پاکستانی موسموں کی کہانی ۔۔۔۔

پاکستان میں مجھے تو بس دو موسم ہی نظر آتے ہیں.....تھوڑی معصوم سی سردی اور ڈھیر ساری تپتی اور تڑپاتی ھوئی طویل گرمی.... باقی خزاں اور بہار ...آج اسی حوالے سے بات کرتےہیں...سردیوں کی خنک راتیں....سرد سی شاموں کا تو کوئی مول ہی نہیں.....مگر گرمیوں کی طویل اور تپتی دوپہریں اک اپنا ہی حسن رکھتی ہیں....
گرمیوں کی طویل تین ماہ سکول کی تعطیلات....اور معصوم نانی امی اور ماموں اور خالہ لوگوں کی شامت.....بچوں کے دوپہر میں نہ سونے اور شرارتوں سے عاجز آئ امیاں.....اففف......کیا حسن ھے اس سب میں بھی....
لڑکپن میں ان دوپہروں کا آپ کے نزدیک کیا مصرف تھا؟؟؟ کوئ شرارت اور اس پہ ھوئی دھلائی شئیر کریں..
 

لاریب مرزا

محفلین
گرمیوں کی طویل اور تپتی دوپہروں کے حوالے سے فی الحال تو یہی۔۔
FB_IMG_1492528632418_zpswvxgmq3d.jpg


:) :)
 
ہمیں تو بھئی گرمیوں کی تپتی ہوئی دوپہریں دو وجوہات سے نہایت پسند ہیں۔ پہلی یہ کہ ہمیں خود کچھ خاص گرمی نہیں لگتی۔ دوسری وہ جس کی جانب شاعر نے ذیل کے مصرع میں لطیف سا اشارہ کیا ہے:
سنجیاں ہو جان گلیاں تے دے وچ مرزا یار پھرے!​
 

با ادب

محفلین
گرمیوں.کی طویل دوپہروں میں نہایت ہی بچپنے میں ابا جان سے بڑی دھلائیاں ہوئیں وجہ ہمیشہ ایک ہی رہی کہانیاں پڑھنا. ہمارے بچپن کی شروعات ٹارزن اور عمرو عیار سے ہوئی اور عمرو کی زنبیل سلیمانی چادر اور قالین کے عشق میں ہم بڑے مبتلا رہے. شروعات بڑھتے بڑھتے ابن صفی کی عمران سیریز کے دور میں داخل ہوئیں..اور ایک دوپہر میں نے اور میری بہن نے عمران کا اتنا قصیدہ پڑھا ک اماں کی چپل سے تواضع ہو ئی آج تو تم دونوں بتاؤگی یہ عمران ہے کون. .
ایک دور نسیم.حجازی کا آیا. اور یہ تمام وہ ادوار تھے جب ہم پرائمری سکول کے طالب علم تھے. اور ابا حضور کو کورس کی کتابوں کے علاوہ کوئی دوسری کتاب ایک آنکھ.نہ بھاتی.
مجھے آج بھی اپنی کتاب موجدوں کی کہانیاں ابا کے ہاتھوں جلائے جانے کا دکھ ہے.
ویسی دوپہریں شاید آج کل کے بچوں کےمقدر میں نہیں.
 
گرمیوں.کی طویل دوپہروں میں نہایت ہی بچپنے میں ابا جان سے بڑی دھلائیاں ہوئیں وجہ ہمیشہ ایک ہی رہی کہانیاں پڑھنا. ہمارے بچپن کی شروعات ٹارزن اور عمرو عیار سے ہوئی اور عمرو کی زنبیل سلیمانی چادر اور قالین کے عشق میں ہم بڑے مبتلا رہے. شروعات بڑھتے بڑھتے ابن صفی کی عمران سیریز کے دور میں داخل ہوئیں..اور ایک دوپہر میں نے اور میری بہن نے عمران کا اتنا قصیدہ پڑھا ک اماں کی چپل سے تواضع ہو ئی آج تو تم دونوں بتاؤگی یہ عمران ہے کون. .
ایک دور نسیم.حجازی کا آیا. اور یہ تمام وہ ادوار تھے جب ہم پرائمری سکول کے طالب علم تھے. اور ابا حضور کو کورس کی کتابوں کے علاوہ کوئی دوسری کتاب ایک آنکھ.نہ بھاتی.
مجھے آج بھی اپنی کتاب موجدوں کی کہانیاں ابا کے ہاتھوں جلائے جانے کا دکھ ہے.
ویسی دوپہریں شاید آج کل کے بچوں کےمقدر میں نہیں.
ٹارزن کا کردار لکھنے والے مصنف نے کبھی جنگل نہیں دیکھا عمروعیار کی زنبیل تو ہمیں انسان کی خواہشوں سے بنائی معلوم ہوتی ہے جو مرٍضی ڈال دو بھر نہیں سکتی عمران کا کردار دیکھ کر ہمیں یقین ہوا ون مین آف آرمی (one man of army) بھی ہو سکتا ہے کوئی انسان
 
Top