پاکستانی جامعات میں تحقیقی معیار سے زیادہ مقدار پر زور دِیا جاتا ہے

ڈاکٹر عطا الرحمان صاحب کے ہٹنے سے یہ منصوبے کیوں شروع نہ ہو سکے
کیونکہ ڈاکٹر صاحب نے یہ تمام معاہدے ذاتی حیثیت سے تو نہیں کیے ہوں گے ایک حکومتی نمائندے کے طور پر ہوں گے اور حکومتی نمائندے بدلتے رہتے ہیں

کچھ عرصہ بعد کورین ڈائریکٹر سے ملا اس نے بتایا کہ فی الحال معاہدہ ہوا نہیں۔ اور کوئی فیکلٹی جانے پر تیار نہیں
عطاالرحمن کی ذاتی پرخلوص کوششوں اور ذاتی مفاد کے لیے کام کرنے والوں کا کیا مقابلہ
 
ڈاکٹر عطا الرحمان صاحب کے ہٹنے سے یہ منصوبے کیوں شروع نہ ہو سکے
کیونکہ ڈاکٹر صاحب نے یہ تمام معاہدے ذاتی حیثیت سے تو نہیں کیے ہوں گے ایک حکومتی نمائندے کے طور پر ہوں گے اور حکومتی نمائندے بدلتے رہتے ہیں

کچھ عرصہ بعد کورین ڈائریکٹر سے ملا اس نے بتایا کہ فی الحال معاہدہ ہوا نہیں۔ اور کوئی فیکلٹی جانے پر تیار نہیں
عطاالرحمن کی ذاتی پرخلوص کوششوں اور ذاتی مفاد کے لیے کام کرنے والوں کا کیا مقابلہ
 

جاسمن

لائبریرین
کسی یونیورسٹی میں کوئی محقق تحقیق پڑھاتا ہے نا کراتا ہے۔ بلکہ اس کا بنیادی کام خود تحقیق کرتے رہنا ہوتا ہے۔ اس۔۔۔۔ کے زیر نگرانی ایک تحقیقی گروپ ہوتا ہے جس میں ہر کچھ عرصہ بعد نئے لوگ شامل ہوتے رہتے ہیں۔ نئے آنے والے قابل لیکن ناتجربہ کار لوگ محقق سے مرحلہ وار راہنمائی لیتے ہوئے گروپ کے اجتماعی تجربہ سے سیکھتے جاتے ہیں اور تحقیق کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ چند سال میں وہ خود تجربہ کار محقق بن جاتے ہیں۔ اسی لئے پی ایچ ڈی میں نگران محقق ٹیچر نہیں بلکہ ریسرچ سپروائزر کہلاتا ہے۔
دراصل ایک جامعہ کا اصل کام تدریس و تربیت کی بجائے تحقیق اور تحقیق کے گرد گھومتی تدریس ہے۔ جامعہ دراصل ایک ڈھانچہ ، ایک نظام اور ایک تحقیقی تجربہ گاہ مہیا کرتی ہے۔ طلبا درس سے ایک قدم آگے خود کام کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔
جزاک اللہ خیرا۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس طرح نہیں ہورہا۔اللہ تعالی بہتر کرے۔ آمین!
 
السلام علیکم !
اردو مباحثے کے لیے مواد کی ضرورت ہے۔ آپ کے پاس اس موضوع پر جو اشعار یا دلائل موجود ہوں۔ براہِ کرم اس لڑی میں شئیر کیجئے اور دعائیں سمیٹئیے۔[
میرا موضوع بھی یہی ہے ۔۔۔۔۔۔ میں نے الحمداللہ ۔۔۔ مباحثہ ۔۔۔۔ تقریر اور مضمون نویسی میں پہلی پوزیشنیں حاصل کی ہے اب سترہ تاریخ کو اسی موضوع پر میرا موضوع ہے
 

محمد امین

لائبریرین
میرے ذہن میں ایک سوال/تجسس کافی عرصہ سے ہے۔
سکول کے اساتذہ تربیت لے کے پڑھاتے ہیں۔لیکن کالج اور جامعات میں اب تک ایم اے کی بنیاد پہ لیکچرر شپ ملتی رہی ہے۔انہوں نے اپنے مضامین میں تو ماسٹرز کیا ہے۔وہ بہت کچھ جانتے ہیں اس مضمون کے بارے میں۔لیکن۔۔۔۔اس مضمون کو پڑھایا کیسے جائے؟یہ تو انہوں نے نہیں سیکھا؟؟؟
ایم فل والوں کو ہمارے ہاں ڈاکٹز اور ایم فل والے پڑھا رہے ہیں۔پی ایچ ڈی کو ڈاکٹز پڑھا رہے ہیں۔
لیکن صرف ایک مرتبہ اپنے ایم فل یا ڈاکٹریٹ میں تحقیق کر کے تحقیق پڑھانا یا کرانا ۔۔۔۔ کیسے ممکن ہے؟؟؟؟؟
مجھے تو تحقیق کرانا تو بہت بہت بہت اوپر کی بات۔۔۔پڑھانا بھی بہت اوپر کی بات لگتی ہے۔اس کے لیے تو استاد کو کئی تحقیقات کے processسے گذرنا ہوگا۔اسے تحقیق پہ اپنے مطالعہ کو بہت بہت وسیع کرنا ہوگا۔اسے تحقیق پڑھانا اور کرانا سیکھنا ہوگا۔
لیکن۔۔۔۔مجھے بہت افسوس اور دکھ ہے ۔۔۔۔ہم اپنے شعبہ /مضمون سے مخلص نہیں۔
محبت یہ نہیں کہ اس مضمون میں زیادہ سے زیادہ لوگ پاس کر کے زندگی میں لے آئیں۔۔۔۔۔وہ تو نہ صرف بے مصرف ہوں گے بلکہ انتہائی نقصان دہ ہوں گے۔
ادھورا علم کس قدر نقصان کرتا ہے!!!

اسکول کے اساتذہ کے لیے تربیت یا ایجوکیشن کے مضمون میں ڈگری ڈپلوما ہونا تو ٹھیک ہے لیکن دنیا بھر میں ایسی کوئی پریکٹس نہیں کہ جامعات میں پڑھانے والوں کے لیے ایجوکیشن کا مضمون لازمی ہو۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اکثر اچھی جامعات میں لیکچرر کم از کم پی ایچ ڈی ہونا ضروری ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ انجینئرنگ کی جامعات میں تو اکثر جونیئر لیکچرر یا لیب انسٹرکٹر بھی پی ایچ ڈی ہوتے ہیں، اب اس کا تقابل کریں پاکستان سے۔ یہاں لیب انسٹرکٹر کے لیے محض بیچلرز ڈگری ضروری ہے۔ یہاں تک کہ اکثر لوگوں کو تو انا کے مسائل ہوجاتے ہیں اگر وہ بیچلرز سے ذرا اوپر کی قابلیت کے حامل ہوں اور ان کو لیب پڑھانے کو دے دی جائے۔

ہاں ان کا نظام ایسا ہے کہ کورس اور لیب کا ٹیچر اگر ڈوکٹر ہے تو اس کے ساتھ ٹیچنگ اسسٹنٹ کچھ گریجویٹ طالبِ علم یا کسی ریسرچ گروپ کے ممبر ہوتے ہیں، یہی طریقہ ہے کہ جس میں تحقیق سے ہٹ کر تدریس میں جونیئرز کی تربیت ایک کلوزلی مونیٹرڈ نظام کے تحت کی جاتی ہے۔

تحقیق کے ذریعے ماسٹرز کرنے والا ایک محنتی طالبِ علم اگر محسوس کرتا ہے کہ اس کا مستقبل تدریس سے وابستہ ہے تو وہ اسی دوران ٹیچنگ اسسٹنس کے ذریعے اپنے آپ کو گروم کرتا ہے یا اس کو گروم کیا جاتا ہے۔

ایچ ای سی کی پالیسیز ہمارے معاشرتی و معاشی مسائل سے متاثر ہوتی ہیں۔ ایچ ای سی کے مطابق کسی شخص کو لیکچرر بنایا جا سکتا ہے اگر اس نے 18 سالہ تعلیم مکمل کرلی ہے، چاہے تحقیق کے ذریعے ہو یا فقط کورس ورک۔ پھر اس کے بعد سال دو سال کے تدریسی تجربے کے ساتھ اگر ایک آدھ جریدے میں مقالہ لکھ ڈالا تو اسسٹنٹ پروفیسر، بعض اوقات مقالے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہاں پھر ایسوسی ایٹ پروفیسر کے لیے پی ایچ ڈی ہونی لازمی ہے۔ اور یہاں ہمارا قومی احساسِ کمتری بھی فعال ہوجاتا ہے، کہ اگر پی ایچ ڈی پاکستان سے کی ہے تو تنخواہ غیر ملک کے پی ایچ ڈی سے کم ملے گی۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے۔

ایک بات جو تحقیق و تدریس کے حوالے سے اہم ہے وہ یہ کہ اعلیٰ تعلیم میں پڑھانے والے کا اچھا پڑھانے سے زیادہ یہ ضروری ہے کہ اس کو خود وہ مضمون آتا ہو۔ اور وہ اپنے علم اور تجربے کی روشنی میں طلبا کو انسپائر کر سکتا ہو۔ واضح رہے میں نے انسپائر لکھا ہے، امپریس نہیں۔ ماسٹرز سطح کی تعلیم ایسی ہوتی ہے کہ اس میں گھول کر نہیں پلا سکتے، طالبِ علم کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی اور تحریک و ترغیب دینا زیادہ ضروری ہوتا ہے۔

اور بیچلرز سطح پر ایسے اساتذہ کی ضرورت ہوتی ہے کہ جو واقعتاََ گھول کر پلا سکتے ہوں، کونسیپٹس سمجھا سکتے ہوں۔ اور یہ وہ لوگ ہو سکتے ہیں کہ جو عرصہ دراز سے پڑھا رہے ہوں اور اپنا لوہا منوا چکے ہوں یا ایسے کم تجربہ کار افراد جن کو جامعہ کے سینیئرز نے جانچ لیا ہو۔۔
 

جاسمن

لائبریرین
امین!
آپ نے درست کہا کہ جامعات کی سطح پہ راہنمائی ہوتی ہے اور پڑھنا خود طالب علم نے ہوتا ہے۔لیکن ہمارے ہاں پکا پکایا حلوہ نوٹس کی صورت میں بانٹا جاتا ہے اور اسے رٹ کے طلبا امتحانات دیتے ہیں۔سوالات بھی ان ہی نوٹس سے بنائے جاتے ہیں۔نتیجہ ۔۔۔۔اگلی نسل اور بھی کم پڑھتی ہے۔
نہ استاد محنت کرتا ہے نہ طالب علم۔فزیکل سائینسز کے بارے مجھے اعلی تعلیم کا اتنا علم نہیں۔۔۔۔لیکن جتنی میری ملاقات فزیکل سائنس کے لوگوں سے ہوتی ہے تو مایوسی زیادہ ہے۔اور کتب خانے کا رخ کرتے بھی نہیں دیکھا۔
ادب کے طالب علم کو جتنا پڑھنے کی ضرورت ہے وہ اس کا چند فیصد بھی نہیں پڑھتے۔میں نے خود انگریزی کے کتنے ہی لیکچررز کو دیکھا ہے کہ کئی کئی ماہ تک ایک کتاب بھی ایشو نہیں کراتے۔اردو ادب میں فرسٹ ڈویژن میں ماسٹرز کر کے اردو پڑھانے والی۔۔۔۔آہ!غالب کی ایک مشہور غزل کا شعر پوچھا کہ کس کی غزل ہے؟اس نے پروین شاکر یا فراز کا نام لیا۔حالانکہ مذکورہ غزل ان کے ایم اے کے نصاب میں ہے۔ناول فخریہ کہتی ہیں کہ ایک بھی نہیں پڑھا۔
انگریزی کی دو ایسی لیکچررز کو جانتی ہوں۔۔کہ جنہیں سادہ درخواست لکھنی نہیں آتی۔اور انہوں نے ایم فل کیا ہوا ہے۔
 

محمد امین

لائبریرین
امین!
آپ نے درست کہا کہ جامعات کی سطح پہ راہنمائی ہوتی ہے اور پڑھنا خود طالب علم نے ہوتا ہے۔لیکن ہمارے ہاں پکا پکایا حلوہ نوٹس کی صورت میں بانٹا جاتا ہے اور اسے رٹ کے طلبا امتحانات دیتے ہیں۔سوالات بھی ان ہی نوٹس سے بنائے جاتے ہیں۔نتیجہ ۔۔۔۔اگلی نسل اور بھی کم پڑھتی ہے۔
نہ استاد محنت کرتا ہے نہ طالب علم۔فزیکل سائینسز کے بارے مجھے اعلی تعلیم کا اتنا علم نہیں۔۔۔۔لیکن جتنی میری ملاقات فزیکل سائنس کے لوگوں سے ہوتی ہے تو مایوسی زیادہ ہے۔اور کتب خانے کا رخ کرتے بھی نہیں دیکھا۔
ادب کے طالب علم کو جتنا پڑھنے کی ضرورت ہے وہ اس کا چند فیصد بھی نہیں پڑھتے۔میں نے خود انگریزی کے کتنے ہی لیکچررز کو دیکھا ہے کہ کئی کئی ماہ تک ایک کتاب بھی ایشو نہیں کراتے۔اردو ادب میں فرسٹ ڈویژن میں ماسٹرز کر کے اردو پڑھانے والی۔۔۔۔آہ!غالب کی ایک مشہور غزل کا شعر پوچھا کہ کس کی غزل ہے؟اس نے پروین شاکر یا فراز کا نام لیا۔حالانکہ مذکورہ غزل ان کے ایم اے کے نصاب میں ہے۔ناول فخریہ کہتی ہیں کہ ایک بھی نہیں پڑھا۔
انگریزی کی دو ایسی لیکچررز کو جانتی ہوں۔۔کہ جنہیں سادہ درخواست لکھنی نہیں آتی۔اور انہوں نے ایم فل کیا ہوا ہے۔

یہ مسائل ہمارے معاشرے میں ہر شعبے میں نظر آتے ہیں۔ سطحیت ہی تو کہیں گے اسے۔
 
یہ مباحثہ کہاں ہو رہا ہے؟
پنجاب بھر میں پہلے مرکز ، پھر تحصیل، ضلع، ڈویژن اور آخر صوبے لیول پر مقابلہ جات کا انعقاد کِیا گیا ہے۔ ایک لیول کے وِنرز ، دوسرے لیول کے contestants ہوتے ہیں۔ مذکورہ مباحثہ پنجاب کی سب ڈویژنز میں ہوگا۔
 

محمد امین

لائبریرین
پنجاب بھر میں پہلے مرکز ، پھر تحصیل، ضلع، ڈویژن اور آخر صوبے لیول پر مقابلہ جات کا انعقاد کِیا گیا ہے۔ ایک لیول کے وِنرز ، دوسرے لیول کے contestants ہوتے ہیں۔ مذکورہ مباحثہ پنجاب کی سب ڈویژنز میں ہوگا۔

حکومت کروا رہی ہے؟

ویسے امید ہے اس دھاگے میں موجود تبصروں سے کافی مدد ملی ہوگی آپ کو۔
 
حکومت کروا رہی ہے؟

ویسے امید ہے اس دھاگے میں موجود تبصروں سے کافی مدد ملی ہوگی آپ کو۔
ہاں جی ، پنجاب حکومت۔
ایسا ہے کہ اس دھاگے اور پہلے والے دھاگے میں بھی زیادہ تر دلائل مجھ سے مخالف تھے۔ میں پہلے مخالفین کے دلائل اکٹھے کرتی ہوں اور پھر اُن کا توڑ ڈھونڈتی ہوں۔ کیونکہ گنگا اُلٹی بہانے کا شوق ہے بچپن سے۔
اب بھی یوں ہے کہ یہ ثابت کرنا ہے کہ ہماری جامعات میں معیار ہے !
 

محمد امین

لائبریرین
ہاں جی ، پنجاب حکومت۔
ایسا ہے کہ اس دھاگے اور پہلے والے دھاگے میں بھی زیادہ تر دلائل مجھ سے مخالف تھے۔ میں پہلے مخالفین کے دلائل اکٹھے کرتی ہوں اور پھر اُن کا توڑ ڈھونڈتی ہوں۔ کیونکہ گنگا اُلٹی بہانے کا شوق ہے بچپن سے۔
اب بھی یوں ہے کہ یہ ثابت کرنا ہے کہ ہماری جامعات میں معیار ہے !

پھر آپ اس حوالے سے دلائل سوچیے کہ وسائل اور تنخواہیں بین الاقوامی معیار کے مطابق نہ ہونے، حکومتی سطح پر فکر و عمل کے فقدان، انڈسٹری کی سرپرستی نہ ہونے اور تحقیق کی جانب معاشرتی عدم توجہ کے باوجود غیر ممالک سے واپس آئے ہوئے پی ایچ ڈی حضرات حسبِ مقدور تحقیق کر رہے ہیں. اس حوالے سے امپیکٹ فیکٹر جرنلز اور سایٹیشنز کے اعداد و شمار ڈھونڈیے. مشہور پروفیسروں کی گوگل اسکالر پروفائل کھنگالیں.
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم

اور یہاں ہمارا قومی احساسِ کمتری بھی فعال ہوجاتا ہے، کہ اگر پی ایچ ڈی پاکستان سے کی ہے تو تنخواہ غیر ملک کے پی ایچ ڈی سے کم ملے گی۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے۔

یہ معیار پاکستان کے علاوہ گلف میں بھی ہے، میری چھوٹی بہن جو "جی سی یونیورسٹی لاہور" میں لیکچرر ہے، پچھلے سال "رائل ہولووے یونیورسٹی لندن" سے ہسٹری میں پی ایچ ڈی کی ہے جس سے اسی رتبہ پر تنخواہ سکیل بہت بڑھ گیا ہے۔

کچھ پرانی بات ہے، ایسا پاکستان سے آئے ہوئے ایک دوست کے ساتھ بھی ہوا جس نے برسٹل یونیورسٹی سے آئی ٹی میں تعلیم مکمل کی اور سعودی عرب کے کسی تعلیمی ادارہ میں لیکچرر کے لئے اپلائی کیا، فونک انٹرویو ہوا اور 25 ہزار ریال کی آفر بھی، جب پاسپورٹ کی کاپی ارسال کی تو آفر 25 سے 5 ہزار ہو گئی، وجہ کہ تعلیم برطانیہ سے اور پاسپورٹ پاکستان کا ہے وہ سمجھے کہ شائد برطانوی نیشنل ہو گا۔

میں خود الامارات ائرفورس میں الیکٹریکل انجینئر رہا ہوں وہاں بھی ایسا ہی تھا ایک ہی رتبہ میں الامارات مواطین کی تنخواہ اور غیر مواطنین کی تنخواہ میں بہت فرق ہوتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برطانیہ میں سکول، کالج و یونیورسٹی میں اساتذہ کی کارکردگی چیک کرنے کے لئے محکمہ تعلیم کلاسیز میں کچھ انسپیکٹر بھیجتی ہے جو ہر کلاسز میں چند دن تک بیٹھتے ہیں اور اس پر اس کی رپورٹ تیار کر کے محکمہ تعلیم کو ارسال کرتے ہیں، کسی بھی کمی کی صورت میں اساتذہ کو امپرومنٹ کے لئے مزید ٹریننگ فراہم کی جاتی ہیں۔

والسلام
 
آخری تدوین:
پھر آپ اس حوالے سے دلائل سوچیے کہ وسائل اور تنخواہیں بین الاقوامی معیار کے مطابق نہ ہونے، حکومتی سطح پر فکر و عمل کے فقدان، انڈسٹری کی سرپرستی نہ ہونے اور تحقیق کی جانب معاشرتی عدم توجہ کے باوجود غیر ممالک سے واپس آئے ہوئے پی ایچ ڈی حضرات حسبِ مقدور تحقیق کر رہے ہیں. اس حوالے سے امپیکٹ فیکٹر جرنلز اور سایٹیشنز کے اعداد و شمار ڈھونڈیے. مشہور پروفیسروں کی گوگل اسکالر پروفائل کھنگالیں.
میں اس کوشش پر ہوں کہ ۔۔۔۔۔ مقدار تو ہے مگر معیار نہیں ہے
 
Top