پان کی مقبولیت صابر علی سیوانی

پان کی مقبولیت ، خاصیت ، قدر و قیمت اور تاریخی و سماجی اہمیت سے بھلا کسے انکار ہوسکتا ہے ۔ پان کی شکل کسی درخت کے عام پتّے کی طرح ضرور ہوتی ہے ، لیکن پان کی پتّی میں ایسی کشش ہوتی ہے کہ لوگ کشاں کشاں ان جگہوں پر چلے جاتے ہیں ، جہاں پان کے بیڑے ملتے ہیں یا جہاں پان کے ڈبّے یا پان کی دکان ہوتی ہے ۔ پان کی تاریخ بہت قدیم ہے ۔ یہاں تک کہ امیر خسرو جیسا فارسی کا عظیم شاعر بھی پان کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکا ۔ امیر خسرو نے پوری ایک نظم پان پر کہی ہے ، جس کا مطلع یہ ہے ؎
نادرہ بَرگے چوگُل دربوستاں
خوب ترین نعمتِ ہندوستاں
(قران السعدین)
یعنی پان باغ میں پھول کی طرح ایک نہایت نادر قسم کا پتا ہوتا ہے جسے ہندوستان کی ایک نعمت تصور کیا جاتا ہے ۔ پان کے لغوی معنی ہیں برگِ تنبول ، ناگر بیل ،ایک قسم کا پتا ، پان کی شکل ، جوتے میں ایڑی کی طرف لگا ہوا چمڑے کا ٹکڑا ، لنگوٹ کے اوپر باندھنے کا چمڑا ، تاش کا پتّا جس پر پان کی شکل بنی ہو ، لیٹی ، کلف ، مانڈی ، پان کی مانند نقش و نگار ، کڑھاوٹ ، بناوٹ جو کپڑوں یا کسی چیز پر ہو (فیروز اللغات)
برگِ تنبول فارسی میں پان کو کہا جاتا ہے ۔ فارسی میں ایسے متعدد اشعار ملتے ہیں جن میں لفظ پان یا برگ تنبول کا استعمال کیا گیا ہے ۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جانا قطعی مشکل نہیں ہے کہ فارسی شعراء کے یہاں بھی پان کی مقبولیت اور اہمیت اپنی جگہ مسلم تھی ۔ ایسے کئی محاورے بھی ملتے ہیں جن میں پان لفظ کا استعمال ہوا ہے ۔ فارسی میں کہیں کہیں اسے ’’برگ سبز‘‘ کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے ۔ فارسی کا ایک محاورہ ہے ، جس میں پان کو ’’برگ سبز‘‘ کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔ وہ یہ ہے ’’برگ سبز است تحفۂ درویش‘‘ یعنی سبز پتّا (پان) فقیر کا ہدیہ ہے ۔ اس سے یہ بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پان درویشوں میں بھی بہت پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور آج بھی درویشوں کے ہاں اس کاچلن پایا جاتا ہے ۔
ایک مثل مشہور ہے ’’پان سے پتلا چاند سے چکلا‘‘ یعنی نہایت نازک اور خوبصورت پان کھلانا ، منگنی کی رسم ادا کرنا ۔ منگنی کی رسم ادا کرتے وقت پان کھلایا جاتا ہے ، لیکن ہندوستان کے بیشتر علاقوں میں نکاح کے فوری بعد دولہے کو پان کا بیڑا پیش کیا جاتا ہے ، جس میںسے وہ تھوڑا سا کاٹ کر کھالیتا ہے اور باقی پان کو دلہن کو کھلایا جاتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس سے دولہا دلہن کے درمیان پیار و محبت پروان چڑھتا ہے ۔ اس سے پان کی اہمیت و افادیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ پان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ فلمی گانوں میں بھی ’’پان‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ مثلاً کھائیکے پان بنارس والا ، کھل جائے بند عقل کا تالا ، پھر تو ایسا کرے کمال، سیدھی کردے سب کی چال ، چھورا گنگا کنارے والا یا پان کھائے سیّاں ہمارہو وغیرہ ۔
کہا جاتا ہے کہ تنبول کو مغل سلاطین ’’پان‘‘ کہا کرتے تھے ۔ آر ۔ وی ۔ رسل نے اپنی کتاب ’’اقوام صوبہ متوسط‘‘ میں پان کا مادہ “Parna” ایک سنسکرت لفظ بتایا ہے ، جس کے معنی پتّے ہوتے ہیں ۔ ایڈورڈ بالفورڈ مؤلف ’’انسائیکلوپیڈیا آف انڈیا‘‘ نے لکھا ہے کہ ’’تنبولا‘‘ سنسکرت لفظ ہے ۔ بلاک مین نے لکھا ہے کہ یہ ایک سبز پتّا ہے ، لیکن انصاف پسند ناقدین نے اسے ایک نفیس میوہ قرار دیا ہے جیسا کہ خسرو کے مذکورہ شعر سے بھی پتہ چلتا ہے جس میں انھوں نے پان کو ہندوستان کی ایک نعمت (میوہ) سے تعبیر کیا ہے ۔
پان کی ویسے تو بیسیوں قسمیں بیان کی جاتی ہیں ۔ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں مختلف اقسام اور مختلف سائز کے پان پیدا ہوتے ہیں ، جو لذت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے بالکل الگ ہوتے ہیں ۔ Padmasri (1000 عیسوی) نے پان کی پانچ قسمیں بیان کی ہیں۔ مگدھی ، بنگلہ پان ، مہوبا (وسط ہند) بلہری ، کانپری ، سانچی ۔ لیکن ان پانچوں اقسام کے علاوہ اور بھی کئی طرح کے پان ہیں ، جو نہایت شوق سے کھائے جاتے ہیں مثلاً مدراسی ، بنارسی اور جیسوار وغیرہ ۔ حیدرآباد میں بورم پہاڑ (کھمم ضلع کا پان) بہت مشہور ہے ۔ یہ پان نرم اور خوش ذائقہ ہوتا ہے ۔ شمالی ہند کی طرح یہاں کے پان تیز اور خوشبودار نہیں ہوتے ۔ ہاں بھونگیر (ضلع نلگنڈہ) کے پان مائل بہ سیاہی اور تیز ہوتے ہیں ، جسے حیدرآباد کے لوگ ’’لونگ کا پان‘‘ کہتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ آسام سے لاکر یہ بیل جنوبی ہند میں لگائی گئی جس کی آسام میں کاشت ہوتی ہے ۔ اس کی کچھ پیداوار کڑپہ ضلع میں بھی ہوتی ہے ۔
اردو ادب میں پان کو مختلف انداز سے ادباء و شعراء نے پیش کیا ہے ۔ کلاسیکی شعراء اور متاخرین سخنوروں نے اسے سیکڑؤں طرح سے باندھا ہے ۔ بعض ہندی شعراء نے بھی پان کو اپنی شاعری میں استعمال کیا ہے ۔ انھوں نے اس ہندوستانی نعمت (پان) کے بارے میں پہیلیاں بھی لکھی ہیں اور محاورے بھی وضع کئے ہیں ۔ پان کے سلسلے میں ایک اہم کتاب ’’بوجھ پہیلی‘‘ عرف کاغذی پنجہ مطبوعہ 1866 ء میں بعض اچھی پہیلیاں پڑھنے کو ملتی ہیں ۔ مثلاً یہ پہیلیاں ملاحظہ کیجئے ؎
سات کبوتر ساتوں رنگ
محل میں جاویں ایک ہی سنگ
ہرا رنگ ہے نج دو بات
مکھ میں دھرے دکھاوے جات
دیکھ جادوگر کا کمال
ڈالے سبز نکالے لال
پان کے حوالے سے متعدد محاورے ہمارے معاشرے میں استعمال کئے جاتے ہیں ۔ پان کا بیڑا سے متعلق ایک محاورہ اکثر و بیشتر استعمال کیا جاتا ہے یعنی ’’بیڑا اٹھانا‘‘ ۔ بیڑا اٹھانا کسی مشکل کام کا عہد کرنا اور اسے انجام تک پہنچانا ہوتا ہے ۔ علاوہ ازیں ایک اور محاورہ بیڑا کے تعلق سے ہے اور وہ ہے ’’سات پان کا بیڑا‘‘ ۔ ہندو دلہن کا باپ دولہا کو یہ بیڑا ہدیتہً بھیجتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ شادی کی رسم پکی ہوگئی ۔ اسی طرح ایک اور محاورہ ہے ’’پان اور ایمان پھیرے ہی سے اچھا رہتا ہے‘‘ ۔ یعنی پان الٹ پلٹ کرنے سے اور ایمان توبہ کرتے رہنے سے ہی اچھا رہتا ہے ۔ ’’جامع اللغات‘‘ مطبوعہ لاہور میں اسی سلسلے میں ایک ضرب المثل موجود ہے ۔
پان پُرانا ، گھرت نیا اور کلونتی نار
یہ تینوں تب پایئے جب پَرسن ہوئیں مرار
یعنی ’’پرانا پان ، نیا گھی اور پاک دامن عورت تب ملتی ہے جب خدا خوش ہو‘‘ ۔ ویسے یہ تینوں چیزیں قسمت والوں کو ہی ملتی ہیں ۔ ان مذکورہ محاوروں کے علاوہ چند محاورے یہ بھی ہیں ’’پان پتّا‘‘ یعنی لوازم خانہ داری ، بیوی کا جیب خرچ ، پان دان کا خرچ ، پان پھیرنا یعنی وقت کاٹنا ، رخصت کا پان ، پان کا لکھوٹا ، پان کھلائی (منگنی) وغیرہ ۔ الغرض پان ہندوستان کی شان ہے ۔ ملک کی نعمت ہے اور ایک دوسرے سے قربت بڑھانے کا ذریعہ بھی ۔ یہی وجہ ہے کہ فارسی اور اردو شاعری میں سیکڑوں ایسے اشعار ملتے ہیں ، جن میں پان کا ذکر موجود ہے ۔ حضرت امیر خسرو نے بھی پان کی صفت بیان کرتے ہوئے اپنے ایک شعر میں لکھا ہے :۔
او پاں بخلق می سپردو ہمہ خلق
درپیش وکانش جاں سپاری می کرد
فارسی زبان کے شاعر اور فاضل طبیب ، حکیم باقر حسین خاں رائق المعروف نور محمد خراسانی معاصر نواب اعظم جاہ آرکاٹ نے برگ تنبول کے اقسام اور تمباکو پر ایک کتاب ’’جامع الاشیاء‘‘ تالیف کی تھی ، جو مدراس اورینٹل سوسائٹی ، مدراس سے 1956 میں شائع ہوئی ۔ اس میں پان کی قسموں اور تنبول کی مختلف خوبیوں کے بارے میں تفصیل سے بحث کی گئی ہے ۔ اس کتاب میں انھوں نے بتایا ہے کہ پان کئی بیماریوں سے شفاء دینے کا کام بھی کرتا ہے ۔ بہرحال اس تفصیل میں جانا مقصود نہیں ہے ۔ یہاں اردو شعراء کے یہاں پان کو کن کن انداز سے استعمال کیا گیا ہے ،اسے بتانا مناسب معلوم ہوتا ہے ۔
گجرات کے صوفی شاعر خوب محمد چشتی نے اپنی مثنوی ’’خوب ترنگ‘‘ میں ایک جگہ لکھا ہے :۔
جھیلیں جھالیں تیل لگائیں
پان سی کر کسوت آئیں
وکی دکنی نے بھی پان کو بڑی خوبصورتی سے اپنے ایک شعر میں استعمال کیا ہے ۔ولی فرماتے ہیں :۔
کرتا ہوں جاں سپاری کہتی ہیں بات جس کے
کرنیکوں دل کا چونا آتا ہے پان کھا کر
سراج اورنگ آبادی نے اپنی شوخی کا مظاہرہ کرتے ہوئے محبوب کے لبِ سرخ کی بڑی خوبصورت منظر کشی کی ہے ۔ پان کی لالی کو شوخی سے تعبیر کیا ہے اور محبوب کے ہونٹوں کی لالی کو سبزے میں چھپی پان کی لالی کہا ہے :۔
جب سے دیکھی ہے خطِ سبز میں تِرے لبِ سرخ
تب سیں سبزے میں چھپی پان کی لالی ہے شوخ
مرزا مظہر جانجاناں ایک صوفی شاعر تھے ۔ صوفیوں میں پان کی مقبولیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ مظہر جانجاناں نے بھی پان کو اپنے شعر میں ڈھال کر اس کی اہمیت اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ مرزا مظہر جانجانا ںکہتے ہیں:۔
کسی کے خون کا پیاسا کسی کے جان کا دشمن
نہایت منہ لگایا ہے سجن نے بیڑۂ پاں کو
شاہ نصیر جو استاد شعراء میں شمار کئے جاتے ہیں ، انھوں نے پان کھانے کے بعد جو کیفیت پیدا ہوتی ہے ، اسے بیان کرنے کی کوشش کی ہے ۔ شاہ نصیر نے کچھ اس انداز سے پان کی مشابہت شفق و صبح کے ساتھ پیش کی ہے ؎
شفق و صبح بہم دست و گریباں ہیں سمجھ
پان کھانے سے تِرا ہے یہ جمالِ گردن
مصحفی امروہوی اردو شاعری میں اپنی ایک الگ شناخت رکھتے ہیں۔ان کے متعدد اشعار ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں ، ان ہی اشعار میں سے ایک شعر یہ ہے ، جس میں مصحفی نے لفظ ’’رفو‘‘ کا بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا ہے ؎
مصحفی ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ ہوگا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
مصحفی نے بھی پان کو اپنے ایک شعر میں کچھ اس انداز سے استعمال کیا ہے کہ اس میں محاورے کا بھی اثر نظر آتا ہے اور پان کے منفی اثرات کی بھی نشاندہی معلوم ہوتی ہے ۔
پان کھانے کی ادا ہے یہ تو اک عالم کو
خون رلادے گا مری جان دہن سرخ ترا
حنا لکھنوی نے اپنے مخصوص انداز میں بڑی بحر میں پان کی تاثیر بیان کی ہے اور اسے محبوب کے ہونٹوں پہ پائی جانے والی پان کی لالی سے دل خون ہونے کی کیفیت بیان کی ہے ۔ حنا لکھنوی فرماتے ہیں کہ اس نے آنکھ ملاتے ہی اپنے ہونٹوں کا رنگِ پان کچھ اس طرح دکھایا کہ عاشق کا دل تڑپ اٹھا ۔ پان کھانے کے بعد جوبن اور چتون پر جو نکھار آیا وہ غضب کا تھا ۔ حنا لکھنوی کا وہ شعر ملاحظہ کیجئے اور پان کی اثر پذیری کا اندازہ لگایئے ؎
ملاتے ہی آنکھ خوں کیا دل ، دکھا کے ہونٹوں پہ رنگ پاں کا
قسم ہے جوبن ، غضب ہے چتون ، یہ کون چلمن اٹھاکے جھانکا
ظہیر لکھنوی کا وہ شعر جس میں انھوں نے ’’پان لگنا‘‘ والا محاورہ استعمال کیا ہے، وہ غضب کا شعر ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس شعر کو ضرب المثل کی حیثیت حاصل ہوگئی ۔ ظہیر لکھنوی استعاراتی انداز میں پان کی خاصیت بیان کرتے ہوئے یہ محسوس کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ پان کھاکے جب میرا محبوب نکلتا ہے ، تو ایسا لگتا ہے کہ وہ ایک قاتل بن کر نکلا ہے اور نہ جانے وہ کہاں بجلی گرائے گا ۔ ظہیر لکھنوی کا یہ شعر دیکھئے ؎
پان لگ لگ کے مری جان کہاں جاتے ہیں
یہ مرے قتل کے سامان کہاں جاتے ہیں
مومن خاں مومن کا رنگ بھی جداگانہ ہے ۔ وہ مسّی آلودہ لب پہ پان کی نکھار کا ذکر کرتے ہیں اور اسے تہہ آتش دھواں سے تعبیر کرتے ہیں۔ ’’مسی ایک قسم کا منجن ہے ، جسے عورتیں بطور سنگھار استعمال کرتی ہیں‘‘ (فیروز اللغات) مسی آلودہ لب پہ پان کی لالی کیا کمال دکھاتی ہے ، اسے محسوس کرنا ہو تو مومن کا یہ شعر ضرور پڑھئے ؎
مسی آلودہ لب پہ رنگِ پاں ہے
تماشہ ہے تہہِ آتش دھواں ہے
عطا برہان پوری کو اتنی شہرت حاصل نہ ہوسکی جتنی شہرت ان کے معاشر شعراء کو ملی ، لیکن انھوں نے بعض اچھے اشعار کہے ہیں ، جن سے ان کی فنی اور شعری خوبیوں کا ادراک ہوتا ہے ۔ پان پر کہا ہوا ان کا یہ شعر ان کی استادی کا ثبوت ہے ؎
دل تو سو جاگہ سے ٹکڑے ہوگیا غنچہ کی طرح
آگ لگ جائے تمہارے پان کھانے کے تئیں
میکش حیدرآبادی نے پان پر دو تین غزلیں بہت کمال کی کہی ہیں ۔ پان پر کہے گئے ان کے چند اشعار قارئین کی نذر ہیں ؎
پان کھا کر لبوں کو لال کیا
ہم نے سمجھا ہمیں حلال کیا
تیرے ہاتھوں کی گلوری تو کبھی چھپتی نہیں
لاکھ میں ہم لیتے ہیں پہچان بیڑے پان کے
طشتری میں اس طرح رکھے ہیں جو ابھرے ہوئے
کیا اٹھائیں گے کوئی طوفان بیڑے پان کے
لب کی سرخی سے ہوا دونا بھبوکا روئے یار
جانے اب کیا رنگ لائے گا یہ لاکھا پان کا
دیکھتے ہی اس کو پہلو سے اکھڑ جائیں گے دل
اپنی وہ ٹکّی جمائے گا یہ لاکھا پان کا
’’لاکھا‘‘ لاکھ کا سرخ رنگ جسے عورتیں خوبصورتی بڑھانے کے لئے اپنے ہونٹوں پر لگاتی ہیں ۔ ہونٹوں پہ لگانے کی سرخی (فیروز اللغات) موجودہ دور میں لاکھا لگانے کا رواج بہت کم ہوگیا ہے کیونکہ اب تو اتنے رنگ کے لپ اسٹک بازار میں آگئے ہیں کہ اس کے استعمال کے بعد ہونٹوں کی کشش بڑھانے کے لئے کسی دوسری آرائشی شے کی ضرورت باقی نہیں رہتی ہے ۔
پان کے بارے میں شعراء ،ادباء اور بہت سے قلمکاروں نے بہت کچھ لکھا ہے ، جس سے پان کی اہمیت ، افادیت اور خاصیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ پان مختلف اوقات میں مختلف مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ دیکھا جائے تو وہ محض ایک چھوٹے سے درخت کا پتا ہے ، جس میں کتھا ، چونا، زردہ اور دیگر مختلف انداز کے تمباکو کی آمیزش کے بعد استعمال کیا جاتا ہے ، لیکن اس کی تاریخی اور سماجی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے ۔ آج کل پان کھانے کا رواج تو پورے ہندوستان بلکہ دوسرے ممالک میں بھی پایا جاتا ہے ، لیکن دوسرے شہروں کے مقابلے میں حیدرآباد میں پان کھانے والوں کی کثرت ہے ۔یہاں جگہ جگہ پان کے ڈبّے اور چائے کی بڑی بڑی ہوٹلیں مل جائیں گی۔ لیکن اس کا ایک منفی پہلو یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ پان کھا کر بائک چلانے والے ، سائیکل راں ، موٹر نشیں افراد یا پیدل چلنے والے لوگ بعض دفعہ ادھر ادھر ، دائیں بائیں یا آگے پیچھے دیکھے بغیر تھوک دیتے ہیں ، جس کی چھینٹیں راہگیروں کے کپڑوں پر پڑتی ہیں ، جو بدمزگی تو پیدا کر ہی دیتی ہیں ، ساتھ ہی پان کھانے والوں کو لغویات یہاں تک کہ دشنام طرازی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ یہ بھی ہمارے اخلاقیات کا جزو ہے کہ ہم اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی پاس و لحاظ رکھیں ورنہ ہم آدمی تو ضرور کہلائیں گے مگر انسان کا شرف حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ بقول حالی ؎
فرشتہ سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
 
Top