ٹائپنگ مکمل پاکستان ہماری منزل تھا : صفحہ 9

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
AAPBeeti010.gif
 

شکاری

محفلین
کتاب: پاکستان ہماری منزل تھا
ٹائپنگ: عدنان زاہد


دستہ میں تین مسلمان سپاہی، ایک مسلمان حوالدار کے علاوہ ایک نو عمر سکھ سپاہی بھی شامل تھا۔یہ سکھ سپاہی بڑا خوش مزاج تھا اور پھلجڑیاں چھوڑتا رہتا تھا۔ ریل کے ڈبہ میں ہمارے لیے ایک لمبی سی پوری سیٹ روک لی گئی تھی۔ دونوں جانب حفاظتی دستہ کے لوگ بیٹھے ہوئے تھےاور درمیان میں، میں اور مولوی صاحب۔ یہ سپاہی اتفاق سے اسی کھڑکی کے بالکل ساتھ بیٹھا تھا جدھر پلیٹ فارم آتے تھے۔ سہانپور میں گاڑی رکی تو اس کھڑکی کے قریب لوگوں کا ہجوم ہوگیا۔ میں تو خیر بچہ تھا مگر مولوی صاحب اپنی ڈاڑھی اور حلیہ سے صاف پہچانے جاتے تھے۔ اب یہ بڑے تعجب کی بات تھی کہ پنجاب جانے والی گاڑی میں ایک مسلمان سوار تھا۔ وہاں کی زمین تو مسلمانوں پر تنگ ہوچکی تھی۔ اسی حیرانی میں لوگ اکٹھے ہوگئے۔ سکھ سپاہی سے اپنائیت کے احساس کے تحت ایک بڑی سی توند والے بنئے نے آہستگی کے ساتھ پوچھا۔
“اس مسلمان کو پنجاب لے جارہے ہیں؟“
“ہاں لالہ جی ارادہ تو یہی ہے۔“ سپاہی نے جواب دیا۔
“مگر پنجاب میں تو کوئی مسلمان باقی نہیں رہا۔“
“یہ تو ہے۔ مگر اسے ضرور وہاں لے کر جائیں گے“سپاہی نے اطمینان سے بتایا۔
“کوئی خاص وجہ اس کی؟“ لالہ نے پوچھا۔ اکٹھا ہونے والاہجوم بھی خاموشی سے یہ گفتگو سن رہا تھا۔
“وجہ صرف خاص نہیں۔ بہت‌ خاص وجہ ہے۔“
سپاہی نے اسی لہجہ میں کہا۔
“وہ کیا؟ کچھ ہمیں بھی تو بتاؤ۔“
چھوڑو لالہ جی! کیا پوچھ کر کرو گے۔“ اس نے تجسس میں اضافہ کرنے کے لیے کہا۔
“پھر بھی۔ کچھ پتہ تو چلے۔“
“یہ بہت بڑا جرم کرکے وہاں سے بھاگا ہے۔“
“اچھا!۔“ لالہ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔“ ایسا لگتا تو نہیں ہے۔“
“آپ لگنے کو چھوڑیں۔ ایسا نہ ہوتا تو ہم اسے کیوں لے جاتے۔“
“یہ بھی ہے۔“ لالہ جی قائل ہوگئے۔ “مگر اس نے کیا کیا ہے؟“
“چھوڑو لالہ جی۔ کیا پوچھ کر کرو گے۔“ سپاہی نے تجسس کو زیادہ گہرا کردیا۔
“کچھ بتاؤ بھی سردار جی۔“ لالہ نے جیسے منت کی۔
“ اس نے موٹے پیٹ والے بیس ہندوؤں کو قتل کیا ہے۔“ سپاہی نے گویا بم چلا دیا۔
“ہے رام رام ۔ ۔ ۔ رام رام ۔ ۔ ۔ ہے رام رام“ لالہ جی زور زور سے دہراتے وہاں سے یوں چلے جیسے بم کے ٹکڑے انہیں لگے ہوں۔ مجمع میں سے اکثر کے لبوں پر مسکراہٹ‌ پھیل گئی۔
سہانپور کے بعد گاڑی نے دریائے جمنا پار کیا اور پنجاب کا علاقہ شروع ہوا تو واقعی ہمارا تماشہ بن گیا۔ گاڑی جس اسٹیشن پر رکتی ہجوم یوں اکٹھا ہوجاتا جیسے کسی عجیب مخلوق کو دیکھنے کا موقع ملا ہو۔ انبالہ چھاؤنی پر تو گویا سارا اسٹیشن ہی ہمیں دیکھنے کےلیے امڈ پڑا۔ ایک گروہ آتا دوسرا جاتا تھا۔ ساتھ ہی کچھ کھسر پھسر بھی کئے جارہے تھے۔ یہاں گاڑی کافی دیر ٹھہرتی تھی اس لیے خوب تماشا بنا رہا مگر اس میں ناخوشگواری اس وقت پیدا ہوئی جب ایک من چلے نے زور زور سے پکارنا شروع کردیا۔
“مسلمان ۔ ۔ ۔ مسلمان ۔ ۔ ۔ مسلمان۔ “
اس پر ہجوم بڑھنا شروع ہوگیا۔ یہ دیکھ کر ہمارے حفاظتی دستہ کا انچارج حوالدار اپنی رائفل سمیت نیچے اترا اور لوگوں کو بڑی سختی سے ڈانٹا۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ ہجوم تو چھٹ گیا اور لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ حفاظتی دستہ کے پاس رائفلیں بوقت ضرورت استعمال کے لیے ہیں۔
آدھی رات کے قریب گاڑی لدھیانہ پہنچی یہاں ہمیں گاڑی تبدیل کرنی تھی اس لیے گاڑی سے اتر
 

ابو کاشان

محفلین
کتاب: پاکستان ہماری منزل تھا
پروف ریڈنگ : ابو کاشان


دستہ میں تین مسلمان سپاہی، ایک مسلمان حوالدار کے علاوہ ایک نو عمر سکھ سپاہی بھی شامل تھا۔ یہ سکھ سپاہی بڑا خوش مزاج تھا اور پھلجڑیاں چھوڑتا رہتا تھا۔ ریل کے ڈبہ میں ہمارے لیے ایک لمبی سی پوری سیٹ روک لی گئی تھی۔ دونوں جانب حفاظتی دستہ کے لوگ بیٹھے ہوئے تھےاور درمیان میں، میں اور مولوی صاحب۔ یہ سپاہی اتفاق سے اسی کھڑکی کے بالکل ساتھ بیٹھا تھا جدھر پلیٹ فارم آتے تھے۔ سہانپور میں گاڑی رکی تو اس کھڑکی کے قریب لوگوں کا ہجوم ہوگیا۔ میں تو خیر بچہ تھا مگر مولوی صاحب اپنی ڈاڑھی اور حلیہ سے صاف پہچانے جاتے تھے۔ اب یہ بڑے تعجب کی بات تھی کہ پنجاب جانے والی گاڑی میں ایک مسلمان سوار تھا۔ وہاں کی زمین تو مسلمانوں پر تنگ ہوچکی تھی۔ اسی حیرانی میں لوگ اکٹھے ہوگئے۔ سکھ سپاہی سے اپنائیت کے احساس کے تحت ایک بڑی سی توند والے بنئے نے آہستگی کے ساتھ پوچھا۔
"اس مسلمان کو پنجاب لے جا رہے ہیں؟"
"ہاں لالہ جی ارادہ تو یہی ہے۔" سپاہی نے جواب دیا۔
"مگر پنجاب میں تو کوئی مسلمان باقی نہیں رہا۔"
"یہ تو ہے۔ مگر اسے ضرور وہاں لے کر جائیں گے۔" سپاہی نے اطمینان سے بتایا۔
"کوئی خاص وجہ اس کی؟" لالہ نے پوچھا۔ اکٹھا ہونے والاہجوم بھی خاموشی سے یہ گفتگو سن رہا تھا۔
"وجہ صرف خاص نہیں۔ بہت‌ خاص وجہ ہے۔" سپاہی نے اسی لہجہ میں کہا۔
"وہ کیا؟ کچھ ہمیں بھی تو بتاؤ۔"
"چھوڑو لالہ جی! کیا پوچھ کر کرو گے۔" اس نے تجسس میں اضافہ کرنے کے لیے کہا۔
"پھر بھی۔ کچھ پتہ تو چلے۔"
"یہ بہت بڑا جرم کر کے وہاں سے بھاگا ہے۔"
"اچھا!۔" لالہ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ "ایسا لگتا تو نہیں ہے۔"
"آپ لگنے کو چھوڑیں۔ ایسا نہ ہوتا تو ہم اسے کیوں لے جاتے۔"
"یہ بھی ہے۔" لالہ جی قائل ہوگئے۔ "مگر اس نے کیا کیا ہے؟"
"چھوڑو لالہ جی۔ کیا پوچھ کر کرو گے۔" سپاہی نے تجسس کو زیادہ گہرا کردیا۔
"کچھ بتاؤ بھی سردار جی۔" لالہ نے جیسے منت کی۔
"اس نے موٹے پیٹ والے بیس ہندوؤں کو قتل کیا ہے۔" سپاہی نے گویا بم چلا دیا۔
"ہے رام رام ۔ ۔ ۔ رام رام ۔ ۔ ۔ ہے رام رام" لالہ جی زور زور سے دہراتے وہاں سے یوں چلے جیسے بم کے ٹکڑے انہیں لگے ہوں۔ مجمع میں سے اکثر کے لبوں پر مسکراہٹ‌ پھیل گئی۔
سہانپور کے بعد گاڑی نے دریائے جمنا پار کیا اور پنجاب کا علاقہ شروع ہوا تو واقعی ہمارا تماشہ بن گیا۔ گاڑی جس اسٹیشن پر رکتی ہجوم یوں اکٹھا ہوجاتا جیسے کسی عجیب مخلوق کو دیکھنے کا موقع ملا ہو۔ انبالہ چھاؤنی پر تو گویا سارا اسٹیشن ہی ہمیں دیکھنے کےلیے امڈ پڑا۔ ایک گروہ آتا دوسرا جاتا تھا۔ ساتھ ہی کچھ کھسر پھسر بھی کئے جا رہے تھے۔ یہاں گاڑی کافی دیر ٹھہرتی تھی اس لیے خوب تماشا بنا رہا مگر اس میں ناخوشگواری اس وقت پیدا ہوئی جب ایک من چلے نے زور زور سے پکارنا شروع کر دیا۔
"مسلمان ۔ ۔ ۔ مسلمان ۔ ۔ ۔ مسلمان۔"
اس پر ہجوم بڑھنا شروع ہوگیا۔ یہ دیکھ کر ہمارے حفاظتی دستہ کا انچارج حوالدار اپنی رائفل سمیت نیچے اترا اور لوگوں کو بڑی سختی سے ڈانٹا۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ ہجوم تو چھٹ گیا اور لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ حفاظتی دستہ کے پاس رائفلیں بوقت ضرورت استعمال کے لیے ہیں۔
آدھی رات کے قریب گاڑی لدھیانہ پہنچی یہاں ہمیں گاڑی تبدیل کرنی تھی اس لیے گاڑی سے اتر
 
Top