندھی نے کہا میں تم کو ایک طلسم دیتا ہوں جب بھی تم کو شبہ ہو اور یا دھیان خود کی طرف جانے لگے تو اپنے ذہن میں ان کمزور اور غریب لوگوں کے چہرے لاؤ، جن کو تم نے دیکھا ہے اور اپنے آپ سے یہ سوال کرو۔

یہ قدم جو تم اُ ٹھا رہے ہو کیا ان کی مدد کرےگا ؟

کیا ان کو اس سے کوئ فائدہ ہوگا ؟

کیا اس سے ان کو اپنی زندگی اور اپنی نصیب کو خود ڈھالنے کا موقع ملے گا ؟

دوسرے الفاظ میں کیا یہ راستہ اُن کی آزادی کی طرف لے جائے گا ؟
تب تم دیکھو کہ تمہارے شبہات اورخود شناسی غائب ہوجائے گی۔
.

 

تفسیر

محفلین
.

کامیابی کے اصول۔ ایک نظرِ ثانی

ہم لوگ ’ گارڈن آف دی ورلڈ ‘ کی سیر کرنے آئے ہیں۔ یہ جگہ لاس اینجلس کے ایک suburb میں ہے۔ ہم لوگ جاپانیز گارڈن میں ہیں۔ باغ کا رقبہ 5 ایکڑ ہے۔ اس جگہ میں پانچ مختلف گارڈن ہیں۔ فرانسیسی بٹرفلائی اور فاؤنٹین گارڈن، اٹالین گارڈن، انگلش روز گارڈن ، جاپانی باغ اور اسپین کے مشن کی کورٹ یارڈ جو کہ گارڈنوں کے درمیان ہے۔ سعدیہ نے گرم گرم چائے سب کو دی۔

” کیا ہماری گل پھر سے بلبل ہو سکتی ہے؟“۔ اباجان نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ ” ہاں“ اوراس کا جواب بھی خود دے دیا۔” تم اس بات کو جانتے ہوکہ دنیا کا ہرکام ممکن ہے۔ ہزارہا لوگوں نے اس کو بار بار ثابت کیا ہے“۔

” توکیا پختون عورتوں کوآزادی دلانا ایک ممکن حقیقت ہے“۔ اباجان نے سعدیہ سے سوال کیا۔
سعدیہ نے کہا۔” آزادی ایک فطری حق ہے اور جو لوگ اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں ان کو دنیا کی کوئ طاقت آزادی حاصل کرنے سے روک نہیں سکتی ہے“۔

” ہم جا نتے ہیں کہ پختون عورتوں پر ظلم ہورہاہے۔ ظالم جانتا ہے۔ لیکن مظلوم کو اس کا پتہ نہیں“۔ ماں نے کہا۔
” مظلوم کو بتایا گیا ہے کہ وہ قوم اور گھر کی عزت کی ذمہ دا ر ہے۔اور یہ ذمہ داری اس سے قربانی مانگتی ہے۔یہ ظلم رسم و رواج کے نام پرکیا جارہا ہے“۔ میں نے ما ں کی بات میں اضافہ کیا۔

اباجان نے مجھ سے سوال کیا۔ ” تو ہم اس جدوجہد کا کس کوذمہ دار ٹھہرائیں؟“
” پختون عورتویں ہی اس مسئلہ کو حل کرسکتی ہیں۔ یہ ذ مہ داری تعلیم یافتہ پختون لڑکیوں کی ہے“۔ میں نے کہا۔

اباجان نے سعدیہ سے سوال کیا۔” وہ چار اہم چیزیں کیا ہیں جو پختون عورتوں کو حاصل کرنی ہیں“۔

تقدیر پر خود مختیا ری ، خود اعتمادی ، سیاسی قوت، اور تنظیم

سعدیہ نے کہا۔ ” ہمارا کام پختون تعلیم یافتہ لڑکیوں کو ان کی تقدیر پر خود مختیا ری حاصل کرانا ہے۔ ہرپختون کی بیٹی میں خود اعتمادی پیدا کرنی ہے اور تمام پختوں عورتوں کو پختونخواہ میں ایک سیاسی قوت بنانا ہے۔ان کا شعور بلند کرنا ہے ان کو منظم ہونا سیکھانا ہے۔ہماراکام ان کو وسیلہ مہیا کرنا ہے“۔

ان مقاصد کو حاصل کرنے کے کیا بنیادی اصول ہیں؟ اباجان نے مجھ سے سوال کیا؟

سوچ جب مقصد مقرر ، مستقل مزاجی، اورخواہشِ شدید“۔

ہر کام کا آغاز سوچ سے ہوتاہے۔ ہم کو سوچ کی اہمیت کو ان کی ذہنوں ہیں نقش کرانا ہے۔ ان کو بتا دینا ہے کہ مقصدِ مقرر ، مزاج ِقائم اور خواہشِ شدید کس طرح سوچ کوبلندکرتی ہے اور اس کا نتیجہ مکمل کامیابی ہے۔انسان کا دماغ جو سوچتا ہے اور اس پریقین کرتا ہے دماغ اس کو حاصل کر لیتا ہے۔ جوکھوں اور عزیمت کے ارادوں میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو آگے بڑھنے سے نہیں ڈرتے۔ اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے“۔

”یقین ِکامل، سوچ کو کس طرح مضبوط کرتاہے“۔ اباجان نے سعدیہ سے سوال کیا۔
” یقین ِکامل دماغ کا کیمیاگر ہے۔ جب یقینِ کامل اورسوچ کی آمیزش ہوتی ہے۔ تو تحت الشعور اُن کے ملنے کو محسوس کر لیتا ہے اورتحت الشعور، سوچ کو ایک روحانی کیفیت میں تبدیل کر دیتا ہے اور اس کو علمیت لامحدود میں منتقل کردیتا ہے۔ جس طرح کہ دعا اللہ کو پہنچتی ہے“۔ سعدیہ نے بڑے فخر سے کہا۔

اباجان نے مجھ سے سوال کیا۔” تمام جذبات جو انسان کو فائدہ پہنچاتے ہیں کون سے تین جذبات سب سے زیادہ طاقتور ہیں؟“

میں نے کہا۔” ایمان ، محبت، شہوت کے جذبات سب سے زیادہ طاقتور ہیں۔ جب یہ تین جذبات ملتے ہیں وہ خیالات کو اس طرح رنگ دیتے ہیں کہ خیال ایک دم سے تحت ا لشعور میں پہنچ جاتا ہے اور وہاں روحانی کیفیت بن کر وہاں سے جواب لاتا ہے۔ایمان ایک ایسی دماغی کیفیت ہے جو کہََََََََ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ کو جواب دینے کی ترغیب کرتی ہے“۔

” ایمان کا دوسرا کام کیا ہے؟“۔
” آٹو سیجیشن کیا ہے؟“
” جس طرح نماز میں اللہ تعالٰی سے شعوری طور سے دُعا مانگی جاتی ہے۔اور ایمان اس دُعا کو روحانی طور مضبوط کرتا ہے تاکہ دُعا تحت الشعوراللہ تعالٰی تک پہنچ جائے اسی طرح آٹو سیجیشن میں ہم ایک مقصدکو بار بار دُہراتے ہیں۔یہ دُہرانا، ہمارے مقصد کو شعور سے تحت الشعور میں منتقل کرتا ہے۔ تحت الشعور، یقینِ کامل کی وجہ سے اس مقصد کو حاصل میں تیزہو جاتا ہے“۔

” حواس خمسہ کیا ہیں ؟ اور اُن کے کام کیا ہیں؟“
آنکھیں، کان ، ناک ، منہ ، ہاتھ حواس خمسہ ہیں۔آنکھیں ذہنی تصویر بناتی ہیں۔ دماغ کان کی حرکت کو آواز میں تبدیل کرتا ہے۔ ناک سے سونگھنا، منہ سے چکھنا اور ہاتھوں سے چھونا سب دماغ کے کام ہیں۔ حواس خمسہ سے دماغ کوترغیب ملتی ہیں اور دماغ ان کا جواب دیتا ہے۔

اباجا ن میری طرف متوجہ ہوئے ۔” کیا ایک مسئلہ کو حل کرنے کے لیے ہم کو مکمل حل ملنے کا انتظار کرنا چاہیے؟“
میں نے کہا۔” اگر آپ کی کوئ خواہش ہے تواس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے یہ انتظارنہ کریں کہ جب میرے پاس اس کو حل کرنے کے لیے مکمل معلومات اور ذرائع ہوں گے تب ہی میں اس کام کو شروع کروں گا“۔

اباجا ن نے کہا۔ مگر ہمارے پاس اس مسئلہ کا حل بھی موجود نہیں؟“۔
” اس حل یا منصوبہ کو تحت الشعور سے طلب کریں اور امید رکھیں کہ چھٹی حس کی وجہ سے جواب آپ کے ذہن میں ایک بجلی کی طرح چمکے۔ اس غیبی مدد کو شاعر’ آمد ، صوفی روحانی خیال اور خدا پرست آوازِ غیب کہتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے ہر بدبختی، کم بختی ، آفت ، مصیبت ، نحوست کا علاج اس کے ساتھ بھیجا ہے۔کامیابی کو حاصل کرنے کا پہلا اصول اس مقصد کی خواہش شدید اور دوسرا اصول کامیابی کا یقین ہونا ہے“۔

اباجان نے سعدیہ سے سوال کیا۔” تعلیم کیا ہے؟ “۔
” علم کاحاصل کرنا ، اس کا سمجھنا اور اور اس کو استعمال کرنا ہے“۔

اباجان نے مجھ سے سوال کیا۔”علم کی کتنی قسمیں ہیں؟“
” علم کی دو قسمیں ہیں۔ علم عامہ اورعلم مخصوصہ“۔

” علم عامہ کیا ہے ؟“
” علم عامہ ،علم کا حصول اوراس کو سمجھناہے۔پروفیسر علم کو بخشتے ہیں۔ وہ علم کا استعمال، صحیح معنوں میں دولت کمانے میں نہیں کرتے۔ وہ علم عامہ کے ماہر ہوتے ہیں“۔

” اور علم مخصوصہ کیا ہے؟“
” علم مخصوصہ ، کسی مقصد کو حاصل کرنے میں علم کا استعما ل تعلیم مخصوصہ ہے۔ صنعت کار اس تعلیم سے دولت کماتا ہے۔وہ علم مخصوصہ کے ماہر ہوتے ہیں“۔

” تعلیم بذات خود ایک ’ طاقت‘ ہے؟“
” ہزاروں لوگ مغالطے میں ہیں کہ تعلیم بذات خود ایک ’ طاقت‘ ہے۔ تعلیم صرف ایک ’ صورتِ امکانی ‘ ہے یہ اُس وقت ایک قوت بنتی ہے جب اس کو ’ مقصد مقرر‘ کے لیے’ منظم‘ کیا جائے ا ور اس کا رُخ ’ مخصوص اختتام‘ کی طرف کیا جائے“۔

” صحیح تعلیم سے کیا مراد ہے؟“۔
” سینکروں لوگ یہ سمجھتے ہیں اگر کوئ شخص سکول نہ جائے تو وہ تعلیم یا فتہ نہیں ہے۔ ایجوکیشن اٹالیین لفظ ایڈوکو سے بنی ہے۔ جس کے معنی ہیں’ اندر سے ابھرنا ، انکشاف کرنا ‘۔ ضروری نہیں کہ تعلیم یافتہ شخص کے پاس تعلیم عامہ یا تعلیم مخصوصہ کی بہتاب ہو۔ تعلیم یافتہ شخص وہ ہے جس نے اپنے ذہن کویہ تربیت دی ہے کہ تعلیم یافتہ شخص بغیر کسی کا حق مارے ہراس چیز کو حاصل کرلیتا ہے جو اس کو پسند ہے“۔

” علم کے حاصل کرنے کے کیا ذرائع ہیں؟“
” علم کے حاصل کرنے کے چار ذرائع ہیں۔
خود کی تربیت اور تعلیم۔
لا محدود قابلیت۔
جمع کیا ہو علم۔ پبلک لائبریری ، پبلک سکول اور کالج۔
تجربات اور تحقیقات۔ سائنس اور تمام دنیاوی چیزوں میں انسان ہر وقت جمع کرتا ہے، باترتیب رکھتا ہے اور ہرروز مرتب کرتا ہے”۔
.

 

تفسیر

محفلین

” سوچ کیا ہے؟”
” سوچ ایک کارخانہ ہے جس میں منصوبے بنتے ہیں۔ عقل و شعور میں خواہش ایک راہ کی طرف ڈھلتی ، گھڑتی اور عمل وار ہوتی ہے“۔

” کیا انسان ہر وہ چیز جس کو سوچ سکتا ہے حاصل کرسکتاہے؟“
” انسان ہر وہ چیز جس کو سوچ سکتا ہے حاصل کرسکتاہے۔ انسان نے عقل و شعور کی مدد سے بیماریوں کا علاج دریافت کیا اور قدرتی قوتوں کو قابو میں کیا ہے“۔

” سوچ کی کتنی قسمیں ہیں؟“
سوچ دو طر ح کی ہوتی ہیں۔ایک اختراعی ترکیبی سوچ ہے۔ اور دوسری موجدہ سوچ کہلاتی ہے“

” اختراعی سوچ کیا ہوتی ہے؟“
اختراعی سوچ میں آپ پرانے خیال، منصوبہ کے بنا پر کوئ نئ چیز پیدا کرتے ہیں۔ یہ غیر موجدہ قوت ہے۔

” مجودہ سوچ کیا ہوتی ہے؟“
” مجودہ سوچ میں الہامی خیال ، تخلیقی تحریک اور آمد ہوتی ہے۔ انسان کا دماغ غیر محدود دماغی قابلیت سے رابطہ قائم کرلیتا ہے“۔

” ہر وہ چیز جو انسان بناتا ہے یا حاصل کرتا ہے اس کی شروعات کہاں سے ہوتی ہے؟“
” خواہش سے شروع ہوتی ہے۔ خواہش کا پہلا قدم انتخاب ہے صفات کا اضافہ قوت متصورہ کے کارخانے میں ہوتا ہے۔جہاں پر اس کی تبدّل کے لیے منصوبہ بندی کی جاتی ہے“۔

” قائد یا لیڈر اورمعتقدکی صفات کیا ہیں؟“
” دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔قائداورمعتقد۔کچھ لوگ قائد بنتے ہیں کیوں کہ ان میں دلیری ، ضبط، انصاف پسندی، ا ستقلال، منصوبہ ، محنت پسندی، خوش گوار شخصیت، ہمدردی اور پکی سمجھ ، تفصیل کا ماہر، ذمہ دار اور مل کر کام کرنے کی صفا ت ہو تی ہیں۔ معتقد لوگ، قائد کا کہا مانتے ہیں“۔

” قائد کیسے بنتے ہیں؟“
” اگر انسان قائد کی صفات کو حاصل کرے اور ان پر عمل کرے تو قائد بن سکتا ہے۔ معتقد ہونا کوئ بری بات نہیں۔ بہت دفعہ معتقد بھی قائد بن سکتے ہیں“۔
.
” قائد ناکامیاب کیوں ہوتا ہے؟“
” کچھ قائد ناکامیاب اس لیے ہوتے ہیں کہ وہ تفصیل کے ماہر نہیں ہوتے اورہر کام کو کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ وہ ا پنی قابلیت کاصلہ مانگتے ہیں اس کے استعمال کا نہیں۔معتقدوں سے مقابلہ کرتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ان میں سوچ کی کمی ہوتی ہے۔ خود غرضی کا شکار ہوتے ہیں۔ اپنے قائد سے غیروفاداری کرتے ، بے اعتدالی اور ذیادتی ، حوصلہ افزائ کے بجائے رُعب اور دبدبہ کا استمعال کرتے ہیں۔

” کامیاب لوگوں کی سب سے بڑی خصوصیت کیا ہے؟“
” کامیاب لوگوں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ جب کوئ کام کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو بلاتؤقف فیصلہ کرتے ہیں۔اور کیے ہوئے فیصلے کو تبدیل کرنے میں وقت لیتے ہیں۔ جب تم ا پنی قابلیت کے مطابق فیصلہ کرلو تو دوسروں کی رائے سے متاثر ہو کر فیصلہ تبدیل نہ کرو۔ دنیا کو پہلے دکھاؤ کہ تم کیا کرنا چاہتے اور پھر بتاؤ۔

” فیصلہ کی قیمت کیسے جانتے ہیں؟ “
” فیصلہ کی قیمت ، فیصلہ پر عمل کرنے کی جرات کے مطابق ہوتی ہے“۔

” خواہش کو صلہ میں کس طرح سے تبدیل کرتے ہیں؟“
” خواہش کو صلہ میں قائم مزاجی کے بغیر نہیں تبدیل کیا جاسکتا۔ قائم مزاجی اور اصرار، قوت ارادہ سے بنتے ہیں۔ ظلم سے آزادی کی خواہش صرف آزادی سے ہی مل سکتی ہے“۔

” کیا قائم مزاجی کو سیکھا جاسکتا ہے؟“
” قائم مزاجی کی بنیاد مقصد مقرر پر ہے اور خواہش ارادۂ شافی ، منصوبۂ مقرر ، صحیح علم ، مل کرکام کرنا ، قوت ارادی، صحیح عادت اس کی وجوہ ہیں“۔

” پیغمبروں، فلسفہ دانوں، کرشمہ دکھانے والوں اور مذہبی رہنماؤں میں کونسی کامیابی کی خصوصیت ایک جیسی ہوتی ہے؟”

” جب ہم غیر جانبداری سے پیغمبروں، فلسفہ دانوں، کرشمہ دکھانے والوں اور مذہبی رہنماؤں کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ سبق سیکھتے ہیں کہ ثابت قدمی، جدوجہد کی یکجائ ، اور عزم شافی کی بناء پر انہوں نے اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کی۔ اگرآپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا تجزیہ کریں اور تمام کامیاب لوگوں کی (اس دورِحاضر میں) تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان سب میں ثابت قدمی کی خصوصیت موجود ہے“۔

” کیا کامیابی کے لیے ماسٹر ماینڈ ہونا ضروری ہے؟“
“ کامیابی کے لیے ماسٹر ماینڈ کا ہونا ضروری ہے۔منصوبے بغیرمعقول طاقت کے غیرمؤثراور بیکار ہیں اور ان کو عمل میں تبدیل نہیں کیاجاسکتا۔ ماسٹر ماینڈ ، ایک سے زیادہ منظم اوردانش مند علم کے لوگ اجتماع پرتوجہ مسئلہ پر مرکوز کرتے ہں“۔

 

تفسیر

محفلین


رجب کی پہلی تاریخ تھی۔شام ہوچکی تھی۔ نورا (ہاوس کیپر) نے چائے بنا کر سب کو پیش کی۔ وہ افغانی ہے۔ ابا اور اماں جان کے ساتھ پچیس سال سے ہے۔اس نے ہمیں پالنے میں ماں کی مدد کی ہے۔ اس کی ملاقات ابا اوراماں جان سے افغانستان میں ہوئ تھی۔ اور پھراس نے ابا اوراماں جان کے ساتھ امریکہ آنے کا فیصلہ کیا۔

سورج ایک نارنگی کی طرح نارنجی تھا، مغرب میں تیزی سے سمندر میں ڈوب رہا تھا۔

اباجان نے کہا۔ ہماری ساری گفتگو کا لبِّ لباب یہ ہے:

” کامیابی کے اصول ہر مقصد کو حاصل کرنے کے لیے استمعال ہو سکتے ہیں۔ یہ مقصد دولت ، شُہرت ، محبت اور علمیت بھی ہوسکتی ہے۔ جب ہم تصور اور آٹوسجیشن کے ذریعے خواہش کو شدید اور مقرر خواہش میں تبدیل کرتے ہیں، اس کو حاصل کرنے کے لیے مصنوبہ بناتے ہیں ، تعلیمِ خصوصی حا صل کرتے ہیں اور ماسٹر ما ئنڈ کو جمع کرتے ہیں پھر یقین کے ساتھ فیصلہ کرتے ہیں اور ثابت قدمی سے اس فیصلہ پر قائم رہتے ہیں تو ہمیں مکمل کامیابی حاصل ہوتی ہے”۔

اماں نے کہا”۔ کل سے میری باری ہے۔ میں تم کو
پختون ولی
اسلام اور عورت
پختون کی نفسیات اور سیاست
اور مینیجمینٹ، ارگنائزیشن کے اصولوں
سے آگاہ کروں گی۔

اباجان کے کامیابی کے اصول ، میری پختون سے متعلق انفارمیشن تمہارا عزم مضبوط کریں گی۔ پھر مینجمنٹ اور ارگنائزیشن کو استعمال کرکے تم اپنےگول کوعملی جامہ پہنا سکوگے۔

اندھیرا ہوگیا تھا۔ ہرطرف تاریکی چھا رہی تھی۔ سعدیہ نے کہا۔ ” کیا میں لائٹ کو آن کروں“؟

ماں نے کہا”۔ بیٹا ، اوپرآسمان پر دیکھو“”۔

آسمان میں گہرے اندھیرے کی وجہ سے ستارے اور بھی چمکنے لگے۔سارا آسمان ستاروں سے بھرا تھا۔ اچانک ایک ستارہ جنوب میں زمین کی طرف پرواز کرنے لگا۔

میں نے کہا۔ ”سعدیہ ، وہ دیکھو۔ شوٹینگ اسٹار“۔

نورا نے سعدیہ کے لمبے بالوں میں کنگھی کرتے ہوئے کہا۔ ”بیٹی ، جب ہم شوٹینگ اسٹار دیکھتے ہیں تو ہم اپنی خواہش کی کامیابی کی دُعا مانگتے ہیں“۔

ہم سب نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑے اور ایک دائرہ بنایااور سعدیہ نے کہا۔ ” اللہ تعالٰی ، ہم تیرے حقیر بندے ہیں، ہم تہہ دل سے دُعا کرتے ہیں کہ تو ہماری پختون بہنوں پررحم فرما اور جو ظلم ان کے ساتھ ہو رہا ہے ان کو اس سے نجات دلا“۔

پھرسعدیہ کی آواز بھراگئ۔ اور اس کی دُعا ایک وعدے میں تبدیل ہوگئ۔ ” اے میرے معبود میں تجھ سے آج یہ وعدہ کرتی ہوں کہ گل کی پوتی اس ظلم سے آزاد ہوگی اور وہ حقیقت میں پختون کی بیٹی کہلائی گی“۔

اختتام۔باب دوئم
.
 
Top