پاکستانی جامعات میں تحقیقی معیار سے زیادہ مقدار پر زور دِیا جاتا ہے

ایچ ای سی نے پاکستان میں تعلیمی میدان میں ایک انقلاب برپا کیا ہے۔ ریسرچ پیپرز جو 20 سال پہلے شائع ہوتے تھے اب ایچ ای سی کے بعد نہ صرف زیادہ ہیں بلکہ معیاری ہیں۔ ایچ ای سی نے کوالیفائیڈ فیکلٹی کی تشکیل میں ایک کردار ادا کیا نہ صرف ہزاروں نوجوانوں کو اسکالرشپ پر بھیجا بلکہ ان کو واپس آکر جاب بھی دی۔ بدقسمتی سے یہ سلسلہ سست ہوگیا ہے۔ مگر ہزاروں اسکالرز کو معیاری ریسرچ کرنی آگئی ہے۔ان کی ریسرچ کو ایجاد اور پھر مارکیٹ نہ کیا جاسکآ کیونکہ ایچ ای سی کو یہ موقع نہیں ملا۔ ورنہ ٹیکنالوجی انکیبیترز اور اینترپنویرشپ پر بھی کئی منصوبے تھے۔ میں عطاالرحمن سے کوریا میں ملا جہاں وہ اپنی ٹیم کے ساتھ مذاکرات کرنے میری یونی ورستی آئے تھے تاکہ ان کو قائل کریں کہ ایسی ہی یونی ورستی پاکستان میں کوریا قائم کرے۔ انھوں نے بتایا کہ مختلف ممالک نے پاکستان میں 11 یونیورستیز قائم کرنے کی حامی بھری ہے جو خود ان کے فنڈ سے ان کی فیکلٹی کی مدد سے قائم ہوں مگر بدقسمتی سے ڈاکٹر عطا کو ہٹادیا گیا ۔
اسی طرح ایک ملک اب 10 ہزار طالب علموں کو پی ایچ ڈی کروائے گا دس سال میں۔
بہرحال اس غریب ملک کی غریب یونی ورستیز اچھا کام کررہی ہیں جیسے قائد اعظم، کومسیت، نست، اور کئی دیگر۔ باوجود خرابیوں کے پاکستان کی جامعات معیاری کام کررہی ہیں جیسے کراچی یونی ورستی اور ایچ ای جے اور اس سے منسلک ادارے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اب شاعری اور گُل و بلبل سے ہٹ کر روز مرہ زندگی سے ایک کریہہ مثال۔ میرا چونکہ جامعات کے ساتھ تعلق ایک مدت مدید سے نہیں ہے سو اعداد و شما ر کی بجائے ایک ذاتی تجربے کی بات کرتا ہوں۔ سات آٹھ سال ادھر کی بات ہے، ایک دن دفتر میں فون آیا، فون کرنے والے صاحب نے اپنا تعارف پی ایچ ڈی اسکالر کہہ کر کروایا، میرے شہر کے تھے سو میرے بلاگ سے مجھ تک پہنچ گئے تھے، چھوٹا سا شہر ہے۔ ایک مشہور بزرگ شاعر کی رباعیات پر مقالہ لکھنے کے ساتھ ساتھ ان کی رباعیات کی تصیح کر کے شائع بھی کرنا چاہتے تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ عروض و تقطیع سے نابلد تھے، جو کہ فنی جائزے میں مقالے کا لازمی حصہ تھا اور اس کے بغیر تصحیح بھی ناممکن تھی۔

نیٹ پر عروض ڈھونڈتے ڈھونڈتے میرے بلاگ پر آ گئے تھے، مردم شناس آدمی تھے،کوئی اکیڈمی وغیرہ بھی چلاتے تھے، میرے مزاج کی گفتگو سے میری توجہ بھی حاصل کر لی، دو تین بار گھر بھی تشریف لائے، گھنٹوں بیٹھے بھی کہ میں نے رضا کارانہ طور پر عروض اور تقطیع سکھانے کی حامی بھر لی تھی مگر سوچا کرتا تھا کہ تقطیع تو بی اے اردو میں سکھاتے ہیں، ایم اے، ایم فل کیسے کیا ہوگاِ؟ پھر کہنے لگے تقطیع میں کر دوں، مسودہ بھی صاف کر کے جوٹائپنگ کی غلطیاں وغیرہ ہیں انکی تصحیح کر دوں، ان کو عروض سکھانے سے تو یہ بہت آسان کام تھا اور بہت ہی کم وقت میں پورا ہو جاتا ، اور اس وقت کی مجھے رقم بھی دے رہے تھے، لیکن میں نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ سیکھو بندہ خدا، اپنے شاگردوں کے ساتھ کیا کرو گے، ان کا کیا قصور ہوگا۔ اللہ جانے پھر کیا کیا مگر کچھ عرصے کے بعد ڈاکٹر تھے۔
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
سمسٹر سسٹم نے جامعات کا معیار اس طرح کم کیا ہے کہ ہمارے بہت سے اساتذہ کرام طلبا کو اپنی پسند و ناپسند کے حساب سے مارکس دیتے ہیں۔
طلبا نے بھی مارکس حاصل کرنے کے بہت سے طریقے ڈھونڈ لیے ہیں۔لڑکیاں مظلوم بھی ہیں اور ظالم بھی۔کئی جگہ پہ ایکسپلائٹ ہو رہی ہیں اور دوسری طرف لڑکوں کا حق مار رہی ہیں۔خوشامد اور تحائف سے بھی مارکس ملتے ہیں۔
سیشنل نمبر تو کئی لوگوں کو غیر حاضری کے بھی مل جاتے ہیں۔
جو شکایت کرے۔۔۔وہ نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہے۔
اور شکایت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔بغاوت کرنے والا خود ہی مار کھاتا ہے۔
میں نے خود ایک میجر کو بغاوت کرتے(ایم اے)اور اس کے برے نتائج بھگتتے دیکھا۔کئی لوگوں کے قصے سنے ہیں۔کئی لوگوں کو گھنٹے گھنٹے پروفیسرز کے آفسسز میں بیٹھے دیکھا اور اس بھیٹنے کے اچھے نمبر۔
 

جاسمن

لائبریرین
جامعات میں خود اساتذہ کی تعیناتی کیسے ہوتی ہے؟
کیا یہاں معیار دیکھا جاتا ہے؟
میں خود شاہد ہوں اور بہت حقائق سنے،سمجھے ہیں۔
سفارش،اقربا پروری
چلیں اگر سفارش اور اقربا پروری سے بھی کوئی قابل استاد آتا ہے تو پھر بھی غنیمت ہے (ویسے تو معیار کو سفارش کی ضرورت نہیں ہوتی)لیکن ایک بار ذرا اساتذہ کا سچا سروے کریں۔۔۔۔اتنی غربت ہے کہ الامان۔
بہت کم۔۔۔بہت ہی کم اساتذہ ہیں جو پڑھتے ہیں۔ورنہ وہی جو کبھی پڑھا تھا۔۔۔کام آتا ہے۔یا نیٹ زندہ باد۔
آپ کسی جامعہ کے کتب خانے میں جا کر ایک بار اساتذہ کا رجسٹر چیک کریں۔۔۔آپ کو خود اندازہ ہوجائے گا۔
جب ہم پڑھیں گے نہیں تو پڑھائیں گے کیسے؟
 
آخری تدوین:
Asia-Figure-6.png

Figure 6 - Trends in percentage of internationally co-authored articles in selected countries 2003-1011.
Source: UNESCO report “
Higher Education in Asia – Expanding up, Expanding Out”, p.84.


Tracking scientific development and collaborations – The case of 25 Asian countries - Research Trends
یہ بھی فائدہ مند ہے

Conclusions
  1. Scientific output:
    the region has seen a significant increase in its scientific output from 1997 to 2012. There are, however, large differences between individual countries within the region. China has a leading role in scientific output and growth. However, attention should be given to countries such as Malaysia and Pakistan which have a compound annual growth rate above 15 percent in this time period.
 
آخری تدوین:
میری رائے میں 15 سال کے عرصےمیں بہت امپرومنت آئی ہے۔
باقی پی ایچ ڈی بھی انسان ہوتے ہیں ۔ پاکستان میں ان سے خوامخواہ عداوت رکھی جاتی ہے۔ میرا ایک دوست جب پی ایچ ڈی کے بعد اپنے ادارے میں واپس گیا تو اسکے نان ایچ ڈی باس نے اس کو ذلیل کرکے رکھ دیا وہ نفسیاتی مریض ہی بن گیا ۔ آخر ادارہ چھوڑنا پرا۔ یہ فل برائیٹ اسکالر تھا جس کو دنیا ہاتھوں ہاتھ لیتی ہے
 
سمسٹر سسٹم نے جامعات کا معیار اس طرح کم کیا ہے کہ ہمارے بہت سے اساتذہ کرام طلبا کو اپنی پسند و ناپسند کے حساب سے مارکس دیتے ہیں۔
طلبا نے بھی مارکس حاصل کرنے کے بہت سے طریقے ڈھونڈ لیے ہیں۔لڑکیاں مظلوم بھی ہیں اور ظالم بھی۔کئی جگہ پہ ایکسپلائٹ ہو رہی ہیں اور دوسری طرف لڑکوں کا حق مار رہی ہیں۔خوشامد اور تحائف سے بھی مارکس ملتے ہیں۔
سیشنل نمبر تو کئی لوگوں کو غیر حاضری کے بھی مل جاتے ہیں۔
جو شکایت کرے۔۔۔وہ نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہے۔
اور شکایت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔بغاوت کرنے والا خود ہی مار کھاتا ہے۔
میں نے خود ایک میجر کو بغاوت کرتے(ایم اے)اور اس کے برے نتائج بھگتتے دیکھا۔کئی لوگوں کے قصے سنے ہیں۔کئی لوگوں کو گھنٹے گھنٹے پروفیسرز کے آفسسز میں بیٹھے دیکھا اور اس بھیٹنے کے اچھے نمبر۔

دراصل آپ قومی زوال کا رونا روہی ہیں۔ سمسٹر سسٹم کا اس میں کوئی قصور نہیں
 

جاسمن

لائبریرین
اور ہماری جامعات میں "اتنے پاس،اتنے فیل""اتنے داخلے شام کے اتنےصبح کے ۔۔۔۔ خدارا یہ نہ دیکھیں کتنے طلبا۔۔۔۔یہ دیکھیں کہ کیسے طلبا۔۔۔
وہ چاہتے ہیں کہ جس حد تک نرمی ہو سکتی ہے مارکنگ میں۔۔۔۔بس پاس کریں بلکہ صرف پاس نہیں۔۔۔خوب اچھے نمبر دیں۔پھر داخلے بڑھیں گے۔شعبہ جات بند تو نہیں ہوں گے۔
وہ چاہتے ہیں کہ طلبا کی تعداد زیادہ ہو۔وہ کیسے ہیں؟پڑھنے والے ہیں،یا نہیں۔قابل ہیں یا نالائق۔۔۔اپنے مضمون سے محبت۔۔۔دلچسپی۔۔۔۔
اور اساتذہ۔۔۔آہ!اپنے مضمون میں محنت نہیں کرتے پڑھ کے۔۔۔اور طلبا کو سکھانے پہ بھی محنت نہیں کرتے۔
چلیں اگر آپ تعداد بڑھانے کے لیے ایوریج طلبا زیادہ لے آئے تو ان پہ اب محنت کریں۔۔۔لیکن۔۔۔۔
 

جاسمن

لائبریرین
ریسرچ؟
جو لوگ ریسرچ کروا رہے ہیں۔۔۔وہ خود ریسرچ کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
اور طلبا کی ریسرچ اپنے نام سے کتنے اساتذہ ریسرچ جرنلز میں چھپوا رہے ہیں۔میں نے خود کئی جرنلز میں دیکھی ہیں۔اور خود ہمارے ساتھ بھی ہمارے سپروائزر نے ایسا کیا تھا۔ہمارا تھیسز لائبریری میں نہیں رکھا گیا۔
 
ریسرچ؟
جو لوگ ریسرچ کروا رہے ہیں۔۔۔وہ خود ریسرچ کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
اور طلبا کی ریسرچ اپنے نام سے کتنے اساتذہ ریسرچ جرنلز میں چھپوا رہے ہیں۔میں نے خود کئی جرنلز میں دیکھی ہیں۔اور خود ہمارے ساتھ بھی ہمارے سپروائزر نے ایسا کیا تھا۔ہمارا تھیسز لائبریری میں نہیں رکھا گیا۔
آپ نے پھر کیا کیا؟
 

محمد امین

لائبریرین
دراصل معیار مقدار ہی سے ہے۔
جتنی زیادہ ریسرچ ہوگی اتنے ہی چانسز ہیں
جاری۔۔۔

ہر چیز کے بارے میں یہ بات کی جاسکتی ہے لیکن تحقیق کے بارے میں نہیں۔ تحقیق خاص کر سائنسی، تکنیکی علوم کی تحقیق ایسا میدان ہے کہ اس میں بلاوجہ کے "تکے" نہیں چلتے۔ جب تک آپ کے اردگرد سوال اور جستجو کا ماحول نہیں ہوگا اور تحقیق کا مقصد واضح نہیں ہوگا، مناسب کامیابی نہیں ملتی۔ تحقیق کا فائدہ تب ہوتا ہے جب وہ معاشرے کو کچھ دے بھی رہی ہو۔ پاکستان میں ضرورت ہی کس چیز کی ہے؟ بنیادی ضروریات ہی پوری نہیں ہو رہیں، سڑکیں ٹھیک نہیں بنتیں ہم سے، پانی، گیس، سی این جی، یہ سب وہ چیزیں ہیں کہ اکیسویں صدی میں جن کے موجود ہونے یا نہ ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں بنتا، اور یہاں ہم ابھی تک انہی چیزوں کو رو رہے ہیں۔ ہمیں تو تحقیق کی ضرورت ہی نہیں، کجا کہ کم یا زیادہ، خالص یا جعلی۔ ایٹم بم یا میزائلز بھی ہم نے کونسے تحقیق کے ذریعے بنا لیے؟ ٹیکنولوجی ٹرانسفر ہے بس۔

چائنا کی آبادی بھی تو ایک ارب سے زائد ہے۔ جتنی آبادی ہے اس حساب سے تو وہ تحقیق کر ہی نہیں رہے ہیں۔ چائنا کی کامیابی کی اصل وجہ انڈسٹری ہے۔ پاکستان میں کونسی انڈسٹری لگی ہوئی ہے جس کو تحقیق کی ضرورت پیش آئے؟ اب تو ہمارے سب سے بڑے شہر کا کچرا بھی چائنیز کمپنی اٹھائے گی۔ ہمارے سب سے بڑے شہر کی بجلی کمپنی بھی چائنا چلائے گا۔ میٹرو بس ہم ترکی سے لے آئے۔ اسلحہ بنانے کی فیکٹری کا لائسنس جرمنی سے لے لیا۔ جہاز اور آبدوز میں اشتراک چائنا سے ہوگیا، جہاز کا انجن بہت تیر مار لیا تو روس سے لے لیا۔۔ کونسی تحقیق ہے؟

ہاں کام ہورہا ہے، تھوڑا بہت، جتنا اس ماحول میں ہوسکتا ہے ۔۔ ماحول سے یاد آیا۔۔ ساحر کی نظم ہے ۔۔ "لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہونگے۔۔۔ میرے احباب نے تہذیب نہ سیکھی ہوگی۔۔۔۔ میرے ماحول میں انسان نہ رہتے ہونگے۔۔ نورِ سرمایہ سے ہے روئے تمدن کی جلا۔۔۔۔۔" ۔۔۔ نورِ سرمایہ۔۔ سرمایہ تو یہاں بس کالے دھن کا دوسرا نام ہے۔ کالا دھن جو یا تو دبئی چلا جاتا ہے، یا پلی بارگین سے سفید ہوجاتا ہے۔۔ یا اس سے پلازے، شاپنگ مال، اور پرآسائش ہاؤسنگ سوسائٹیز بنا دی جاتی ہیں۔۔

خیر ہے، جس دن اوباما اپنی الوداعی تقریر کر رہا تھا، اسی وقت سے آس پاس ہمارے وزیرِ نلی نہاری نان پایا بھی کہیں خطاب فرما رہے تھے۔۔ مجھے انگریزی سن کر مشکل سے سمجھ آتی ہے اور انگریزی کے سیاق و سباق بھی سر پر سے گزرتے ہیں کہ کلچرل کونٹیکسٹ نہیں معلوم ہوتا، مگر اوباما کی تقریر کی آفاقیت سے مبہوت ہو کر رہ گیا۔ ایسا رواں خطاب، جو سامع کو مسحور کردے۔ اس کی پالیسیوں، اس کے نظریات سے لاکھ اختلاف سہی مگر اس کی قابلیت، ذہنی بلوغت اور خیالات کی شفافیت کے کیا کہنے۔۔۔ مقابلہ کیجیے مسلم لیگ نلی نہاری کے صدر صاحب کے عمدہ خیالات سے:

"گوشت کا بھی ایک دن ناغہ ہوتا ہے۔۔۔۔ مگر ہمارے مخالفین الزام لگانے میں ناغہ نہیں کرتے۔۔" کیا عمدہ مثال ہے، کیا روشن خیال ہے۔۔ دل باغ باغ اور مشامِ جاں معطر معطر ہوگیا۔ان کا مغز ان کی نلی میں اور کھوپڑی میں نلی نہاری بھری ہوئی ہے۔۔۔ اکیسویں صدی کے سترہویں سال میں یہ سڑکیں اور موٹروے کا اعلان ایسے فخر سے کرتے ہیں کہ جتنے فخر سے اوباما خلائی پروگرام کے بارے میں بھی بات نہیں کرتا۔۔ کونسی تحقیق کی ضرورت ہے ہمیں؟
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
امین کیا تلخ حقائق بیان کیے ہیں آپ نے۔برحق۔
سوشل سائنسز کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔
تحقیق ایسی ہو کہ اس کے نتائج پہ پالیسی سازی ہو سکے۔لیکن یہاں مکھی پہ مکھی ماری جا رہی ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
ابھی کل ہی ایک ہونہار نوجوان سے بات ہو رہی تھی۔اس کے تین مقالہ جات کو اس کے اساتذہ نے اپنے نام سے چھپوا دیا۔اور اب کچھ دن پہلے شعبہ کے سربراہ فون پہ ناکام ہو کے گھر پہنچ گئے۔جو سائناپسز اس نے اپنی پی ایچ ڈی کے لیے لکھا تھا۔انہیں بہت پسند آیا۔وہ چاہتے تھے کہ نوجوان وہ ساری تحقیق ان کے لیے کرے۔
آہ!
 

جاسمن

لائبریرین
جھنڈیر لائبریری کے بانی مسعود احمد جھنڈیر صاحب بتائے گئے کئی واقعات میں سے ایک واقعہ۔
ایک خاتون اپنی تحقیق کے لیے مواد کی تلاش میں کتب خانے آئیں اور مسعود صاحب سے کہنے لگیں کہ کوئی شخص ان کے منتخب موضوع پہ سارا کام کر دے اور وہ حق خدمت ادا کر دیں گی۔چونکہ ان کے پاس وقت کی کمی ہے۔
اسی طرح ایک شبعہ کے سربراہ نے اپنی بیوی کو بالآخر ڈاکٹر بنا دیا۔وہ خاتون اپنا تعارف تو ڈاکٹر فلاں سے کراتی ہی ہیں لیکن برا مناتی ہیں جو ان کو ڈاکٹر کے علاوہ بلایا جائے۔
 

جاسمن

لائبریرین
میرے ذہن میں ایک سوال/تجسس کافی عرصہ سے ہے۔
سکول کے اساتذہ تربیت لے کے پڑھاتے ہیں۔لیکن کالج اور جامعات میں اب تک ایم اے کی بنیاد پہ لیکچرر شپ ملتی رہی ہے۔انہوں نے اپنے مضامین میں تو ماسٹرز کیا ہے۔وہ بہت کچھ جانتے ہیں اس مضمون کے بارے میں۔لیکن۔۔۔۔اس مضمون کو پڑھایا کیسے جائے؟یہ تو انہوں نے نہیں سیکھا؟؟؟
ایم فل والوں کو ہمارے ہاں ڈاکٹز اور ایم فل والے پڑھا رہے ہیں۔پی ایچ ڈی کو ڈاکٹز پڑھا رہے ہیں۔
لیکن صرف ایک مرتبہ اپنے ایم فل یا ڈاکٹریٹ میں تحقیق کر کے تحقیق پڑھانا یا کرانا ۔۔۔۔ کیسے ممکن ہے؟؟؟؟؟
مجھے تو تحقیق کرانا تو بہت بہت بہت اوپر کی بات۔۔۔پڑھانا بھی بہت اوپر کی بات لگتی ہے۔اس کے لیے تو استاد کو کئی تحقیقات کے processسے گذرنا ہوگا۔اسے تحقیق پہ اپنے مطالعہ کو بہت بہت وسیع کرنا ہوگا۔اسے تحقیق پڑھانا اور کرانا سیکھنا ہوگا۔
لیکن۔۔۔۔مجھے بہت افسوس اور دکھ ہے ۔۔۔۔ہم اپنے شعبہ /مضمون سے مخلص نہیں۔
محبت یہ نہیں کہ اس مضمون میں زیادہ سے زیادہ لوگ پاس کر کے زندگی میں لے آئیں۔۔۔۔۔وہ تو نہ صرف بے مصرف ہوں گے بلکہ انتہائی نقصان دہ ہوں گے۔
ادھورا علم کس قدر نقصان کرتا ہے!!!
 

عثمان

محفلین
میرے ذہن میں ایک سوال/تجسس کافی عرصہ سے ہے۔
سکول کے اساتذہ تربیت لے کے پڑھاتے ہیں۔لیکن کالج اور جامعات میں اب تک ایم اے کی بنیاد پہ لیکچرر شپ ملتی رہی ہے۔انہوں نے اپنے مضامین میں تو ماسٹرز کیا ہے۔وہ بہت کچھ جانتے ہیں اس مضمون کے بارے میں۔لیکن۔۔۔۔اس مضمون کو پڑھایا کیسے جائے؟یہ تو انہوں نے نہیں سیکھا؟؟؟
ایم فل والوں کو ہمارے ہاں ڈاکٹز اور ایم فل والے پڑھا رہے ہیں۔پی ایچ ڈی کو ڈاکٹز پڑھا رہے ہیں۔
لیکن صرف ایک مرتبہ اپنے ایم فل یا ڈاکٹریٹ میں تحقیق کر کے تحقیق پڑھانا یا کرانا ۔۔۔۔ کیسے ممکن ہے؟؟؟؟؟
کسی یونیورسٹی میں کوئی محقق تحقیق پڑھاتا ہے نا کراتا ہے۔ بلکہ اس کا بنیادی کام خود تحقیق کرتے رہنا ہوتا ہے۔ اس کے زیر نگرانی ایک تحقیقی گروپ ہوتا ہے جس میں ہر کچھ عرصہ بعد نئے لوگ شامل ہوتے رہتے ہیں۔ نئے آنے والے قابل لیکن ناتجربہ کار لوگ محقق سے مرحلہ وار راہنمائی لیتے ہوئے گروپ کے اجتماعی تجربہ سے سیکھتے جاتے ہیں اور تحقیق کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ چند سال میں وہ خود تجربہ کار محقق بن جاتے ہیں۔ اسی لئے پی ایچ ڈی میں نگران محقق ٹیچر نہیں بلکہ ریسرچ سپروائزر کہلاتا ہے۔
دراصل ایک جامعہ کا اصل کام تدریس و تربیت کی بجائے تحقیق اور تحقیق کے گرد گھومتی تدریس ہے۔ جامعہ دراصل ایک ڈھانچہ ، ایک نظام اور ایک تحقیقی تجربہ گاہ مہیا کرتی ہے۔ طلبا درس سے ایک قدم آگے خود کام کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔
 

حسیب

محفلین
مگر بدقسمتی سے ڈاکٹر عطا کو ہٹادیا گیا
ڈاکٹر عطا الرحمان صاحب کے ہٹنے سے یہ منصوبے کیوں شروع نہ ہو سکے
کیونکہ ڈاکٹر صاحب نے یہ تمام معاہدے ذاتی حیثیت سے تو نہیں کیے ہوں گے ایک حکومتی نمائندے کے طور پر ہوں گے اور حکومتی نمائندے بدلتے رہتے ہیں
 
Top