ٹائپنگ مکمل پاکستان ہماری منزل تھا : صفحہ 2

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
AAPBeeti003.gif
 

شکاری

محفلین
کتاب: پاکستان ہماری منزل تھا
ٹائپنگ: عدنان زاہد


1947ء میں یہ اسکول انجینئرنگ کالج بن چکا تھا۔ آزادی کے بعد اس کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دے کر اس قدر وسعت دے دی گئی ہے کہ یونیورسٹی کی حدود دور دور تک پھیل کر بجائے خود ایک شہر کی شکل اختیار کر گئی ہیں۔ اس یونیورسٹی کے زیر سایہ روڑکی میں انجینئرنگ کی گھریلوصنعت نے اس قدر ترقی کی ہے کہ گھر گھر میں انجینئرنگ کا کوئی نہ کوئی سامان تیار ہوتا ہے۔ کہیں کمپاس بن رہے ہیں، کہیں سروے کا سامان بن رہا ہے، کہیں کیلکولیٹر تیار ہورہے ہیں، غرض قریباً ہر گھر میں کوئی پرزہ یا کسی مشین کا کوئی حصہ بن رہا ہے اور یہ گھریلو صنعت بہت ترقی پذیر ہے۔ ہندوستان نے اپنی صنعت کی منصوبہ بندی چھوٹی اور نیچے کی سطح سے کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی صنعتی بنیاد بہت مضبوط ہے۔ ہم نے تمام ترتوجہ بڑے اور عالیشان منصوبوں پر مرکوز رکھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ صنعتیں گھریلو سطح پر فروغ پاکر عام آدمی کی زندگی کا حصہ نہیں بن سکیں او ہم آج باون سال گزرنے کے بعد بھی اس صنعتی بنیاد کو تلاش کررہے ہیں جو ملکی معیشت سے ستون کا کام دیتی ہے۔
بہرحال، بات روڑکی کی اہمیت کی ہورہی تھی۔ اس کی دوسری وجہ اس کی چھاؤنی تھی۔ انگریزوں نے یہاں‌ بہت بڑی چھاؤنی قائم کی تھی جسے شمالی ہندوستان میں بڑی اہمیت حاصل تھی۔ تیسری وجہ یہاں‌ کی ٹکسال تھی۔ ناسک کے بعد شاید روڑکی کی ٹکسال تھی جہاں سکے ڈھالنے کا اہم کام کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد بڑی اہمیت شاید اس شہر کی خوبصورتی کو حاصل ہو۔ ہمالیہ پہاڑ کے دامن کا انتہائی سرسبز وشاداب علاقہ تھا۔ گنگا سے نکلنے والی بہت چوڑی گہری اور بڑی نہر شہر کے درمیان سے گزرتی تھی۔ نہر کا پانی شیشہ کی طرح شفاف تھا اور اس کا بہاؤ اس قدر تیز اور پاٹ اتنا چوڑا تھا کہ اسے تیر کر عبور کرنا آسان نہ تھا۔ تین چار میل تک نہر کے دونوں کناروں پر پختہ سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں جہاں نہانے اور کپڑے دھونے میں آسانی رہتی تھی۔ نہر کے دونوں کناروں پر پختہ سڑک بنی ہوئی تھی جو ہر دوار تک جاتی تھی جو یہاں سے بیس میل کے قریب فاصلہ پر تھا۔ ہدوار ہندوؤں کا وہ مقدس تیرتھ ہے جو عظیم پہاذ ہمالیہ کی جڑ میں واقع ہے۔ پہاڑ کے ارد گرد سے ان گنت چوڑے پاٹ کے ندی نالوں سے بہہ کر آنے والا شفاف پانی یہاں آکر دریائے گنگا کی شکل اختیار کرتا ہے۔ دریا کے کنارے اشنان گھاٹ اور بہت سے مندر بنے ہوئے ہیں۔ ایک اشنان گھاٹ کو “ہرکی پیڑی“ کہا جاتا ہے۔ ہر یاتری اس جگہ جاکر اشنان کرتا ہے اور عقیدہ یہ ہے کہ یہاں اشنان کرنے سے تمام گناہ دھل جاتے ہیں۔
اس نہر نے روڑکی کو وہ خوبصورتی عطا کردی تھی جو اور کسی طرح حاصل نہیں‌ہوسکت تھی۔ نہر کے شمال میں شہر کی آبادی تھی جو اونچی نیچی ناہموار گلیوں اور سڑکوں اور بازاروں کے ساتھ پھیلی ہوئی تھی۔ نہر کے جنوب میں سول لائن چھاؤنی، انجینئرنگ کالج، سینما گھر، کھلے پارک، کچہری اور دفاتر واقع تھے۔ ہردوارجانے والی سڑک پر شہر سے نکلتے ہی ایک طویل اور خوبصورت پل بنا کر شمالاً جنوباً بہنے والی نہر کے نیچے سے شرقاً غرباً ملنے والی ایک بہت خوبصورت چوڑے پاٹ والی ندی کو گزارا گیا تھا۔ اس شہر کے شمالی سرے پر عین نہر کے کنارے مدرسہ رحمانیہ واقع تھا۔ جہاں مجھے عربی فارسی اور دینی علوم کی تعلیم کے لیے داخل کرایا گیا تھا۔
یہاں یہ ذکر شایدبے جانہ ہوگا کہ میری پرورش ایک خانقاہ میں ہوئی ہے۔ ہندوستان کی بہت بڑی درگاہوں میں سے ایک درگاہ پیران کلیر شریف کی ہے۔ یہ روڑکی ہردوار روڈ پر روڑکی سے چار پانچ میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ اس عظیم درگاہ سے مغرب کی جانب دوتین فرلانگ کے فاصلہ پر ایک چھوٹی سی درگاہ چراغیہ واقع ہے۔ اس کا نام میرے تایا اور مرشد سید چراغ علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ کے نام پر رکھا گیا ہے۔ انہوں نے مجھے اپنا جانشین بنانے کے لیے گود لے لیا تھا اور اپنے آبائی قصبہ بروالہ سیدان ضلع حصار سے وہاں لے آئے تھے۔ اس
 

ابو کاشان

محفلین
کتاب: پاکستان ہماری منزل تھا
پروفریڈنگ : ابو کاشان


1947ء میں یہ سکول انجینئرنگ کالج بن چکا تھا۔ آزادی کے بعد اس کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دے کر اس قدر وسعت دے دی گئی ہے کہ یونیورسٹی کی حدود دور دور تک پھیل کر بجائے خود ایک شہر کی شکل اختیار کر گئی ہیں۔ اس یونیورسٹی کے زیر سایہ روڑکی میں انجینئرنگ کی گھریلوصنعت نے اس قدر ترقی کی ہے کہ گھر گھر میں انجینئرنگ کا کوئی نہ کوئی سامان تیار ہوتا ہے۔ کہیں کمپاس بن رہے ہیں، کہیں سروے کا سامان بن رہا ہے، کہیں کیلکولیٹر تیار ہورہے ہیں، غرض قریباً ہر گھر میں کوئی پرزہ یا کسی مشین کا کوئی حصہ بن رہا ہے اور یہ گھریلو صنعت بہت ترقی پذیر ہے۔ ہندوستان نے اپنی صنعت کی منصوبہ بندی چھوٹی اور نیچے کی سطح سے کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی صنعتی بنیاد بہت مضبوط ہے۔ ہم نے تمام تر توجہ بڑے اور عالیشان منصوبوں پر مرکوز رکھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ صنعتیں گھریلو سطح پر فروغ پا کر عام آدمی کی زندگی کا حصہ نہیں بن سکیں اور ہم آج باون سال گزرنے کے بعد بھی اس صنعتی بنیاد کو تلاش کر رہے ہیں جو ملکی معیشت کے ستون کا کام دیتی ہے۔

بہرحال، بات روڑکی کی اہمیت کی ہورہی تھی۔ اس کی دوسری وجہ اس کی چھاؤنی تھی۔ انگریزوں نے یہاں‌ بہت بڑی چھاؤنی قائم کی تھی جسے شمالی ہندوستان میں بڑی اہمیت حاصل تھی۔ تیسری وجہ یہاں‌ کی ٹکسال تھی۔ ناسک کے بعد شاید روڑکی کی ٹکسال تھی جہاں سکّے ڈھالنے کا اہم کام کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد بڑی اہمیت شاید اس شہر کی خوبصورتی کو حاصل ہو۔ ہمالیہ پہاڑ کے دامن کا انتہائی سرسبز و شاداب علاقہ تھا۔ گنگا سے نکلنے والی بہت چوڑی گہری اور بڑی نہر شہر کے درمیان سے گزرتی تھی۔ نہر کا پانی شیشہ کی طرح شفاف تھا اور اس کا بہاؤ اس قدر تیز اور پاٹ اتنا چوڑا تھا کہ اسے تیر کر عبور کرنا آسان نہ تھا۔ تین چار میل تک نہر کے دونوں کناروں پر پختہ سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں جہاں نہانے اور کپڑے دھونے میں آسانی رہتی تھی۔ نہر کے دونوں کناروں پر پختہ سڑک بنی ہوئی تھی جو ہردوار تک جاتی تھی جو یہاں سے بیس میل کے قریب فاصلہ پر تھا۔ ہردوار ہندوؤں کا وہ مقدس تیرتھ ہے جو عظیم پہاڑ ہمالیہ کی جڑ میں واقع ہے۔ پہاڑ کے ارد گرد سے ان گنت چوڑے پاٹ کے ندی نالوں سے بہہ کر آنے والا شفاف پانی یہاں آ کر دریائے گنگا کی شکل اختیار کرتا ہے۔ دریا کے کنارے اشنان گھاٹ اور بہت سے مندر بنے ہوئے ہیں۔ ایک اشنان گھاٹ کو “ہرکی پیڑی“ کہا جاتا ہے۔ ہر یاتری اس جگہ جا کر اشنان کرتا ہے اور عقیدہ یہ ہے کہ یہاں اشنان کرنے سے تمام گناہ دھل جاتے ہیں۔

اس نہر نے روڑکی کو وہ خوبصورتی عطا کر دی تھی جو اور کسی طرح حاصل نہیں‌ ہو سکتی تھی۔ نہر کے شمال میں شہر کی آبادی تھی جو اونچی نیچی ناہموار گلیوں اور سڑکوں اور بازاروں کے ساتھ پھیلی ہوئی تھی۔ نہر کے جنوب میں سول لائن چھاؤنی، انجینئرنگ کالج، سینما گھر، کھلے پارک، کچہری اور دفاتر واقع تھے۔ ہردوار جانے والی سڑک پر شہر سے نکلتے ہی ایک طویل اور خوبصورت پل بنا کر شمالاً جنوباً بہنے والی نہر کے نیچے سے شرقاً غرباً ملنے والی ایک بہت خوبصورت چوڑے پاٹ والی ندی کو گزارا گیا تھا۔ اس شہر کے شمالی سرے پر عین نہر کے کنارے مدرسہ رحمانیہ واقع تھا۔ جہاں مجھے عربی فارسی اور دینی علوم کی تعلیم کے لیے داخل کرایا گیا تھا۔

یہاں یہ ذکر شاید بےجا نہ ہو گا کہ میری پرورش ایک خانقاہ میں ہوئی ہے۔ ہندوستان کی بہت بڑی درگاہوں میں سے ایک درگاہ پیران کلیر شریف کی ہے۔ یہ روڑکی ہردوار روڈ پر روڑکی سے چار پانچ میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ اس عظیم درگاہ سے مغرب کی جانب دو تین فرلانگ کے فاصلہ پر ایک چھوٹی سی درگاہ چراغیہ واقع ہے۔ اس کا نام میرے تایا اور مرشد سید چراغ علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ کے نام پر رکھا گیا ہے۔ انہوں نے مجھے اپنا جانشین بنانے کے لیے گود لے لیا تھا اور اپنے آبائی قصبہ بروالہ سیدان ضلع حصار سے وہاں لے آئے تھے۔ اس
 
Top