وہ یہ جان کر حیرت زدہ ہوئی کہ اردو فکشن کے بڑے نام مقامی اردو بولنے والے نہیں تھے۔

غالبا اس کی وجہ اردو کو پنجابی زبان سے بہتر سمجھنا ہے ۔ اور ایک تاثر عام پنجابیوں میں پایا جاتا ہے کہ اردو زبان بولنا پڑھے لکھے ہونے کی علامت ہے۔
نوٹ: میں ذاتی طور پر اردو کو پنجابی سے بہتر نہیں سمجھتا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
کچھ عرصہ قبل امرتا پرتیم کی پنجابی نظمیں پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا، ایک پل کے لیے بھی نہیں لگا کہ ان کا کلام موجودہ دور کے کسی شاعر کے کلام سے کم اہمیت کا حامل ہے۔ مثال کے طور پر، ان کی یہ نظم 'اج آکھاں وارث شاہ نوں '۔۔۔!!! یہ نظم تو غضب کی ہے ۔۔۔!!! تاہم، ہم پنجابیوں کو بھی تو کئی وجوہات کے باعث احساسِ کمتری لاحق ہے، اس کا کیا علاج؟
یہ احساسِ کمتری "اوپر" سے نیچے آیا ہے، پنجابی "بیوروکریسی" نے پنجابی سے نفرت کی اور اردو انگریزی کو اپنایا، عوام کالانعام نے ان کو فالو کیا۔
 
پنجابی صرف پاکستانی پنجاب کے لوگوں کی زبان ہی نہیں ہے جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے، پنجابی بھارتی پنجاب کی بھی زبان ہے اور وہاں اس زبان کی اتنی بُری حالت نہیں ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان کا رسم الخط گرمکھی میں ہے جسے پاکستانی پنجاب والے پڑھ ہی نہیں سکتے اور اس کا برعکس بھی درست ہے
اس بات سے میں متفق ہوں۔ :)
 
تاہم، ہم پنجابیوں کو بھی تو کئی وجوہات کے باعث احساسِ کمتری لاحق ہے، اس کا کیا علاج؟
پنجابی بولنے کو گنوار پن کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس کی شاید کچھ تاریخی وجوہات ہونگی ۔ ایک بات اور ہے کہ پنجابیوں میں ایک خوبی پائی جاتی ہے کہ بیرونی چیزوں کو بہت کھلے دل سے قبول کر لیتے ہیں اور خوش آمدید کہتے ہیں اردو زبان کو بہتر سمجھتے ہوئے پنجابی پر ترجیح دی گئی ہوگی۔
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
ہیں، یہ کیا؟

فیض صاحب سے کسی نے پوچھا تھا کہ آپ نے اپنی شاعری کے لئے پنجابی کی بجائے اردو کا انتخاب کیوں کیا تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ میں نے اردو زبان کو اس لیے چنا اپنی شاعری کے لئے کہ اگر ساری زندگی لکھتا رہا تو شاید غالب اور اقبال جیسے شعرا کی صف میں اپنا کچھ مقام بنا سکوں مگر پنجابی زبان میں جو کچھ وارث شاہ، بلھے شاہ اور بابا فرید لکھ گئے ہیں ایک کیا اپنے دو چار جنموں بھی اپنی شاعری سے ان کے قدموں کی خاک بھی نہیں چھو سکتا۔

ربط
 
ہیں، یہ کیا؟

فیض صاحب سے کسی نے پوچھا تھا کہ آپ نے اپنی شاعری کے لئے پنجابی کی بجائے اردو کا انتخاب کیوں کیا تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ میں نے اردو زبان کو اس لیے چنا اپنی شاعری کے لئے کہ اگر ساری زندگی لکھتا رہا تو شاید غالب اور اقبال جیسے شعرا کی صف میں اپنا کچھ مقام بنا سکوں مگر پنجابی زبان میں جو کچھ وارث شاہ، بلھے شاہ اور بابا فرید لکھ گئے ہیں ایک کیا اپنے دو چار جنموں بھی اپنی شاعری سے ان کے قدموں کی خاک بھی نہیں چھو سکتا۔

ربط
یہ بھی کیسی دلچسپ بات ہے کہ پاکستان میں موجودہ دور اردو کے دو سب سے زیادہ محترم شاعر اقبال اور فیض دونوں ہی پنجابی تھی ۔ یعنی پنجابیوں میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں۔ شاید کمی کسی اور چیز کی ہے۔
 
ہیں، یہ کیا؟

فیض صاحب سے کسی نے پوچھا تھا کہ آپ نے اپنی شاعری کے لئے پنجابی کی بجائے اردو کا انتخاب کیوں کیا تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ میں نے اردو زبان کو اس لیے چنا اپنی شاعری کے لئے کہ اگر ساری زندگی لکھتا رہا تو شاید غالب اور اقبال جیسے شعرا کی صف میں اپنا کچھ مقام بنا سکوں مگر پنجابی زبان میں جو کچھ وارث شاہ، بلھے شاہ اور بابا فرید لکھ گئے ہیں ایک کیا اپنے دو چار جنموں بھی اپنی شاعری سے ان کے قدموں کی خاک بھی نہیں چھو سکتا۔

ربط
اس بلاگ کے علاوہ کوئی مستند حوالہ؟
 

فرقان احمد

محفلین
اس بلاگ کے علاوہ کوئی مستند حوالہ؟
لیجیے صاحب، کسی حد تک ملتی جلتی بات یہاں بھی ہے ۔۔۔!!!
فیض صاحب کی روایت کے ساتھ محبت کا یہ عالم کہ کسی نے پوچھا آپ نے پنجابی میں اتنا کم کیوں کہا ہے جبکہ آپ کی زبان تو پنجابی ہے ‘ فیض صاحب نے جواب دیا کہ غالب اور اقبال کے بعد بھی اردو میں شاید تک بندی کی گنجائش ہو لیکن پنجابی میں مجھ سے پہلے وارث شاہ ‘ بلھے شاہ اور شاہ حسین گزر چکے ہیں۔
ربط
تاہم، مزید ریسرچ کی ضرورت ہے :)
 
لیجیے صاحب، کسی حد تک ملتی جلتی بات یہاں بھی ہے ۔۔۔!!!
فیض صاحب کی روایت کے ساتھ محبت کا یہ عالم کہ کسی نے پوچھا آپ نے پنجابی میں اتنا کم کیوں کہا ہے جبکہ آپ کی زبان تو پنجابی ہے ‘ فیض صاحب نے جواب دیا کہ غالب اور اقبال کے بعد بھی اردو میں شاید تک بندی کی گنجائش ہو لیکن پنجابی میں مجھ سے پہلے وارث شاہ ‘ بلھے شاہ اور شاہ حسین گزر چکے ہیں۔
ربط
تاہم، مزید ریسرچ کی ضرورت ہے :)
فیض صاحب کی یہ بات ٹی وی کے کسی پروگرام میں سن رکھی ہے۔ پروگرام کا نام یاد نہیں
 
لیجیے صاحب، کسی حد تک ملتی جلتی بات یہاں بھی ہے ۔۔۔!!!
فیض صاحب کی روایت کے ساتھ محبت کا یہ عالم کہ کسی نے پوچھا آپ نے پنجابی میں اتنا کم کیوں کہا ہے جبکہ آپ کی زبان تو پنجابی ہے ‘ فیض صاحب نے جواب دیا کہ غالب اور اقبال کے بعد بھی اردو میں شاید تک بندی کی گنجائش ہو لیکن پنجابی میں مجھ سے پہلے وارث شاہ ‘ بلھے شاہ اور شاہ حسین گزر چکے ہیں۔
ربط
تاہم، مزید ریسرچ کی ضرورت ہے :)
دراصل آپ کے پہلے حوالہ میں اسی کالم کا حوالہ ہے۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
تاہم، مزید ریسرچ کی ضرورت ہے :)

آج کی انٹرنیٹ کی فضا میں ریسرچ کرنا کسی جہاد سے کم نہیں ہے۔ :)

ابھی پھلوں کی سہ روزہ ہڑتال کے دنوں میں جنابِ امام غزالی صاحب سے بھی خصوصی بیان دلوایا گیا ہے کہ جب چیزیں مہنگی ہو جائیں تو اُن کا استعمال ترک کردیں۔
 

عثمان

محفلین
دلچسپ انٹرویو ہے۔ البتہ کہیں کہیں خود پسندی دیکھائی دیتی ہے۔
انٹرویو کے ابتدا میں قاری کی غربت مطالعہ کی شکایت کرتے ہیں۔ آخر میں اس کے برعکس معاشرے کے وسعت علم اور مطالعہ کا اعتراف کرتے ہیں۔
ہوزے ساراماگو پر ان کا تبصرہ عین درست ہے۔ واقعی اس کے syntax میں ایک عجب انفرادیت ہے۔
یہ دھاگہ خوامخواہ ایک فقرے پر بحث کی نذر ہوگیا۔ ورنہ انٹرویو میں قابل بحث کافی دلچسپ مواد ہے۔
 
جو احباب تینوں زبانوں کی اچھی شدھ بدھ رکھتے ہیں، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ پنجابی کا ذخیرہ الفاظ بہت وسیع اور کیفیات کا بیان بہت طاقتور ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جب لوگ پنجابی (یا کوئی اور زبان) جس کو سمجھتے ہی نہیں ہیں، اس کی امارت یا غربت کا اظہار صرف ایک زبان کے جاننے سے ہی کر لیتے ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ کیونکہ تینوں زبانوں پر دسترس رکھتے ہیں تو اپنے بے تحاشہ اردو ابلاغ کے باوجود اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ پنجابی زیادہ طاقتور ہے تو اسے چیلنج وہی کرے جو ان تینوں زبانوں پر اچھی دسترس رکھتا ہو۔

پنجابی اگر اتنی ہی بڑی اور امیر زبان تھی تو کیوں اقبال اور فیض نے، مستنصر حسین تارڑ، بانو قدسیہ، اشفاق احمد ممتاز مفتی اور دیگر نے پنجابی کے بجائے اردو کو لکھنے کے لیے پسند کیا اور اس میں نام کمایا؟
دو الگ الگ صورتحال آپ نے مکس کر دی ہیں۔ اقبال، فیض و دیگر وغیرہ نے وسیع علاقے میں سمجھی جانے والی زبان کو اپنا ذریعہ ابلاغ بنایا۔ وسیع علاقے میں سمجھی جانے والی زبان سے ہر گز یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کہ وہ زبان مقابلتاً پنجابی سے زیادہ امیر ہے۔ زبان کی امارت جاننے کے لیے اس میں موجود ذخیرہ الفاظ دیکھے جاتے ہیں نا کہ اس کا کسی وسیع علاقے میں سمجھا یا بولا جانا۔

صرف ایک مثال دینا چاہوں گا، کہیں پہلے بھی محفل پر اس کا ذکر کیا تھا کہ انگلش لفظ 'ٹائم' اور اردو کے 'وقت' (صبح، دوپہر، شام، رات) کے اظہار کے لیے پنجابی زبان میں اٹھائیس الفاظ مستعمل ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
بات کہنے کا بھی ایک ڈھب ہوتا ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ عربی زبان میں شکوہ زیادہ ہے، فارسی میں حلاوت کسی قدر زیادہ ہے اور اردو میں نفاست کا پہلو زیادہ ہے تو اس سے کسی زبان کی شان میں کمی واقع نہیں ہوتی۔ بعینہ مستنصر حسین تارڑ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ پنجابی زبان میں زورِ بیان زیادہ ہے یا یہ ایک زرخیز یا طاقت ور زبان ہے تو اس پر زیادہ اعتراضات نہیں ہونے چاہئیں۔ تاہم، اتنا ضرور ہے کہ فی زمانہ پنجابی کا حال نہایت پتلا ہے اور اس کی بے شمار وجوہات ہیں اور اردو محفل میں ایک اور لڑی میں اس حوالے سے کافی بحث مباحثہ ہو چکا ہے۔ بات یہ بھی ہے کہ پنجابی کے عظیم شعراء کے کلام کو پڑھے بغیر اس بابت فیصلہ کن تبصرہ نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر بلھے شاہ کا کلام ہی دیکھ لیجیے۔ اتفاق سے اردو محفل میں بلھے شاہ کا کلام موجود ہے اور نیرنگ خیال بھائی نے اس کا ترجمہ بھی کر رکھا ہے، ذرا ایک نظر ادھر بھی ڈال لی جائے تو بات آسانی سے سمجھ آ جائے گی کہ آخر ایسا کیوں کہا جاتا ہے۔ اگر تارڑ صاحب کو بلھے شاہ کے مقابل اردو شاعری کے بڑے نام بونے لگتے ہیں، تو اس کی کچھ تو وجہ رہی ہو گی؛ اسے صرف تعصب قرار دینا زیادتی ہے، خاص طور پر اس تناظر میں کہ اردو زبان پر پنجابی زبان کے گہرے اثرات موجود ہیں۔ :)
 
آخری تدوین:
Top