وادی کاغان کی سیر

حسیب

محفلین
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ​
پچھلی گزری ہوئی عید یعنی عید الفطر پہ وادی کاغان کی سیر کا پروگرام بنا۔ایک بارہ سیٹوں والی ہائی ایس گاڑی کرایہ پر حاصل کر لی۔ پہلے تو لوگ ہی پورے نہیں ہو رہے تھے۔ مگر پھر عین وقت پر ایک دوست اور آ گیا یعنی ہم تیرہ دوست ہو گئے۔ عید کی رات کو نکلنے کا پروگرام تھا۔ آخر کار رات بارہ بجے سفر کا آغاز کیا۔ رات کا وقت ہونے کی وجہ سے ٹریفک کافی کم تھی۔ ڈرائیور نے اسی چیز کافائدہ اٹھایا اور صبح فجر کی نماز ہم نے ہری پور ہزارہ میں پڑھی۔ نماز پڑھ کے فوراً آگے کا سفر شروع کر دیا۔ پہلا پڑاؤ مانسہرہ میں ہوا۔ وہاں رک کر ناشتہ کیا۔ کھانے پکانے کا سامان ہم ساتھ ہی لے کر آئے تھے۔ کیونکہ ابھی کافی سفر باقی تھا اس لیے ناشتے میں بریڈ اور چائے پر ہی اکتفا کیا۔ اور کچھ تصاویر بھی لیں
DSC00275.JPG

DSC00277.JPG

DSC00278.JPG

DSC00280.JPG
تقریباً دو گھنٹے رکنے کے بعد آگے مزید سفر شروع ہوا۔ مانسہرہ سے کچھ آگے جا کر دریائے کنہار بھی اپنا نظارہ کروانا شروع کر دیتا ہے اور وادی کاغان کے آخر تک اپنا نظارہ کرواتا رہتا ہے۔ کچھ تصاویر چلتی ہوئی گاڑی سے
DSC00281.JPG

DSC00282.JPG

DSC00283.JPG

DSC00284.JPG

DSC00285.JPG

DSC00286.JPG

DSC00287.JPG

DSC00288.JPG

DSC00289.JPG

DSC00290.JPG

DSC00294.JPG
 

حسیب

محفلین
تقریباً بارہ بجے ہم وادی کاغان کے مرکزی علاقے ناران میں پہنچ گئے۔
DSC00295.JPG
اب پہلا کام رہنے کے لیے کوئی جگہ تلاش کرنا تھا۔ چونکہ عید کے دن تھے اس لیے رش بہت زیادہ تھا۔ آخر کافی گھومنے پھرنے کے بعد خیمے میں رہنے کا فیصلہ ہوا اور ایک خیمہ کروا لیا۔ اور پھر کچھ دوست کھانا پکانے لگے گئے اور کچھ گھومنے پھرنے۔ ایک طرف کافی اونچائی پہ گورنمنٹ کے کچھ گیسٹ ہاؤس تھے ۔ وہاں اوپر جا کر نیچے ناران کی کچھ تصاویر لیں ۔ دریائے کنہار بھی نظر آ رہا ہے
DSC00304.JPG

DSC00303.JPG

DSC00321.JPG
یہ ایک چشمہ ہے جو دریائے کنہار میں شامل ہوتا ہے۔وہاں ایسے بہت سارے چھوٹے چھوٹے چشمے ہیں۔ وہاں لوگ روزمرہ کے استعمال کے لیے انہی چشموں کا پانی استعمال کرتے ہیں۔
DSC00296.JPG
ناران میں بجلی کا شاید صرف سرکاری اداروں تک ہی محدود ہے۔ تمام ہوٹلوں میں جنریٹر ہی استعمال ہوتے ہیں۔ موبائل کوریج بھی صرف ناران تک ہی محدود ہے۔ آپ ناران سے کچھ آگے نکل جائیں تو موبائل کوریج بالکل ختم ہو جاتی ہے
 

حسیب

محفلین
کھانا کھانے کے بعد جب خیمے میں گئے وہاں کچھ دیر آرام کیا اور پھر مغرب کے بعد ناران بازار کی آوارہ گردی کی ٹھانی۔ تقریباً رات گیارہ بجے تک بازار میں گھومتے رہے اور پھر واپس آ کر سو گئے۔
اگلے دن صبح اٹھ کر ناشتہ کیا اورہم تین لوگ کسی ہوٹل یا گیسٹ ہاؤس کی تلاش میں نکل گئے۔ اور باقی لوگ لنچ کے لیے کچھ پکانے کا انتظام کرنے لگ گئے۔ خیمے والا نظام کچھ اچھا نہیں تھا اور ساتھ ساتھ رات کو جب ہم بازار میں گھوم رہے تھے تو کچھ دوستوں کی خیمے والے کے ساتھ کچھ اَن بن ہو گئی۔ اس لیے خیمہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ آخر کار ایک گیسٹ ہاؤس میں دو کمرے بک کروائے اور وہاں اپناسامان منتقل کرنے کے بعد افسانوی شہرت کی حامل جھیل سیف الملوک کی طرف راونگی کا ارادہ کیا۔ جھیل سیف الملوک جانے کے لیے جیپ استعمال ہوتی ہے یا پھر پیدل جایا جا سکتا ہے۔ چونکہ ہم کافی لیٹ ہو چکے تھے اس لیے جیپ ڈھونڈنا بہت مشکل ہو چکا تھا۔ آخر فیصلہ یہ ہوا کہ پیدل ہی چلتے ہیں جہاں جیپ ملے گی وہاں سے لے لیں گے۔ ہم چھ لوگ ذرا آگے نکل چکے تھے اور باقی پیچھے تھے۔ پیدل راستے کے بارے میں سنا تھا کہ تقریباً تین کلومیٹر ہے مگر وہ بھی پیدل چلنا حد سے زیادہ مشکل تھا۔ پیدل ٹریک کی کچھ تصاویر
DSC00331.JPG

DSC00332.JPG

DSC00333.JPG

DSC00334.JPG
جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے انہیں جیپ مل گئی جبکہ اس وقت تک ہم سڑک سے ہٹ کر پیدل ٹریک پہ پہنچ چکے تھے۔ تقریباً تین گھنٹے چلنے کے بعد ہماری ہمت بھی جواب دے چکی تھی تو ہم نے بھی سڑک پہ پہنچ کر ایک جیپ لی باقی تھوڑا سا رستہ جیپ میں طے کیا۔ وہاں جیپ والے نے ہمیں جھیل کی طرف جانے پیدل ٹریک کے پاس اتار دیا تو تقریبا پندرہ منٹ اور چل کر ہم جھیل سیف الملوک پہنچ گئے۔ وہاں تھوڑا سا راستہ ایسا بھی تھا کہ وہاں سے ایک وقت میں صرف ایک آدمی گزر سکتا تھا اور وہ بھی ایک سائیڈ پہ چل کر
DSC00335.JPG

DSC00340.JPG

DSC00343.JPG

DSC00352.JPG

DSC00357.JPG

DSC00358.JPG

DSC00359.JPG

یہ ایک ہیلی کاپٹر وہاں گھوم رہا تھا
DSC00360.JPG

DSC00361.JPG

DSC00362.JPG

سامنے برف پوش پہاڑ ملکہ پربت ہے۔ جو وادی کاغان کا سب سے اونچا پہاڑ ہے
DSC00363.JPG

DSC00364.JPG

کچھ بادلوں کے مناظر
DSC00365.JPG

DSC00366.JPG

یہ گھوڑے عام طور پر آنسو جھیل جانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ وقت کی کمی کی وجہ سے آنسو جھیل کا پروگرام بھی کینسل کرنا پڑا
DSC00375.JPG

 

حسیب

محفلین
جھیل کے پاس موجود ہوٹل
DSC00376.JPG

DSC00384.JPG

DSC00385.JPG

DSC00386.JPG

DSC00387.JPG

بادل کچھ دیر کے لیے غائب ہوئے تو سورج نے پہاڑوں پہ ایک خوبصورت منظر بنایا
DSC00395.JPG

DSC00396.JPG

DSC00397.JPG

واپسی جیپ کے ذریعے ہوئے۔ واپس آتے ہوئے ایک راستے کی ایک ویڈیو بھی بنائی ۔ شام ہونے کی وجہ سے کچھ دھندلی ہے
 

حسیب

محفلین
واپس آ کر کھانا کھایا اور سو گئے۔ اگلے ناران سے اگلے علاقے دیکھنے کا پروگرام بنا اور جھیل لولو سر تک جانے کا فیصلہ کیا۔کہا جاتا ہے کہ وادی کاغان کی اصل خوبصورتی ناران سے آگے ہے۔ ناران سے جھلکڈ تک کا علاقہ خوبصورتی میں لاجواب ہے اور اس سے آگے جھیل لولوسر تک خشک علاقہ ہے۔ وہاں صرف پتھر ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جھیل لولو سر وادی کاغان کی سب سے بڑی جھیل ہے اور اس کا پانی سبز رنگ کا ہے۔ اس کی شیپ کچھ ایسی ہے کہ آپ کسی بھی جگہ کھڑے ہو کر مکمل جھیل نہیں دیکھ سکتے۔ جاتے ہوئے کیمرہ غلطی سے بیگ میں رکھ دیا تھا اس لیے کوئی تصویر نہ لے سکا۔ آخر کار جھیل لولو سر جا کرکیمرہ نکالا
DSC00404.JPG

DSC00405.JPG

DSC00408.JPG

DSC00419.JPG

DSC00422.JPG

DSC00424.JPG

DSC00425.JPG

کچھ دیر جھیل لولو سر رکنے کے بعد واپسی کا سفر شروع کیاواپسی کی کچھ تصاویر
DSC00426.JPG

DSC00427.JPG

DSC00428.JPG

DSC00429.JPG

DSC00430.JPG

DSC00431.JPG

DSC00432.JPG

DSC00433.JPG

DSC00434.JPG

DSC00435.JPG

DSC00436.JPG

DSC00437.JPG

DSC00438.JPG

 

حسیب

محفلین
راستے میں جھلکڈ سے کچھ آگے ایک جگہ رک کر کھانا پکانے اور کھانے کا فیصلہ کیا۔جہاں رکے تھے اس جگہ کی کچھ تصاویر۔ جو تصاویر زوم کر کے لی تھیں وہ کچھ دھندلی ہیں
DSC00440.JPG

DSC00445.JPG

DSC00446.JPG

DSC00449.JPG

DSC00450.JPG

DSC00451.JPG
 

حسیب

محفلین
ابھی کھانا پک رہا تھا کہ ایک طرف سے کالے سیاہ بادل اُمڈ آئے اور ساتھ ہی ٹھنڈی تیز ہوا چلنا شروع ہو گئی۔ موسم اتنی تیزی سے بدلا کہ ہمیں فوراً جیکٹیں وغیرہ نکال کر پہننی پڑیں۔ کچھ دیر بعد ہلکی ہلکی بوندا باندی بھی شروع ہو گئی۔ لیکن تیز بارش آنے سے پہلے پہلے ہم کھانا کھا کر فارغ ہو چکے تھے۔ اور پھر واپسی کا سفر شروع ہوا
واپسی پہ لی گئی کچھ تصاویر۔ دریائے کنہار یہاں بھی سڑک کے ساتھ ساتھ سفر کرتا رہتا ہے۔
DSC00454.JPG

DSC00455.JPG

DSC00456.JPG

DSC00457.JPG

DSC00458.JPG

DSC00459.JPG

DSC00460.JPG

DSC00461.JPG

DSC00462.JPG

جوڑ اناڑ نالہ یہاں دریائے کنہار سے ملتا ہے
DSC00463.JPG

DSC00464.JPG

DSC00465.JPG

DSC00466.JPG

DSC00467.JPG

کھانا کھانے کے بعد جب واپس نکلے تھے تو ایک چھوٹی سی ویڈیو بھی بنائی تھی
 

قیصرانی

لائبریرین
آخری وڈیو میں ڈرائیو بار بار لین چینج کر رہا تھا، کیا لینڈ سلائیڈ کا ڈر تھا؟ اور بارہ سیٹوں والی ہائی ایس کیا کوئی نئی ویگن ہے؟ یا اصل ہائی ایس اصل سیٹنگ کنفگریشن کے ساتھ؟ کل اخراجات کے بارے بھی بتائیے :)
 

حسیب

محفلین
اب ہمارا پڑاؤ بٹہ کنڈی میں ہوا۔ وہاں کچھ دیر رکے۔
DSC00468.JPG

DSC00469.JPG

وہاں پتا چلا کہ یہ جو سامنے سب سے اوپر درخت نظر آ رہے ہیں ان کی دوسری طرف لالہ زار ہے۔ تو ایک ایڈوینچر کی ٹھانی اور اوپر کی طرف سفر شروع کر دیا۔ مگر اوپر تک پہنچے بغیر ہی واپس آ گئے کیونکہ دیکھنے میں تو کافی نزدیک لگ رہا تھا مگر حقیقت میں بہت زیادہ سفر تھا۔
DSC00470.JPG

کافی اوپر جا کر کچھ تصاویر لیں اور واپس آ گئے ۔ یہاں تقریباً دو گھنٹے گزار دئیے
DSC00472.JPG

DSC00473.JPG

موسم دیکھیں کتنی تیزی سے تبدیل ہوا۔کچھ دیر پہلے تک بادل تھے اور پھر تیز دھوپ
DSC00475.JPG

DSC00476.JPG

DSC00478.JPG

DSC00481.JPG

اس کے بعد واپسی کا سفر شروع ہوا۔ ناران سے نکلنے کے کچھ دیر بعد ہی ایک نیا تجربہ ہوا اور ہم ایک بدترین ٹریفک جام میں پھنس گئے اور اس ٹریفک جام سے نکلنے میں پانچ گھنٹے لگ گئے۔ ناران سے کاغان کا 24 کلومیٹر کا سفر تقریباً ساڑھے پانچ گھنٹوں میں طے ہوا۔ اس ٹریفک جام نے ہمارا شاپنگ کا منصوبہ بھی ختم کر دیا ۔ اور پھر واپسی ہی واپسی۔ ایک دوست نے اسلام آباد ائیر پورٹ پہ اپنے بھائی کو پک کرنا تھا اس لیے صبح تک اسلام آباد پہنچنے کی ٹھانی۔ صبح تقریباً سات بجے اسلام آباد پہنچ گئے اور فیصل مسجد میں کچھ دیر رک کر آرام کیا
DSC00487.JPG

پہلے تو یہی ارادہ تھا کہ اسلام آباد بھی گھوما جائے مگر ساری رات گاڑی میں گزارنے کی وجہ سے تھکاوٹ بہت ہو چکی تھی۔ اس لیے اسلام آباد کا پروگرام بھی منسوخ کیا اور واپس سیالکوٹ کی طرف روانہ ہو گئے۔ اور آخر کا ر لوٹ کے سیالکوٹ ہی آ گئے۔ہم مختصر ٹور کی وجہ سے یہی علاقے گھوم سکے ورنہ وادی کاغان کی مکمل سیر کرنے کے لیے ایک ہفتہ بھی کم ہے۔ زیادہ خوبصورت علاقے بہت دور دور ہیں
 

حسیب

محفلین
آخری وڈیو میں ڈرائیو بار بار لین چینج کر رہا تھا، کیا لینڈ سلائیڈ کا ڈر تھا؟
شاید کیمرہ ایک جگہ فوکس نہ ہونے کی وجہ سے ایسا معلوم ہو رہا ہے۔ ورنہ وہاں کہیں لینڈ سلائڈنگ کا خطرہ تو نہیں تھا۔
اور بارہ سیٹوں والی ہائی ایس کیا کوئی نئی ویگن ہے؟ یا اصل ہائی ایس اصل سیٹنگ کنفگریشن کے ساتھ؟
اصل ہائی ایس میں فولڈنگ سیٹوں کا اضافہ کیا گیا تھا۔
کل اخراجات کے بارے بھی بتائیے :)
کل اخرجات تقریبا 82 ہزار تھے بمعہ گاڑی کا کرایہ وغیرہ
 

قیصرانی

لائبریرین
شاید کیمرہ ایک جگہ فوکس نہ ہونے کی وجہ سے ایسا معلوم ہو رہا ہے۔ ورنہ وہاں کہیں لینڈ سلائڈنگ کا خطرہ تو نہیں تھا۔

اصل ہائی ایس میں فولڈنگ سیٹوں کا اضافہ کیا گیا تھا۔

کل اخرجات تقریبا 82 ہزار تھے بمعہ گاڑی کا کرایہ وغیرہ
وڈیو کے شروع سے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ گاڑی کبھی دائیں تو کبھی بائیں اور کبھی درمیانی لکیر کے عین اوپر چل رہی تھی۔ ہمارے ہاں دھندلکے کے وقت ڈرائیونگ اگر غیر آباد علاقوں میں کی جا رہی ہو تو ہم کوشش کرتے ہیں کہ سڑک خالی ہو تو عین درمیان میں چلیں، تاکہ سڑک عبور کرنے کوئی جانور سامنے آئے تو اسے آسانی سے ٹیکل کیا جا سکے۔ اسی وجہ سے لینڈ سلائیڈنگ ذہن میں آئی :)
 
Top