پاکستانی خاتون اسرائیل میں اُس مقدس ترین مقام پر پہنچ گئی جہاں کسی پاکستانی کو جانے کی اجازت نہیں

کعنان

محفلین
پاکستانی خاتون اسرائیل میں اُس مقدس ترین مقام پر پہنچ گئی جہاں کسی پاکستانی کو جانے کی اجازت نہیں، کیسے پہنچی اور کیا دیکھا؟ تمام تفصیل بیان کر دی
05 جنوری 2017
news-1483620113-1139_large.jpg


لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) اسرائیل کے زیرقبضہ شہر یروشلم میں موجود قبلہ اول کی زیارت ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے لیکن پاکستانیوں کی یہ خواہش اس لیے پوری نہیں ہو سکتی کہ غاصب اسرائیل پاکستانی پاسپورٹ کو تسلیم نہیں کرتا اور پاکستانیوں کو وہاں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔


مدیحہ انور چوہدری نامی اس پاکستانی خاتون کی بھی شروع سے خواہش تھی کہ قبلہ اول دیکھے۔ چند سال قبل وہ امریکہ منتقل ہوئی اور گزشتہ سال دسمبر میں جب اسے امریکی پاسپورٹ ملا تو اس نے اپنی یہ خواہش پوری کرنے میں دیر نہیں لگائی اور امریکی پاسپورٹ پر یروشلم پہنچ گئی۔

اس نے قبلہ اول کے مختلف مقامات کی روح پرور تصاویر انٹرنیٹ پر شیئر کی ہیں اور بتایا ہے کہ ”یہ واقعی بہت خوبصورت مقام ہے جس سے اکثر مسلمان نابلد ہیں۔ میرا تجربہ انتہائی شاندار رہا۔ یہاں ہر پاکستانی نہیں آ سکتا لیکن میں خوش قسمت ہوں کہ یہاں آ سکی۔“

ویب سائٹ parhlo کی رپورٹ کے مطابق مدیحہ انور کا کہنا تھا کہ

”قبلہ اول کی زیارت کا شوق مجھے میرے والد سے ورثے میں ملا۔ وہ یہاں آنا چاہتے تھے لیکن پاکستانی پاسپورٹ کی وجہ سے ان کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ مجھے جیسے ہی امریکی شہریت ملی تو میں نے یروشلم آنے کا فیصلہ کیا اور یہاں پہنچ گئی۔ یہاں میں نے مسجداقصیٰ میں نماز ادا کی تمام مقدس مقامات سمیت قدیم یروشلم کی سیر کی۔ یہ اتنی خوبصورت جگہ ہے کہ ہر مسلمان کو یہاں آنا چاہیے۔“

مدیحہ انور نے اپنے سفر کی یہ روداد اپنے فیس بک پیج پر ایک پوسٹ کی صورت میں بیان کی اور درجن بھر تصاویر بھی شیئر کیں۔ اپنی پوسٹ کے اختتام میں انہوں نے فارسی کا یہ شعر بھی تحریر کیا:

ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
ترجمہ: یہ سعادت اپنے زورِ بازو سے نہیں ملتی، جب تک کہ عطا کرنے والا خدا عطا نہ کرے


news-1483620113-3013.jpg

news-1483620113-9166.jpg


news-1483620113-5600.jpg


news-1483620113-2590.jpg


news-1483620113-2677.jpg


news-1483620113-2177.jpg

news-1483620113-2726.jpg

news-1483620113-3835.jpg

news-1483620113-4660.JPG
 
آخری تدوین:

dxbgraphics

محفلین
یہاں میں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اسرائیل پاکستانی پاسپورٹ تسلیم نہیں کرتا غلط ہے۔
بلکہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا ۔ اور انشاء اللہ کرے گا بھی نہیں۔
 

کعنان

محفلین
ممنوعہ سرزمین: ایک پاکستانی کا سفر ِ اسرائیل
شیراز خان
August 27, 2016

میرا ہمیشہ سے پختہ عزم تھا کہ کینیڈا کی شہریت اور پاسپورٹ ملنے کے بعد، سب سے پہلے میں جس ملک جاؤں گا وہ اسرائیل ہو گا۔ اپنے دوستوں سے اس مقدس سرزمین کے بارے میں ڈھیر ساری کہانیاں سننے کے بعد میرے جذبات کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ مگر میں بہت خوفزدہ بھی تھا کیونکہ میں نے ایسے لوگوں کے بارے میں بھی سن رکھا تھا جنہیں پاکستانی یا/اور مسلم ہونے کی وجہ سے اسرائیلی کسٹمز نے ملک میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔

17 فروری 2016 کو میں نے ڈھیر ساری دعاؤں اور مشوروں کے ساتھ اسرائیل جانے کے لیے برٹش ایئرویز کی پرواز پکڑی۔ میں مقامی وقت کے مطابق صبح پانچ بجے تل ابیب کے بن گورین ایئر پورٹ پہنچا۔ اسرائیلی کسٹمز پر پہنچنے پر ایک افسر بے جان آواز میں مجھ سے تفتیش کرنے لگا، کیا میں اسرائیل میں کسی کو جانتا ہوں؟ کیا مجھے عربی آتی ہے؟َ کیا میں کبھی مشرق وسطیٰ آیا ہوں؟

اس نے میرا پاکستانی پاسپورٹ بھی دیکھنا چاہا مگر چونکہ اس پاسپورٹ کی میعاد ختم ہو چکی تھی اس لیے اپنے ساتھ نہیں لایا تھا۔ میرا کینیڈین پاسپورٹ لیتے ہوئے انہوں نے مجھے انتظار گاہ کی جانب جانے کا اشارہ کیا۔ مجھے پہلے ہی ایسی صورتحال کی توقع تھی چنانچہ میں اپنے ساتھ اسرائیل پر سیاحتی گائیڈ لے آیا تھا، جو میں نے وہاں پڑھنا شروع کر دی۔

30 منٹ کے بعد ایک دوسرے کسٹمز افسر کی جانب سے مجھے ایک کمرے میں بلایا گیا۔ انہوں نے مجھ سے اسرائیل آنے کا مقصد پوچھا اور یہ بھی پوچھا کہ میں نے کسی دوسرے ملک جانے کے بجائے اسرائیل کا انتخاب کیوں کیا۔ وہ آہستگی اور احتیاط سے میرے جوابات کا اپنے کمپیوٹر میں اندراج کرتا رہا۔ کینیڈا منتقل ہونے اور میرے پیشے کے متعلق چند دیگر سوالات کی بوچھاڑ کرنے کے بعد انہوں نے مجھے ایک سفید کاغذ پر اپنا مکمل نام اور ای میل ایڈریس لکھنے کو کہا اور پھر اسی انتظار گاہ جا کر انتظار کرنے کو کہا۔

ایک گھنٹہ گزر جانے کے بعد ایک نوجوان خاتون افسر مجھے ایک اور سوال و جواب کے سیشن کے لیے بلانے کے لیے آئیں۔ میں ایسے کمرے میں بیٹھا تھا جہاں یروشلم میں واقع قبۃ الصخراء کی تصویر لگی تھی اور اسرائیلی پرچم آویزاں تھا. مجھ سے اتنے سوالات پوچھے گئے کہ خدا کی پناہ۔ وہ سیشن قریب 25 منٹ تک جاری رہا۔ آخر میں مجھے بتایا گیا کہ وہ خاتون میری فراہم کردہ تمام معلومات کی تصدیق کریں گی۔

ایئرپورٹ پر لینڈ کرنے کے 4 گھنٹوں کے طویل انتظار کے بعد ایک خاتون میرا پاسپورٹ تھامے میرے پاس آئیں۔ انہوں نے مجھے ایک علیحدہ کاغذ پر ویزا جاری کیا اور مجھے لگیج مشین کی جانب جانے کی ہدایت دی۔ میں نے اپنا سامان اٹھایا اور جلدی سے والد کو فون کر کے اطلاع دی کہ میں بالآخر یروشلم روانہ ہو رہا ہوں۔

تل ابیب سے 45 منٹ کی مسافت پر موجود یروشلم یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے لیے ایک مقدس شہر کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ شہر مسلم، یہودی، عیسائی اور آرمینیائی علاقوں میں تقسیم ہے۔ میں دوپہر کو اولڈ سٹی میں واقع اپنے ہاسٹل پہنچا۔ وقت ضائع کیے بغیر میں نے اپنا بیگ کمرے میں چھوڑا اور سب سے پہلے مسجدِ اقصٰی جانے کا فیصلہ کیا۔

جفا گیٹ (جو کہ اس قلعہ بند شہر کا ایک دروازہ ہے) سے مسجد اقصیٰ کی طرف جانے والے راستے میں خوبصورت روایتی بازاروں سے گزر ہوتا ہے۔ مسجد اقصیٰ کے دروازے پر اس وقت ڈیوٹی پر موجود گارڈ نے مجھ سے پاسپورٹ دکھانے کو کہا اور میرے مسلمان ہونے کی تصدیق کرنے کے لیے مجھ سے سورہ فاتحہ پڑھنے کو کہا (غیر مسلموں کے لیے یہاں آنے کے لیے مخصوص گھنٹے مختص کیے گئے ہیں). میں نے سورۃ پڑھی اور اندر داخل ہو گیا۔


57aad493ca8a5.jpg

57a988badf5f2.jpg

یہ وسیع و عریض مسجد اپنی سادگی میں ہی اتنی شاندار اور اپنی مثال آپ تھی. مسجد میں عبادت گزاروں کی تھوڑی تعداد دکھائی دی۔ میں نے مسجد کی اندرونی آرائش کو دیکھنے کے بعد وہاں نماز پڑھی۔

مسجد کے سامنے سونے سے آراستہ قبۃ الصخراء (ڈوم آف دی راک) ہے جو کہ دنیا کی سب سے حیرت انگیز اور سب سے زیادہ فوٹوگراف کی گئی جگہوں میں سے ہے. سنہری گنبد ہلکے رنگ کے آسمان کے سامنے بالکل واضح اور الگ تھلگ دکھائی دے رہا تھا۔


Qubba-tu-Sakhra-1024x679.jpg

Qubba-tu-Sakhra2-1024x679.jpg

Qubba-tu-Sakhra2-internal-1024x677.jpg

Safr-e-meraj-576x1024.jpg

میں دیر تک اس سنہرے گنبد کے سحر میں گم ہو کر اور انتہائی عاجزی سے اسے تکتا رہا۔ اس جگہ کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ آخری نبی حضرت محمد ﷺ نے معراج کے دوران وہاں سے آسمان کی جانب اپنا سفر کا آغاز کیا تھا،

jews-praying-1024x679.jpg

اس کے بعد میں دیوارِ گریہ یا مغربی دیوار گیا جو کہ ایک مقدس مقام کی حیثیت رکھتی ہے اور جہاں یہودیوں کو عبادت کرنے کی اجازت ہے۔ وہاں میں نے یہودیوں کو قدیم چونا پتھر کی دیوار کے سامنے رنج و غم کی حالت میں دعائیں مانگتے دیکھا۔


اس کے بعد میں نے چرچ آف سیپلشر کا رخ کیا. ایسا سمجھا جاتا ہے کہ اس جگہ حضرت عیسیٰ کا مقبرہ موجود ہے۔ یہ عیسائیوں کے لیے مقدس جگہ ہے. وہ مانتے ہیں کہ اس مقام پر تاریخ کے سب اہم واقعات رونما ہوئے جیسے یہی وہ مقام ہے جہاں مسیح مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوئے تھے۔ دن کے ڈھلنے کے ساتھ ساتھ مجھ میں ایک سکون سما گیا تھا۔

تینوں جگہوں پر ان مختلف مذاہب کے پیروکاروں کو دیکھ کر میرے اندر ایک آسودگی کی کیفیت اتر چکی تھی۔

yerushlum-1024x576.jpg

یروشلم میں تین دن گزارنے کے بعد میں اپنے ساتھی مسافر، جن کا تعلق ہندوستان سے تھا اور ان سے میری ملاقات ہاسٹل میں ہوئی تھی، کے ساتھ بیت اللحم اور ہیبرون (الخلیل) جانے کا فیصلہ کیا۔

بیت اللحم یروشلم کے جنوب میں 30 منٹ کی مسافت پر واقع ہے۔ یہ حصہ فلسطینی شہر کے زیر اثر ہے اور یہاں چرچ آف نیٹیوٹی (حضرت عیسیٰ کی جائے پیدائش) موجود ہونے کی وجہ سے سیاحوں کے درمیان یہ شہر خاصا مقبول ہے۔

بیت اللحم سے ہم الخلیل پہنچے جہاں فلسطینی سول انتظامیہ اور اسرائیلی افواج دونوں کا کنٹرول ہے۔ اس شہر کی سب سے خصوصی بات الحرم الابراہیمی ہے۔ یہ مقام مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں تینوں ہی کے لیے مقدس حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ وہاں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام اور ان کی ازواجِ مطہرات کے مقبرے موجود ہیں۔


Hazrat-Ibraheem-1024x679.jpg

Hazrat-Ishaaq-576x1024.jpg

دو سیکیورٹی چیک پوائنٹس سے گزرنے کے بعد ہم اس مقام کی مسلم جانب پر پہنچے۔ یہاں اسلام، عیسائیت اور یہودیت، تینوں ہی مذاہب کے لیے مقدس پیغمبران مدفون ہیں۔ وہاں میں نے اپنے اندر ایک روحانی تسکین و تازگی کا احساس پایا۔

ہاسٹل میں میری ملاقات لیتھوانیا سے تعلق رکھنے والے ایک کینیڈین سیاح سے ہوئی تھی. انہیں بھی اپنا ہمسفر بنا کر ہم نے رام اللہ جانے کا فیصلہ کیا جو مغربی کنارے پر واقع ایک فلسطینی شہر ہے۔ یہ شہر یروشلم سے 35 منٹ کی ڈرائیو پر واقع ہے. اس دوران ہمیں کسی بھی چیک پوائنٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔

میرا ہاسٹل رام اللہ شہر کے اندر موجود مرکزی بس اسٹیشن سے صرف ایک منٹ کے پیدل سفر پر واقع تھا۔ رام اللہ میں ایک رات کا قیام کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ہم نے اپنا وقت ضائع کیے بغیر اپنے بیگز ہاسٹل میں پھینکے اور شہر کی سیر کو نکل پڑے۔


Raam-Allah-1024x679.jpg

Yasir-Arafat-1024x679.jpg

Kanafa-1024x576.jpg

رام اللہ ایک پر رونق اور ہلچل سے بھرا فلسطینی گڑھ ہے۔ اسی شہر میں فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے سربراہ یاسر عرافات کا مقبرہ موجود ہے۔ ہم چند مقامی بازاروں سے گزر کر ایک میوزیم پر چند لمحوں کے لیے رکے اور شیشہ پیا. میں نے جہاں کہیں بھی شیشہ پیا ہے ان تمام کے مقابلے وہاں کے مشہور بلدنا کیفے کا شیشہ اب تک کا بہترین شیشہ ثابت ہوا۔ ہم خوش قسمت تھے کہ وہاں چند دلچسپ مقامی افراد دوست بن گئے تھے۔ آپ شاید یہ سوچ بھی نہیں سکتے ہوں گے مگر وہ وہاں ایک کم و بیش عام زندگی ہی گزار رہے ہیں۔

اسرائیل میں کسی دوسری جگہ کے مقابلے میں مجھے سب سے زیادہ لگژری گاڑیاں مغربی کنارے کے اس شہر رام اللہ میں دیکھنے کو ملی تھیں۔ مگر میں یہ بھی بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ رام اللہ سے 15 منٹ کی ڈرائیو پر مہاجرین کے کیمپس قائم ہیں جہاں بڑی تعداد میں فلسطینی انتہائی غربت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اگلے دن میں فلسطینی شہر نابلس گیا۔ مقامی بس کے ذریعے وہاں پہنچنے میں مجھے ایک گھنٹے سے تھوڑا زیادہ وقت لگا۔ رام اللہ اور نابلس دونوں شہر ماضی میں اسرائیلی اور فلسطینی افواج کے درمیان جھڑبوں کے دوران متنازع علاقے رہے ہیں۔

Tea-seller-1024x576.jpg

کچھ گھنٹوں کے قیام کے دوران مجھے وہاں ہلچل اور عمارتوں سے بھرا شہر دیکھنے کو ملا۔ تھوڑی دیر کے لیے خود کو نابلس کے بازاروں میں گم کرنے کے بعد میں نے مشہور میٹھی سوغات کنافہ کھائی. کنافہ میٹھی چاش میں جذب پنیر پیسٹری ہے اور عرب ممالک میں خاصی مقبول ہے۔ اسرائیل پہنچنے کے بعد یہ واحد کھانے کی چیز ملی جو سب سے زیادہ خوش ذائقہ تھی۔ اس کے بعد میں حماد الشفا میں سکون بخش ترک حمام سے محظوظ ہوا۔ وہاں سے نکلتے وقت میں خود کو ذہنی طور پر بہت پرسکون محسوس کر رہا تھا۔

نابلس زیتون کے تیل کے سب سے زیادہ صابن بنانے کے حوالے سے کافی مقبول ہے اسی لیے میں بھی دیکھنا چاہتا تھا کہ آخر یہ بنتے کیسے ہیں۔ مگر دوپہر ہو جانے کی وجہ سے تمام کارخانے بند ہو گئے تھے۔ لیکن بہرحال میں چھوٹی دکانوں سے کچھ مقامی طور پر بنائے گئے زیتون کے تیل کے صابن حاصل کرنے میں کامیاب رہا اور انہیں دیکھ کر واقعی اندازہ ہوا کہ یہ کیوں مقبول ہیں۔

اس شہر کو خیر آباد کہنے کا وقت آ گیا تھا۔ میں نے بس پکڑی اور رام اللہ روانہ ہو گیا۔ وہاں سے یروشلم کے لیے ایک دوسری بس میں سوار ہوا اور اس کے بعد پھر تل ابیب پہنچا جہاں میں نے اپںے سفر کا آخری دن گزارا۔ اس ایک دن میں مجھ سے جتنا ہو سکا اس شہر کو دیکھا اور محسوس کیا۔ تل ابیب کے علاقے جفا، جو کہ ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے، میں میں نے بہترین ٹیونا پیزا کھایا، جلد بازی میں تحائف خریدے، اور اولڈ جفا کے ساحلِ سمندر پر خوشگوار گرم دھوپ سینکنے کا موقع حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔

Tal-abib-sahil-1024x576.jpg

اس دن جمعہ تھا۔ اسرائیل میں یہ یومِ سبت ہوتا ہے: یہودیت میں آرام یا تعطیل کا دن۔ سڑکوں پر ٹریفک کم تھا اور شام ہوتے ہی سب کچھ بند ہونا شروع ہو گیا تھا۔ اگلے دن میں نے نا چاہتے ہوئے بھی مقدس سرزمین سے کینیڈا روانہ ہونے کے لیے اپنا سامان سمیٹا۔ بہرحال میں اس بات سے بھی کافی خوش تھا کہ اسرائیل دیکھنے کی میری دیرینہ آرزو پوری ہو گئی تھی۔

(بلاگر شیراز علی خان بین الاقوامی تعلقات کے گریجوئیٹ ہیں اور سفر کرنے کا شوق رکھتے ہیں۔)

ح
 

arifkarim

معطل
مملکت خداداد اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم ہے۔ جب یہود وہاں ہجرت کر کےگئے تھے تو وہ ایک عام عرب دیہی علاقہ تھا۔ آج اسرائیل سائنس و ٹیکنالوجی میں دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہا ہے۔ بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مراکز یا شاخیں اسرائیل میں قائم ہیں۔ پورے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل ان چنداں ممالک میں سے ہے جہاں آج بھی مغربی طرز کی جمہوریت ہے، مذہبی آزادی ہے، میڈیا اور عدالتیں آزاد ہیں۔ اور سب سے بڑی چیز کہ دنیا کا واحد یہود اکثریت ملک ہونے کے باوجود یہودیوں کی اکثریت لامذہب، ملحد یا سیکولر ہے۔
 

dxbgraphics

محفلین
مملکت خداداد اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم ہے۔ جب یہود وہاں ہجرت کر کےگئے تھے تو وہ ایک عام عرب دیہی علاقہ تھا۔ آج اسرائیل سائنس و ٹیکنالوجی میں دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہا ہے۔ بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مراکز یا شاخیں اسرائیل میں قائم ہیں۔ پورے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل ان چنداں ممالک میں سے ہے جہاں آج بھی مغربی طرز کی جمہوریت ہے، مذہبی آزادی ہے، میڈیا اور عدالتیں آزاد ہیں۔ اور سب سے بڑی چیز کہ دنیا کا واحد یہود اکثریت ملک ہونے کے باوجود یہودیوں کی اکثریت لامذہب، ملحد یا سیکولر ہے۔
جی عارف بھائی۔ کیوں کہ اللہ کا وعدہ ہے کہ ان لوگوں کو ان کے اچھے اعمال کا بدلہ دنیا میں ملے گا۔ اسی لئے ان کی دنیا جنت سے کم نہیں ہے
 

روشن خیال

محفلین
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ یہ گولڈن گنبد والی مسجد مسلمانوں کی مقدس مسجد نہیں ہے بلکہ اسکے ساتھ ہی کوئی سادہ سی مسجد بنی ہے وہ مسلمانوں کی اصل مسجد ہے
 
Top