وارث شاہ کے دیس میں

دو دن پہلے رات گئے لاہور کینٹ میں اپنے ایک دوست (زین) کے ساتھ آوارہ گردی کرتے ہوئے جب نیشنل جیوگرافک کی کسی ڈاکومینٹری پر گفتگو ہو رہی تھی، اچانک ذہن میں یہ خیال آیا کہ بہت عرصے سے کسی جگہ کی سیر نہیں کی۔ فلیش پڑنے کی دیر تھی کہ گفتگو کا رخ فوراً نیشنل جیوگرافک سے لوکل جیوگرافک کی طرف موڑ دیا اور جب دیکھا کہ وہ بھی دن بدن بڑھتے درجہ حرارت کے باوجود آمادہ خواری ہے تو مل کرسوچنے لگ گئے کہ کہاں جایا جائے؟

آخر کچھ دیر کے بحث مباحثے کے بعد یہ طے پا گیا کہ قصور یا شیخوپورہ میں سے کسی ایک شہر کو رونق بخشی جائے۔ اب کس کو نوازا جائے کے بارے میں جو گفتگو شروع ہوئی تو مزید کچھ وقت ضائع کیے بغیر میں نے شیخوپورہ کے حق میں نعرہ بلند کر دیا کہ مجھے کبھی بھی وارث شاہ جی کے مسکن تک رسائی نہیں ہو پائی تھی اور بہت عرصے سے یہ خواہش دل میں ہی لیے ڈولتا پھرتا تھا۔ 2016 میں اسلام آباد سے لاہور بیشمار مرتبہ آنا جانا ہوا، جب بھی بذریعہ موٹر وے اسلام آباد سے لاہور آنا ہوتا تو ہرن مینار انٹرچینج اور شیخوپورہ کے بورڈز دیکھ کر دل میں ہلچل بڑھ جاتی اور جی چاہتا کہ یہیں اترجاؤں اور وارث شاہ جی کو سلام کر کے آگے بڑھوں، لیکن۔۔ لیکن ایسا کبھی بھی نا ہو سکا۔ خیر جب آوارہ گردی برخواست کی تو اگلے دن ایک بجے شیخوپورہ جانے کا پروگرام فائنل ہو چکا تھا۔

شیخوپورہ ایک صنعتی شہر ہونے کے علاوہ بہترین چاول کی پیداوار کے لیے مشہور ہے اور لاہور سے تقریباً 50 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

دوسرے روز میں نے ابھی تیاری بھی شروع نہیں کی تھی کہ زین نے بذریعہ ایس ایم ایس ناسازی طبع کی اطلاع کر دی۔ کیا کِیا جا سکتا تھا، سو چپ ہو رہا۔ رات دس بجے کے لگ بھگ زین صاحب بغیر اطلاع دئیے آن دھمکے اور بولے کہ 'چلیں اٹھیں، ابھی چلتے ہیں'۔ میں نے اس کے چہرے پر سنجیدگی دیکھتے ہوئے جواب دیا کہ اس وقت شیخوپورہ والے ہماری میزبانی نا کر پائیں گے اس 'چلیں اٹھیں' کو کل تک ٹال لیتے ہیں، یقین مانیے شیخوپورہ والے ہرگز ناراض نا ہوں گے اور کچھ دیر میں وہ پھر اگلے دن ڈیڈھ بجے کا وقت دے کر غائب ہو چکے تھے۔

آج دوپہر موصوف ٹھیک ایک بج کر چالیس منٹ پر آن دھمکے۔ خیر کچھ دیر بعد ہمارا سفر شروع ہوا اور ابھی کچھ ہی آگے بڑھے تھے کہ زین کو یاد آیا کہ ان کا بٹوہ گھر میں ہی رہ گیا ہے جس میں شناختی کارڈ موجود ہے اور ہمیں پھر ان کے گھر شاہ جمال جانا پڑا۔ آدھے پونے گھنٹے بعد سفر دوبارہ شروع کیا اور فیروزپور روڈ پر میٹرو کے سائے میں رہتے رہتے بھاٹی، داتا صاحب، بتی چوک اور پھر راوی کو پار کر کے شاہدرہ سے شیخوپورہ کو مڑ گئے۔

کچھ ہی دیر میں پیپسی والوں کی گاڑی نے ہمیں یہ پیغام پہنچانا ضروری جانا۔
20170409_150954_1.jpg

 
تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ شاہراہ کے ایک طرف لگاتار لیدر شوز کے بورڈز نظر آنے لگ گئے۔ بریک لگائی اور تین چار دکانوں پر جوتوں کے بھاؤ تاؤ کیے لیکن کیونکہ ہمارا خریدنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اس لیے جیسے گئے تھے ویسے ہی واپس لوٹ آئے اور سفر دوبارہ شروع کر دیا۔
20170409_152614.jpg
 
کچھ ہی دیر کے سفر کے بعد ٹال پلازہ آ گیا۔ ٹال کلرک کو سو روپیہ دیا تو اس نے بقایا رقم پرچی میں لپیٹ کر پکڑا دی، جس میں سکوں کا وزن بھی محسوس ہو رہا تھا۔ بقایا گنا تو انسٹھ روپے تھے۔ سوچا یہ کتنا ٹال ہے۔ شاید اس نے ایک روپیہ کم دیا ہے، پھر جو پرچی پر نگاہ ڈالی تو وہاں اکتالیس روپے لکھا ہوا تھا۔ کچھ دیر ہنستے رہے کہ یہ کیا مذاق ہے، چالیس لے لو یا پنتالیس۔ خیر سوچا واپسی پر پوچھ کر ہی جائیں گے بھلے پیچھے گاڑیوں کی لائین ہی کیوں نا لگ جائے۔
20170409_153134.jpg


2017-04-10%2000.45.57.jpg
 

یاز

محفلین
زبردست جناب۔
وارث شاہ کا یہ والا دیس تو ہمارے گجرات سے بھی نزدیک ہی ہے۔ تاہم وارث شاہ کا اصل دیس کہلانے کا حقدار تو ملکہ ہانس ہی ہے۔
 
سب سے پہلے ہمارے پروگرام میں ہاکی اولمپئین اور 1994 کی ہاکی ورلڈ کپ وننگ ٹیم کے رکن جناب نوید عالم سے ملاقات تھی، جن کا آبائی گھر ہمارے راستے میں ہی پڑتا تھا۔ ہم بغیر پیشگی اطلاع دئیے جا رہے تھے کہ اگر گھر ہوئے تو مل لیں گے ورنہ اپنے راستے پر۔ ان کے گھر کے باہر پہنچے، کال ملائی، ہم نے اپنی شیخوپورہ موجودگی کے بارے میں بتایا تو انھوں نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میں اس وقت شیخوپورہ میں نہیں ہوں اور رات گئے تک واپسی کا پروگرام ہے۔ ہم نے وقت بچ جانے پر شکر ادا کیا اور فوراً گوگل میپ آن کر ہرن مینار کو چل پڑے جو نوید عالم کے گھر سے بمشکل دو اڑھائی کلومیٹر ہی تھا۔ ہرن مینار اب ایک پورا کمپلیکس بننے جا رہا ہے اور وہاں کچھ پرانی تعمیرات کے علاوہ سب کچھ زیر تعمیر تھا۔
کچھ منتخب تصاویر ۔۔۔
20170409_165209.jpg

20170409_165259.jpg
 
20170409_161205.jpg

حال ہی میں بنا ٹکٹ گھر جو ابھی رواں بھی نہیں ہوا اور عملہ درمیانی راستے پر کرسیاں ڈالے وہیں ٹکٹ دے رہا تھا۔ ٹکٹ کی مالیت فی کس بیس روپے ہے۔
 
بارہ دری کی دیوار کے اس حصے کو دیکھ کر زین نے کہا، کیا خیال ہے ہم بھی یہ قومی فرض ادا نا کرتے جائیں۔ :p میں نے پوچھا اپنے ساتھ کس کا نام لکھو گے تو فوراً بولا، آپکا تو لکھنے سے رہا ۔۔۔۔۔ نیلم منیر کا لکھ دیتا ہوں :battingeyelashes:
20170409_165220.jpg
 
ہرن مینار کمپلیکس کی پارکنگ بھی زیر تعمیر ہے لیکن فی گاڑی پچاس روپے چارجنگ جاری ہے۔ یہاں کوئی گھنٹہ بھر گھوم پھر لینے اورکچھ پسینہ بہا لینے کے بعد ہم اپنے اگلے پڑاؤ کی طرف چل پڑے۔
20170409_170533.jpg
20170409_170525.jpg
 
ہرن مینار کمپلیکس سے باہر نکلے تو سیکورٹی والے صاحب سے پوچھا کہ وارث شاہ جی کے دربار جانا ہے راستہ بتائیے، بولے مین شاہراہ پر پہنچ کر بائیں مڑئیے اور چلتے ہی جائیے، جب موٹروے کا پل پار کر لیں گے تو مزید 6 کلومیٹر آگے دربار آ جائے گا۔ ہدایات کی روشنی میں سفر شروع کیا اور واقعتاً کچھ کمی بیشی کے بعد جنڈیالہ شیر خان جا پہنچے۔ گاڑی پارک کرنے کے بعد جو چیز سب سے پہلے نظر آئی وہ یہ تھی۔

20170409_173135.jpg
 
کچھ ہی دور گئے تھے کہ ایک بابا جی گلے میں ڈھول ڈالے کوئی دُھن چھیڑی بیٹھے تھے، زین نے فوراً کہا ان کے ساتھ میری ایک تصویر بنائیں اور ہم نے فوراً ایک تصویر بنا ڈالی۔
20170409_173152.jpg
 
Top